فواز رحماني

محدث کبیر،  فقیہ دوراں، امام وقت حضرت مولانا ابو العلی عبد الرحمن مبارک پوری کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، ان کی تصنیفی، تدریسی،اور دعوتی خدمات سے پوری دنیا فیض یاب ہو رہی ہے، علوم شرعیہ میں تبحر وامامت کا درجہ پر فائز تھے، قوت حافظہ بھی بے نظیر تھی، تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی  وہ شہرہ آفاق کتاب ہے، جس نے صفحہ ہستی پر آپ کو شہرت  دوام عطا  کی، سلف اورسلفیت کے لئے  شدید تڑپ  آپ  کی تحریروں  کے نمایاں اوصاف ہیں، بر صغیر  میں جب بھی حدیث اور علوم حدیث اور منہج سلف کی نشر واشاعت کے حوالے  سےگفتگو  کی جائے گی، سر فہرست آپ کا نام ہوگا۔

ولادت باسعادت اور خاندانی پس منظر:

آپ کی ولادت با سعادت مبارک پور کے نہایت معروف، متبع سنت  اور دین دار خاندان  ۱۲۸۳ھ  میں ہوئی،  آپ کے والد ماجد حافظ عبد الرحیم (بڑے حافظ صاحب) علاقہ کے ممتاز حافظ تھے، حفظ قرآن اور تجوید کی تعلیم حافظ قاضی امام الدین  جون پوری  سے پائی تھی، نحو  صرف  ودیگر  علوم  کی تعلیم  مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں مولانا  محمد  فیض  اللہ  مئوی  اور مولانا حسام الدین  مئوی سے پائی،  حدیث کی تحصیل  حضرت مولانا محمد  بن عبد العزیز مچھلی شہری  سے کی، تکمیل کے بعد  گھر  پر ہی درس وتدریس کا سلسہ قائم  کیا، نحو وصرف کی ابتدائی   کتابوں سے  لے کر قاضی  مبارک  اور  حمد اللہ کی مشکل اور دقیق   کتابیں بھی  بلا تکلف  پڑھاتے  تھے،  قصبہ  کا  کوئی حافظ  جب تک آپ کو نہیں سنا  لیتا  تھا  وہ مکمل حافظ نہیں مانا جاتا تھا، مبارک پور کے امام جمعہ وعیدین تھے، مخالفین کی جانب سے مسلک سلف کی نشر وشاعت کی پاداش میں اذیتوں اور مشکلات کاسامنا کرنا پڑا، ۱۳۳۰ھ مطابق ۱۹۱۲ء کو وفات پائی، اسی طرح  آپ کے دادا  حاجی  بھادر  صاحب بھی قصبہ کے نامی گرامی اور متعدد  خوبیوں  کے  مالک تھے۔

تعلیم وتربیت:

حضرت مولانا مبارک پوری ابتدائی تعلیم والد گرامی، مولانا خدا بخش اعظم گڑھی، مولانا محمد سلیم پھریاوی،  حضرت مولانا سلامت اللہ جے راج پوری اور حضرت مولانا فیض اللہ مئوی سے پانے کے بعد مدرسہ  چشمہ رحمت غازی پور کا رخ کیا ، جہاں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری کا چشمہ صافی جاری تھا، مکمل پانچ سال تک مختلف علوم وفنون کے دروس لیتے رہے، پھر اپنے استاذ حضرت حافظ صاحب کے ایما پر دہلی پہونچے، جہاں میاں  سید نذیر حسین  دہلوی صاحب کا فیض پورے عروج پر تھا،  ان  سے مشکوۃ  المصابیح ، تفسیر جلالین ،  بلوغ المرام، اوئل ہدایہ،  تفسیر  بیضاوی ، شرح نخبۃ الفکر، صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد، سنن نسائی کے اواخر، اور سنن  ابن ماجہ کے اوئل پڑھے، اسی طرح قرآن کریم  کے چوبیس پاروں  کا ترجمہ سنا اور سند سے شرف یاب ہوئے۔ اس  کے  بعد  محدث  کبیر شیخ  حسین بن محسن خزرجی یمانی سے کتب ستہ موطأ امام مالک ، مسند دارمی،  مسند  امام  شافعی،  مسند امام احمد بن حنبل، الادب  المفرد للامام البخاری، معجم صغیر امام طبرانی کے اطراف پڑھ کر سند اجازہ حاصل فرمایا۔  پھر  اپنے  والد  کے  استاذ  حضرت  مولانا  شیخ محمد بن عبد العزیز ہاشمی مچھلی شہری کی خدمت میں حاضر ہوکر 1313ھ میں  حدیث مسلسل  بالاولیہ کی  سند لی۔

درس وتدریس:

فراغت کے بعد  درس وتدریس، تصنیف وتألیف اور دعوت وارشاد میں مکمل طور  سے جڑ گئے،  سب سے پہلے اپنے مرزبوم  مبارک پور میں مدرسہ دار التعلیم کی بنیاد اپنے شاگرد مولانا عبد السلام مبارک پوری کے ساتھ  ڈالی، اس کے بعد بلرام پور میں  ایک مدرسہ قائم فرماکر تعلیم وتعلم  کا  آغاز  فرمایا،  پھر  ‘اللہ نگر’  میں ایک  مدرسہ کی  بنیاد ڈال کر  درس وتدریس کا سلسلہ بر قرار رکھا،  اسی  طرح‘ کونڈؤ،  بونڈیہار’  میں  مدرسہ ‘سراج  العلوم’ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، ایک مدت تک وہاں  پر  علوم کتاب وسنت کی آبیاری  کرتے  رہے۔ اس کے بعد حضرت مولانا مبارک پوری اپنے استاد حضرت مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری(م1337ھ) کے حکم پر مدرسہ احمدیہ آرہ تشریف  لائے، اور وہاں اپنے استاد محترم کے ساتھ تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، مدرسہ احمدیہ آرہ میں آپ کی علمی قابلیت کاشہرہ ہوگیا اور اہل مدارس کی نظر آپ پر اٹھنے لگی، مدرسہ دارالقرآن والسنہ کلکتہ کے ناظم نے آپ کو اپنے مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کی دعوت دی، آپ اپنے شیخ حضرت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری کی اجازت سے کلکتہ چلے گئے۔[1]

 حضرت مولانا مبارک پوری کا یہ آخری تدریسی پڑاؤ تھا، اس کے بعد کسی بھی تعلیمی ادارے سے وابستگی اختیار  نہیں فرمائی، تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے  حرم مکی، مکہ مکرمہ میں حدیث اور علوم حدیث کا درس دینے کے لئے دعوت دیا، اسی طرح جناب  شیخ عطاء الرحمن دہلوی نے مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں ایک خطیر مشاہرہ پر تدریس کے لئے  گذارش کی،  تب بھی  اپنے  گوشہ  عافیت  کو  ترجیح  دی ۔[2]

تصانیف:

حضرت مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری مجتہدانہ شان رکھتے تھے، فن حدیث میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ حدیث اور اس کے متعلقات پر آپ کی جوتصانیف ہیں، ان کے مطالعہ سے آ پ کے علمی تبحر استحضار اور ژرف نگاہی کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری نے مولاناشمس الحق محدث ڈیانوی عظیم آبادی (م1329ھ) کی سنن ابو داود کی شرح عون المعبود میں چار سال تک معاونت فرمائی ہے۔[3]

حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کی عربی اور اردو کتابوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی (عربی): چار جلدوں میں یہ شرح مکمل ہوئی۔اس شرح کی کیا خصوصیات ہیں۔اس کے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری(1909ء/199۴ء) لکھتے ہیں کہ:

“حضرت مؤلف علامہ ابوالعلی عبدالرحمان مبارک پوری نور اللہ مرقدہ وبرد مضجعہ نے اس مبارک شرح میں جن مفید اورضروری اُمور کا التزام اور لحاظ کیا ہے، ان کامجموعہ کسی دوسری شرح میں نہیں مل سکے گا۔ ان اُمور کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ ان میں سے بعض مختصراً درج کئے جاتے ہیں:

۱۔جامع ترمذی کے ہر راوی کاترجمہ بقدر ضرورت لکھا گیاہے، اور مقدمہ شرح میں تمام راویوں کی فہرست بہ ترتیب حروف تہجی بھی دے دی گئی ہے، اور جس راوی کاترجمہ شرح کے جس صفحہ میں مذکور ہے،اس کانشان دے دیاگیا ہے۔

۲۔جامع ترمذی کی تمام حدیثوں کی تخریج کی گئی ہے۔یعنی اس کتاب کی حدیثوں کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اوردیگر جن محدثین نے اپنی کتابوں میں روایت کیاہے ان کا اور ان کی کتابوں کا نام بتادیاگیا ہے۔

۳۔امام ترمذی نے”وفی الباب” کے عنوان سے جن احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ان کی مفصل تخریج کی گئی ہے۔اور ان احادیث کے الفاظ بھی اکثر مقامات میں نقل کئے گئے ہیں۔احادیث مشار الیہا کے علاوہ اور دیگر احادیث کی تخریج کا بھی جابجا اضافہ کیاگیا ہے۔

۴۔تصیح وتحسین حدیث میں امام ترمذی کا تساہل مشہور ہے۔اس لئے ہر حدیث کی تحسین وتصیح کے متعلق دیگر ائمہ فن حدیث کے اقوال بھی نقل کئے گئے ہیں اور جن احادیث کی تصیح وتحقیق میں امام ترمذی سے تسائل ہواہے،اسکی تصریح کردی گئی ہے۔

۵۔اسنادی ومتنی اشکالات کے حل وایضاح کی طرف خاص طور سے توجہ کی گئی ہے۔

۶۔احادیث کی توضیح وتشریح میں بہت کچھ تحقیق سے کام لیا گیا ہے۔اور جن مقلدین جامدین اور جن اہل ہوانے احادیث نبویہ کو اپنے مذہب ومسلک پر منطبق کرنے کے لئے غلط اور روایتی تاویلیں وتقریریں کی ہیں،ان کی تاویلات وتقریرات کی کافی تغلیط وتردید کردی گئی ہے۔احادیث کے صحیح مطالب ومضامین جو سلف صالحین اور فقہاء محدثین کے نزدیک متعمد ومستند ہیں،بیان کئے گئے ہیں ۔

۷۔اختلاف مذاہب کے بیان میں ہر مذہب کے دلائل بیان کرکے مذہب حق وراجح ظاہر کردیاگیا ہے اور اس کی نصرت وتائید کی گئی ہے۔اور مذاہب مرجوحہ وغیرصحیحہ کے دلائل کے شافی جواب دیئے گئے ہیں۔

۸۔آثار السنن (شوق نیموی) وغیرہ کی جابجا لطیف اور قابل دید تنقید کی گئی ہے۔[4]

۹۔تحفۃ الاحوذی میں غیر ضروری تفصیل سے گریز کرتے ہوئے کتاب کی شرح کا بھر  پور اہتمام والتزام کیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس  کی پہلی جلد  ۱۳۴۶ھ  مطابق  ۱۹۲۷ء  کو   جید  برقی  پریس دہلی  سے  شائع ہوئی،  جلد دوم ۱۳۴۹ھ مطابق ۱۹۳۰ء ، جلد سوم ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۳ء، اور جلد  چہارم ۱۳۵۳ مطابق ۱۹۳۴ء میں زیور طبع  سے آراستہ ہوئی۔

برصغیر کے اہل علم کے علاوہ عالم اسلام کے نامور اور مقتدر علمائے کرام نے اس کی تعریف وتوصیف کی ہے اور اس کو غیر معمولی طور پر پسندیدگی اورمقبولیت کی نظر سے دیکھا ہے۔مولانا عبیداللہ رحمانی لکھتے ہیں: ‘‘هو  أعز شرح للجامع الترمذي ظهرعلى وجه الأرض لم تر العيون مثله’’۔[5]

  1. مقدمہ تحفۃ الاحوذی(عربی): حضرت مولانا محدث مبارک پوری نے اپنی بے نظیر شرح  تحفۃ الاحوذی کا ایک علیحدہ مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔ ابھی کچھ مباحث ابھی تشنہ اور نامکمل تھے کہ مولانا مبارک پوری سفر آخرت پر روانہ ہوگئے،  آپ کے لائق شاگرد حضرت مولانا عبدالصمد حسین آبادی(م1948ء) نے اس کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا، دوسرے شاگرد حضرت مولانا عبید اللہ  رحمانی  صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری کی نظر  ثانی  کے  بعد  یہ کتاب منظر عام پر آئی۔

یہ مقدمہ دو ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں مولانا عبیداللہ رحمانی مبارک پوری (م:199۴ء) لکھتے ہیں: ‘‘پہلےباب میں 41 فصلیں ہیں۔ جن میں عام فنون حدیث،کتب حدیث ،ائمہ حدیث کے متعلق نہایت کارآمد اور ضروری فوائد جمع کردئے گئے ہیں اور دوسرا باب سترہ فصلوں پر مشتمل ہے ۔جن میں خاص جامع ترمذی اور امام ترمذی کے متعلق بہت ضروری اور غایت درجہ مفید مباحث مذکور ہیں۔

باب ثانی جن نادر اور قیمتی نوادر پر مشتمل ہے، ان کاجاننا جامع ترمذی کے طالب علم کےلیے از حد ضروری ہے۔ ان مباحث کو پڑھے بغیر جامع ترمذی کا پڑھنا اور پڑھانا بے معنی اور لاحاصل ہے۔مقدمہ میں مختلف مناسبتوں سے155/ائمہ حدیث وتفسیر وفقہ ولغت کے تراجم بھی آگئے ہیں اس کی تمام خوبیوں کااندازہ شروع میں ملحقہ فہرست سے ہوجاتاہے، جو 12 صفحات پر مشتمل ہے، مقدمہ کا حجم 344 صفحات ہے، آخر میں حضرت مولانا مبارک پوری کا مختصر تذکرہ بھی ہے’’۔[6]

  1. اعلام اہل الزمن من تبصرۃ آثار السنن (اردو):جب مولانا ظہیر احسن شوق نیموی کی کتاب “آثار السنن” شائع ہوئی ، تو متعدد علماء نے  حضرت  مولانا شمس الحق  محدث عظیم  آبادی کو توجہ  دلایا،  حضرت مولانا عظیم آبادی نے حضرت مولانا محدث مبارک پوری کو یہ اہم کام سونپا، سب سے پہلے حضرت مولانا محدث مبارک پوری نے  اس کا اشتہار کی صورت میں سرسری جواب تیار کیا، جو طویل ہوجانے کی وجہ سے رسالہ کی صورت میں  شائع کیا  گیا۔ یہ رسالہ پہلی بار  بڑی تقطیع  کی  سائز  میں  مطبع  سعید  المطابع بنارس  شائع  ہوا تھا۔
  2. ابکار المنن فی تنقید آثار السنن(عربی):حنفی مسلک کی تأیید کے لئے مولانا ظہیر  احسن نیموی نے آثار السنن کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمایا تھا،  حضرت مولانا محدث  مبارک پوری نےاس کتاب میں ان ھفوات کا جواب دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع پر نہایت اہم کتاب ہے۔

یہ کتاب سب سے پہلے ۱۳۳۸ھ/۱۹۱۹ء میں مطبع فاروقی سے شائع  ہوئی،  دوسرا  ایڈیشن جامعہ سلفیہ،   فیصل آباد پاکستان  کے طلبہ کی کوششوں  سے چھپا، تیسری بار  محترم  مولانا شیخ  ابو القاسم عبد العظیم  سلفی  مدنی  کی تحقیق  وتعلیق سے جامعہ سلفیہ بنارس سےطبع  ہوئی،  ابھی حال  میں اس کتاب کا ریاض سعودی عرب   سے  کا نیا  ایڈیشن منظر  عام  پر  آیا ہے۔

  1. تحقیق الکلام فی وجوب القراءۃ خلف الامام (اردو): یہ اپنے موضوع پر  نہایت جامع اور مفصل کتاب ہے،  بلکہ اردو اس سے قبل اور نہ اس کے بعد اتنی جامع کتاب لکھی گئی ہے، اس میں نہایت تفصیل کے ساتھ دلائل کی روشنی میں وجوب قراءۃ خلف الامام کو ثابت کیا گیا ہے، احناف کے دلائل عدم وجوب قراءۃ کو نقل کرکے ہرایک کے جواب دئیے گئے ہیں۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصہ میں  وجوب  قرأۃ  سورۃ  الفاتحۃ  خلف  الامام کو  نہایت  شرح  وبسط کے ساتھ ثابت کیا  گیا ہے، دوسرے حصہ میں مانعین قرأۃ فاتحۃ  خلف الامام کے  دلائل کا  علمی جائزہ لیا  گیا  ہے، پہلا  حصہ ۱۳۲۰ھ  مطابق  ۱۹۰۲ء  میں  چھپا،  اور  دوسرا  حصہ ۱۳۳۵ ھ  مطابق ۱۹۱۶ء  میں  منظر  عام  پر  آیا۔ اس کتاب کو  محترم ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس استاذ جامعہ ام القری مکہ مکرمہ نے عربی زبان میں منتقل کرکے اس کی افادیت کو عام کردیا ہے۔

  1. نور الابصار (اردو): اس رسالہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے، کہ بجز  پانچ قسم کے لوگوں کے ہر بالغ مسلمان پر نماز جمعہ فرض ہے، چاہے وہ شہر کا رھنے والا ہو، یا گاؤں دیہات کا باشندہ ہو، پھر اس کے بعد رسالہ جامع الآثار مصنفہ مولانا ظہیر احسن  شوق نیموی  کا  جواب  دیا  گیا  ہے۔

       یہ رسالہ دو باب میں منقسم ہے :

        پہلے باب میں جناب مولانا نیموی کے آٹھوں دلائل کا علمی محاسبہ کیا  گیا ہے۔

       دوسرے حصہ میں دیگر باتوں کا جواب دیا گیا ہے۔ پورا رسالہ مفید مباحث  پر مشتمل ہے، فاضل مصنف کا یہ بیان بالکل بجا ہے کہ ‘‘جو شخص ہمارے  اس رسالہ نور الابصار کو اول تا آخر بنظر غورر وانصاف  دیکھے گا، اسے یقین  کامل ہوجائے گا، کہ احناف یہ دعوی کہ دیہات میں نماز جمعہ ناجائز وگناہ ہے، محض غلط اور سراپا باطل ہے، اور اس  پر  آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہوجائے گاکہ اہل حدیث کا  دعوی  نماز جمعہ  شہر  ودیہات  وغیرہ  ہر مقام  میں  جائز وصحیح ہے، اور اہل مصر  وقریہ وغیرہم سب  پر  یکساں فرض ہے، نہایت مدلل محقق ہے’’َ۔[7]

       یہ رسالہ پہلی بار مطبع سعید  المطابع بنارس سے طبع ہوا تھا، سنہ طباعت درج نہیں ہے۔

  1. تنویر الابصار فی تائید نور الابصار (اردو): یہ کتاب”نور الابصار” کی تائید میں ہے۔ مولانا نیموی کے رسالہ  جامع الآثار کا ایک  جواب مولانا ابو المکارم محمد علی  مئوی اعظم گڈھی نے المذہب المختار کے نام سے دیا،  دوسرا  جواب حضرت مولانا مبارک پوری نے  نور الابصار کے نام سے دیا، مولانانیموی نے المذہب المختار  کا  جواب لامع الانوار بتأید جامع الآثار کے نام سے دیا، اور اس کے آخر میں ‘‘اطلاع’’ کے عنوان سے نور  الابصار  کے  جواب  سے گریز کی تین وجہیں بیان فرمائی، انہی تین وجہوں کی کی نقاب کشائی حضرت مولانا محدث مبارک  پوری  نے  تنویر الابصار میں فرمائی ہے، اور ترکی بہ ترکی جواب دے کر پوری حقیقت  کو  آشکارا  کیا ہے۔

یہ رسالہ پہلی بار مطبع سعید المطابع بنارس سے ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۹۰۲ء میں طبع ہوا۔

  1. ضیاء الابصارفی تائید نور الابصار(اردو): یہ رسالہ مولانا شوق نیموی کی کتاب تبصرۃ الانظار فی رد تنویر الابصار کا جواب ہے، حضرت مولانا محدث  مبارک پوری نے اس کے ابتدائی سطور میں بڑی دلچسپ بات لکھی ہے: ‘‘حضرت نیموی ہمارے رسالہ نور الابصار کے  جواب کے بابت لامع الانوار کے آخر میں لکھ چکے  ہیں کہ ‘اس رسالہ کا مستقل جواب  لکھنا  بوجوہ  ذیل نظر  انداز  کیا  گیا:

اولاً: اس وجہ سے کہ ہر رسالہ قابل جواب اور ہر شخص لائق خطاب نہیں ہوتا، اس رسالہ کے مؤلف کوئی معروف شخص نہیں،الخ’، اور اب انہوں نے ہمارے تنویر الابصار کا مستقل جواب تبصرۃ الانظار نام لکھ کر شائع کیا ہے، پس اب ان سے کوئی پوچھے کہ آپ کا وہ پہلا لکھنا اپنے قلم سے مردود ہوا یا نہیں؟۔

  1. کتاب الجنائز (اردو): اس کتاب میں احادیث صحیحہ کی روشنی میں جنازے کے احکام ومسائل بیان کئے گئے ہیں،حضرت مولانامبارک پوری کی نہایت مقبول کتاب ہے، جو عام فہم زبان میں کم پڑھے لوگوں کے لئے لکھی گئی ہے، یہ اپنے موضوع پر اردو میں اولین اور نہایت مدلل کتاب ہے، حضرت شیخ  الحدیث  مبارک پوری جنازہ کے تعلق سے کم پڑہے لکھے لوگوں کو اسی رسالہ کی طرف رجوع کرنے  کی ہدایت دیتے  تھے، ہند وپاک میں متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ا س رسالہ کا عربی  ترجمہ  استاذ  محترم  جناب ڈاکٹر  رضاء  اللہ  محمد ادریس مبارک پوری نے کیا ہے، جس کو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے شائع کیا۔

سب سے پہلے یہ رسالہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ ،  ضلع فیروز  پور کے اہتمام سے اسلامیہ اسٹیم پریس  لاہور سے شائع ہوئی، دوبارہ نامی پریس لکھنؤ سے 1950ءمیں شائع ہوئی، اوراب  برابر چھپ رہی ہے۔

  1. القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العید(اردو): اس رسالہ میں تکبیرات عیدین کے متعلق واضح کیا گیا ہے کہ کتنی ہیں؟۔ یہ رسالہ ایک مقدمہ اور دو ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ہے، مقدمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام  اور ائمہ مجتہدین کا مسلک یہ ہے کہ عیدین میں بارہ تکبیریں ہیں۔

پہلے باب میں اسی کو دلائل کی روشنی میں ثابت کیا گیا ہے، اور دوسرے باب میں مسلک احناف کے دلائل کا تجزیہ اور علمی محاسبہ ہے۔ خاتمہ میں نماز عید کے دیگر مسائل کا بیان ہے۔

یہ رسالہ پہلی بار مطبع کلیمی کلکتہ سے شائع ہوا تھا، اس پر سنہ طباعت درج نہیں ہے۔

  1. المقالۃ الحسنی فی سنیۃ المصافحۃ بالید الیمنی (اردو): یہ رسالہ اردو اپنے موضوع پر بے نظیرہے، اس میں مصافحہ کے مسنون طریقہ کو بیان کیا گیا ہے، یہ رسالہ تمہید کے بعد مقدمہ اور دو  ابواب  پر مشتمل ہے،  مقدمہ  میں ثابت کیا  گیا ہے کہ صرف دائیں ہاتھ ہی سے مصافحہ کرنا احادیث صحیحۃ، آثار صحابہ وتابعین سے ثابت ہے، کسی صحابی یا تابعی کے قول یا عمل سے دونوں ہاتھ سے مصافحہ ثابت نہیں ہے۔ تأیید میں احناف کی معتبر کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

پہلے باب میں تیرہ حدیثیں اپنے موقف کی تأیید میں پیش فرمایا ہے، متعدد اہل علم کے اقوال  بھی نقل  کیا ہے۔ دوسرے باب میں دو نوں ہاتھ سے مصافحہ کے قائلین کے دلائل کا علمی جائزہ لیا گیا ہے،  ہر ایک  دلیل  کے  متعدد جواب بھی دئے گئے ہیں۔ یہ رسالہ برابر چھپ رہا ہے، اس کی علمی  اہمیت  کے  پیش نظر محترم  جناب  ڈاکٹر  وصی اللہ محمد عباس مدرس حرم مکی نے اس رسالہ کو عربی میں منتقل کرکے عرب دنیا کو بھی فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کیا۔

  1. خیر الماعون فی منع الفرار من الطاعون (اردو):طاعون(پلیگ) سے متعلق شرعی احکام پر مشتمل ہے، مبارک پور اور اس کے اطراف میں ۱۹۰۳ء ۱۹۰۴ء میں طاعون کی وبا پھیلی، کثرت اموات سے لوگ دہشت زدہ ہوکر دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہونے لگے، اہل علم میں یہ  بحث چھڑ گئی کہ جس مقام پر طاعون کی وبا پھوٹ پڑے، تو وہاں کے باشندگان ٹھرے رہیں، یا دوسرے مقام کی طرف کوچ کر جائیں؟۔  خیر الماعون فی منع الفرار من الطاعون بھی اسی  مباحثے  کا ایک حصہ ہے۔

اس رسالہ کے دو حصہ ہیں : پہلے حصہ میں ایک مقدمہ اور ایک باب ہے، جس میں طاعون کے  علاقہ  سے  بھاگنے کی ممانعت کا حکم کتاب وسنت وآثار صحابہ  رضی اللہ عنہم سے ثابت کیا ہے۔

دوسرا حصہ ان حضرات کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے، جو طاعون کے وقت بستی سے نکل جانے کے قائل ہیں ، اس حصہ میں ان تمام شبہات وشکوک کا اطمینان بخش اور مفصل جواب دیا گیا ہے، آخر  میں خاتمہ رسالہ ہے،  جس  میں رفع  طاعون  کے لئے قنوت کے  اہتمام  اور دعاء کرنے کے  جواز  وعدم  جواز  ہے۔

پہلا حصہ  رضوانی پریس کلکتہ سے مئی ۱۹۰۶ء میں اور  دوسرا حصہ مطبع سعید  المطابع بنارس سے طبع ہوا۔

  1. فتاوی نذیریہ: حضرت مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی کے حکم پر اپنے استاذ شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے فتاوی کو مرتب فرمایا، جو پہلے دو  ضخیم جلدوں میں شائع ہوا،  دوبارہ تین جلدوں میں اسے شائع  کیاگیا،  متعدد فتاوی ایسے ہیں جن کو حضرت مولانا مبارک پوری نے تحریر فرمایا اورحضرت میاں صاحب دہلوی نے تأییدی دستخط ثبت فرمایا، ایسے فتاوی کی تعداد ۱۵۹ ہے، جو حضرت میاں صاحب کے مصدقہ ہیں، بلکہ حضرت میاں صاحب کے بعد سب سے زیادہ فتاوی  حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری ہی کے تحریر فرمودہ  ہیں۔
  2. فتاوی حضرت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری: آخر عمر  میں اپنے استاذ حضرت مولانا حافظ عبد اللہ  غازی  پوری  کے فتاوی کو بھی فقہی ابواب پر مرتب کر کے فارغ ہوچکے تھے، نانا محترم حضرت مولانا عبد الصمد حسین آبادی نے اپنے خوش خط میں اس کے مسودہ کو فائینل بھی کردیا تھا، طباعت کا مرحلہ باقی تھا کہ حضرت مولانا محدث  مبارک پوری سفر آخرت  پر  روانہ  ہوگئے، لمبا عرصہ گذر جانے کے بعد  محترم جناب شیخ عارف جاوید محمدی مقیم کویت کی توجہ ، اورحافظ شاہد محمود مدنی کی تحقیق سے یہ فتاوی  زیور طبع سے آراستہ ہوا۔
  3. فتاوی حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارکپوری : ابھی حال ہی میں محترم عارف جاوید محمدی اور حافظ شاھد محمود مدنی کی کوششوں سے منظر عام پر آئی ہے، استاذ  محترم جناب ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری  (۲۰۰۳ء) اس پر کام کر رہے تھےکہ اچانک انتقال فرماگئے۔ اس کے علاوہ چند اور رسالے موجود ہیں ، جو ناقص اور مخطوط ہیں۔

       حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری علم وعمل کے کوہ گراں تھے،  تواضع اور خاکساری کے پیکر تھے، پوری  دنیا ان  کے پاس کھڑی تھی، لیکن انہوں نے اپنے گوشہ عافیت کو ترجیح دی، انتہائی خاموشی کے ساتھ محدود وسائل میں وہ کار نمایاں  انجام دے  گئے ،  جسے بڑی بڑی اکیڈمیاں ،لمبے چوڑے بجٹ کے ذریعہ پورا کرتی ہیں، …….

وفات:

        مسلک سلف کے اس ترجمان کا انتقال ستر سال کی عمر میں ۱۶ شوال ۱۳۵۳ھ مطابق ۲۲جنوری ۱۹۳۵ء کو ہوا، اور اسی دن ‘شاہ کے پنجہ’ قبرستان میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا۔

[1]  تذکرہ علمائے مبارک پور ص: ۱۹۷، تذکرہ علماء اعظم گڑھ ص144۔145

[2]  مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ۲/196-197، نزہتہ الخواطر ج8ص242۔ نزہتہ الخواطر 8ص242۔

[3] مقدمہ تحفۃ الاحوذی 2/199، مطبوعہ المکتبہ السلفیہ مدینہ منورہ۔

[4]  سیرۃ البخاری ص: 469-470۔

[5]   سیرۃ البخاری  ص: 469۔

[6]  سیرۃ البخاری  ص: 469۔

[7]  مجموعہ مقالات محدث مبارک پوری ص: ۱۳۰۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *