محمد خبیب*

حضرت امام ربانی مجددالف ثانی، شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی ؒ کی ذات باکمال سے میخانہء تصوف وعرفان کا کون رند بلا نوش ناواقف ہے، یہ ساقی علم وعرفان اس خوبصورت گلشن کائنات کی خزاں رسیدگی کے دور میں شب جمعہ  14شوال 971 ھ کو  سرہند کی مردم خیز سرزمین پر جلوہ گر ہوا۔شیخ احمد سر ہندی، معروف بہ مجدد الف ثانی ؒ نے جس عہد میں آنکھیں کھولیں، وہ دور عظیم فتنوں کی آماجگاہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کا تشخص مٹانے کے لئے طاغوتی طاقتیں یکجا  ہو گئی تھیں، متاع اسلام کو نیست ونابود کرنے کی جارحانہ کوششیں کی جا رہی تھیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ بادشاہ وقت خوداس فکر کو استحکام بخش رہا تھا۔ایک المنا ک صورتحال تھی، کفر کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں تھیں، شرک کی طوفان خیز آندھیا ں تھیں، بدعات کا سیل رواں تھا، اور اسلام ضعف واضمحلال کے عالم میں تھا، اس مایوس کن صورتحال میں سر ہند کے اس مرد فقیر نے ظاہری طور پر بے سر وسامانی کے عالم میں خانقاہ سرہند کے اندر بیٹھ کر اپنے عہد کے الحادی نظام کا بھر پور مقابلہ کیا ،حضرت مجددؒ نے سرمایہء ملت کی نگہبانی، گلشن شریعت کی آبیاری اور مسند طریقت کی مقدس ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے اس دور کے سب سے طاقتور ذرائع ابلاغ یعنی خطوط کوآلہء کار بنایا اوران مکتوبات کے ہی ذریعہ ملک کے امراء، زعماء، رؤساء، صاحبان منصب واقتدار، ارباب بصیرت،اہل علم وفضل اور درد مندان ملک وملت کو جام تشویق وتحریض پلایا اور ان کے اندر بجھنے کے قریب شعلہء ایمانی کو دوبارہ منور کیا ۔آپ کے یہ مکتوبات شریفہ تین دفاتر پر مشتمل ہیں، دفتر اول موسوم بہ در المعرفت ہے اس میں ۳۱۳ مکتوبات ہیں اس کے جامع خواجہ یار محمد جدید بدخشی الطالقانی ہیں، دفتر دوم موسوم بہ نور الخلائق ہیں اس میں کل ۹۹ مکتوبات ہیں اس کے جامع خواجہ عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، دفتر سوم موسوم بہ معرفۃ الحقائق ہے اس میں کل ۴۲۱ مکتوبات ہیں اس کے جامع خواجہ محمد ہاشم ؒ ہیں،ان تینوں دفاتر میں موجود مکتوبات کی کل تعداد ۶۳۵ ہے۔ یہ مکتوبات روحانی وباطنی مسائل کی عقدہ کشائی کے لئے ایک مرشد ومربی کی حیثیت رکھتے ہیں،ان کے ایک ایک لفظ سے حکمت ومعرفت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں،ایک ایک جملہ خلوص میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ایک سطرراہ سلوک کے رہرؤوں  کے لئے صادق جذبوں کا شاہکار ہے  یہ مکتوبات نمود ونمائش کی پالش سے صیقل نہیں کئے گئے کہ جن میں قاری کومتاثر کرنے کی وقتی جاذبیت ہو اور نہ ہی یہ کوئی روکھا پھیکا نصیحت نامہ ہے کہ پڑھنے والا بوجھل ہوجائے بلکہ اس کی ایک ایک حرف میں حسن خلق اور حسن ادب کی حلاوت کے ساتھ وہ اثر پذیری ہے کہ دوران مطالعہ قاری پرکبھی  ر قت طاری ہوتی ہے اور کسی وقت وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ میں مجدد الف ثانی ؒ کی مجلس میں سرشار ومست بیٹھا ہوں، مکتوبات شریف کے اسی تنوع، دل نشینی اور تاثیر کے تناظر میں مندرجہ ذیل سطور میں حضرت مجددؒ  کے اس منہج واسلوب کا طالب علمانہ جائزہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا جوانھوں نے ارشاد و سلوک  کے لئے منتخب کیا جس منہج کی بنا پر آپ اپنے وقت کے مرجع خلائق بنے،جس اسلوب کی بنا پر سالکین طریقت اس محبوب دل نواز کی خدمت میں بابرکت دیوانہ وار حاضر ہوئے اور مشائخ وقت اس شمع فروزاں کے ارد گرد پروانہ وار مجتمع ہوگئے۔اور ایسی جماعت حقہ آپ کے زیر اثر پروان پائی جس نے ملک کی بساط ہی پلٹ دی۔

مکتوب الیہ/ مرید کی عزت نفس کا لحاظ

            حضرت مجدد کا فیض ہدایت کے عام ہونے کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ آپ اپنے مریدین، مسترشدین اور متوسلین کو بڑے احترام کے ساتھ مخاطب کرتے  اور کبھی ان کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ مکتوب الیہ کے لئے ان محبت سے لبریز تعظیمی الفاظ کو نوشتہئ تحریر میں لاتے، جو ان کے دلوں کو فتح کرلیتے، قبول کلام کے لئے ان کے قلب کے دروازوں کو وا کردیتے  اور حضرت مجددؒ کی محبت سے ان کے دلوں کومعمور کردیتے ۔

            ایک بار عبد الرحیم خان خاناں کا قاصد خط لیکر آیا تو دیکھئے کس فرحت وشادمانی  اور محبت بھر ے لہجہ کے ساتھ ان کے خط کا جواب ارسال کرتے ہیں جس میں قاصد کی بھی تعریف اور مرسل کی بھی:

            بلغ رسالتکم الاخ الصالح الصادق  وحکی عن جنابکم بلسان الترجمان ما حکی فانشدت:

                      أھلا لسعدی والرسول وحبذا                                                      وجہ الرسول لحب وجہ المرسل(1)

کہ باسعادت وبا صداقت برادر نے تمہارا خط پہنچایا اور زبا ن ترجمان سے آپ جناب کا حال نقل کیا تومیں نے فورا یہ شعر پڑھا:

اے سعدی  معشوقہ اور اے اس کے قاصد ! تم اپنے اہل میں تشریف لائے اور تمہاری طرف سے آنے والے قاصد کا چہرا کس قدر حسین ہے کیونکہ روانہ کرنے والے کا چہرہ  بڑا محبوب ہے۔

ذرا توجہ کیجئے مکتوب اس اقتباس کے ایک ایک لفظ پر کیا محبت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں کس قدر احترام و تعظیم جھلک رہی ہے اس کے ایک ایک حرف سے، ذرا تصور کیجئے جب اس جوابی خط کو عبد الرحیم خانخاناں نے پڑھا ہوگا اوراس قدر محبت بھرے الفاظ کا دیدار اس کی آنکھوں نے کیا ہوگا تو اس کے دل کی کیفیت کا کیا عالم ہوا ہو گا میرا ذوق ووجدان تو یہ شہادت دیتا  ہے کہ عبد الرحیم خانخاناں نے اس خط کو آنکھوں کا سرمہ بنایا لیا ہوگا اور باربار پڑھ کران الفاظ محبت کی شبنم سے اپنے دل کو سکون وقرار دیتا ہوگا۔

اور اسی خط میں آگے کہتے ہیں:

 ایھا الاخ القابل لظھور الکمالات اظھر اللہ سبحانہ وتعالی فعلکم من القوۃ (2)

              اے کمالات کے ظہور کے لائق برادر عزیز اللہ تمہارے عمل کو تقویت عطا کرے۔

اس اقتباس میں عبد الرحیم خانخاناں کے اندر موجود جوہر کو ظہور کمالات کے لائق بتا کر یقینا حضرت مجددؒ نے ان کے دل کے نہاں خانوں میں اپنی محبت جا گزیں کردی ہوگی، حضرت مجددؒ بخوبی جانتے تھے  ع/ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

            اسی طرح آپ کے پاس جب بھی کسی مرید اور متوسل کا خط پہنچتا تو اس پر انتہائی فرحت و محبت کااظہار کرتے اور دعاؤوں سے نوازتے جس سے نہ صرف مسترشد کی دلجوئی ہوتی بلکہ آ پ سے تعلق اورربط میں مزید پختگی اور گہرائی بھی پیدا ہوتی اور وہ مسترشد عاشق زار بن کر آپ کی تعلیمات اور پیغام کو اپنے لئے حرز جاں بنا لیتا، چند نمونے ملاحظہ ہوں۔

ملا محمد امین کابلی کا ایک بار خط پہنچا تو اس طرح اپنی فرحت کا اظہار کیا:

(3) صحیفہء گرامی کہ منبئ بود از فرط محبت واخلاص ومشعر از مودت واختصاص ورود یافت موجب فرحت گشت عافاک اللہ سبحانہ

 مبارک خط جو محبت واخلاص سے پر ہے اور دوستی وخلوص پر مشتمل تھاپہنچا اور خوشی کا باعث ہوا اللہ آپ کو عافیت سے رکھے۔

مولانا محمد طاہر بدخشی کا خط جب مدت دراز کے بعد موصول ہو اتو اس طرح اپنی فرحت کا اظہار کیا:

مکتوب شریف کہ بعد از مدت مدید ارسال داشتہ بودند رسیدہ فرحت فراوان رسانید(4)

 مدتوں کے بعد ارسال کردہ خط پہونچا ،جس سے بے پناہ خوشی  ہوئی۔

شیخ محمد مکی ولد حاجی قاری موسی لاہوری کو بھی ارسال کردہ ایک جوابی خط میں ان دعاؤوں سے نوازتے ہوئے خط کا آغاز کیا:

) وصل المکتوب الشریف اللطیف الی العبد الضعیف النحیف عظم اللہ تعالی اجرکم  ویسر سبحانہ امرکم وشرح صدرکم وتقبل عذرکم(5

آپ کا مکتوب شریف ولطیف اس عبد ضعیف ونحیف کو پہونچا اللہ تعالی آپ کے اجر وثواب کو عظیم کرے، آپ کے کام کو آسان کرے، شرح صدر فرمائے اور آپ کے عذر کو قبول کرے۔

ملا عبد الغفور سمرقندی کو تحریر کردہ خط کا آغاز کچھ اس طرح محبت بھرے الفاظ سے کیا:

مفاوضہ ئ لطیفہ وملاطفہئ شریفہ کہ نامزد این حقیر نمودہ بودند بوصول آن مبتہیج ومسرور گردید جزاکم اللہ سبحانہ عنا خیر الجزاء(6 )

       آپ کا شریف ولطیف خط جو اس دور افتادہ حقیر کے نام لکھا ہوا تھا پہنچ کر بڑی خوشی کا باعث ہوا  جزا کم اللہ عنا خیر الجزاء

    حضرت مجددؒ کبھی مکتوب الیہ کو  اے برادر عزیز کہتے (7)کبھی سیادت پناہ سے ملقب کرتے  (8)کبھی سعادت آثار کا پیار بھرا جملہ استعمال کرتے  (9)کبھی مخدوما ومکرما کہتے (10)کبھی نقابت پناہا ونجابت دستگاہ کے الفاظ سے خطاب کرتے،(11) کبھی محبت آثار (12) اور کبھی اخوی ارشدی (13) جیسے محبت بھرے الفاظ سے خط کا آغاز کرتے،یہ تمام الفاظ اس بات کے عکاس ہیں آپ کا  اپنے مریدین سے کیا تعلق خاطر تھا،کس قدر ان کی تعظیم وتو قیر کرتے اور ان کی عزت نفس کاکتنا خیا ل رکھتے۔ اور کبھی شکوہ بھی کرتے تو جام محبت چھلکتا ہوا دکھائی دیتا، چنانچہ ایک اپنے مرید خاص ملا یار محمد قدیم بدخشی کو لکھا:

فراموش نہ کردہ باشند چندگاہ قلب تابع حس است پس ناچار ہر چہ از حس دور ست ازقلب نیز دور است۔(14) مولانا یا ر محمد

  امید ہے کہ مولانا یار محمد نے ہمیں فراموش نہیں کیا ہوگا ایک عرصہ تک چونکہ قلب حس کے تابع رہتا ہے اسلئے جو چیز حس سے دور ہوتی ہے قلب بھی اسے دور محسوس کرتا ہے۔

: اسی طرح مرزا حسام الدین سے مراسلت کے انقطاع پر شکوہ کچھ اس طرح کرتے ہیں

مدتی است کہ اخبار سلامتی شما وحضرات مخدوم زادہا وفرزندی ”میاں جمال الدین حسین“وسائراعزہ وخدمہئ عتبہ علیہ علی الخصوص ”میان شیخ الھداد“ و”میان شیخ الھدیا“  نرسیدہ ومانع آن غیر از نسیان دور افتادہ نخواہد بود۔ (15)

 مدت گزری ہے کہ جناب کی اور حضرت مخدوم زادوں کی اور فرزندی میاں جمال حسین اور باقی عزیزوں بزرگوں ا ور بلند بارگاہ کے خادموں بالخصوص میاں شیخ الہ داد اور میاں الہ دیا کی خیریت کی خبر نہیں پہنچی اس کا مانع سوائے اس امر کے کچھ نہ ہوگا کہ شاید جناب نے اس دور افتادہ کو بھلادیا ہوگا۔

اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین

یقینا اہل اللہ کی صحبت کبریت احمر ہے ان کی نظروں میں دوا اور ا ن کی باتوں میں شفا ہے سلوک کی وہ منزلیں جن کے طے کرنے میں سخت مجاہدہ وریاضت اور طویل عرصہ درکار ہوتا ہے مرشد کامل اور صالحین کی صحبت سے لمحوں میں طے ہوسکتی ہے۔

 حضرت مجددؒ اپنے ایک مرید اخص میر محمد نعمانؒ کو ایک ارسال کردہ مکتوب میں ارباب جمیعت کی صحبت کی ترغیب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

لا تعدل بالصحبۃ شیئاکائنا ما کان الا تری ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلیھم وسلم وبارک فضلو ا بالصحبۃ علی من عداھم سوی الانبیاء علیھم السلام وان کان اویسا قرنیا او عمرا مروانیا مع بلوغھما نھایۃ الدرجات ووصولھما غایۃ الکمالات سوی الصحبۃ۔(16)

صحبت کے برابر کسی شی کو نہ گردانو چاہے کوئی بھی چیز ہو، آپ کو معلوم نہیں کہ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو انبیا کے علاوہ باقی تمام لوگوں پر فضیلت صحبت نبیﷺ کی بنیاد پر حاصل ہوئی حتی کہ صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت اویس قرنی ؒاو رحضرت عمر مروانی ؒسے افضل ہیں باوجودیکہ یہ دونوں بزرگ صحبت رسول کے علاوہ باقی تمام درجات کی نہایت اور تمام کمالات کی غایت تک پہونچ چکے تھے۔

امام ربانی ؒ کے مکتوب کا یہ اقتباس صحبت کی عظیم اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے کہ صحابہء  کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جو انبیاء کرام علیھم الصلو ۃ والسلام کے بعد اس روئے زمین پر بسنے والے انسانوں پر  جو فضیلت اور بر تری حاصل ہوئی وہ صحبت کا ہی نتیجہ ہے،اسی صحبت نبی ﷺ کی بنا پر اب ان کے مقام ومرتبہ کودنیا کا کوئی ابدال واقطاب کوئی ولی ومحدث نہیں پا سکتا ہے یہاں تک کہ اویس قرنیؒ،جن کے بارے میں آپ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے یہاں تک کہدیاتھا اگر اویس قرنی تمہیں کبھی ملیں تو اپنی مغفرت کی دعا ان سے کروالینا،  وہ بھی کسی ادنی سے ادنی صحابی  کے مقام کو بھی نہیں پہنچ سکتے ہیں اگر چہ وہ ورع وتقوی ریاضت وعبادت میں کمالات کی اوج ثریا تک پہونچ گئے تھے لیکن صحابی کے خاک پا کے بھی برا بر نہیں ہوسکتے، پس صحبت وہ اکسیر اور نسخہء کیمیا جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

اسی طرح حضرت مجدد ؒنے خواجہ مہدی علی کشمیری کو اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے محبت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشادفرمایا:

وھم قوم لایشقی جلیسھم،ولا یحرم انیسھم ولا یخیب مسیسھم،وھم جلساء اللہ وھم اذا رأوا ذکر اللہ وھم من عرفھم وجد اللہ نظرھم دواء وکلامھم شفاء وصحبتھم ضیاء وبھاء، ھم من رأی ظاھرھم خاب وخسر ومن رأی باطنھم نجی وأفلح(17)

اہل اللہ کی جماعت وہ جماعت ہے جن کا ہم نشیں بد قسمت نہیں رہتا،ان سے محبت رکھنے والا محروم نہی رہتا،ان سے تعلق رکھنے والاناکام ونامراد نہیں رہتا، یہی لوگ اللہ کے جلیس ہیں جب ان پر نگاہ پڑتی ہے تو اللہ کی یاد آجاتی ہے،یہی لوگ ہیں جو ان کو پہچان لے وہ اللہ کو پالیتا ہے،ان کی نظر میں دوا ہے،ان کے کلام میں شفا ہے اور ان کی صحبت نور ورونق ہے یہ وہی لوگ ہیں کہ جس نے صرف ان کے ظاہر کو دیکھا وہ نامراد ہوا  اور جس نے ان کے باطن پر نگاہ کی وہ نجات پاگیا اورکامیاب ہو۔

 اہل اللہ کی صحبت کے انہی فوائد عظیمہ کی بنا پر حضرت مجددؒ ہمیشہ اپنے مریدین کو اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب وتشویق دیتے اور یہی صحبت درحقیقت قلب کے تزکیہ اور باطن کے تصفیہ کا اصلی سبب ہوتی ہے اور اگر آج بھی کوئی دین میں درجات کی بلندی چاہتا ہے اور اپنے قلوب کے تزکیہ کا صحیح معنوں میں طالب ہے تو اس کے لئے اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

                                                       ایذا رسانی سے بچنے کی تلقین

  یقینا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ خلق خدا کی ایذا رسانی ہے اسلام کا تاج اپنے سر پر سجائے ہوئے، ایمان کا ہار پہنے ہوئے شخص کو یہ بات زیب ہی نہیں دیتی کہ وہ کسی کو اپنے ہاتھ اور زبان سے تکلیف پہونچائے آپ  ﷺ نے تو یہاں تک کہدیا کہ(حقیقی اور کامل) مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے(18)یہ حدیث اس بات کا صاف اعلان کرتی ہے کہ جن کے ہاتھ او ر زبان سے دوسرے محفوظ نہیں ہیں وہ در حقیقت ووٹر لسٹ کے مسلمان ہیں حقیقی اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ مسلمان تو امن وسکون کی وہ فضا تشکیل کرتا ہے، سلامتی وتحفظ کا وہ سیل رواں جاری کرتا ہے جس میں انسان تو انسان جانور بھی بلا خوف وخطر زندگی کے شب وروز بسر کرتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان کسی کو ناحق ستاتا ہے کسی کے دل کو دکھاتا ہے تو درحقیقت خالق دوجہاں کے بندہ اور اس کے غلام کو ایذا پہونچاتا ہے چنانچہ جب یہ مظلوم اور ستایا ہوا شخص اپنے مالک کو پکارتا ہے تو اس مظلوم بندہ کی ندا اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب باقی نہیں رہتا بلکہ اس کی یہ پکار فورا سیدھے بارگاہ الہی میں پہونچتی ہے، اور اللہ اپنے اس مظلوم بندہ کی بد دعا کو فورا قبول کرکے ظالم کی بربادی کے فیصلے کردیتے ہیں حضرت مجددؒ  بھی اپنے مریدین کو  اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے اس گناہ اعظم سے پاک وصاف رہنے کی ہمیشہ تلقین کرتے تھے کیونکہ ساری ریاضت وعبادت اسی وقت قابل قبول ہیں جب عابد وزاہد رحمت وشفقت کا مظہر ہو اور اس کے دست ولسان سے ہر کوئی محفوظ وسلامت رہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہزار زہد وعبادت ہزار استغفار

ہزار روزہ  وہر روز نماز ہزار

ہزار طاعت شبہا ہزار بیداری

قبول نیست اگر خاطرے بیازاری

 تم ہزار زہد وترک دنیا اور عبادت وریاضت کی زندگی بسر کرتے ہو، ہزار بار استغفار کا ورد بھی کرتے ہو اسی طرح ہزار روزہ رکھ کر ہر روز ہزار نمازیں بھی پڑہتےہو اسی طرح ہزار راتیں بیدار رہ کر اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں لگے رہتے ہو لیکن یہ یاد رکھنا یہ ساری ریاضت وعبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگی اگر کسی کی دل آزاری کی ہوگی کسی کادل دکھایا ہوگا۔

اسی بنا پر مجدد ؒ اپنے متوسلین کو جہاں صوم وصلوۃ کی پابندی اذکا روظائف کی مداومت اورریاضت ومجاہدہ کی مزاولت کی تلقین کرتے وہیں کسی کی دل آزاری سے بچنے کا تاکیدی درس بھی دیتے۔

: چنانچہ مولانا سلطان سرہندیؒ  کو تحریر کرد ہ ایک مکتوب میں نہایت ہی شد ومد کے ساتھ ایذاء رسانی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں

فاعلموا أن القلب جار اللہ سبحانہ ولیس شیئ اقرب الی جناب قدسہ کالقلب ایاکم وایذاء  ای قلب کان مومنا کان او عاصیا، فان الجار وان کان عاصیا یحمی فاحذروا من ذلک واحذروا فانہ لیس بعد الکفر الذی ھو سبب ایذاء اللہ سبحانہ ذنب مثل ایذاء القلب فانہ اقرب مایصل الیہ سبحانہ والخلق کلھم عبید اللہ سبحانہ والضرب والاھانۃ لعبد  ای شخص کان یوجب ایذاء مولاہ فما شان المولی الذی ھو المالک علی الاطلاق۔(19)

 قلب اللہ کا ہمسایہ ہے اور قلب کو جس قدر جناب قدس کی بارگاہ میں اقربیت حاصل ہے اور کسی چیز کو نہیں لہذا اس کو ایذاء دینے سے پرہیز کرنا چاہئے خواہ وہ مومن کا قلب ہویا عاصی کا کیونکہ ہمسایہ اگر چہ عاصی ہو اس کی مدد کی جاتی ہے پس ہر شخص کے قلب کو ایذاء دینے سے ڈرو  اور بہت ڈرو کیونکہ کفر کے بعد،جو کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ایذاء کا سبب ہے،قلب کو ایذاء دینے سے بڑھ کر کوئی اور گناہ نہیں اور اس بات کو بخوبی سمجھ لینا چاہئے کہ تمام مخلوق حق سبحانہ کی غلام ہے اور کسی کے غلام کو مارنا یا اس کی اہانت کرنا اس کے آقا کی ایذاء کا سبب ہے لہذا مولی تعالی کی عظمت شان کے متعلق قیاس کرنا چاہئے جو مالک مطلق اور مالک کل ہے کہ اس کے غلاموں کو تکلیف دینا اس کے لئے کس قدر ایذاء کا سبب ہوگا۔

 حضرت مجددؒ کا یہ مکتوب ہم سب کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتاہے دور حاضر کے مسلمان اس سبق کو آج فراموش کر چکے ہیں کہ ایذا رسانی اور انسانوں کے دلوں کو دکھانا در حقیقت اللہ کی ایذا کا سبب ہے کیا ہم اللہ کو ایذا پہنچاکر دنیا اور آخرت کی فلاح کا کوئی تصور بھی کرسکتے ہیں، اگر سعادت دنیوی اور اخروی سے ہم کو بہرہ ور ہونے کی تمنا ہے تو حضرت مجدد ؒ کے اس مکتوب کو حرز جاں بنانا ہوگا اوریہ عزم مصمم کرنا ہوگا کہ ہم میں سے ہر شخص انا اور استکبار کے بت کو پاش پاش کرکے رحمت والفت کی کہکشاں سجائے گا اورنفرت وعداوت کے ہر آتشکدے کو مسمار کرے گا۔

                                                              تکبر سے بچنے کی تلقین

  جب انسان کوئی علم یا خاص فن وہنر کسب کرتا ہے تو فطری طور پر اس کا احساس دل میں انگڑائیاں لیتا رہتا ہے اور اس کا باطن باربار اس کے خیال کی عطر بیز خوشبؤوں سے معطر ہوتا رہتا ہے اور یہ کوئی معیوب امر نہیں ہے لیکن جب اس احساس وخیال کو یہ عروج حاصل ہوجائے کہ انسان اپنے ہی کو سب سے اعلی اور اورفع گرداننے لگے اور اپنے ما سوا کو حقیروکمتر سمجھنے لگے تو پھر یہ مذموم اور ناپسندیدہ امر بن جاتا ہے اور اس وصف کاحامل شخص اللہ کی نگاہوں میں نہایت مبغوض ومقہور بن کر راندہ درگاہ ہوجاتاہے، اسی کو اصطلاح میں کبر کہا گیا اور اس کے اظہار کو تکبر کہا گیا، یہ کبریائی اللہ تعالی کا وصف خاص ہے اور اسی کے ذات عالی کے شایان شان ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو زیب نہیں دیتی، حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو کوئی ان دونوں کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم رسید کر دوں گا(20)۔ اس لئے صوفیا ء کی نظر میں بھی تکبر ایک ایسا جرم عظیم ہے جو خدائی کا  دعوی کرنے کے برابر ہے  تمام صوفیاء کرام نے اس ام الکبائر سے بچنے کی تلقین کی ہے کیونکہ اس باطنی مرض کے ساتھ نہ ظاہر کی تطہیر ممکن ہے اور نہ باطن کی اور بقول شیخ سعدی :ؒ

تکبر عزازیل را خوار کرد                                 بزندان لعنت گرفتار کرد

حضرت مجددؒ کے مکتوبات سے مترشح ہوتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے متعلقین کی تعلیم وتربیت میں اس چیز کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ راہ سلوک کی مختلف منازل طے کرتے ہوئے کہیں سالک غلط فہمی کا شکار ہو کر اپنی عبادت وریاضت پر فخر وغرور کرنے لگے اور دوسروں کو چشم حقارت سے دیکھنے لگے جس سے وہ کہیں اپنی ساری کمائی ہی ضائع نہ کردے، بنا بریں جب میر نعمان نے حضرت مجددؒ سے یہ استفسار کیا کہ بعض اوقات عروج کے وقت سالک اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام پر پاتا ہے اور کبھی تو انبیاء علیھم السلام کے مقام پر بھی۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضرت مجددؒ نے اس کے جواب میں لکھا:

کہ وصول اسافل بمقامات اعالی گاہ ہست کہ از قبیل وصول فقرا ومحتاجان بود کہ بابواب اصحاب دول وبامکنہ خاصہ ارباب نعم میسر گردد تا ازینجا حاجتے خواہند واز دول ونعم ایشان درویزہ نمایند دور از کار بود کہ این وصول را مساوات وشرکت فہمد وبساست کہ این وصول از قبیل تماشاے بود کہ بوسائط ووسائل سیر اماکن خاصہ امرا وسلاطین نماید تا بنظر اعتبار تماشا کند ورغبتے بعلو پیدا آرد توہم مساوات ازین وصول چہ گنجائش دارد وتخیل شرکت ازین سیر وتماشا چہ متصور بود،وصول خادمان بامکنہئ خاصہ مخدومان تا حقوق خدمتگاری بجا آرند محسوس وضیع وشریف ست، ابلہے بود کہ از ین وصول توہم مساوات وشرکت نماید، ہر فراشے ومگس را نے وشمشیر بردارے قرین سلاطین عظام ست ودر اخص امکنہ ئ  ایشان حاضر خیلے خبط می طلبد کہ ازینجا توہم شرکت ومساوات نماید (21)

کہ نچلے لوگوں کا اوپر والوں  کے مقامات پر پہنچنا کبھی تو اس طرح ہوتا ہے جیسے فقیر اور محتاج جو دولت مندوں کے دروازوں پر یا ارباب نعمت کی خاص جگہوں پر اس لئے جاتے ہیں کہ وہاں سے حاجت چاہیں اور ان کی نعمت ودولت سے گدائی حاصل کریں جو اس وصول اور اخذ واستفادہ کو مساوات اور شرکت سمجھتا ہے وہ عبث انسان ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ وصول دیدار کی صورت میں ہوتاہے کہ لوگ بادشاہوں کے مخصوص مقامات پر سیر کے لئے جاتے ہیں تا کہ عبرت کی نظر سے نظارہ کریں اور ان میں بلند ی کی رغبت پیدا ہو اس وصول سے بھی برابری کے وہم کی کیا گنجائش ہے؟ اور اس سیر وتماشا سے شرکت کا تخیل کس طرح متصور ہوسکتا ہے؟یا خادم اپنے آقا کی خدمت کے لئے اس کے مخصوص مکانا ت میں جاتا ہے تو کیا اس کو بھی وہی مقام حاصل ہوتا ہے؟ ہر گز نہیں کوئی نادان ہی ہوگا جو اس قسم کی رسائی سے مساوات  وشرکت کا وہم کرے گا، ہر فرش درست کرنے والا اور مکھیاں ہٹانے والا اور تلوار اٹھانے والا بڑے بڑے بادشاہوں کے ساتھ رہتا ہے اور ان کے خاص مکانات میں حاضر ہوتا ہے کیسا خبطی پن ہوگا کہ اس ساتھ میں رہنے سے کوئی شرکت ومساوات کا وہم کرے۔

مجددؒ نے اس خط میں بڑے واضح اور مدلل طور پر اس بات کو بیان کیا کہ سالک اپنے آپ کو صحابہ کرام اور انبیاء علیھم السلام کے مقام پر پاکر اس پندار وغرور میں مبتلا نہ ہوجائے کہ اس نے مرتبہ صحابیت ونبو ت تک رسائی حاصل کرلی ہے بلکہ جس طرح فقیر اورضرورت مندبادشاہوں اور امراء کے در پر کاسہ  گدائی لیکر پہونچنا یا خدم،حشم اور ملازمین کا شاہان مملکت کی خاص نشست گاہوں اور انکے رہایشی محلات کے دروں تک رسائی حاصل کرلیناان کومنصب بادشاہی تک نہیں پہونچا دیتا اور نہ ہی سلطنت میں ان کو شریک وسہیم بنا دیتا ہے اسی طرح سالکین کا راہ سلوک کی منزلیں طے کرنے کے دوران ان صحابہ یا انبیا کے مقام تک پہونچنا صحابہ یا نبی کے مرتبہ پر ان کو فائز نہیں کردیتا ہے اس سے بڑی نادانی کیا ہوگی کہ کوئی فقیر کو بادشاہ کے در پر موجود پا کر اس کو سلطنت کا شریک وسہیم سمجھنے لگے یا اسی طرح کوئی سالک اپنے آپ کو مقام صحابہ وانبیا میں پاکران کے ہم پلہ سمجھنے لگے۔ یقینا ا س راہ کے بہت سے نو وارد اس مقام پر پہونچ کر راہ کبر کے مسافر بن جاتے ہیں، ان کی ساری محنت وریاضت اکارت ہوجاتی ہے اور خسر الدنیا والآخرۃ کا عبرتناک منظر بن جاتے ہیں اسی وجہ سے حضرت مجددؒ اپنے مریدین کو اس مقام پر خاص تنبیہ فرماتے اور مرض کبر سے اجتناب کی نصیحت فرماتے تاکہ سالک کہیں تکبر کی بناپرعنایات خداوندی سے محروم نہ  ہوجائے اور اس کے سارے اعمال کہیں ضائع نہ ہوجائیں ۔

اسی طرح جب شیخ عبد ا لصمد سلطانپوری  نے آپ سے اپنے کبر کا شکوہ کرتے ہوئے لکھا کہ جب میں عبادت وریاضت میں مشغول ہوتا ہوں تو اپنے اندر کبر وغرور پاتا ہوں اس موقع پر آپ نے ان کو اس کبر کی زہرناکی اور اس کے برے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے اس سے بچنے کی تدابیر بھی رقم فرمائیں:

این عجب سم است قاتل ومرضے است مہلک کہ اعمال صالحہ را  نابود میگرداند چنانچہ آتش حطب را ناچیز میسازد ومنشأ عجب آنست کہ اعما ل صالحہ در نظر عامل مزیب می در آیند ومستحسن مینمایند فالمعالجۃ  بالاضداد باید کہ حسنات خود را متہم وارد وقبائح خفیہ ئ حسنات را در نظر آرد تا خود راواعمال خود را قاصر داند بلکہ شایان لعن وطرد یابد  قال علیہ وعلی الہ الصلوات والتسلیمات رب تال للقراٰن والقراٰن یلعنہ۔ وکم من صائم لیس لہ من صیامہ الاالظمأ والجوع۔ خیال نکند کہ حسنہ او قبح ندارد واگر اندک متوجہ شود بعنایۃ اللہ سبحانہ ہمہ قبح باید از خسن احساس نکند عجب کجا واستغنا کرا بلکہ ااز استیلا ئے دید قصور اعمال باید کہ از اتیان حسنہ منفعل وشرمندہ بود نہ معجب ومستغنی  وچون دید قصور در اعمال پیدا شود اعمال را قیمت افزاید وبقبول سزا وار بود سعی نمایند کہ این دید پیدا شود وداد عجب ندہد۔(22)

یہ غرور   زہر قاتل ہے اور ہلاک کردینے والا مرض ہے جو اعمال صالحہ کو اس طرح نیست ونا بود کردیتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلا کر راکھ کردیتی ہے اور اس بیماری کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ عمل کرنے والے کی نگاہ میں اس کو اپنے اعمال صالحہ نہایت خوشنما معلوم ہوتے ہیں اور ان کو بہت ا چھا سمجھتا ہے تو اس کا علاج اس کی ضد سے کرنا چاہئے اور  وہ یہ ھیکہ آدمی اپنے حسنات کو بدگمانی کی نظر سے دیکھے اور ان کے اندر جو خرابیاں اور برائیاں چھپی ہوئی ہیں ان پر نظر جمائے پھر وہ محسوس کرے گا کہ اس کے وہ اعمال قابل قبول ہی نہیں ہیں اور وہ خود بھی مقبولوں میں نہیں بلکہ مردودوں میں ہیں، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

”بہت سے لوگ ہیں کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتا ہے“

اور ایک دوسری حدیث میں ہے

”کتنے  ہی روزہ رکھنے والے ہیں جن کا یہ حال ہے کہ ان کے روزہ کا حاصل بھوک وپیاس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا“

 پس کسی کواس فریب میں مبتلا نہ ہونا چاہئے کہ اس کے اعمال حسنہ خرابی سے خالی ہیں اگر ذرا بھی توجہ کرے گا تو اللہ سبحانہ وتعالی کی توفیق سے اپنے اعمال حسنہ میں از سر تا پا قباحتیں دیکھے گا اور حسن و خوبی کی بو بھی ان میں محسوس نہ کرے گا۔ کیسا عجب اور کیسی نخوت؛

بلکہ اپنے ان اعمال کی چھپی ہوئی خرابیوں اور کوتاہیوں کے احساس سے وہ شرمندہ اور نادم ہوگا نہ کہ مغرور و بے پروا اور جب اعمال میں قصور دیکھنے کا ملکہ پیدا ہوجاتا ہے تو اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور قبولیت کے قابل ہوجاتے ہیں،بس اس بات کی کوشش کریں کہ ایسی نگاہ پیدا ہو جائے اور غرور کو کوئی راہ نہ ملے، اس کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں الا ما شاء اللہ۔

  یقینا یہ مکتوب ہر عابد،زاہد، سالک اور عالم کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، نیک راہ پر گامزن ہر بندہ کو اس کا نفس اس پندار میں ضرور مبتلا کرتا ہے کہ وہ بہت اعلی وارفع ہے،اور دیندار ی اورورع کا عجب اس کے قلب میں انگڑائیاں لیتا رہتا ہے، ایسے مہلک خیال کے دل میں آنے کے وقت حضرت مجددؒ کے اس خط سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی نیکیوں میں پا ئی جانے والی قصور وکوتاہیوں پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہئے، یہ حقیقت پسندانہ نگا ہ نہ صرف سارے غرورونخوت کو خاک میں ملا دے گی بلکہ اس کو اس کے اعمال پرشرمندہ اور نادم بھی بنا دے گی اور اپنے اعمال حسنہ میں پوشیدہ خرابیوں کو جان کر اس کو اس بات کا ہی فکر دامن گیر رہے گی نہ جانے میرا عمل قبول ہوگا کہ نہیں اور جب یہ احساس ہوگا تو پھر کہاں کا تکبر اور کہاں کا احساس برتری۔

ہمدردی اور غمگساری کی تلقین

انسانوں سے محبت والفت اور ضرورت مند انسانوں کی مددونصرت کو ہر دین ومذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے اس عمل کی نہ صرف تحسین کی بلکہ اس کو عظیم عبادت اور قرب خداوندی کا اہم وسیلہ قرار دیا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور ہم مثل استعداد سے نہیں نوازا بلکہ ان کے درمیان فرق وتفاوت رکھا ہے اور یہی فرق وتفاوت اس کائنات رنگ وبو کا حسن وجمال ہے، اگر مشیت ایزدی ہوتی تو ہر ایک کو خوبصورت، صاحب ثروت اور صحت مند پیدا کردیتا لیکن یہ یک رنگی نہ صرف اس کی شان خلاقی کے خلاف ہوتی بلکہ یہ یکسانیت اس گلشن کائنات کی مقصد تخلیق کوبھی فوت کردیتی کیوں کہ رب العلمین کا اس دنیائے آب وگل کی تخلیق سے مقصد اس جسد خاکی کا امتحان لیناتھا جس کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنایا گیا اور امتحان اسی وقت  ہی ممکن تھا جب انسانوں کے درمیان فرق مراتب ہوتے،ان کے درجات میں تفاوت ہوتا اور ان کی خداداد صلاحیتوں میں اختلاف ہوتا، چنانچہ وہ قادر مطلق بعض کو بعض پر فوقیت دے کر اور انسانوں کے درمیان فرق وتفاوت کو پیدا کر کے یہ امتحان لینا چاہتا ہے کہ میرے وہ بندے جن کو میں نے اپنے خاص فضل سے نوازا ہے کیا وہ میرے ان بندوں کے ساتھ ہمدردی اورغمگساری کا معاملہ کرتے ہیں جو تنگ دست ہیں جن کے پاس کھانے کے لئے دانہ نہیں، پہننے کے لئے کپڑا نہیں اور سر چھپانے کے لئے مکان نہیں، یا پھر اس دنیا کی رنگینیوں میں مدہوش ہوکر اپنے اس فرض منصبی کو فراموش کردیتے ہیں اور پھرجو شخص محتاج، نادار، تنگدست اور مفلوک الحال افراد کی دلجوئی اور داد رسی کرتا ہے اس کو وہ مالک مطلق اپنی باران رحمت سے سیراب کرتا ہے دنیوی اور اخروی فوز وفلاح کے دروازے اس پر وا کردیتا ہے، لیکن جو مال ودولت کی بے پناہ فراوانی کے باوجودبخل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت سناتا ہے،حضرت مجدد  ؒ کے مکتوبات اس بات کے غماز ہیں کہ آپ اپنے مریدین کو اس امتحان میں کامیاب کرنے کی غرض سے خلق خدا  کے ساتھ ہمدردی وغمگساری اوران کی داد رسی کی مستقل تلقین کرتے او ر ہمیشہ یہ بات آپ کے پیش نظر رہتی کہ مریدین کے قلوب میں انسانی ہمدردی وغمگساری کا جذبہ کبھی سرد نہ پڑنے پائے اگر ایک طرف ان کا تعلق اپنے خدا سے مستحکم ہو تو دوسری طرف ان کا رشتہ خلق خداسے بھی استواررہے،

چنانچہ مرزا عرب خاں کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخلق عیال اللہ واحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ  حضرت حق سبحانہ وتعالی متکفل ارزاق خلائق گشتہ است پس خلائق در رنگ عیال او باشند تعالی ہر کہ بعیال کسے مواساۃ کردہ باشد وبار او را برداشتہ باشد ہر ٓائینہ این کس محبوب صاحب آن عیال خواہد بود کہ اورا سبکسار ساختہ ومؤنت اورا برخود گرفتہ۔(23)

کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ مخلوق اللہ کے عیال ہیں اور مخلوق میں اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کے عیال سے اچھا سلوک کرے، حضرت حق سبحانہ مخلوق کے رزق کے کفیل ہیں پس مخلوق اس کے عیال کی طرح ہے جو آدمی کسی کے عیال سے غمخواری کرے اور اس کے بوجھ کو برداشت کرے تو یہ شخص اس عیال والے کا محبوب ہوجائے گا کہ اس نے اس کا بوجھ ہلکا کردیا ہے“۔

 اس مکتوب میں حضرت مجددؒ نے کتنے نادر اسلوب میں خدمت خلق اور انسانی ہمدردی کے مقدس جذبہ پر ابھارا ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا میں کسی کے اہل وعیال کے ساتھ غم خواری کرتا ہے، ان کی ضروریات کی تکفیل کرتا ہے اور ان کا بوجھ اپنے شانوں پر لے لیتا ہے تو یہ شخص اس صاحب عیال کا محبوب بن جاتا ہے،پس کیا گمان کرنا چاہئے اس رحمان ورحیم کے بارے میں،پوری مخلوق جس کا کنبہ ہے اور وہی تمام مخلوق کے رزق کا کفیل بھی ہے، اگر کوئی اس ذات باری کے کنبہ کی کفالت کرے،ان کے ساتھ حسن سلو ک کرے اور ان کے لئے کشادہ دلی سے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دے تو کیا وہ شخص اس رب دوجہاں کا محبوب نہیں بنے گا، پس اس کی محبوبی کے طالب اور اس کی خوشنودی کے جویا افراد کو چاہئے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ مواسات وہمدردی کا سلوک کریں،اسی میں اس کی محبوبیت کا راز پنہاں ہے۔

اسی طرح حضرت مجددؒ  اگر کسی کو فقراء کا ہمدرد اور غمگسار پاتے تو اس کی مدح سرائی بھی کرتے اور حوصلہ افزائی بھی۔مرزا بدیع الزماں کی طرف ارسال کردہ خط میں لکھتے ہیں :

مراسلہئ شریفہ ومفاوضہئ لطیفہ ورود یافت حمدا للہ سبحانہ کہ از فحوائے آن محبت فقراوتوجہ درویشان مفہوم گشت کہ سرمایہ ئ سعاداتست لانھم جلساء اللہ وھم قوم لا یشقی جلیسھم (24)

آپ کا مکتوب شریف ومراسلہ لطیف صادر ہوا، الحمد للہ مضمون سے فقراء کی محبت اور درویشوں کی طرف توجہ معلوم ہوتی ہے جو کہ سعادتوں کا سرمایہ ہے کیونکہ یہ لوگ اللہ سبحانہ وتعالی کے ہم نشیں ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا جلیس بد نصیب نہیں ہوتا۔

مکتوب بالا کا اقتباس پڑھنے کے بعد یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ آپ مستقل اپنے مریدین کو خدمت خلق کو انجام دینے اور فقراء ومساکین کے ساتھ غم خواری اور ان کی طرف خاص توجہ مرکوز کرنے کا حکم صادرفرماتے جس کو مریدین بسر وچشم قبول کرکے  اپنے اپنے علاقوں وحلقوں میں خدمت خلق کی خوبصورت کہکشاں بھی سجاتے مزید برآں وہ اپنے شیخ ومرشد کو اپنے احوال لکھنے کے دوران  فقراء کی طرف توجہ اور ان کے ساتھ ہمدردی کی اپنی کیفیات بھی رقم طراز کرتے، جس کے بعد حضرت مجددؒ ان کے اس عمل کی تحسین بھی فرماتے  اور مسرت قلبی کا اظہار بھی فرماتے کیوں کہ یہ ایسا شعبہ ہے جس کو زندہ کرنے کے بعد انسانوں سے روابط میں استحکام پیداہوتا ہے اور عوام کے قلوب کے درآپ کی بات سننے کے لئے وا ہوجاتے ہیں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حضرت مجددؒ کی تحریک کو عالمگیریت کے عطا ہونے میں آپ کے مریدین ومتوسلین کی خوش اخلاقی اور عوام دوستی کا بہت بڑا دخل تھا جو آپ کے فیضان صحبت اور آپ کی دعوت وتربیت کا ہی رشحہ فیض تھا۔

                                    نا مسا عد حالات کے سامنے جبل استقامت بن جانے کی تلقین

حق وباطل کے درمیان ستیزہ کاری ازل سے تا ابد ہے، چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کے درمیان کشمکش ہمیشہ سے اور ہمیشہ رہے گی، جب حق کی صدا اس فضائے دنیا میں گونجتی ہے تو باطل کی توپوں کی گھن گھرج اس صدا کو مدھم کرنے کی سعی پیہم کرنے لگتی ہے،جب خیرکی نسیم جانفزا چلتی ہے تو منکرات کے ایوانوں سے آتش سموم کے شعلے بھی بھڑکنے لگتے ہیں، جب ایمان کی باد بہاری کے خوشگوار جھونکے اس گلشن کائنات کو معطر کرتے ہیں تو کفر کی صر صر عصیاں اس گلشن کی خزاں رسیدگی کے لئے مزید کمر بستہ ہوجاتی ہیں، حضرت مجددؒ نے بھی جب بر ہمن کدہ ہند میں اپنے تجدیدی اور اصلاحی مشن کا آغاز کیا،تباہی وبربادی کی طرف گامزن ملک وملت کے کارواں کو صحیح رخ پر ڈالنے کے لئے میدان عمل میں قدم رکھا  اورراہ حق سے منحرف ہوچکے لوگوں کو جادہ مستقیم پر لانے کا عزم مصمم کیا  تو زہرہ گداز مصا ئب سے آپ کا استقبال کیا گیا مخالفتوں کے بے پایاں سمندر نے آپ کے مشن کی عمارت کو زمین بوس کردینے کی جہد مسلسل کی، آپ کے خلاف صوفیاء خام، علماء سوء اورامراء بد باطن نے متحدہ محاذ بناکر آپ کی شخصیت کو مکروہ بنانے کے لئے اس قدر منظم سازش اور ایسا زبردست پرپیگنڈہ کیا کہ جو پہاڑوں کو بھی ان کی جگہ سے ہلا دیتا  اسی پروپیگنڈہ نے آپ کو پس زنداں ڈلوایا اور اسی پروپیگنڈہ کے اثر نے شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒجیسے متبحر اور نیک طینت عالم کو بھی آپ سے بد ظن کردیا لیکن آپ ان لرزہ براندام کردینے والے حالات کے سامنے عزم واستقامت کے پہاڑ بن گئے، آپ مخالفتوں کے بحرطوفان خیزکے سامنے نہایت ثابت قدمی، پا مردی اور اولوالعزمی کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے ہوگئے اور اسی کا ہمیشہ اپنے مریدین کو درس دیا کہ حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے لوگوں کی خشمگیں نگاہوں سے دلبرداشتہ ہونا اہل حق کا شیوہ نہیں ہے مخلوق کے طعن وتشنیع کے تیر ونشتر سے قلب کو مجروح کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے بلکہ ان نامساعد حالات میں کوہ استقامت بننے کی ضرورت ہے،طوفانوں کے سامنے سر نہیں جھکانا ہے بلکہ ان طوفانوں کے لئے سد راہ بن جانا ہے۔

حضرت مجددؒ سے ان کے ایک مرید ”میر محب اللہ مانک پوری“نے اپنے اہل وطن کی ایذاء رسانیوں اور اقارب کی جفا کاریوں کا تذکرہ قلم بند کرتے ہوئے دوسری جگہ سکونت اختیار کرنے کی اجازت چاہی تو حضرت مجددؒ نے ان کو ایذاء خلق پر تحمل وصبر کی تلقین کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

از تحمل ایذائی خلق چارہ نبود واز صبر بر جفائے اقارب گذر نہ  قال  اللہ تعالی ا مرا لحبیب  ﷺفاصبرکما صبر اولو العزم من الرسل ولا تستعجل لھم  نمکے در سکونت آن مقام ہمین ایذا وجفا است وشما در مقام فرا رید ازان نمک آرے شکر پروردہ تاب نمک ندارد چہ توان کرد  بیت:

٭ہر چہ عاشق شد اگر چہ نازنین عالم است         نازکی کے راست می آید بار می کشد٭

اندراج یافتہ اگر جازت باشد در الٓہ باد منزل اختیار کنم، منزلے تعین نمایند تا از افراط جفا آنجا رفتہ  نفسے راست کنند  ھذا ھو طریق الرخصۃ وطریق العزیمۃ الصبر والتحمل علی الایذاء۔ (24)

کہ مخلوق کی ایذا دہی اور رشتے داروں کی جفاپر تحمل وصبر کئے بغیر کوئی چارہ ئ کار نہیں اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کو حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں ”آپ صبر کیجئے جس طرح عالی ہمت پیغمبروں نے صبر کیا اور کفار کے لئے جلدی عذاب طلب نہ کیجئے“ جس مقام میں تم سکونت پذیر ہواگرکوئی نمکینی ہے تو یہی ایذا وجفا ہے اور تم اس نمک سے بھاگ رہے ہو  ہاں بھائی جو شکر پروردہ (ناز پروردہ)ہو وہ تاب وطاقت نمک نہیں رکھتا  مگر کیا کیا جائے :

٭ہر چہ عاشق شد اگر چہ نازنین عالم است         نازکی کے راست می آید بار می کشد٭

جس نے کوچہ  عشق میں قدم رکھا وہ نازنین عالم ہی کیوں نہ ہوں اس کی نزاکت نہیں چلے گی اس کو تو بوجھ اٹھانا ہی پڑےگا

تم نےلکھا اگر اجازت ہو تو الہ آباد میں سکونت اختیار کرلوں (اچھی بات ہے مانکپور کے علاوہ) کوئی دوسری جگہ تجویز کرسکتے ہو تاکہ وہاں جفائے خلق کی زیادتی سے بچ کر اطمینان کی سانس لے سکو، مگر یہ رخصت ہے اور عزیمت کاطریقہ صبر اور ایذاء کا برداشت کرنا ہے۔

مکتوب بالا میں حضرت مجددؒ نے اس بات کو بالکل واضح انداز میں بیان کردیا اس وادی عشق میں قدم رکھنے والوں کے لئے صبر واستقامت کے سوا کوئی چارہ ئ کار نہیں جو اس راہ عشق کا انتخاب کرے گا اس کو ایذا اور جفا کی پر خار وادیوں سے گذرنا ہی ہوگا اس سے کسی عاشق کو مفر نہیں ہے

ایک موقع پر جب میر محمد نعمان کو اہل خسران نے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا اور ان کو اس کا شدید رنج پہونچا تو انھوں نے اس کا ذکر اپنے شیخ حضرت مجدد ؒ سے کیا، حضرت مجدد ؒ نے اس موقع پر ان کو بھی تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ آزردہ خاطر نہ ہوں بلکہ اپنے مشن پر ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہیں :

میر نعمان از سخنان پریشان ارباب خسران محنت نکشند کل یعمل علی شاکلتہ  لائق آن کہ بمکافات ومجازات متعرض نشوند دروغے را فروغے نیست باعث کسادت بازار آنہا کلمات متناقضہ  آنہا خواہد بود من لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور شغلیکہ در پیش دارند در ہمان کوشند واز غیر  آن چشم بپوشند (26)

میر نعمان ارباب خسران کی پریشان کن باتوں سے شکستہ دل نہ ہوں  (کل یعمل علی شاکلتہ) ”ہر شخص اپنے طریقہ پر عمل پیرا ہوتا ہے“، آپ کے لئے مناسب ہے کہ پاداش اور بدلے کے در پہ نہ ہوں،دروغ کو کبھی فروغ حاصل نہیں ہوتا ان کی متناقض باتیں ان کی کساد بازاری کا سبب بن جائیں گی   (من لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور)  ”جس کسی کو اللہ نے روشنی نہیں دی اس کے لئے کوئی روشنی نہیں ہے جو شغل رکھتے ہیں (جو آپ کا مشن ہے) بس اس میں مشغول رہیں اس کے علاوہ سب سے چشم پوشی کریں۔

حضرت مجددؒ کا یہ مکتوب اس بات کی طرف صاف رہنمائی کرتا ہے کہ آپ اپنے مریدین کو ہمیشہ عوام کی بے تکی باتوں سے رنجیدہ خاطر نہ ہوکر مشن میں لگےرہنے کی تلقین کرتے ساتھ ہی ساتھ ا س بات کی بھی نصیحت کرتے کہ راستے میں رکاوٹ بننے والوں اور ایذا رسانی کے در پر رہنے والوں سے بدلہ لینے کی فکر میں نہ لگے رہیں بلکہ ان سے صرف نظر کریں اور اپنے مقصود اصلی پر توجہ مرکوز کریں، فتنوں کی یہ گرم بازاری خود ہی ایک دن کساد بازاری کا شکار ہوجائے گی۔

اسی طرح جب شیخ بدیع الدین سہارنپوری نے حضرت مجددؒ سے جفا اور ملامت خلق کی شکایت کی تو ان کو تسلی دیتے ہوئے آپ یوں رقم طراز ہوئے:

آن خود جمال این طائفہ است وصیقل زنگار ایشانست باعث قبض وکدورت چرا باشد(27)

 کہ یہ ملامت خلق خود اس طائفہ صوفیا کا جمال ہے اور ان کے زنگ کا صیقل ہے پھرباعث رنجیدگی کیوں؟

  اور پھر خود اپنا حال لکھا کہ جب قلعہ گوالیار میں قید ہوا تو ہر چہار جانب سے لوگوں کی ملامتیں اور ان کی دلخراش باتیں مجھے پہونچتی لیکن ان سب پر صبر نے مجھے پستی سے اٹھاکر بلندی تک پہونچادیا اس لئے اے شیخ بدیع الدین آپ بھی صبر کریں ان شاء اللہ یہ صبر ترقی درجات کا سبب ہوگی۔

اوائل حال کہ فقیر باین قلعہ رسید محسوس میشدکہ انوار ملامت خلق از بلاد وقری در رنگ سحابہائے نورانی پے درپے می رسند وکار را از حضیض باوج می برند۔(28)

فقیر جب اس قلعہ  گوالیار میں پہونچاتو شروع شروع میں محسوس ہوتا تھا کہ مخلوق کی ملامت کے انوار مختلف شہروں اور بستیوں سے نکل کر نورانی بادلوں کی شکل میں پے در پے میرے پاس پہونچ رہے ہیں اور (اسی ملامت پر صبر)میرے معاملہ کو پستی سے اٹھاکر بلندی کی طرف لئے جارہا ہے۔

      اسی طرح حضرت مجددؒ کے خادم خاص مرزا مظفر خان پر جب مصائب نے حملہ کیا تو اس وقت حضرت مجددؒ نے ان کو صبر کی تلقین اور تضرع وعاجزی کادرس دیتے ہوئے تحریر کیا :

ورود محن وبلیات دنیویہ مر دوستانرا کفارات ست مرزلات ایشانرا  بتضرع وزاری وبالتجا وانکسا عفو وعافیت از جناب قدس او تعالی باید طلبید تا زمانے کہ  اثر اجابت مفہوم شود وتسکین فتن معلوم گردد ہر چند دوستان وخیر اندیشان در ہمین کارند اما صاحب معاملہ احق  باین کار ست دار خوردن وپرہیزنمودن کار صاحب مرض ست دیگران بیش از اعوان او نیستند در ازالہئ مرض حقیقت معاملہ آنست کہ ہر چہ از محبوب حقیقی برسد با کشادگی جبین و با فراخی سینہ او را بمنت قبول باید کرد بلکہ بآن متلذذ باید گشت۔(29)

دنیوی مصائب اور سختیوں کا آنا دوستان خدا کی لغزشوں کا کفارہ ہے اس وقت تضرع وزاری اور التجا و انکسارکے ساتھ عفو وعافیت کو جناب قدس سے طلب کرنا چاہئے اور اس وقت تک طلب کرنا چاہئے جب تک قبولیت کے آثار ظاہر نہ ہوں اور فتنوں کا دب جانا معلوم نہ ہوجائے، ہر چند دوست اور خیر اندیش اسی کام میں ہیں (آپ کے حق میں دعا کر رہے ہیں) لیکن صاحب معاملہ کو اس کام کا زیادہ حق پہونچتا ہے (صاحب معاملہ کو زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے)  دوا کھانا اور پرہیز کرنا مریض کا کام ہے دوسرے لوگ (تیمار دار) اس کے ازالہ مرض میں مددگار ہونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے، حقیقت معاملہ تو یہ ہے کہ جو کچھ بھی محبوب حقیقی کی طرف سے پہونچے اسے خندہ پیشانی اور فراخ دلی کے ساتھ احسان مانتے ہوئے قبول کرلینا چاہئے، بلکہ اس سے لذت یاب ہونا چاہئے۔

مکتوب بالا میں حضرت مجددؒ نے اس با ت کا صاف درس دیا ہے کہ مصائب سے مایوسی اور قنوطیت کا شکا ر نہ ہونا چاہئے بلکہ جو کچھ محبوب حقیقی پروردگار رحیم کی طرف سے پہونچے اسے خندہ پیشانی اور بشاشت قلبی کے ساتھ قبول کرلینا چاہئے، دل میں اللہ کی طرف سے کسی بدگمانی کا  نہ گذر ہونا چاہئے اور نہ ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہئے یہ مصائب در اصل اللہ کے مقرب بندوں کی لغزشوں کا کفارہ اور ان کے رفع درجات کا سبب ہوتے ہیں،ہاں اللہ تعالی سے ابتہال وتضرع کے ساتھ عافیت اور معافی کا سوال کرنا چاہئے اور خوب سوال کرنا چاہئے کیونکہ وہ رب کائنات سوال سے خوش ہوتا ہے اور اس نے اس کا حکم بھی دیا ہے۔

اسی طرح ملا معصوم کابلی کو حزن وغم کا شکار ہونے پر ایک بڑے منفرد اسلوب میں صبر واستقامت کی تلقین کرتے ہوئے یوں مرقوم ہیں :

محبت آثار ا!  رنج ومحنت ا زلوازم محبت است اختیار فقر را در دردوغم لا بد است    بیت:

٭غرض از عشق تو ام چاشنی دردوغم است             ورنہ زیر فلک اسباب تنعم چہ کم است ٭

دوست آوارگی میخواہد تا از غیر بالکلیہ انقطاعی حاصل گردد اینجا آرام در بے آرامی است وساز در سوز است وقرار در بیقراری وراحت در جراحت  درین مقام فراغت طلبیدن خود را در محنت انداختن است تمام خود را  بمحبوب باید سپرد ہرچہ از و بیاید بہ اشد رضا باید قبول کرد  وابرو نباید پیچید، طریق زندگانی درین وضع است تا توانید استقامت ورزید والا فتور در قفا است۔(30)

      اے محبت کے نشانات والے!رنج ومحنت محبت کے لوازمات میں سے ہیں فقرا کے درد وغم کا ہونا ضروری ہے  شعر:

٭غرض از عشق تو ام چاشنی دردوغم است …… ورنہ زیر فلک اسباب تنعم چہ کم است ٭

٭تجھ سے عشق کرنے سے میری غرض دردوغم کی چاشنی (سے لطف اندوز) ہونا ہے، ورنہ آسمان کے نیچے ناز ونعمت کے اسباب کیا کم ہیں ٭

دوست حقیقی پراگندگی چاہتا ہے تا کہ اس سے غیر کا بالکل قطع تعلق ہوجائے، مقام عشق میں بے آرامی میں آرام،سوز میں ساز، بیقراری میں قرار اور جراحت میں راحت ہے، اس مقام میں فراغت طلب کرنا خود کو مشقت میں ڈالنا ہے، اپنے آپ کو مکمل طور پر محبوب حقیقی کے سپرد کردینا چاہئے اس کی طرف سے جو کچھ بھی آئے پوری رضا اور خوشی کے ساتھ قبول کرنا چاہئے، چیں بجبیں نہ ہونا چاہئے، زندگی گذارنے کا یہی طریقہ ہے، جہانتک ہوسکے استقامت اختیار کرو،ورنہ فتور پیچھے لگا ہواہے۔

عام طور پر جب فقر کا حملہ ہوتا ہے تودل کو پریشانی کا ہالہ گھیر لیتا ہے اور انسان اس موقع پر شدید قلق اور بے چینی کا شکارہوکر بشاشت قلبی اور سکون ذہنی کے ساتھ اپنے مفوضہ امور کو انجام نہیں دے پاتا ہے، چنانچہ حضرت مجددؒ جب کبھی کسی مرید کو فقر وفاقہ کا شکار ہوتے دیکھتے تو اس کی تسکین خاطر کے لئے فورا خط روانہ فرماتے تاکہ کہیں یہ سالک فقر کی بنا پر اپنے مقصدکو فراموش نہ کردے، ایک بار آپ کو میر نعمان اور ان کے ساتھیوں کی مالی پریشانی کی خبر ملی تو ان کی دلجمعی کے لئے فورا خط ارسال فرمایا جس میں فقر سے پریشان نہ ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا :

فقر ونامرادی جمال این طائفہ است واقتدا است بسید کونین علیہ وعلی الہ الصلوت والتسلیمات حضرت حق سبحانہ وتعالی از کمال کرم کفیل رزق عباد خود شدہ است وما شما را ازین تردد فارغ ساختہ ہر چند اشخاص بیشتر رزق زیاد تر بجمع ہمت متوجہ مرضیات حق باشند تعالی وتقدس وغم متعلقان را بکرم او سبحانہ حوالہ نمایند۔(31)

فقر ونامرا دی گروہ صوفیا کا اصل حسن ہے او ر اسی میں حضرت سید الکونین  ﷺ کی حقیقی اقتدا ہے، اللہ تعالی نے اپنے کمال کرم سے بندوں کا رزق کا ذمہ اپنے اپر لے لیا ہے اور ہم کو اور آپ کو اس فکر وتردد سے فارغ کردیا ہے، جس قدر آدمی زیادہ ہوں گے اسی قدر رزق زیادہ ہوگا، لہذا آپ  مکمل طور پر حق تعالی کی رضا مندی حاصل کرنے کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں اور متعلقین (زن وفرزند) کا غم حق تعالی کے کرم کے حوالہ کردیں۔

الغرض حضرت مجددؒنے ہمیشہ اپنے متوسلین کو مصائب ومخالفتوں کی باد تند وتیز سے نہ گھبرانے کی نصیحت کی اور اس بات کو ان کے دل کے نہاں خانوں میں جاگزیں کر دیا تھا کہ مصائب کی آندھیا ں اور مخالفتوں کے طوفان در اصل ان کی پرواز کو بلند کرنے کے لئے اور ان کے گوہر کو آب دار ترین اور درخشاں ترین بنانے کے لئے ہیں۔ پھر اس چرخ نیلی فام کی چشم نے اس حقیقت کا مشاہدہ کیا اور تاریخ کے صفحات پر یہ بات ثبت ہوئی کہ حضرت مجدد ؒ کی انہیں تعلیمات عزیمت کی بنا پر آپ کے مریدین،منتسبین متوسلین اور مسترشدین استقامت کی وہ چٹان بنے جس کے سامنے اکبر کے طوفان الحاد کو سرنگوں ہونا پڑا اور انہیں مریدین کے توسط سے ہند وبیروں ہند میں حضرت مجددؒ کا چشمہ فیض وہدایت جاری وساری ہوا،لاکھوں گم کردہ راہ حقیقت  شاہراہ سلوک وطریقت پر گامزن ہوکر ترویج اشاعت اسلام اور تحفظ شریعت میں منہمک ومشغول ہوئے جس کا نتیجہ ہوا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک میں اسلام کی ایسی باد بہاری چلی جس نے بلا مبالغہ قرون اولی کی یاد دلادی حضرت مجدد کے اس عظیم مشن کواس شعر سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں:

شورش عندلیب نے روح چمن پھونک دی      ورنہ مست ناز خو اب تھی اس چمن کی کلی کلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  *ریسرچ اسکالر ، شعبہ فارسی ، لکھنو یونیورسٹی

حواشی

(1) سرھندی، حضرت شیخ احمد فاروقی، مجدد الف ثانی، مکتوبات امام ربانی، دفتر اول، مکتوب 23

(2) ایضا

(3) ایضا، دفتر اول مکتوب 199

(4) ایضا،  دفتردوم، مکتوب 26

(5) ایضا،دفتر اول مکتوب 21

(6) ایضا، دفتر اول، مکتوب 206

(7) ایضا، دفتر دوم، مکتوب 48

(8) ایضا، دفتراول،مکتوب 194

(9) ایضا، دفتر اول،مکتوب 158

(10)ایضا،دفتر دوم، مکتوب 45

(11) ایضا، دفتر اول، مکتوب 213

(12) ایضا، دفتر اول مکتوب 140

(13)  ایضا، دفتر اول، مکتوب 251

(14) ایضا، دفتر اول، مکتوب 117

(15) ایضا، دفتر اول، مکتوب 207

(16) ایضا، دفتراول،مکتوب 120

(17) ایضا، دفتر دوم، مکتوب 52

(18) حیح بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، رقم الحدیث 10

(19) سرھندی، حضرت شیخ احمد فاروقی، مجدد الف ثانی، مکتوبات امام ربانی،دفتر سوم، مکتوب 45

(20) صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ باب تحریم الکبر، رقم الحدیث 6680

(21) سرھندی، حضرت شیخ احمد فاروقی، مجدد الف ثانی، مکتوبات امام ربانی،دفتر دوم، مکتوب 99

(22)  ایضا،دفتر دوم،مکتوب 53

(23) ایضا، دفتر دوم، مکتوب 90

(24) ایضا، دفتر اول،مکتوب 74

(25) ایضا، دفتر سوم، مکتوب 7

(26) ایضا، دفتر اول، مکتوب 204

(27) ایضا، دفتر سوم، مکتوب 6

(28) ایضا۔

(29) ایضا، دفتر دوم، مکتوب 75

(30) ایضا، دفتر اول، مکتوب 140

(31) ایضا، د فتر اول، مکتوب 224

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *