محمد ینظرون*

منشی نول کشور انیسویں صدی کے مایہ نازناشر، روزنامہ اودھ اخبار کے مدیر اور نثر نگار کی حیثیت سے پوری دنیائے ادب میں جانے جاتے ہیں۔ وہ ایسے خاندان سے وابستہ تھے کہ لوگ انہیں محض ایک زمیندار گھرانے کا چشم وچراغ سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اپنی گرانمایہ علمی، ادبی اور صحافتی واشاعتی خدمات سے اردو زبان وادب کی تاریخ میں ایسا مقام حاصل کیا کہ آج تک دنیاحیرت زدہ ہے۔ ان کی پیدائش ریڑھاگاؤں جوضلع علی گڑھ میں واقع ہے3/جنوری 1836ءکوریڑھ گاؤں ضلع علی گڑھ کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے آباؤاجداد برہمن (پنڈت) تھے۔ ان کے والد جمنا پرساد بھارگوعلی گڑھ کے مشہور ومعروف زمیندار تھے۔ انہوں نے گاؤں کے مکتب سے عربی، فارسی، اردواورہندی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آگرہ کالج کے ثانوی درجات میں داخلہ لیا اور پانچ سال تک وہاں تعلیم حاصل کی، آگرہ کالج نے منشی نول کشور کو سچا علم دوست بنایا۔ ذہانت وفطانت کے ساتھ ساتھ لکھنے کا سچا ذوق رکھتے تھے۔ مضمون نگاری میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ آگرہ سے ایک اخبار نکلتا تھا جو اس وقت آسمان کی بلندیوں پر چل رہا تھا۔ منشی نول کشورنے اپنا مقالہ لکھنا شروع کیا جو ْسفیرٗ کے نام سے اردو دنیا میں مقبول تھا۔ اسی دوران ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور صحافی منشی ہرسکھ رائے سے ہوئی جو لاہور سے ایک شہرہ آفاق اخبار ” کوہ نور” کے نام سے نکالتے تھے۔ہرسکھ رائے ان کے علمی ذوق وشوق سے متاثر ہوکرہرسکھ رائے نے انھیں آگرہ سے لاہور آنے کا مشورہ دیا۔ منشی جی نے رائے صاحب کے مشورہ کو عملی جامہ پہنایا اور آگرہ سے لاہور چلے گئے۔ جہاں ْکوہ نورٗ سے وابستہ ہوگئے کوہ نور نے ان کے علمی ادبی اور صحافتی ذوق کو پروان چڑھایا۔ اس ادارہ نے انہیں چار سال خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا۔ منشی جی نے صحافت میں اپنے خلوص، لگن،اورایمانداری کا بہترین مظاہرہ کیا۔ اس وقت لاہور میں بہت سارے کام صحافت پر چل رہے تھے۔ لیکن منشی نول کشور نے جو کام کیاوہ رہتی دنیا تک ایک مثال ہے۔ منشی جی کے ادبی اورعلمی ذوق کو رائے صاحب بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ۹۱فروری1895ءکو دہلی میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔

لاہور سے واپس آنے کے بعد نوابوں کے شہر لکھنؤمیں انہوں نے ْاودھ اخبارٗ کے نام سے1858ءمیں ایک مطبع کی بنیاد رکھی ۔ اس وقت ہندوستان پر برطانیہ حکومت کا غلبہ تھا۔ اور پریس چلانابڑے جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ لیکن منشی جی بڑی بہادری سے اپنے عزم اور ارادے میں کامیاب ہوئے۔ ا س مطبع کے ذریعہ بہت ساری زبانوں کی کتابیں شائع کیں۔ جن میں عربی، فارسی، اردو اورہندی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب سے تعلق رکھنے والی بہت ساری کتابیں بھی اس مطبع سے شائع ہوئیں بہت سی کتابوں کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ جیساکہ سید سلیمان ندوی 16جنوری 1937ءکے اپنے ایک خطبہ صدارت میں کہتے ہیں:

“سب سے آخر لکھنؤ کے اس مطبع کانام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسی(80) برس کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نول کشور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد 1858ءمیں قائم ہوا اور بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقی علوم وفنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں۔ ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کرسکتا۔ ہماری زبان کی اکثر ادبی اور علمی کتابیں اسی مطبع سے چھپ کر نکلیں شعراءکے دواوین، مثنویاں، قصائد، قصے، افسانے، داستانیں اور اس کی عام کتابیں سب اسی کوششوں کی ممنون ہیں۔”

                                                                                    (نقوش سلیمانی؛ص:77؛ طبع اول:1939ء)

منشی نول کشور نے اپنے مطبع میں ایک دارلترجمہ بھی قائم کیا تھا جہاں کتابوں کو ملک کی دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کا نظم تھا ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ باذوق لوگوں کو پریشانی نہ ہو اور کتابیں آسانی سے دستیاب ہوسکیں۔ اس مطبع نے تقریباً چار ہزار کتابیں شائع کیں۔ منشی نول کشور کے اس مطبع میں تقریباً بارہ سو کارکنان اپنے کام کو بخوبی نبھاتے تھے۔ یہ مطبع اس وقت ایشیاءکا دوسرے نمبر کا مطبع بن کر اردو دنیا میں روشن ہوا۔ اس پریس کے ذریعہ بہت ساری اہم اور قابل ذکر کتابیں شائع ہوئیں۔ جس میں تقریباً اٹھارہ ہزار صفحات پر مشتمل کتاب “طلسم ہوش ربا” بھی ہے۔ منشی جی ہندو تھے۔ لیکن وہ ہر مذہب کی عزت دل وجان سے کرتے تھے۔ کیوں کہ ان کے اندر مذہب کے بارے میں کوئی غلط خیال نہیں تھا۔ بلکہ وہ ہندوستان کی تکثریت کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ اس لئے انھوں نے ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی شائع کئے۔ ان کے مطبع میں جب قرآن پاک کی پروف ریڈنگ کا وقت آتا تومنشی جی خود وضو کرکے پروف ریڈنگ کرتے اور دوسرے کارکنان کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔ قرآن مجید کی طباعت کے وقت منشی جی وکارکنان پاک صاف اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر کام میں لگ جاتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک قرآن پاک سب سے مقدس کتاب تھی اس لیے وہ اہتمام کرتے تھے جس سے قرآن کی کسی قسم کی بے حرمتی نہ ہوسکے۔ہندوؤں کی مقدس کتابیں بھگوت گیتا ، رامائن اور اپنیشد بھی اس مطبع سے چھپتی تھیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب بھی اسی پریس سے شائع ہوئی تھی۔ بھگوت گیتا ، رمائن اور بہت سی دیگر کتابوں کا ترجمہ بھی اردو، فارسی زبان میں انہوں نے کرایاتھا۔ قرآن مجید کے بھی ہندی و دیگر ملکی زبانوں میں ترجمے شائع کئے۔ تاکہ غیر زبان جاننے والوں کو پڑھنے میں کوئی دقت محسوس نہ ہو۔ لکھنؤ اس کا مرکز تھا۔ اس کی شاخیں ہندوستان کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں تھیں جیسے کانپور، آگرہ، دہلی، لاہور، اجمیر، پٹیالہ، الہ آباد اور جبل پور وغیرہ۔

منشی نول کشور کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب تک دنیا قائم رہے گی اوراردو، ہندی، فارسی، سنسکرت اورعربی زبانوں کا چلن رہے گا ان کانام بھی زندہ رہے گا۔ انہوں نے اپنے مطبع سے جتنی بھی کتابیں شائع کی ہیں۔اپنے آپ میں ایک مثال بن کراردو دنیا میں اہمیت کی حامل ہیں۔ منشی جی نے ایک بہت بڑاکام یہ بھی انجام دیا تھا کہ 26نومبر1858ءکو “اودھ اخبار” کا اجراءکیا ،اس اخبار نے اپنی چھاپ صرف بر صغیرہندوپاک پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر چھوڑی ہے۔ بقول مرزاغالب:

“اس چھاپ خانہ نے جس کسی کا بھی دیوان چھاپاہے اس کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔”

                                                            (نیا دور؛ منشی نول کشورنمبر:نومبر،دسمبر1980ء؛ ص:193)

منشی نول کشور نیک دل انسان تھے۔ ان کو اگر کسی کے بارے میں یہ معلوم پڑ جاتا تھاکہ یہ انسان کسی زبان کا ایک اچھا تجربہ کار ہے اور وہ کسی مخصوص صلاحیت کا حامل ہے تو ان کو وہ بہت عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جب منشی نول کشور جی کو کسی فن پارے کے بارے میں کسی سے معلوم ہوتا تو وہ اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش میں لگ جاتے تھے اور پوری ایمانداری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے تھے۔ منشی جی نے اپنی 59سالہ زندگی میں بہت سے کارنامے انجام دیئے جن میں بطور خاص مطبع نول کشور کا قیام اور”اودھ اخبار“ قابل ذکر ہیں اور یہ دونوں کام اردو دنیائے ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ”اودھ اخبار“ کو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ کیوں کہ اس اخبار میں روز روز کی نئی نئی خبریں درج رہتی تھیں۔ ملک سے باہر اس کے خبر نویش ایمانداری کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیتے تھے اس طرح ”اودھ اخبار“ پوری علمی دنیا میں اپنا نام روشن کئے ہوئے تھا۔ اور اس نے ہندوستان کی اردوصحافت کی ایک الگ پہچان بنالی تھی۔ اودھ اخبار صرف خبروں کے لئے مشہور و معروف نہیں تھا بلکہ اس میں بہت سے مضامین شائع ہوتے تھے۔ جن کو لوگ بہت پسند کرتے تھے اس اخبار میں ادبی وعلمی مضامین، ممتاز فارسی گو شعراءکے کلام، افسانے، تنقید و تبصرے اوربہت سے سرکاری اعلانات بھی شامل ہوتے تھے تاکہ ہر طرح کے لوگ اس اخبار سے مستفید ہوسکیں۔

اسی وجہ سے مرزاغالب کو بھی اس اخبار سے بڑی رغبت ہوگئی تھی چنانچہ وہ “اودھ اخبار” کو بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ اسی وقت غالب کو منشی نول کشور سے ملنے کی خواہش ہوئی اور وہ دسمبر 1863ءکو دہلی میںایک پرانے دوست کی حیثیت سے ملے۔ غالب ان سے بہت متاثر ہوئے۔ کیوں کہ ان کے ملنے کاانداز بہت نرالاتھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صحافت واشاعت میں صر ف کیا۔ بہت سارے اخبار منشی جی نے اپنے کارخانہ سے شائع کئے لیکن دنیاءادب میں ’اودھ اخبار‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ اس وقت اور بہت سارے اردو اخبارات شائع ہوتے تھے۔ جن میں ’کوہ نور، پنجابی اخبار، اخبار عالم، اکمل الاخبار ، وکٹوریہ اخبار، تہذیب الاخلاق، شعلہ طور، احسان الاخبار، علی گڑھ گزٹ ، دبدبہ سکندری“ وغیرہ کا نام بطور مثال لیا جاسکتا ہے۔ ابتدائی مراحل میں اودھ اخبار پندرہ روزہ تھا۔ لیکن بعدمیں روزنامہ ہوگیا۔ اس وقت مقالہ نگاروں اور نامہ نگاروں کو ان کی محنت کا پھل نہیں ملتا تھا۔ لیکن منشی جی نے اودھ اخبار میں مقالہ لکھنے والوں اور نامہ نگاروں کو ان کی محنت کے مطابق ان کو معاوضہ دینے کی شروعات کی۔ ْاودھ اخبارٗنے اپنے آپ کو صرف ہندستان میںسمیٹ کر نہیں رکھا بلکہ اس وقت کے سپر پاور ممالک انگلینڈ وفرانس اور دوسرے ممالک میں بھی اپنی الگ پہچان بنالیاتھا۔اور ایک موقراخبار کی حیثیت سے وہاں کی عوام میں مشہور ومقبول بھی تھا۔ اودھ اخبار میں مقالہ لکھنے والوں کا ایک ہجوم لگا رہتا تھا۔ جس میں سر سید اور مرزا غالب جیسی شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ یہ اخبار ہندو، مسلم اتحاد کا علمبردار اور سماجی خدمات کا ترجمان بھی تھا۔ گارساں دتاسی اس کے بارے میں رقم طراز ہیں:

“یہ اخبار پچھلے سات سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ نکل رہا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر اشاعت پچھلی اشاعتوں سے بہتر نظر آتی ہے۔ اس کی تقطیع اور صحافت کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ اخبار ہفتہ وار ہے اور ہر چہار شنبہ کے روز شائع ہوتاہے۔ شروع شروع میں اس میں صرف چار صفحے ہواکرتے تھے اور وہ بھی چھوٹی تقطیع پر پھر چھ ہوئے اور پھر سولہ اور اب وہ اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہوتاہے پہلے کے مقابلے میں اس کی تقطیع بھی بڑی ہوگئی ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ ضخیم اخبار ہندوستان بھر میں اور کوئی نہیں ہے۔”

(نیادور نمبر؛ منشی نول کشورنمبر؛ نومبر، دسمبر1980ءص:40)

منشی نول کشور کے مطبع اور ان کے اخبا رنے اردو زبان وادب کی جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ اتنی وسیع اور اہم ہیں کہ کسی ایک مضمون میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے تو ایک پورا دفتر درکارہے۔

اس مضمون میں منشی نول کشور اور ان کے کارناموں پر صرف ایک اجمالی نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ منشی نول کشور کے علمی ادبی کارنامے اتنے عظیم ہیں کہ وہ ہندوستان کی علمی ادبی اور تہذیبی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب بن گیاہے۔ جو ہمیشہ ہندوستان کی علمیت و دانشوری کو بھی روشن رکھے گا۔ ان کے انہیں علمی ،ادبی اور تہذیبی کارناموں سے متاثرہوکر اس وقت کی انگریز گورنمنٹ نے انہیں”قصیر ہند”کے خطاب سے بھی نوازاتھا۔

*ریسرچ اسکالر شعبہ  عربی، فارسی، اردو اسلامی مطالعات
وشوبھارتی، شانتی نیکیتن، پچھم بنگال

Email:mohdyanzoroon2@gmail.com

Mobile No.:8345865036

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *