ڈاکٹر شہنواز احمد

خواجہ معین الدین چشتی اُردو، عربی – فارسی یونیورسٹی، لکھنؤ

زبان کا سیکھنا ایک فطری اور اکثسابی عمل ہے۔ زبان نے انسانی زندگی کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح یہ کہنا ممکن ہوگا کہ زبان ہی فرد اور معاشرہ کے بیچ ایک وسیلہ، اور انسانی ارتقا کی واحد ضامن ہے۔
جہاں تک اردو زبان کے ارتقا کا معاملہ ہے، تو اس بابت ہمیشہ سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خدمات کو سراہا جاتا رہا ہے، مثلاً فورٹ ویلیم کالج، جامعہ عثمانیہ، دہلی کالج اور علی گڑھ تحریک وغیرہ؛ لیکن ان کے علاوہ ایک طبقہ ایسا بھی رہا ہے جس نے ہمیشہ سے اس زبان کی ترقی کے لیے کام کیا ہے، اور وہ طبقہ مدارس ہے جو آج بھی درس وتدریس، وعظ ونصیحت، اور کتابت وخطابت کے ذریعہ مسلسل اردو زبان کو فروغ دے رہا ہے، مکاتب کی شکل میں یہی مدارس جو گاؤں گاؤں میں آج پائے جاتے ہیں، در اصل اردو زبان انہی کی بدولت باقی ہے، اور یہی ادارے زمانۂ قدیم سے اس کی آبیاری کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ہندوستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی کے لیے مدارس ایک مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کا بنیادی مقصد اردو زبان کا فروغ نہیں؛ لیکن اردو زبان کے ارتقا کے لیے وقف اداروں سے ان کی خدمات کسی معنی میں کم نہیں، کیونکہ ان مدارس کا ذریعۂ تعلیم زیادہ تر اردو ہی ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ مدارس کے قیام کا اصل مقصد دین کی خدمت ہے، لہٰذا نصاب میں زیادہ تر انہیں مضامین کو شامل کیا جاتا ہے جو اس کی کفالت کر سکیں، مثلاً قرآن، حدیث اور فقہ وغیرہ۔
لیکن مناسب ہوگا کہ میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ تعلیم وتدریس کے لیے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ۱) ماخذ ۲) ترسیل
جہاں تک ماخذ کا تعلق ہے تو اس کا بیشتر حصہ عربی زبان میں موجود ہے؛ لیکن ترسیل کے مرحلے میں آ کر اردو زبان کا سہارا لیا جاتا ہے ، کیونکہ مقصود عوام ہوتے ہیں جو تقریباً تقریباً عربی زبان سے نابلد ہوتے ہیں، چنانچہ علماء کرام نے بھی تقریر وخطابت کے لیے زیادہ تر اسی زبان کا سہارا لیا ہے۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ آزادیٔ ملک کے بعد جب قومی زبان کا مسئلہ آیا تو مہاتما گاندھی نے یہی مشورہ دیا تھا کہ زبان کا نام ہندوستانی ہو اور وہ دونوں رسم الخط میں لکھی جائے، لیکن اردو کی مقبولیت سے خوفزدہ لوگوں نے اس تجویز کو ٹھکرا دیا، مزید یہ کہ اس زبان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں کیں، مثلاً سرکاری اسکولوں سے اسے ختم کیا گیا، روزگار سے جدا کیا گیا۔ لیکن شکر ہے ان مدارس کا کہ ان حالات میں مدارس نے نہ صرف یہ کہ اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا، بلکہ اپنے طلبہ کو اردو زبان میں مضامین ومقالے لکھنا سکھایا۔ فن خطابت میں ماہر بنایا، چنانچہ آج بھی مدارس میں طلبہ کے اندر دینی بصیرت کے ساتھ ساتھ اردو زبان پر ان کی دسترس مضبوط بنانے کے لیے مختلف قسم کے مناہج اختیار کیے جاتے ہیں، جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
اردو انجمن : یہ ہفتہ واری تقریری پروگرام ہوتا ہے جس میں طلبہ کے اندر زبان وبیان کا ملکہ پیدا کرنے کے لیے تقریباً سبھی مدارس میں تقریری پروگرام کےلیے ہفتہ میں ایک دن متعین کر دیا جاتا ہے، جس میں ہر طالب علم کے لیے معیاری زبان میں حفظ کردہ تقریر پیش کرنا لازم ہوتا ہے، اور خاص بات یہ ہے کہ اس کی نظامت بھی طلبہ ہی کے سپرد ہوتی ہے۔
دیواری پرچہ : یہ مدارس کی خاص ایجاد ہے۔ اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کی ایک مجلس ادارت بنائی جاتی ہے، جو ماہانہ ، پندرہ روزہ یا ہفتہ وار علمی وتحقیقی مضامین کی ترتیب واشاعت کی ذمہ داری انجام دی جاتی ہے۔ چنانچہ آپ دار العلوم دیوبند کے صدر دروازے سے جیسے ہی اندر داخل ہوں گے تو آپ کو مشاہدہ ہوگا کہ اس طرح کے پچاسوں پرچے زیب دیوار بنے ہوئے ہیں۔
اکثر بڑے مدارس کے طلبہ مختلف دیواری پرچے اور سالانہ مجلہ نکالتے ہیں جو کہ عام طور پر سہ لسانی ہوتے ہیں، مگر اس کا بیشتر حصہ اردو کے لیے مختص ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کی تحریریں دوسروں سے دو درجہ نمایاں ہوتی ہیں، اور اسی کی بدولت موجودہ اردو روزناموں میں کام کرنے والوں کی اکثریت فارغین مدرسہ کی ہے۔ اتنا ہی نہیں، کمپیوٹر کے اس دور میں جہاں اب کتابت کے لیے شاید کوئی جگہ نہیں رہی، لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ بہت ہی معمولی اجرت کے عوض اردو کی کمپوزنگ کر کے اردو زبان کو تقویت دینے والے یہی فارغینِ مدرسہ ہیں۔
طلبہ لائبریری: طلبہ کے اندر علمی ذوق پیدا کرنے اور تعلیم وتربیت کے لیے اردو کتابیں، رسائل وجرائد وغیرہ مہیا کرائے جاتے ہیں۔ اکثر مدارس میں اس کا نظم ونسق بھی طلبہ ہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اور یہ رسائل وجرائد طلبہ کے اندر تعلیمی صلاحیت کی نشأت کے لیے بہت ہی مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
مسابقات: اس کے تحت دوران تعلیم مختلف قسم کے مسابقاتی پروگرام منعقد کرائے جاتے ہیں، مثلاً مقالہ نویسی، خطابت، بیت بازی وغیرہ۔ اس کا مقصد طلبہ کے اندر خالص علمی وادبی ذوق پیدا کرنا ہوتا ہے، اور ساتھ ساتھ کامیاب ہونے والے طلبہ کو کتابی شکل میں انعامات سے بھی سرفراز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس نے میدانِ خطابت میں بہت سارے سورما مہیا کرائے ، مثلاً مولانا حسین احمد مدنیؒ، مولانا ارشد مدنی، قاضی مجاہد الاسلام، ابوالحسن علی ندوی، عبید اللہ خاں اعظمی، قاری رضی اللہ، کلب صادق وکلب جواد وغیرہ۔
فن خطابت کے ذریعہ بھی علمائے کرام نے اردو زبان وادب کے ارتقا میں غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں، اور آج بھی اسی مقصد کے لیے گامزن ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ فارغین ِ مدارس نے اردو زبان وادب کے لیے جو کچھ کیا وہ ان اداروں سے بہت زیادہ ہے جو کہ حکومتی تعاون سے چلائے جا رہے ہیں۔ البتہ فارغین مدارس کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔
چنانچہ مدارس کے طلبہ جب ان مراحل سے گذر کر فارغ التحصیل ہونے کے بعد جس میدان میں بھی قدم رکھتے ہیں، ان کی اپنی ایک حیثیت اور مقام ہوتا ہے، البتہ فارغین مدرسہ، اصلاحِ معاشرہ کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہی ان کا نصب العین ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فارغین مدرسہ نے دینی واصلاحی کتابوں کے انبار لگا دیئے ، مثلاً مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سینکڑوں کتابوں میں سے محض ایک کتاب ”بہشتی زیور“ آج لاکھوں گھروں میں خواتین کی تعلیم وتربیت کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
طلبہ کے اندر مخفی صلاحیت کو ‎جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ علمی وادبی حلقہ کے لیے بھی ان مدارس میں بہت سارے اُمور انجام دیئے جاتے ہیں، جن میں چند اہم درج ذیل ہیں :
لغت نویسی : مختلف مجالات جیسے قرآنیات، فن حدیث، فقہ، ادب، طب وغیرہ سے متعلق لغات تیار کی جاتی ہیں، مثلاً مولانا ابوالفضل عبد الحفیظ بلیاوی کی ”مصباح اللغات“، قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی کی ”قاموس القرآن“، ”بیان اللسان“، حکیم عزیز الرحمن کی اردو-انگریزی ”میڈیکل ڈکشنری“ (دو جلدیں) اور سہ لسانی ”انگریزی-عربی-اردو ڈکشنری“، مولانا وحید الزماں کیرانوی کی ”القاموس الوحید“ (دو جلدیں)، ”القاموس الجدید“، اور ”القاموس الاصطلاحی“، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی ”قاموس الفقہ“ (پانچ جلدیں)، اور مولانا ندیم الواجدی کی ”القاموس الموضوعی“ وغیرہ بہت ہی مقبول اور معروف ہیں۔ جن کا غیر اردو داں کو اردو سے قریب لانے میں ایک بڑا رول رہا ہے۔
تراجم: ان میں ان کتابوں کی تشریح وتوضیح کی جاتی ہے جو کہ مراجع ومصادر کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن سے استفادہ ہر کس وناکس کے لیے ممکن نہیں ہوتا ہے، مثلاً قرآنی تفسیرات، احادیث کی شروحات، اور بھی دوسری اہم کتابیں۔
صحافت: اصلاح معاشرہ اور دینی خدمات کے حوالے سے تقریباً سبھی مدارس کے اپنے ماہنامہ یا سہ ماہی رسائل ہوتے ہیں جن کی زبان زیادہ تر اردوہی ہوتی ہے، کیونکہ مخاطب عوام الناس ہی ہوتے ہیں۔
آج مدارس کی صحافت کو مذہبی صحافت کا نام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن غور فرمائیے دیگر ادبی رسائل کی سرکولیشن کتنی ہے؟! الا ما شاء اللہ ہی ہزاروں میں ہوں گے، ورنہ اکثر وبیشتر سیکڑوں میں ہی ہوں گے، جب کہ مذہبی رسائل کی سرکولیشن ہزاروں میں ہوتی ہے جو کہ زیادہ تر اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہوگا کہ جہاں ایک جانب یہ رسائل دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، تو دوسری جانب اردو زبان وادب کے ارتقاء کے لیے بھی کوشاں ہیں ۔ اور مناسب سمجھتا ہوں کہ آج اردو زبان وادب کے تعلق سے ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کر دیا جائے، آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے ، بلکہ بلا تفریق ہر مذہب وملت کی زبان ہے، اس لیے سبھی کو ایک ساتھ مل کر اس کے ارتقا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لیکن مَیں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ اگریہ زبان مرض الموت میں مبتلا ہوئی تو سب سے زیادہ آہ وبکا کی آوازیں مسلم گھرانوں سے ہی بلند ہوں گی، کیوں کہ اس زبان سے آپ کا تعلق صرف ادبی حد تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ آپ کے اسلاف اس میں مذہبی سرمایہ بھی چھوڑ گئے ہیں ، جو کہ آپ کا مقصد حیات ہے۔
اردو کی تشکیل وتجمیل اور ترویج واشاعت میں مدارس کی بیش بہا خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ اردو زبان کی ابتدائے آفرینش سے لے کر ارتقا کی مکمل تاریخ میں مدارس کی عظیم خدمات شامل رہی ہیں، خواہ اردو کی نحوی وصرفی ساخت کی بات ہو، یا لفظیات ومصطلحات کی بات ہو، یا پھر مترادفات یا استعارات اور تشبیہات وتلمیحات کی بات ہو، مثلاً سر سید احمد خاں، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا حالی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی عبد الحق، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا قاضی اطہر مبارکپوری، عبد السلام ندوی، سید سلیمان ندوی، نیاز فتحپوری، مولانا عامر عثمانی، حسرت موہانی، حیات اللہ انصاری، اکبر الہ آبادی، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، درد، مجروح سلطان پوری، مرزا غالب، میر، مومن، سراج دکنی، داغ دہلوی، جیسے نہ معلوم کتنے ہی ایسے نام ہیں کہ اگر انہیں اردو ادب وتاریخ سے نکال دیا جائے تو شاید یہ عمارت انہدام کی شکار ہو جائے۔
بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اتر پردیش جیسے عظیم صوبے میں پرائمری سطح سے انٹر تک ایک بھی اردو میڈیم سرکاری اسکول یا کالج نہیں ہے، جب کہ دوسرے صوبوں میں اس طرح کے اسکول وکالج پائے جاتے ہیں۔ اب زیادہ تر مکاتب ومدارس کا رجحان صرف مالی مفاد میں عربی فارسی بورڈ کی طرف منتقل ہوتا نظر آ رہا ہے، جو کہ ایک سرکاری ادارہ ہے، اور لوگ بڑی ہی تیزی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں؛ کیونکہ انہیں اس میں مسئلۂ معاش کاحل نظر آ رہا ہے۔ جس سے اردو زبان کے ارتقا میں دشوارپاں آ سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *