فواز رحمانی

حسین آباد، مبارک پور سے متصل چھوٹی سی بستی ہے، جس کی کل آبادی دو ہزار سے زیادہ نہ ہوگی، اس چھوٹی سی بستی نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں عالم اسلام کو تین انمول ہیرے دیا، جن کی علمی خدمات سے پوری دنیا واقف ہے

1. حضرت مولانا عبد الصمد بن محمد اکبرحسین آبادی (۱۹۴۸ء)/شارح سنن ابن ماجہ۔

2. حضرت مولانا صفی الرحمن بن عبد اللہ مبارک پوری (۱۹۴۳ء-۲۰۰۶ء) صاحب الرحیق المختوم ومنۃ المنعم شرح صحیح مسلم۔ یہ دونوں حضرات درس وتدریس، تصنیف وتألیف اور دعوت وارشاد میں اپنے معاصرین پر سبقت لے گئے۔

3. حضرت مولانا ظہیر الدین بن عبد السبحان رحمانی اثری مبارک پوری (1920ء – ۲۰۱۷ء)، آپ نے اگرچہ اپنے پیچھے کوئی خاص تألیف نہیں چھوڑی ہے، لیکن پورے استقلال کے ساتھ تقریبا ۷۰ برس درس جاری رکھا، جس سے پوری دنیا میں بے شمار لوگوں نے فیض اٹھایا۔

نام ونسب:  ظہیر الدین بن عبد السبحان بن محمدبھادر، والدہ کانام خدیجہ بنت حافظ نظام الدین سریانوی اور  کنیت ابو ذو القرنین سراج الدین ہے۔

ولادت: آپ کی ولادت  با سعادت  مبارک پور  سے متصل بستی  حسین آباد ۱۹۲۰  میں ہوئی۔ آپ  کے والد  ماجدمعمولی  پڑھے  لکھے مگر غیرت مند اہل حدیث تھے،  بنیادی طور  پر  وہ  ایک  کسان  تھے اور محنت مشقت کرکے اپنا  گذر  بسر  کرتے  تھے، مولانا تین  بھائیوں میں منجھلے  تھے، بڑے  بھائی کا نام نذیر اللہ اور چھوٹے  بھائی  کا نام  عبد العلی  ہے، ایک بہن مقیمہ جو مولانا سے بڑی تھیں،  مولانا تیسرے  نمبر  تھے، عم محترم  حضرت مولانا عبد الرحمن رحمانی/ حفظہ اللہ وشفاہ کے بیان کے مطابق ایک اور بھائی احمد علی تھے، جو جامن کے درخت سے گر کر وفات پاگئے تھے۔

نانیہال مین علم کا چرچا تھا، آپ کے نانا محترم حافظ نظام الدین سریانوی (1322ھ/1904) مشہور حافظ اور قاری تھے، بڑے حافظ عبد الرحیم مبارک پوری کے شاگرد تھے، تلامذہ کے ساتھ بنگال میں پیری مریدی  کا سلسلہ  کافی وسیع تھا[1]، اسی طرح ایک ماموں مولوی ممتاز سریانوی (۱۳۶۳ھ/۱۹۴۳)[2] بھی مدرسہ ‘‘چشمہء رحمت’’  غازی پورکے فیض یافتہ تھے، ان کے تلامذہ  اور متوسلین بہار ، بنگال اور آسام میں پھیلے ہوئے ہیں۔

تعلیم وتربیت

مدرسہ دار التعلیم مبارک پور: مولوی تک  کی تعلیم مدرسہ دار التعلیم میں مولانا محمد اصغر مبارک پوری اور مولانا احمد اللہ املوی سے حاصل کیا، درمیان میں چند کتابیں حضرت مولانا محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی سے  پڑھنے کا شرف حاصل ہوا،  جو آگے چل کر ہم عصروں پر تفوق اور امتیاز کا  ذریعہ بنا۔

مدرسہ فیض عام، مئو ناتھ بھنجن: اس کے بعد حضرت مولانا محدث مبارک پوری کے ایماء پر مدرسہ فیض عام مؤناتھ بھنجن میں داخلہ لیا،  جہاں چھٹی جماعت تک مختلف اساتذہ سے اپنے دامن کو بھرتے رہے۔

دار العلوم، دیوبند: اس کے بعد اعلی تعلیم کے لئے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا، چند ماہ بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ ایک حادثہ نے تعلیمی سفر کا رخ موڑ دیا، اپنے ہم وطن ساتھیوں مولانا عبد الباری قاسمی مبارک پوری سابق ناظم جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور اور مولانا عبد الستار قاسمی مبارک پوری کے ساتھ مولانا اشرف علی تھانوی سے بہ غرض ملقات واستفادہ خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون پہونچے، ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے پر تھانوی صاحب نے ایک لات پیٹ پر اس قدر زور  سے  لگائی کہ گر کر تڑپنے لگے۔ [3]

دار الحدیث رحمانیہ دہلی: آپ کے والد محترم غیرت مند اہل  حدیث تھے، سالانہ تعطیلات  میں جب  جد  امجد حضرت  مولانا عبید  اللہ رحمانی وطن تشریف لائے، تو دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں داخل کر نے کی گذارش کی، شوال 1357ھ  مطابق دسمبر 1938 دار الحدیث رحمانیہ میں ساتویں جماعت میں داخلہ پاگئے، اس موقع پرحضرت شیخ الحدیث مبارک پوری نے مولانا کے والد کو تعریفی الفاظ میں خط لکھا کہ آپ کا بچہ دار الحدیث رحمانیہ میں ساتویں جماعت میں داخلہ  پاگیا  ہے، مگر مولانا کے والد نے اپنے عزیز حضرت شیخ الحدیث مبارک پوری کو لکھوایا کہ انہیں ایک درجہ نیچے کردیا جائے، تین سال دار الحدیث رحمانیہ میں رہیں گےتو مزید پختگی پیدا ہوگی۔[4]

حضرت مولانا احمد اللہ محدث دہلوی سے خصوصی استفادہ: حضرت مولانا ظہیر الدین رحمانی صاحب حضرات شیخین کی سرپرستی اور رہنمائی میں بالکل یکسو ہوکر  تعلیم میں مصروف ہوگئے، خالی اوقات میں حضرت مولانا احمد اللہ محدث دہلوی پرتاب گڈہی/مدرسہ زبیدیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر صحیح مسلم وغیرہ  بھی پڑھتے رہے۔[5]

جس وقت آپ دار الحدیث رحمانیہ میں  جماعت سادسہ میں داخلہ لیا، اس وقت کلاس میں حافظ عبد الخالق رحمانی کھنڈیلوی، حکیم ضیاء الدین اللہ آبادی اور حکیم محمد اکبر  فاروقی پرتاب گڑھی موجود تھے، آخر الذکر دونوں حضرات نے کسی وجہ سے اُسی سال تعلیم ترک کرکے طبیہ کالج قرول باغ چلے گئے تھے، فراغت تک یہی دونوں حافظ عبد الخالق رحمانی کھنڈیلوی اور حضرت مولانا ظہیر الدین رحمانی اثری رہے، فراغت کے زریں موقع پر حضرت مولانا حافظ عبد الخالق رحمانی کو سند فراغت، جبہ ودستار، حضرت مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی کی کتاب فصل الخطاب، جماعت میں اول اور عربی میں تقریر کرنے پر نقد رقم دی گئی، جب کہ حضرت مولانا ظہیر الدین رحمانی کو  سند فراغت، جبہ ودستار اور کتاب فصل الخطاب دی  گئی۔[6]

اسی طرح دورہ حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولاناثناء اللہ امرتسری کے پوتے مولانا رضاء اللہ رحمانی امرتسری اور مولانا عبد الشکور بسکوہری تھے۔[7]

دیگر اہل علم سے استفادہ: دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں مختلف اہل علم کی برابر آمدورفت رہتی تھی، ان سے بھی حسب موقع فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، جن میں شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، حضرت مولانا سید داود غزنوی، حضرت مولانا ابو القاسم سیف محدث بنارسی، مفسر قرآن حضرت مولانا محمد ابراھیم سیالکوٹی، حضرت مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی، حضرت مولانا محمد یونس پرتاب گڈہی، حضرت مولانا محمد جونا گڈہی، حضرت مولانا ابو الکلام آزاد، حضرت مولانا اساعیل گونجرانوالہ، حضرت مولانا عبد الجبار محدث کھنڈیلوی، حضرت مولانا عبد السلام بستوی، ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ھند، حافظ اسلم جے راج پوری اور عبد اللطیف اعظمی (جامعہ ملیہ اسلامیہ)، حضرت مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی  وغیرہ سر فہرست ہیں۔[8]

دار الحدیث رحمانیہ دہلی کی تمام علمی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے، تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر، مناظرہ وغیرہ بھی میں پیش رہتے تھے، ابتدا میں شعر وشاعری سے بھی شغف تھا، ظہیر کےتخلص سے اپنا کلام موزوں فرماتے تھے، حضرت شیخ الحدیث مبارک پوری کی تنبیہ پر شاعری کو بالکل چھوڑ دیا، ذیل کی نظم ماہنامہ ‘‘محدث’’ شمارہ نمبر: ۱۱ جلد نمبر: ۶ محرم ۱۳۵۸ھ/مارچ ۱۹۳۹ءمیں موجود ہے، جو شائد حضرت مولانا کی آخری کاوش رہی ہو:

دیوِ استبداد کے ظلم وستم سے تو نہ ڈر چاہتا ہے اس جہاں میں حشمت وعزت اگر
دیکھ پامالِ ستم ہے مسلمِ آشفتہ حال اٹھ خدا را اُٹھ تو اِن باطل خداؤں سے تو نہ ڈڑ
جن کے دامن سے وابستہ ہزاروں بجلیاں وہ مٹانا چاہتے ہیں تجھ کو اے شوریدہ سر
دیکھ گردن ہے تری شمشیر دو دم کے تلے اب سے پیدا کرلےتو کچھ اپنے نالوںمین اثر
اٹھ نکل میدانمیں جوش عمل کے ساتھ ساتھ چھید تیر نظرِ سے سب کے تو قلب وجگر
انقلاب نو کی خاطر اٹھ تو اس انداز سے چیر دے گردوں کے دل کو ترا تیر نظر

اساتذہ:

(مدرسہ دار التعلیم، مبارک پور)

حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ  الاحوذی (۱۹۳۵)(تلمیذ رشید حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی صاحب)۔ ان سے ہدایۃ النحو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، اجازت حدیث بھی حاصل تھی۔

مولانا احمد اللہ املوی (وفات: ۱۹۶۸ء): (شاگرد حضرت مولانا ابو الحسنات عبد الحیی فرنگی محلی لکھنؤی)، ان سے ہدایۃ النحو اور کافیۃ پڑھی ہے۔

حضرت مولانا عبد الصمد محدث حسین آبادی (وفات: ۱۹۴۸):  عربی کی بنیادی کتابیں۔

مولانا محمد اصغر مبارک پوری(—):  ہدایۃ النحو اور عربی کی دیگر ابتدائی کتابیں پڑھی ہیں۔

حافظ عبد العزیز حسین آبادی۔

منشی اخلاق املوی۔

منشی محمدظہیر صاحب۔

(مدرسہ فیض عام مؤناتھ بھنجن)

حضرت مولانا احمد حسام الدین مؤی (شاگرد حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی صاحب): مشکاۃ المصابیح اور ملا جامی کا درس لیا۔

حضرت مولانا عبد الرحمن نحوی مؤی۔

حضرت مولانا عبد اللہ شائق مؤی: سنن ترمذی، بلوغ المرام، معلقات سبعہ اور حماسہ کا درس لیا ہے۔

قاری عبد السبحان مؤی:

مولانا عبد العلی طرفدار:

(دار الحدیث رحمانیہ، دہلی ودیگر)

حضرت مولانا احمد اللہ محدث دہلوی (وفات: ۱۹۴۱ء) (شاگرد رشید حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی صاحب): صحیح مسلم، حدیث مسلسل بالاولیہ، حدیث مسلسل بالمحبۃ۔

حضرت مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری (۱۹۹۴): صحیح بخاری، سنن ابو داود، موطأ امام مالک، منتقی الاخبار مجد الدین ابن تیمیہ۔

حضرت مولانا نذیر احمد املوی رحمانی (۱۹۶۵): صحیح مسلم، ھدایۃ۔

حضرت مولانا اصحاب الدین پشاوری: تفسیر بیضاوی اورجلالین پڑھا ہے۔

حضرت مولانا عبد الحلیم قندہاری: اشارات ابن سینا۔

حضرت مولانا عبد الجلیل رحمانی بستوی: جامع  ترمذی، مقامات حریری اور امام زمخشری کی مفصل کا درس لیا ہے۔

(دار العلوم ،دیوبند)

حضرت مولاناحسین احمد مدنی:

حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی: جامع امام ترمذی۔

درس وتدریس:

بڑی عجیب بات ہے کہ مولانا نے کبھی ملازمت کے لئے درخواست نہیں دی، بلکہ خود بہ خود پیش کش ہوتی رہی اور وہاں پہونچتے رہے۔

مدرسہ دار التعلیم مبارک پور: سب سے پہلے مادر علمی مدرسہ دار التعلیم مبارک پور  سے وابستہ ہوئے، اس وقت مدرسہ  کو کافی مشکلات کا سامنا تھا، بلا معاوضہ خدمت انجام دیتے رہے۔

مدرسہ قاسم العلوم آگرہ: اسی درمیان مدرسہ یعقوبیہ لدھیانہ سے زور دار پیش کش آئی، اس وقت دہلی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس (غالبا ۱۹۴۵)بھی منعقد ہونے والی تھی، خیال تھا کہ شرکت کرکے مدرسہ یعقوبیہ کے لئے لدھیانہ روانہ ہوجائیں گے، کانفرنس میں شرکت کے لئے آگرہ سے الحاج محمد یوسف ناظم مدرسہ قاسم العلوم آگرہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے، انہوں نے مولانا عبید اللہ رحمانی سے حالات سن رکھے تھے، محترم ناظم صاحب کی پیش کش اور استاز گرامی مولانا عبید اللہ مبارک پوری کی ہدایت پر مدرسہ قاسم العلوم، ککو گلی، آگرہ چلے گئے، لیکن ایک ہفتہ سے زیادہ نہ رک سکے اور استعفی دے کر واپس گھر آگئے۔

مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ: کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر سید محمد فرید ناظم مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا دعوت نامہ آیا، مدرسہ احمدیہ سلفیہ  دربھنگہ میں  قیام و طعام موافق نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر واپس آگئے،

مدرسہ محمدیہ رائے درگ: اس کے بعد مدرسہ محمدیہ عربیہ رائدرگ سے دعوت ملی تو وہاں تشریف لے گئے، لیکن چھ ماہ بعد وطن واپس آکر استعفی بھیج دیا، ناظم جامعہ مولانا سید اسماعیل صاحب اور مولانا مفتی عبد العزیز عمری اور مولانا فضل الرحمن عمری صاحبان کے اصرار پر استعفی واپس لے لیا، ۱۹۴۸ء میں دوبارہ رائدرگ پہونچ کر مسند کو سنبھال لیا، ۱۹۴۹ء میں اہلیہ کا اچانک وطن حسین آباد میں انتقال ہوگیا، جنازہ میں شرکت نہ کر پانے کا افسوس ہوا، اسی لئے ۱۹۵۰ میں مولانا سید اسماعیل کی خواہش پر رائدرگ میں دوسری شادی  کرکے مستقل سکونت اختیار کرلی۔

چند سال کے بعد بعض اختلافات کی وجہ سے مدرسہ محمدیہ رائدرگ سے مستعفی ہوگئے۔

جامعہ دار السلام عمر آباد: اسی درمیان جامعہ دار السلام عمر آباد سے ملازمت کے لئے پیش کش ہوئی، ۱۵ نومبر ۱۹۵۸ء میں عمر آباد پہونچے، اور تب سے لے کر آخری وقت تک وہیں مقیم رہے۔[9]

آپ کی ذات سے بے شمار لوگوں کو فیض پہونچا، دار الحدیث رحمانیہ دہلی کا زریں علمی سلسلہ دیر تک نہ صرف جنوبی ہند  بلکہ پوری دنیا کو بڑی آب وتاب کے ساتھ سیراب کیا، اس لحاظ سے حضرت مولانا ظہیر الدین رحمانی صاحب کی آخری دہائی بڑی تابناک گذری کہ اہل علم کشاں کشاں عمر آباد جیسی دور دراز بستی حاضر ہوتے، مختلف کتب علوم حدیث پڑھتے اور سند اجازت کے طالب ہوتے، اسی طرح جن کے لئے ہندوستان کا سفر مشکل ہوتا، وہ عصر حاضر کے برق رفتار ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فون اور موبائل کے واسطہ سے احادیث نبویہ پڑھ کر اپنی سند کو ‘‘عالی’’ کرتے، حضرت مولانا مبارک پوری بھی بڑے خوش نصیب تھے کہ عمر عزیز کے اس پڑاؤ  پر جہاں انسان تھک ہار کر گوشہ نشین اور عضو معطل ہوکر رہ جاتا ہے، مصروفیت ہی نہیں بلکہ انتہائی مصروفیت کے ساتھ ایک ایک لمحہ علوم کتاب وسنت کی نشر واشاعت میں گذارا۔

آخری دور میں آپ کی طرف رجوع عام اور مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا، دور دراز مختلف اہل علم کےلئے کشش اس کی تین وجہیں ہیں:

ٌ حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور حضرت مولانا احمد اللہ محدث دہلوی جیسی عظیم شخصیتوں سے  آخری  دور  میں شرف  تلمذ  اور  سند  اجازہ۔

ٌ درازی عمر اور  وقت میں برکت۔

ٌ علوم اسلامیہ بالخصوص حدیث اور علوم حدیث کی بے لوث طویل خدمت۔

تلامذہ: حضرت مولانا ظہیر الدین رحمانی اثری بڑے خوش نصیب رہے ہیں، چوٹی کے اساتذہ کو آخری عمر میں پایا، اللہ تعالی نے دراز عمر کے ساتھ ایک مرکزی درسگاہ میں مسند تدریس بھی بخشی، آپ کے تلامذہ دنیا کے مختلف خطوں میں کتاب وسنت کی نشر واشاعت میں مصروف ہیں، چھوٹے چھوٹے مدارس سے لے کر بڑے مدارس اور جامعات، ھند وبیرون ھند پھیلے ہوئے ہیں، کئی نسلیں آپ سے فیض یاب ہوئی ہیں۔ صحیح معنوں میں آپ ملحق الاصاغر بالاکابر یا ملحق الاحفاد بالاجداد ہیں۔

آپ نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم جامعہ محمدیہ رائےدرگ میں دس سال پڑھایا ہے، سنن ابو داود جامعہ دار السلام عمر آباد میں پچاس سال تک متواتر  پڑھایا ہے، مقدمہ ابن خلدون چالیس مرتبہ پڑھایا ہے، اسی طرح مختلف اوقات میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب مختصرقدوری، تاریخ امت اسلامیہ حافظ  اسلم جےراج پوری ودیگر  کتابیں  پڑھائی  ہیں۔

نامور تلامذہ میں چند کے نام پیش کیا جا رہا ہے:

ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی/ سابق استاذ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ۔

مولانا انیس الرحمن عمری مدنی/ سابق استاذ جامعہ سلفیہ بنارس وجامعہ محمدیہ مالیگاؤں وامیر جمعیت اہل حدیث صوبہ تامل ناڈو۔

ڈاکٹر عبد اللہ جولم مدنی/ استاذ دار السلام عمر آباد۔

ڈکٹر آر کے نور محمد مدنی عمری۔

ڈاکٹر عبدالرب ثاقب سلفی عمری برطانیہ۔

مولانا عبد الہادی عمری مدنی /امیر مرکزی جمعی اہل حدیث برطانیہ۔

مولانا محمد حفیظ اللہ خان المدنی/مدیر مسئول ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم برطانیہ۔

شیخ نور الحسن عمری مدنی بنگلور۔

حدیث کی سند لینے والوں میں سر فہرست: ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس امام حرم مکی، ڈاکٹر عبد المحسن القاسم امام حرم مدنی، ڈاکٹر عبد العزیز الفریح/استاذ جامعہ اسلامیہ مدینہ، شيخ محمد بن فاروق الحنبلي مصر، محمد زياد بن عمر التكلة، ڈاکٹر وليد بن إدريس المنيسي وغیرہم ہیں۔

عرب ممالک کے اہل علم کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہندوستان میں حدیث کی سند عالی رکھتے ہیں تو انہوں نے دورہء حدیث اور سندِ حدیث کےلیے دعوت دینا شروع کیا، اس سلسے میں انہوں نے کویت، متحدہ عرب امارات، مملکت سعودی عرب، قطر اور امریکہ کا سفر کیا ہے، ہزاروں افراد نے حدیث کی سند عالی حاصل کیا ہے، آخر وقت تک فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ دروس کا سلسلہ جاری رہا، انتقال سے ایک ہفتہ قبل ایک دورہ علمیہ بنگلور میں شرکت کرکے عمر آباد لوٹے تھے۔ مختلف ممالک کے اہل علم حضرات امریکہ ،اسپین، لبنان، واشنگٹن اور دوسرے یورپی ممالک سے روزانہ اہل علم استفادہ کرتے تھے، اس عمر میں بھی حضرت مولانا اثری درس وتدریس اور افادہ خلق میں جواں ہمت نظر آتے تھے۔

انتقال: آپ کی وفات ۱۴بہ روز سوموار ۲۱/11/1438ھ مطابق ۱۴/۸/۲۰۱۷ء کو رات آٹھ بجے ہوئی، اگلے دن منگل ۱۵/8/۲۰۱۷ء کو تدفین ہوئی، نماز جنازہ ڈاکٹر عبد اللہ جولم مدنی نے پڑھائی۔

آپ کی پر ملال وفات کی خبر عالم اسلامی میں بڑے رنج والم سے سنی گئی،  مشہور چینل الجزیرہ  نے درج  ذیل خبر  نشر  کیا:

توفي الاثنين العالم المسند أحد أعلام الحديث بشبه القارة الهندية، الشيخ ظهير الدين المبارك فوري الرحماني الأثري الهندي، وصاحب أعلى إسناد بصحيح مسلم، وتلميذ المحدث أحمد الدهلوي، والمحدث الشهير المباركفوري، ويعد الفقيد من المحدثين البارزين في الهند والعالم الإسلامي، وله مشاركات كثيرة في علم الحديث تذكّر بالعلماء الأوائل في هذا المجال.

ولد الشيخ ظهير الدين عام 1923، ووالده الشيخ عبد السبحان حسين آبادي. قرأ الشيخ المبارك فوري القرآن الكريم صغيرا على أمه خديجة، ودرس المرحلة الابتدائية في مدرسة صغيرة بقريته حسين آباد ودرس المرحلة المتوسطة في ولاية يوبي، وأتم دراسته في المدرسة الرحمانية بمدينة دلهي.

ويقول تلاميذه إن الشيخ ظهير الدين تفنن في 17 علما وفنا، منها علوم الحديث وأصول التفسير والتاريخ الإسلامي والمنطق، وله اختصاص وخبرة في تدريس سنن أبي داود ومقدمة ابن خلدون حيث درسهما أكثر من 40 عاما. المصدر : الجزيرة

‘‘آج بہ روز سوموار بر صغیر کے مشہور عالم دین، نامور محدث شیخ ظہیر الدین مبارک پوری رحمانی اثری ہندی، جو علامہ احمد اللہ محدث دہلوی اور مشہور محدث عبد الرحمن مبارک پوری کے شاگرد اور صحیح مسلم کی سب سے عالی سند رکھنے والے تھے کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ کا شمار ھندوستان اور عالم اسلام کے نامور محدثین میں ہوتا ہے، علم حدیث میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں، جو دور اول کے علماء محدثین کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

شیخ ظہیر الدین کی ولادت ۱۹۲۰ میں ہوئی، والد گرامی کانام شیخ عبد السبحان حسین آبادی ہے، بچپن میں قرآن کریم اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھا،، پرائمری کی تعلیم اپنے گاؤں کے چھوٹے سے مدرسہ میں مکمل کیا، متوسطہ کی تعلیم یوپی ہی میں تکمیل کیا، فراغت دار الحدیث رحمانیہ دہلی سے حاصل کیا۔

آپ کے بعض شاگردوں کا کہنا ہے کہ شیخ ظہیر الدین صاحب ۱۷ علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے، خاص طور سے علم حدیث، اصول تفسیر، اسلامی تاریخ اور علم منطق، آپ سنن ابو داؤد اور مقدمہ ابن خلدون پڑھانے میں نہایت مہارت رکھتے تھے، چالیس سال سے زیادہ پڑھایا ہے۔ الجزیرہ’’

الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين ينعي العالم المحدث الشيخ ظهير الدين المبارك فوري الرحماني الأثري الهندي رحمه الله تعالى

فقد تلقينا بقلوب مفعمة بالرضا بقدر الله، نبأ وفاة العالم الجليل الشيخ ظهير الدين المبارك فوري الرحماني الأثري رحمه الله تعالى وهو العالم المسند أحد أعلام الحديث بشبه القارة الهندية وقد توفي غروب يوم الإثنين الفائت.

والشيخ ظهير الدين هو صاحب أعلى إسناد بصحيح مسلم، وتلميذ المحدث أحمد الدهلوي، والمحدث الشهير المبارك فوري الذي أجازه في كتابه “تحفة الأحوذي شرح الترمذي”، وهو ابن ثمان سنين، ويعد الفقيد من المحدثين البارزين في الهند والعالم الإسلامي، وله مشاركات كثيرة في علم الحديث تذكّر بالعلماء الأوائل في هذا المجال.

وقد ولد الشيخ ظهير الدين عام 1923، ووالده الشيخ عبد السبحان حسين آبادي،  قرأ الشيخ المبارك فوري القرآن الكريم صغيراً على أمه خديجة، ودرس المرحلة الابتدائية في مدرسة صغيرة بقريته حسين آباد ودرس المرحلة المتوسطة في ولاية يوبي، وأتم دراسته في المدرسة الرحمانية بمدينة دلهي.

ويقول تلاميذه إن الشيخ ظهير الدين تفنن في 17 علماً وفناً، منها علوم الحديث وأصول التفسير والتاريخ الإسلامي والمنطق، وله اختصاص وخبرة في تدريس سنن أبي داود ومقدمة ابن خلدون حيث درسهما أكثر من 40 عاما.

        وقد فقدتْ الأمّة الإسلامية واحداً من قادتها المجاهدين وأحد علمائها الربانيين، نرجو من الله العلي القدير أن يغفر له، ويرحمه، ويعفو عنه، ويجزيه خير الجزاء، ويكرم نزله، ويوسع مثواه، ويدخله جنة الفردوس، ويحشره يوم القيامة مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين، وأن يلهم إخواننا في القارة الهندية وعموم المسلمين وذويه، وأهله، ومحبيه الصبر والسلوان. إنه نعم المولى ونعم المجيب.

الدوحة:  24 ذو القعدة 1438هـ

الموافق:16 اب – اغسطس 2017

أ.د علي القره داغي                                            أ.د يوسف القرضاوي

الأمين العام م                                                        رئيس الاتحاد

اسی طرح  اتحاد عالمی برائے مسلم علماء نے ۱۶ اگست ۲۰۱۷ء کو ایک تعزیتی بیان جاری جس کا خلاصہ پیش  کیا  جا رہاہے: ‘‘ہمیں بزرگ عالم دین شیخ ظہیر الدین مبارک پوری رحمانی اثری رحمہ اللہ تعالی کی وفات کا علم ہوا، جو برصغیر میں علم حدیث کے نہایت بزرگ عالم دین تھے۔

ان کی وفات سے امت اسلامیہ نے ایک مجاہد رہنما اور ربانی عالم کو کھویا ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے، اپنی رحمتوں سے نوازے، در گذر فرمائے، بہترین بدلہ عطا فرمائے، ان کی قبر کو کشادہ کرے، جنت الفردوس میں جگہ دے، قیامت کے دن انہیں انبیاء، صدقیین، شہداء اور صالحین کے ساتھ حشر کرے، اور بر صغیر  میں ہمارے مسلم بھائی، دیگر عام مسلمان، ان کے خاندان اور محبین کو صبر سے نوازے آمین ۔

دوحہ ۲۴/۱۱/۱۴۳۸ھ – ۱۶/8/2017ء

ڈاکٹر علی قرہ داغی/سکریٹری جنرل

ڈاکٹر یوسف قرضاوی/صدر اتحاد

الرباط ( إينا ) ــ نعت المنظمة الإسلامية للتربية والعلوم والثقافة – إيسيسكو- العلامة الشيخ ظهير الدين المباركفوري الأثري الذي توفي أمس في الهند.

وقالت الإيسيسكو: إن العلامة المباركفوري يعد أحد أعلام الحديث في شبه القارة الهندية، وصاحب أعلى إسناد لصحيح مسلم، وتلميذ المحدث أحمد الدهلوي، والمحدث الشهير المباركفوري الذي أجازه في كتابه “تحفة الأحوذي شرح الترمذي”، وهو ابن ثمان سنين، وقد كان من كبار المحدثين في الهند والعالم الإسلامي، وله مشاركات كثيرة في علم الحديث تذكر بكبار المحدثين الأوائل في هذا المجال، (رحمه الله وأسكنه فسيح جناته).

اسی طرح اسلامی تنظیم برائے تربیت ،علوم اور ثقافت(ایسیسکو) نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا:

‘‘علامہ ظہیر الدین مبارک پوری اثری گذشتہ کل وفات پاگئے

علامہ مبارک پوری بر صغیر میں علم حدیث کے نہایت بزرگ عالم، صحیح مسلم کی سب سے مختصر سند رکھنے والے، علامہ احمد اللہ محدث دہلوی اور مشہور محدث عبد الرحمن مبارک پوری صاحب ‘‘تحفۃ الاحوذی’’ (جنہوں نے آٹھ سال کی عمر میں اجازت حدیث سے نوازا تھا) کے شاگرد تھے، علامہ اثری مبارک پوری بذات خود بر صغیر اور عالم اسلامی کے کبار محدثین میں تھے، علم حدیث میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں، جو دور اول کے علماء محدثین کی یاد تازہ کرتی ہیں’’۔

ﻟﻘﺪ ﺑﻠﻐﻨﻲ ﻧﺒﺄ ﻭﻓﺎﺓ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﺍﻟﻌﻼﻣﺔ ﺍﻟﻤﻌﻤَّﺮ/ﻇﻬﻴﺮﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﻛﻔﻮﺭﻱ ‏(ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ‏).

ﻭﻳﻌﻠﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻟﻤﺎ ﺑﻠﻐﻨﻲ ﻧﺒﺄ ﻭﻓﺎﺗﻪ ﺃﺻﺎﺑﻨﻲ ﻣﻦ ﺍﻟﻜﺮﺏ ﻭﺍﻟﺤﺰﻥ ﻣﺎﻻ ﻳﻌﻠﻤﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ، ﻓﻘﺪ ﻻﺯﻣﺖ ﺍﻟﻘﺮﺍﺀﺓ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﻟﺒﻀﻊ ﺳﻨﻮﺍﺕ ﺧﺘﻤﺖ ﻓﻴﻬﺎ ﺍﻟﻜﺘﺐ ﺍﻟﺴﺘﺔ ﻭﺍﻟﻤﻮﻃﺄ ﺑﻌﺪﺓ ﺭﻭﺍﻳﺎﺕ ﺛﻢ ﻣﺴﻨﺪ ﺍﻟﺪﺍﺭﻣﻲ ﻭﺑﻀﻌﺔ ﺁﻻﻑ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ ﺍﻟﺤﻨﺒﻠﻲ ﻭﻛﺜﻠﻚ ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﻜﺒﺮﻯ ﻟﻠﻨﺴﺎﺋﻲ ﻭﻣﻄﻮﻻﺕ ﺃﺧﺮﻯ ﻭﻛﺬﻟﻚ ﺧﺘﻤﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﺑﻀﻊ ﻣﺌﺎﺕ ﻣﻦ ﺍﻟﻜﺘﺐ ﻭﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻭﺍﻟﻔﻀﻞ ….

ﻟﻘﺪ ﻭﺟﺪﺗﻪ ﺷﻴﺨﺎ ﺻﺒﻮﺭﺍ ﺣﻠﻴﻤﺎ ﻣﺤﺒﺎ ﻟﻄﻠﺒﺔ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﺿﺤﻮﻛﺎ ﺇﻟﻔﺎ ﻣﺄﻟﻮﻓﺎ ﻭﻳﺴﺘﺄﻧﺲ ﺑﻄﻠﺒﺔ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﻣﺠﺎﻟﺴﻬﻢ، ﻭﻟﻘﺪ ﺻﺒﺮ ﻳﻮﻣﻴﺎ ﻟﻠﻘﺮﺍﺀﺓ ﻋﻠﻰ ﻓﻀﻴﻠﺘﻪ ﻭﻛﺎﻧﺖ ﺗﻤﺘﺪ ﺃﺣﻴﺎﻧﺎ ﺇﻟﻰ ﺳﺎﻋﺘﻴﻦ، ﻭﺃﺣﻴﺎﻧﺎ ﺳﺎﻋﺔ ﻭﻧﺼﻒ، ﻭﺃﺣﻴﺎﻧﺎ ﺳﺎﻋﺔ، ﻭﺃﺣﻴﺎﻧﺎ ﻧﺼﻒ ﺳﺎﻋﺔ، ﻭﺃﺣﻴﺎﻧﺎ ﻟﺪﻗﺎﺋﻖ ﻣﻌﺪﻭﺩﺓ ﻭﺍﻷﺧﻴﺮﺓ ﻷﻣﺮ ﻃﺎﺭﻱﺀ …..

ایسے ہی ان کے ایک باذوق شاگرد محمد بن فاروق حنبلی اپنے پیج  پر  لکھتے  ہیں: ‘‘مجھے اپنے سن رسیدہ شیخ علامہ ظہیر الدین مبارک پوری کی وفات  کی خبر  ملی، اللہ تعالی ہی  بہتر  جانتا  ہے ان کی وفات سے کتنا غم اور رنج  لاحق ہوا  ہے، ادہر چند سالوں مستقل پابندی سے حضرت شیخ  پر  حدیث کی قراءت کا شرف حاصل  رہا، جس میں کتب ستہ، موطأ امام مالک بہ اختلاف روایات، مسند امام دارمی، مسند امام احمد بن حنبل کی چند  ہزار حدیثیں،  اسی طرح سنن کبری امام نسائی کی، حدیث کی دیگرکئی سو طویل  کتابیں،  پڑھ کر ختم کرنے کا موقع ملا وللہ الحمد  والفضل۔

اس دوران میں نے انہیں نہایت صابر، برد بار،طلبہ کے نہایت قدر داں، ہنس مکھ، اہل علم اور ان کی علمی مجلسوں کے نہایت گرویدہ، پڑہنے والوں سے بے تکلف تھے، (اس عمر میں بھی) آپ روزانہ (فون اور موبائیل) پر حدیث شریف کی قراءت کرنے والوں کو نہایت صبر کے ساتھ جو کبھی کبھی دو گھنٹے، ڈیڑھ گھنٹہ، ایک گھنٹہ، آدھا گھنٹہ اور کبھی کبھی کسی ایمرجنسی کی وجہ سے چند منٹ کی ہوتی تھیں’’۔

اسی طرح مختلف اہل علم کو یہ بھی شکایت رہی کہ حضرت مولانا اثری رحمانی کی خبر وفات جس طرح سے مختلف ذرائع ابلاغ میں آنی چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی۔

اولاد وازواج: آپ نے دو شادیاں کی تھیں، پہلی بیوی سے دو بیٹیاں تھیں:

  • مسعودہ۔
  • محمودہ۔

ان کے انتقال کر جانے کے بعد دوسری شادی رائدرگ میں کی، جن سے چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں:

  • ذوالقرنين سراج الدين۔
  • ذو الكِفلين نظام الدين۔
  • ذو النورين صلاح الدين۔
  • فايز الدين (صغر سنی میں فوت ہوگئے)۔
  • حميدة۔
  • سعيدة۔
  • وحيدة۔
  • فریدۃ۔ [10]

      افسوس کہ حضرت مولانا کی ذریت میں کوئی جانشین نہیں بن سکا، استاذ گرامی حضرت مولانا ممتاز احمد بن عبدالعلی عمری/استاذ مدرسہ عربیہ دار التعلیم مبارک پور ان کے علمی سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

.۱  تذکرہ علمائے مبارک پور ص: ۱۸۸-۱۹۲

۲  تذکرہ علمائے مبارک پور ص: ۳۲۰-۳۲۱ ۔

۳  یہ بات حضرت مولانا ظہیر الدین رحمانی صاحب نے عم محترم مولانا عبد الرحمن رحمانی مبارک پوری/حفظہ  اللہ  وشفاہ  سے  دوران  سفر  امریکہ ستمبر ۲۰۱۴ میں بیان کیا،  جہاں  دونوں  حضرات  مجلس  قراءت  حدیث  کے  لئے  بلائے  گئے  تھے۔

 ۴  ترجمان  جدید  خصوصی  شمارہ:

 ۵   حضرت  شیخ  الحدیث  مبارک  پوری  کی  ہدایت  پر  ان  کی  خدمت میں  حاضر  ہوتے  تھے،  جیسا  کہ حضرت  مولانا  ظہیر  الدین  مبارک  پوری  نے خود  عم محترم سے  دوران  سفر  امریکہ  بتایا۔

 ۶  ملاحظہ کیا جائے: محدث دہلی شمارہ نمبر: ۶، جلد نمبر: ۹،  رمضان۱۳۶۰ھ- اکتوبر ۱۹۴۱ء

 ۷  ملاحظہ کیا  جائے: محدث  دہلی  شمارہ  نمبر:  جلد  نمبر:  مکتوب  بہ  نام  راقم  [8]

۹  ترجمان جدید شمارہ نمبر: جلد نمبر:  ۔

۱۰  یہ  ساری  تفصیلات  ہمارے  ہم  سبق  مولانا  محمد  احمد   بن  عبد  القیوم  عمری  مقیم  بنگلور  نے  فراہم  کیں،  جو  حضرت  مولانا  ظہیر  الدین  رحمانی  کے بڑے  بھائی   نذیر  اللہ  کے  پوتے   ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *