گلزا رحسن*
فسادات ہندوستان کاایک اہم مسئلہ رہاہے یہاں آئے دن کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی ذات پات کے نام پر فسادات ہوتے رہتے ہیں ، فسادات کو موضوع بحث بنا کر ہمارے بہت سے افسانہ نگاروں نے کہانیاں لکھیں اور بہت اچھی اور اتنی لکھیں کہ یہ موضوع پوری طرح سے پامال ہو گیا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ اب اس موضوع پر لکھنے کے تمام امکانات ختم ہو چکے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ فسادات آج بھی ہو رہے ہیں اور جب فسادات کا سلسلہ جاری ہے تو لازمی ہے کہ اس پر افسانہ بھی لکھا جائے گا اور لکھا بھی جارہا ہے ۔
ہاں ایک بات یہ ہے کہ ان کی نوعیت مختلف ہے اور آج کے افسانہ نگاروں نے فسادات سے مرتب ہونے والی صورت حال کو مختلف طریقے سے دیکھا ہے کیوں کہ فسادات آج پہلے کی طرح نہیں ہو تے بلکہ سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں ۔
پہلے کے افسانوں میں یہ ہو تا تھا کہ فسادکی ہولنا کیوں کا ذکر کر دیا بس، لیکن آج فساد سے پیدا شدہ مسائل کو کہانیوں کا موضوع بنایا جاتا ہے ۔ عابد سہیل نے بھی اس گھسے پٹے موضوع پر افسانے لکھے ہیں۔
لیکن اس موضوع کے ساتھ ان کا Treatmentکچھ اس طرح ہے کہ ان میں تازگی کا احساس ہوتا ہے اور فسادات سے پیدا شدہ مسائل کے علاوہ انسانی نفسیات خاص کر بچوں کی نفسیات پر اس کے مضراثرات کے نشاند ہی کی ہے ۔
بہر حال ہندوستان ایک غریب ملک ہے جہاں زندگی کی بنیاد ی سہو لیات تک مہیا نہیں ہے اور جہاں ایک بڑا طبقہ حیوانی سطح پر زندگی بسر کر رہا ہے ۔ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے وہاں پر فسادات کا ہونا زندگی کو اور تاریکی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔لیکن اس کو بد قسمتی ہی کہا جائے کہ آج فرقا وارانہ فسادات ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن چکے ہیں ۔ یوں تو فرقہ وارانہ فسادات آزادی کے بعد تقسیم ملک اور انتقال آبادی کے نتیجے میں بھڑکے اور دیکھتے دیکھتے ہزارو ں بلکہ لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوا کہ شیطان کا سر بھی ندات سے جھک گیا انسان درندہ بن گیا، انسان کا انسان پر سے بھروسہ اٹھ گیا ان فرقہ وارانہ فسادات نے ملک کو سیاسی سماجی انتشار اور تہذیبی و اخلاقی انحطاط کی عمیق گہرائیوں میں ڈھکیل دیا۔ اس خون آشام اور لرزہ خیز مناظر نے ادیبوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جس کے نتیجے میں فسادات کے موضوع پر لا تعداد افسا نے معرض وجو دمیں آئے۔ آزادی کے لگ بھگ ۷۰ ؍سال گزرنے کے بعد بھی اس پر قابو نہیں پایا جا سکا بلکہ اس میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ البتہ آج اس کی نوعیت بدل گئی ہے ، ان فسادات نے روح کو ایک اذیت ناک Situationمیں مبتلا کر رکھا ہے جس سے شاید ہی اب چھٹکارا ممکن ہو کیوں کہ آج یہ زہر مختلف فرقوں کے دلوں میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ وہ ذراسی بات پر جان لینے اور جان دینے سے نہیں چوکتے ، سیاسی پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں جن کو اس سے چھٹکارا دلانے کی کوشش کر نی چاہئے تھی وہ اس کو ایک کمزوری کے طور پر استعمال کر ہی ہیں اور منافع کی روٹی مزے سے توڑ رہی ہیں ۔ان کو اقتدار اور جاہ وہشم کی فکر دامن گیر رہتی ہے ۔مذہب جس کا جنون انسا ن کو اندھا کر دیتا ہے اس سے وہ بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ کوئی بھی اپنے مذہب کو نیچا دیکھنا گوارا نہیں کرے گا۔فرقہ واریت کی زہر آج سماج میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ تھوڑی سی بات بھی پیٹرول میں آگ کا کام کر تی ہے یہ مسئلہ ہندوستان کا بہت ہی نازک مسئلہ بن چکا ہے اور یہ زہر ذہنوں میں اس حدتک سرایت کر چکا ہے کہ بڑے تو بڑے نازک اور معصوم بچے بھی اس سے محفوظ نہیں یہ نفر ت کدورت اور مذہبی جنون اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ بعض دفعہ تو بغیر کسی وجہ کے ہی فسادات بھڑک اٹھتے ہیں عابد سہیل چوں کہ سماج پر گہری نظر رکھتے تھے اس لئے کوئی بھی حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتی عابد سہیل کا یہ جملہ بے وجہ فسادات کی عکاسی کس قدر حقیقت پسندانہ طریقے سے کرتا ہے ۔ افسانہ نگارکے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ۔
اگلے روز اخبار سے معلوم ہوا کہ کہیں کوئی گولی چلی تھی نہ جھگڑا ہو ا تھا ، ایک مرکھنے بیل نے کسی کو دوڑایا ، ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ چلاتا ہوا بھاگا ، پھر کچھ اور لوگ بھاگے ، پھر سناٹے کا مہیب پرندہ آیا اور پر پھڑ پھڑ اتا رہا اور فضا میں اس کے پروں سے نکلنے والی ہوا نکلتی رہی ۔ ۱؎سب سے چھوٹا غم ،از عابد سہیل،عرشیہ پبلیکشنز،دہلی،۲۰۱۱ء،ص:۶۶۔
روح سے لپٹی ہوئی آگ عابد سہیل کا فسادات کے موضوع پر ایک کامیاب افسانہ ہے جس میں عابد سہیل نے ایک معصوم بچی کی زبان سے ایسے کلمات ادا کر ائے ہیں کہ:
’’وہ بڑے خراب ہیں ‘‘
’’وہ کون ۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘میں ڈرتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ‘‘ اس نے کندھے پر ٹنکا ہوا بستہ اتارتے ہوئے ان لوگوں کا مجموعی نام لیا۔ جنہیں وہ اپنے سے الگ ، دوسرا اور غیر سمجھتی تھی ، ’’وہی جنھوں نے اتنے بہت سے آدمیوں کو مار ڈالا، وہ دکانیں جلاد یں ‘‘۔ ۲؎،ایضاً،ص:۶۶
یہ الفاظ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ فسادات بچوں کی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور معصوم ذہن مذہبی تفریق کو کس طرح قبول کر تا جا رہا ہے۔ عابد سہیل کے اس افسانے میں ایک درس ہے۔ایک پیغام ہے اور یہ اس بات کو سوچنے پر آمادہ کر تا ہے کہ اگر اس طرح کی مذہبی تفریق کو ختم کرکے انسان اور انسانیت کی فلاح و بہبود اور آپسی بھائی چارے کو فروغ نہیں دیا گیا تو لوگ آپس میں دست و گریباں رہیں گے ۔اور یہ عمل بار بار دہرایا جائے گا ، سماج عمیق گہرائیوں میں چلا جائے گا ۔مشہور افسانہ نگار پروفیسر نیر مسعود کا کہنا ہے کہ فسادات ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔
روح سے لپٹی ہوئی آگ ۔فرقہ وارانہ فسادات کے پامال پر افسانہ ہے ۔لیکن اس میں نہ اتحاد کی تلقین ہے نہ انسان کی درندگی اور اس کے بالمقابل انسان کی فرشتہ خصلتی کا تذکرہ ہے بلکہ ہمیں صرف اس سوال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ فسادات کا ماحول بچوں کے معصوم ذہن کو کس طرح مسموم کر تا ہے ۔ اور بچپن میں شعور کا جزبن جانے والی فرقہ وارانہ منافرت آئندہ کتنی بھیانک ثابت ہو سکتی ہے ۔۳ ؎،سب سے چھوٹا غم (تبصرہ) ازنیرمسعود، مشمولہ نیادور ۱۹۷۹ء،ص:۴۸۔
در اصل عابد سہیل کے افسانے عام انسانوں کی زندگی کے مشاہدات پر مبنی ہوتے ہیں ، اور عابد سہیل ایک انسان کی طرح ان مشاہدات کو بیان بھی کر تے ہیں لیکن وہ ان مشاہدات کے سامنے ایک ہلکا سوالیہ نشان بنا کر نتائج کے اخز وانبساط کا بیشتر کام قاری کے ذہن کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ،عابد سہیل کے افسانے زندگی کی چلت پھرت میں ہر آن اپنی نظر کھلی رکھتے ہیں ، چیزوں کو غور سے دیکھتے ہیں ، ان کو جھیلتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو قاری تک منتقل کر دیتے ہیں ان کے افسانے ’سوا نیزے پر سورج ‘ کو ہی لے لیجئے جس میں فر قہ وارانہ فسادات جیسے پامال اور فر سودہ موضوع کو پیش کیا گیا ہے۔لیکن فسادات سے پیدا ہو نے والی صورت حال کو بالکل نئے طریقے سے دیکھا ہے اصل میں یہ کہانی لکھنؤ کے شیعہ سنی فساد سے متأثر ہو کر لکھی گئی ہے۔جس کو عابد سہیل نے قریب سے دیکھا ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عابد سہیل اگر لکھنؤمیں شیعہ سنی فسادات کو اپنی جاگتی آنکھوں سے قریب سے نہ دیکھتے یا نہ جھیلتے تو کیا ’سوا نیزے پر سورج جیسا خوبصورت اور بامعنی افسانہ لکھ پاتے ۔اس کا جواب شاید ہاں میں کوئی ہی دے سکتا ہو، محمد حسن لکھتے ہیں ۔
مدتوں بعد عابد سہیل کا دوسرا افسانہ ’’سوا نیزے پر سورج ‘‘ پڑھا جس نے گویا دامن دل کھینچا ، زمانہ وہ تھا جب لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات ہو رہے تھے ، مگر بھلا کسے خیال تھا کہ اس قسم کے فسادات بھی افسانے کا موضوع بن سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے دل سوز افسانے کا جو بقول شخصے مدتوں تڑپاتا رہے ، سچ پوچھئے تو یہ افسانہ جس اہتمام جس نزاکت احساس اور جس در دمندی سے لکھا گیا ہے وہ افسانے کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے ، سب سے الگ راہ سب سے جدا روش ایسا افسانہ جسے پڑھ کر افسانے کا نہیں ارد گر دبکھری ہوئی پارہ پارہ زندگی کا خیال آتا ہے ۔۴؎ ،محمدحسن:دوکہانیاں ایک تاثر، مشمولہ نیادور لکھنؤ،۲۰۰۱ء، مارچ، ص:۲۷
کہانی سیدھے سادھے انداز میں نہ کہہ کر بچوں کے کھیل کے ذریعہ سنائی گئی ہے ، یہ دل دہلا دینے والی کہانی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے برائی اتنی عام ہو گئی ہے کہ بچے اس ہو ش ربا حادثے کو محض کھیل سمجھ کر کھیل رہے ہیں بچی کا یہ جملہ ہم لو گ شیعہ سنی کی لڑائی کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ ذہن ودل کو جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی ہے ، اس افسانے میں عبرت ، بے دردی ، قہر وعذاب کیا ہے جو چھپا نہیں ہے ۔محمد حسن لکھتے ہیں ۔
ایسا بھیانک اور دل دہلا دینے والا موضوع۔ اور افسانہ نگار اسے چند چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذریعے ان کے کھیل کود کے مشغلے سے ادا کرتا ہے ۔یہ درد مندی پڑھنے والے کا دل دہلانے کو کافی ہے کہ جن حقیقتوں سے آنکھ ملانے کا یارا نہیں وہ بچوں کا کھیل بن گئی ہے ۔ افسانہ نگار نے یوں تو پورا افسانہ ہی واحد متکلم میں لکھا ہے مگر در اصل افسانہ نگار تو اس بے حس سماج کا محض ایک پیکر ہے جسے خون خرابے میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اس کا اثر آنے والی نسل پر کیا اور کیسا پڑے گا اور کیا یہی وہ وراثت ہے نفرت ، تشدد اور قتل و خون کی جسے ہم اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے چھوڑ جائیں گے ۔ ۵؎ ،ایضاً۔
اس کھیل کے پیچھے وہ کھیل چھپا ہے جو بڑوں کی نسل کھیل رہی ہے اس کا اثر بچوں پر اس طرح پڑتا ہے کہ خون کے چھینٹے ان ذہنوں کو آلودہ کر جاتے ہیں یہ کھیل ذہن میں پل کر زندگی کا جز بن جاتے ہیں جس سے تفریق کا رجحان پروان چڑھتا ہے یہ رجحان آگے بڑھ کر کبھی مذہب کے نام پر ، کبھی فرقہ کے نام پر ، کبھی قومیت کے نام پر انسان کو ایک دو سرے سے بر سر پیکار کر کر دیتا ہے اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ حرکت کتنی قبیح ہے ، یہ نفسیات اس پروان چڑھتی ہے کہ صرف وہ ہاتھ بدلتے ہیں جس میں چھرا ہوتا ہے باقی جوں کا توں باقی رہتا ہے بلکہ فرقہ واریت دن بدن پروان ہی چڑھتی ہے ۔
عابد سہیل کا اس کہانی کے بارے میں کہنا ہے کہ
’’سوا نیزے پر سورج ‘‘ کہانی حالانکہ شیعہ سنی فساد کی بنیاد پر لکھی گئی ہے پر یہ ان سبھی لوگوں کی دماغی کیفیت بیان کرتی ہے جو اپنے سے الگ کسی چیز یا سوچ کو بر داشت نہیں کر تے۔ اس کہانی میں میں نے دکھایا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے کیسے نقلی چاقو، تلوار وغیرہ رکھ کر اور لال رنگ چھڑک کر دنگے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔یہ کہانی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نے کیسا ہندوستان بنایا ہے اور اپنے بچوں کے لئے کیا چھوڑ کر جارہے ہیں۔ گودھرا اور گجرات کے بعد تو حالت اور بدتر ہوئے ہیں ۔‘۶؎وشو پر کارسدن ۲۰۰۷؍اکتوبر دسمبر
فرقہ وارانہ فسادات کو موضوع بنا کر عابد سہیل نے ’دستک کس دروازے پر ‘ بھی لکھا ہے اس افسانے میں عابد سہیل نے فسادات کو ماحول کے پس منظر کے ذریعے انسانی نفسیات کی عکاسی کی ہے کہ کس طرح ایک فرقہ دوسرے سے بدظن رہتا ہے ، یہاں تک کہ اپنے دوست پر بھی بھروسہ نہیں کرتا۔
فسادات ایک اچھے بھلے انسان کو نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔
اس افسانے میں امیش اور داؤد دو کر دار ہیں ، داؤد فسادا ت کے ماحول سے بہت گھبرایاہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنی بیوی کو تسلی دیتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگااور کچھ ہوا تو وہ بچوں سمیت اس کو میکے پہنچا دیگا ۔ بیوی بچے کو چھوڑ کر جانے کے لئے تیار ہو نے کانام ہی نہیں لیتے ۔ لیکن جب فسادات پھوٹ پڑے تو کسی کو کچھ یاد نہیں رہا یہاں تک کہ داؤد بیوی بچوں کو سسرال چھوڑ آتا ہے ۔ امیش جو کہ داؤد کا دوست ہے وہ اس سے ملنے آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ بھابھی کہاں ہیں داؤد بہانہ بناتا ہے اس کے الفاظ اس کے گلے میں پھنسے ہوئے معلوم ہو تے ہیں اس کو ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ کر تا کیا نہ کرتا۔ لیکن امیش معاملے کی جڑ تک پہنچ جاتا ہے اور جاتے وقت کس قدر بلیغ جملہ کہتا ہے ۔میرے ہی گھر پہونچا دیتے ۔۷؎ ،عابدسہیل: غلام گردش ۲۰۰۶ء، علی گڑھ ایجوکیشنل بک ہائوس،ص:۲۵
یہ جملہ کیا ہے بلکہ ایک طمانچہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہتا ہے ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوتا ہے لیکن مذہب کا جنون کس حد تک ہے کہ دوستی ایک طرف ۔جب فسادات کی نوعیت فرقہ وارانہ ہو تو اعتماد کی دیواریں بھی منہد م ہوہی جاتی ہیں ۔
جب ماحول میں کچھ حد تک اعتدال آتا ہے شور و ہنگا مہ ختم ہوتا ہے تو داؤد امیش سے ملنے اس کے گھر جاتا ہے لیکن اس کی گھبراہٹ کسی طرح کم ہونے کانام نہیں لے رہی بلکہ وہ اس قدر گبھرایا ہوا ہے کہ اس کو اپنے سائے سے بھی خوف ہوتا ہے اور گھبراہٹ میں امیش کے گھر پہنچ جاتا ہے اور دیر تک دروازہ تلاش کر نے کے بعد شورسن کر واپس بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔کچھ اسی طرح کا واقعہ امیش کے ساتھ بھی پیش آتا ہے ۔دونوں ایک دوسرے سے ملنے میں ناکام رہتے ہیں ۔جب فسادات فرو ہوتے ہیں ۔ ماحول معمول پر آتا ہے تو داؤد کی بیوی ان دونوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’یہ آپ لوگ ایک دوسرے کے مکان کے پیچھے کیوں چلے گئے تھے ۔کیا ایک دوسرے کا سامنا کر نے میں شرم آرہی تھی ‘‘ ۔۔۔۔۔۔؟ ۸؎، ایضاً۔
افسانہ اسی جملے پر ختم ہو جاتا ہے ۔لیکن یہ جملہ اپنے اندر جہاں معنی پوشیدہ رکھے ہوئے ہے۔کچھ لوگوں کی نادانی یا جنون کس طرح عام انسانوں سے ایک دو سرے کا سامنا کر نے کی سکت چھین لیتی ہے ۔ بقو ل فیرو ز عالم
’ جس طرح پورے افسانے میں فرقہ وارانہ فساد کے ماحو ل میں عا م انسانوں کی نفسیات کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے اسی طرح آخری جملے میں فسادکے بعد کی نفسیات پیش کی گئی ہے کہ کس طرح دو فرقوں کے عام لوگ ایک دوسرے کا سامنا کر نے کی ہمت نہیں کر پاتے یا گھبراتے ہیں۔ حالانکہ فسادیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ شاید ان کے اندر کی انسانیت ہے جو انہیں کچو کے دیتی رہتی ہے اور دوسرے کے گناہ پر شرمندہ ہونے پر مجبور کرتی ہے ۔۹؎ ، فیروزعالم، غلام گردش(تبصرہ) اردودنیا، ۲۰۰۸ء، جون، ص:۷۳۔
* ریسرچ اسکالر ڈاکٹر ہری سنگھ گور
سینٹرل یونیورسٹی ساگر مدھیہ پر دیش
ای میل : gulzarhasan16@gmail.com
موبائل نمبر:9795758606