ڈاکٹر شبنم اکبر*

شبلی نعمانی بہ یک وقت مورخ ادیب ماہر تعلیم اور جامع کمالات ضرور تھے مگر وہ فطری اعتبار سے ایک شاعر تھے۔ چنانچہ ان کی فکر کا پہلا قدم میدان شعر ہی میں پڑا۔ آغاز شباب سے ہی شعر کہنے لگے۔ ابتداً تسنیم تخلص اپنایا جسے بعد میں ترک کردیا ان کی ابتدائی شاعری کی یہ غزل ملاحظہ ہو۔؎

آں خسرو و عرش آستاں، آں داور گیتی ستاں

آں قبیلہ گاہ انس و جاں، آں خاتم پیغمبراں

دانائے اسرارِ نہاں، روح الامین اش پاسباں

گردوں برنگ چاکراں، خاک درش را بوسہ زن

پیش از ہے حشانش نگر، جبریل دربانش نگر

دربند احسانش نگر، علوی ہفت تن

آں تاجدار ملک دین، دارائی علم یقین

دانائے علم اولین، فرماں پر پرش روح الامین

شبلی نعمانی کے فارسی مجموعہ کلام ابتداء میں دستہ گل، بوئے گل، اور برگ گل جیسے ناموں سے شائع ہوئے لیکن ان کی وفات کے بعد معارف پریس اعظم گڑھ نے ان سب کو یکجا کرکے ’’کلیات شبلی‘‘ کے نام سے اسے دوبارہ شائع کیا۔۱؎

نقاد ان ادب کے بقول ’’اسلوب شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے‘‘ ۲؎ یعنی ہر فنکار اپنے فن پارے میں کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہوتا ہے لیکن یہ بات مولانا شبلی نعمانی کے تعلق سے کہی بھی جاسکتی ہے اور نہیں بھی۔ اگر مذکورہ بالا باتوں کا ایک پیمانہ بنائیں اور اس پر ہم کلام شبلی کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس میں جابجا شبلی کے کردار کی معصومیت، سچائی، بے ریائی اور کھرے پن کے ثبوت ملتے ہیں مگر جلد ہی ان کے کلام میں ان کے کردار کا دوسرا رخ بھی سامنے آجاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح فلموں میں کام کرنے والا ایک اداکار کسی ایک فلم میں بہت اچھا رول نبھاتا ہے اور جلد ہی دوسری فلم میں ایسا رول ادا کرتا ہے جو اس کے پہلے رول سے بالکل الگ ہوتا ہے لیکن یہ شبلی کے کمال فن کی دلیل ہے کہ انہوں نے پردئہ ادب کیلئے جس رول کا بھی انتخاب کیا اسے بخوبی نبھایا ہی نہیں بلکہ اسے بام عروج تک پہونچا دیا۔

مولانا شبلی نعمانی جہاں ایک طرف ایک بلند پایہ عالم دین اور اسلامی غیریت وحمیت کے علمبردار تھے وہاں وہ مزاجی اعتبار سے نہایت خوش اخلاق، خوش مذاق اور حسن و جمال کے دلدادہ تھے، ان کی خوش مذاقی اور حسن و جمال کی دلدادہ دہی غالباً کچھ دوسرے اسباب کے ساتھ ایک چنگاری بنی جو آگے چل کر بمبئی کی نرم و گداز اور رومان پرور فضائوں میں اچانک دہک اٹھی تھی۔

یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ شبلی نعمانی جیسا زبردست عالم دین مصلح قوم محافظ تہذیب و ثقافت اسلام، دین نبوی کا شیدائی، الفاروق، سیرت النعمان اور سیرت النبی جیسی معرکۃ الآرا، شاہکاروں کا مولف جس کا قلم اپنی قوم کی گمرہی اور بے راہ روی پر کچھ اس طرح خون کے آنسو رو رہا تھا۔؎

شرط اسلام نہ باشد کہ یہ دنیا طلبی

التفات توبہ دین نبوی کم باشد

از ابوبکر و عمر ہیچ نہ یارت آید

گرمی بزم تواز سیزر اعظم باشد

اس کے اندر ایک اچانک بڑی تبدیلی آگئی جذبہ حب اسلام کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جو اس کے سینے میں تلاطم برپا کئے ہوئے تھا یکایک خاموش ہوگیا۔ اس کی سوچ یکسر بدل گئی اس کا قلم بہکنے لگا اور ان حالات میں اس نے ہمیں جو شعری نگارشات عطا کئے اسے دیکھ کر اس بات پر یقین کرنے کو کسی طور پر بھی د ل آمادہ نہیں ہوتا کہ یہ شبلی نعمانی جیسے شخص نے کہے ہیں۔ مثلاً؎

اے دوست پرس، ازمن، رسم و رہ تقویٰ را

اکنوں کہ من بیدل، سودائے دگر دارم

یا

مستی و عربدہ کار چومنے نیست ولی

چشم ساقی است کہ تاراج کر ہوش آید

اتنا ہی نہیں وہ اس سے دور نکل کر کاروبار زندگی میں سودوزیاں کا حساب بھی کرتے ہیں اور انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کے تیس سال بیکار ی زہد و تقویٰ میں گذار دیئے، یہ تو ان کی زیست کا سر ا سر نقصان ہے اور زندگی کے اس نقصان نے ان پر کچھ اس انداز سے اثر دکھلایا کہ وہ چیخ اٹھے۔؎

بامئے و بادہ بہ پیرانہ سرم کار افتاد

ہ ازاں تقویٰ سی سالہ کہ نقصان کردم

          اور آگے چل کرشبلی کے نزدیک زہد و تقویٰ کی اہمیت بس اس حد تک رہ جاتی ہے۔؎

رہ و آئین تقویٰ نیز بدنیست

اگر کاری نباشد، می توان کرد

          اس قسم کے اشعار ان کے فارسی کلام میں ہمیں جابجا مل جاتے ہیں جو ہمیں یہ کہنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ آخر شبلی کی سوچ اس نہج پر کیونکر آگئی۔ چند اشعار اور ملاحظہ ہوں۔؎

چند درپردہ توان کرد سخن فاش بگو

سنگ برشستہ تقویٰ زدہ ام، ہان ردہ ام

جامۂ زید چوں برقامت من راست نبود

ثثہ تقویٰ سی سالہ بہ سندان زدہ ام

از مابداد دست کہ رندی و عاشقی

صد بار کردہ ایم، ودگر می کنیم ما

لیکن یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ آخر وہ کون سے اسباب اور حالات تھے جنہوں نے شبلی کی سوچ میں اچانک شرق و غرب جیسا تضاد پیدا کردیا، ان کے فلسفہ زندگی کوبدل ڈالا ان کے قلم سے سمندر جیسا سکون چھین کر اس میں آبشاروںجیسی شوخی بدمستی اور شور و شغب بھر دیا، کیا صحیح معنوں میں کسی شہسوار ناز کے جس کرشمہ ساز کا کامل تھا جس نے انہیں پاس وضع سے یکسر بے نیاز کردیا تھا اور وہ بے بس ہوکر رہ گئے ان کی اس بے بسی اور لاچاری کے غماز ان کے بے شمار اشعار ہیں چند  اشعارملاحظہ ہوں۔؎

من کے درسینہ دلے دارم و شہداچہ کنم

میل بالالہ رخاں گرنہ کنم تاچہ کنم

من نہ آنم کہ بہ ہر شیوہ دل از دست دہم

لیک بہ آں نگہ حوصلہ فرساچہ کنم

دل متاعی است گراں مایہ یہ کس ناتواں داد

رائیگاں گربردان ترک بہ یغماچہ گنم

شاہد بادہ و طرف چمن و جوش بہار

شبلیا! خود تو بگرما کہ یہ اینہاں چہ کنم

          شبلی کے اندر آئی یہ اچانک تبدیلی ان کے مخالفین کی معاندانہ اور معترضانہ انتقادات معاصرانہ چشمک، دینی معاملات اور دین کی راہ میں ان کی چہل سالہ کوششوں کی نہایت بے رحمانہ طور پر ناقدری اور ان سب پر ان کی بیزاری و جھنجھلاہٹ کا نتیجہ تھی جس نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کردیا تھا کہ

؎  ’’ایں یا س وضع باعث ناکامی من است‘‘

          اور وہ اپنے مسلک سے اکتاکر عالم بیزاری میں چیخنے لگے؎

ہشت چہل سالہ کی بیہود نگہ داشتم اش

گر نہ برسنگ زنم شیشہ تقویٰ چہ کنم

          بہرحال مولانا شبلی نعمانی کے اندر آئی اس تبدیلی کے محرکات خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں ان کے اکثر فارسی اشعار کی روشنی میں ان کے کردار کی معصومیت اور بے ریائی اور زیادہ نکھرکر ہمارے سامنے آجاتی ہے؎

مولانا شبلی نعمانی کے فارسی مجموعہ کلام میں سے ایک ’’دستہ گل‘‘ ان کی شگفتہ مزاجی زندہ دلی، ظرافت اور فن شاعری میں ان کی بہترین صلاحیتوں کی آئینہ دار ہیں، دستہ گلمیں موجود تمام غزلیں شبلی نے ۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۸ء تک کے اپنے ممبئی قیام کے دوران کہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان غزلوں کی محرکات میں بمبئی کی حسین شامیں بھی ہوسکتی ہیں۔ جن میں ساحل سمندر کا ہیجان خیز ماحول بھی ہے۔ شبلی کی غزلوں میں جگہ جگہ گرمئی بازار بمبئی جلوہ نیرنگ ہائے بمبئی اور بہار چمن بمبئی‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔؎

ذوق طبع شبلی من در اول روز دانستم

کہ در آشوب گاہے بمبئی درباز و ایمان را

بیا ایں جاکہ ہرسو کاراوانِ درکارواں بینی

بتان آذری را دلبران شام و ایران را

٭٭٭

نثار بمبئی کن ہر متاع کہنہ و نور را

طراز مسند جمشید و فرتاج حسرو را

بدہ ساقی مئے باقی کہ درجنت نہ خواہی باعث

دگر رہ پارہ سارم ایں قبائے زہد صد تورا

          تمام ماہرین فن اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ شبلی نعمانی نے بمبئی کیقیام کے دوران جتنی بھی غزلیں کہیں ہیں ان میں سے اکثر خواجہ حافظ شیرازی کے تتبع میں ہیں۔ ان غزلوں میں موجود شبلی کا جوش اور شوخی رندانہ سب بادئہ شیرا زہی کی مرہون منت ہے۔

’’دست گل‘‘ مولانا شبلی نعمانی کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو ان کی ابتدائی فارسی غزلوں کا خوبصورت گلدستہ ہے ان غزلوں کے اندر شبلی کے جذبات کی شدت اور عالم سرخوشی میں مستغرق اور جوش و انبساط میں وجد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بعد کی ان کی وہ فارسی غزلیں جو ان کی وہ مجموعہ کلام بوئے گل میں شامل ہیں وہ ان کی حرمان نصیبی ناامیدی تلخ کلامی، مایوسی اور شکستہ پائی کی غماز ہیں۔ شبلی کہتے ہیں:

زجان گزشتم و بارم بہ برنمی آید

کہ نسبت زورم و آن بت بہ زرنمی آید

فراق ہجر دیار خوشی بود کہ درد

پس از گزشتن شب ہم سحر نمی آید

جدااز دوست، شب ماہتاب راچہ کنم

کہ کارعارض اور از قمر نمی آید

لیکن اس کے پاس ماضی کے پرکیف لمبی اور حسین یادیں ہیں ان کے خواب ہائے رنگین اب پریشان ہونے کو ہیں لیکن شبلی کیلئے یار ماضی عذاب نہیں بلکہ ایک خوشگوار نقش کی طرح ان کے ذہن میں محفوظ ہے یہی یادیں ان کیلئے تسکین و تسلی کا سامان بہم پہونچاتی ہیں۔ ایک غزل میں شبلی کہتے ہیں۔؎

ہیچ از صبر و سکون، بامن نہ بود

درفراق دوست تنہا بودہ ام

باضیابش بس کہ بودم ہم نشیں

گویا بادوست ہر جا بودہ ام

          دوسری غزل میں وہ کہتے ہیں:؎

یک سروصد گو نہ سودامی نہائی داشتم

باد آں روزے کہ من باخود جہانی داشتم

یاد آں روزے کہ من از سادہ لوحی ہائے خود

بادولی گفتم از راز نہانی داشتم شبلیا! آں جلوئی نیرنگ ہانے بمبئی

بودتا وقتے کہ من خواب گرانی داشتم

          مولانا شبلی کی فارسی شاعری ان کے شائستہ ذوق و شوق اور فارسی شعراء کے گہرے اور عمیق مطالعے کی آئینہ دار اور ان کے کمال شاعری کی گواہ ہے۔ شاعری کے رموز و نکات، زبان کی شیرینی اور حلاوت شبلی کی غزلوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہویدا ہے، خیالات کی ندرت زبان کی شوخی، بندش کی نفاست، دل آویزی و دلربائی کو شبلی نے رشتہ اشعار میں پرو دیا ہے شبلی نے فارسی زبان میں غزلوں کے علاوہ دیگر اصناف شاعری پر بھی طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی فارسی غزلیں لطافت و بلاغت میں بے مثال اور بلاشبہ فارسی ادب کا گراں بہا سرمایہ ہیں:؎

اتنا ہی نہیں شبلی کی شخصیت کے خدوخال اور طبیعت کی گوناگوں کیفیات بھی محافظ شیرازی کے احوال و احساس کے مماثل ہیں۔ دونوں میں مطابقت کے کئی پہلو مشترک ہیں۔ شبلی بھی اس کیفیت کے اظہار میں فراخ دل ہیں اور ان کا یہ شعر فارسی ادب کے منظر نامے میں اقرار نامے کا درجہ رکھتا ہے۔؎

گرخداوندی ہوش داری دراقلیم سخن

بندگی حافظ شیرازی بائست کرد

واپسی پر ترکیب بند کا یہ شعر ؎

از سفر شبلی آزادہ یہ کالج ہر سید

یا مگر بلبل شیراز بہ شیراز آمد

اس کے علاوہ شبلی نے اپنی مایہ ناز تصنیف شعراء العجم میں بڑی وارفتگی کے ساتھ حافظ شیرازی کا تذکرہ کیا ہے۔

شبلی کے فارسی کلیات کا حجم بہت ہی مختصر ہے یعنی کل ۱۲۰ صفحات، جس میں حافظ شیرازی کے اثر و نفوذ کی کثرت آرائی سے شبلی کی توثیق کا بھی احساس ہوتا ہے اور تخلیقی قربت کا مکمل ادراک بھی۔

دیوان حافظ کی تیسری غزل عالمگیر شہرت کی حامل ہے اس میں رنگ و آہنگ کے ساتھ جذبۂ احساس کا ایک دل نشیں امتزاج موجود ہے۔؎

اگر آں ترک شیرازی بدمست آزد دل مارا

بخال ہندوش بخشم، ثمر قند و بخارا را

اس غزل کی مجموعی اور اثر آفریں فضا کیفیات کی دھوپ چھائوں شبلی کی غزلوںمیں کئی جگہ صاف دکھائی دیتی ہیں جس سے ان کی پسندیدگی اور والہانہ قربت کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ہندی زلف ان کے تخلیقی محور میں نقطہ ارتکاز کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہندوی زلف کوچوں کفر فروشی بلند

ہندوی زلفش چرا دامن ہمی چنید زمن

          شبلی نے صرف شاعری ہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے اشعار میں انہوں نے شاعری کے پراسرار رموز کے بھی ذکر کئے ہیں جو تمام انتقادی مباحث پر غالب ہے اور یہ ہمارے تنقیدی دبستانوں کی موشگافیوں کیلئے قصر بنیاد ہے۔ وہ کہتے ہیں۔؎

شعر اگر دامن دل می نہ شر بانگ خراست

نغمہ گرنیست دل آشوب بہ غوغا ماند

پایہ ازیں دائرہ تنگ بروں نہ کی سخن

خود محیطیت کہ ہر قطرہ بدر پا ماند

جادئہ مغربیاں گیر کہ ایں طرز نوعی

دل پذیرست و دل آویز و دل آرا ماند

شعر و ادب کا اتنا واضح اور آفاقی نقطہ نظر شبلی کی تخلیقی بصیرتوں سے ہم آمیز ہے شعر و ادب کی فکری روایت میں امروز و دوش کے جام جہاں نما میں فردا کی کیفیت کا ادراک شبلی اور اقبال سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہے۔ شبلی کا فکر و احساس ایک اعتدال و توازن رکھتا ہے وہ زود حس ہیں اور جذباتی بھی مگر یہ عناصر ان کی فکر نظر پر غالب ہیں اس کے علاوہ شبلی میں لذت دیدار اور وصال پار کی نشاط سے اپنے کلام کی جو لذت بخشی ہے وہ ہندوستان ہی کیا ایران کے بھی بہت سے فارسی شعراء کے یہاں ناپید ہے شبلی کی فارسی شاعری میں والہانہ سرشاری و وارفتگی کے ساتھ سپردگی اور سادکاری قاری کو جس طرح اپنی گرفت میں لیتی ہے وہ شبلی کے فن کی معجزہ نمائی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شبلی ہم آغوشی کے سبھی آئین و آداب فراموش کرچکے ہیں اور گہرے جذبات و لذت احساس کے فرداں احوال میں گم ہوگئے ہیں مندرجہ ذیل اشعار کو ملاحظہ فرمایئے جن کی شوخی و شادابی کو شعر فارسی کے سیاق میں ندرت حاصل ہے۔؎

آغوش شوق دیدئہ گستاخ و دست شوخ

دروصل ہرچہ بود زمن خود بکار بود

از بسکہ تند بود مئے شوخ گوار وصل

مستی بدوں زحوصلہ اختیار بود

رسم و آئسن ہم آغوشی نمی دانم کہ چست

دست گستاخ آنچہ فرمودہ است من آکردہ ام

از سرم پار پرس کہ درخلوت وصال

مابودہ ایم و پار بسے درمیاں نہ بود

اس کے علاوہ اگر ہم شبلی کے فارسی کلام کا بہ غور مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ ان میں ایسے اشعار کی کثرت ہے جو ان کی بلند پروازی فکر، جولانی طبع، جدت خیالی اور حسن کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔ مثلاً؎

ہر جا حدیث فتنہ ایام کردہ ایم

رومی سخن بہ ان نگہ فتنہ ساز بود

ٔٔٔٔ٭٭٭

ساقی مست چوسئے من مدہوش آید

ساغر ازکف بنہد میکدہ بردوش آیا

ٔٔٔٔ٭٭٭

آور برم کہ کار زاندارہ درکزشت

دست دراز گشتہ و آغوش باز را

ٔٔٔٔ٭٭٭

پیکر آرائی ازل طلعت زیبائی ترا

نقش می بست دہم از ذوق تماشا میکرد

ٔٔٔٔ٭٭٭

از مابگیر درس فنون ریا کہ ما

عمری دراز زاہد و مستور بودہ ایم

ٔٔٔٔ

غرض شبلی کی فارسی شاعری ایک ایسا لازوال ورثہ ہے جو اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ ہمیشہ باقی رہے گا اور اس سے استفادے کا حق ہر کس و ناکس کو حاصل ہے۔

*اسسٹنٹ پروفیسر

ممتاز پی۔جی۔ کالج، لکھنؤ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *