فواز عبد العزیز مبارک پوری
استاذ جامعہ عالیہ عربیہ مئو ناتھ بھنجن
وحدۃ الوجود، ارباب تصوف کا ایک بنیادی اور مابہ الامتیازعقیدہ ہے، دنیا بھر میں پھیلے تمام صوفی سلسلےبہ اختلاف مذاہب ومشارب اس پراتفاق رکھتے ہیں، ہر سجادہ نشین کےبنیادی فریضوں میں ہے کہ وہ پہلے اس گمراہ عقیدہ پر عبور حاصل کرے، پھراپنے مریدین کو برابراس کی تلقین کرتا رہے، خواہ اس کو اس سے طبعی مناسبت ہو یانہ ہو ۔
وحدت الوجود تصوف کے ان افکار ونظریات میں ہے جس نے سماج میں بڑی ہلچل مچائی ہے، ادب اور مذہب کے تمام شعبوں پر اس کا پرتو نظر آتا ہے، اسلامی دنیا میں محی الدین ابن عربی اس نظریہ کے امام اورسب سےبڑے شارح مانے جاتے ہیں،جنہوں نے کھل کر اسے فلسفہ کی حدود سے نکال کراسلام کے اساسی عقائد میںداخل کیا، یہی نہیں آگے چل کر تو اسے عین توحیدو ایمان قرار دیاگیا، پھر کہا جانے لگا کہ تمام انبیاء ورُسل اسی کی تبلیغ کے لئے دنیا میں بھیجے گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔
ابن عربی نے اپنے نظریات کی بنیاد کشف وشہود کو بنایا ہے، اس لئے ان کے نظریہ کا تعلق فلسفہ کے قیل وقال سے زیادہ تصوف کے وجد وحال سے ہے، صوفیاء کے لیے وحدت الوجود پر اعتقاد مراتب روحانی اور مدارج ایمانی کے ارتقاء کے لیے ناگزیر قرار پایا تھا۔ وحدت الوجود کا آسان سا مفہوم یہ ہے کہ وجود اصل میں ایک ہی ہےاور یہ وجود اللہ کے سوا ہر دوسری شئی اللہ کا ایک مظہر ہے، اس کی صفات کی تجلی ہے، اس اعتبار سے پورا عالم اللہ تعالی کی صفات کی تجلی ہوا۔ابن عربی کے ہاں اللہ تعالی کی ذات اور اس کی صفات ایک دوسرے سےہرگز ہرگز جدا نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک صفات کا تصور ذات کے بغیر کیا ہی نہیںجاسکتا، چنانچہ ذات اورصفات ایک دوسرے کی عین ٹھرے، جب یہ بات طے ہوگئی تو اللہ تعالی (ذات)اور پوری کائنات (اس کی صفات کی تجلیات) بھی ایک دوسرے کے عین ٹھرے۔
چنانچہ ابن عربی کے نزدیک اللہ تعالی کا ہی وجود اصل اور حقیقی وجود ہے، کائنات اس سے جدا کوئی وجود نہیں رکھتی، کائنات اللہ تعالی کا عین ہے، اور اللہ تعالی کائنات کا عین ہیں، یعنی اللہ تبارک وتعالی اوراس کی مخلوقات(کائنات) دونوں کے درمیان کوئی فرق اور تفاوت نہیں ہے، جبکہ ایک پیدا کرنے والا(خالق) ہے اور دوسرا پیدا کیا گیا (مخلوق) ہے، دونوں بہ اعتبار حقیقت وحیثیت کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟۔
اس عقیدہ کےبہ موجب پانی اور شراب، نکاح اور زنا دونوںکے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتاہے۔ اولاد آدم سے تمام شرعی احکام کی تکالیف ساقط ہوجاتی ہیں۔
جب کہ سلف صالحین کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق اپنی مخلوقات سے جدا اور برتر وبالا،اپنے عرش پر مستوی ہے، اس کی ذات بے نیاز، بے مثال اور سب کی مالک ہے، وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جبکہ تمام مخلوقات کوفناء لاحق ہے، بقاء اور دوام صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔
امام ابن تیمیہ وبعض محققین کے نزدیک وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھنے والے، عیسائیوں کے اس عقیدہ سے قریب تر بلکہ ان سےکہیں زیادہ کفر کے مرتکب ہیں، کیونکہ ان کے یہاں یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کی ذات، حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات میں حلول کرگئی ہے،عیسائیوں کے یہاں اتحاد ان کے محبوب حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہوا ہے، جبکہ وجودیوں کے یہاں اللہ رب العزت کا اتحاد تمام کائنات اللہ کے ساتھ کیا گیا ہے، جس میںانسان، حیوان بہ شمول متقی وفاسق وفاجر سب داخل ہیں ۔امام ابن تیمیہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہےکہ اس قول کا قائل یہود ونصاری سے بڑا کافر ہے۔
عام خیال ہے بالخصوص بر صغیر میں یہ ہے کہ ابن عربی اور ان کے بیان کردہ عقیدہ کی مخالفت اور ردوقدح کا آغاز امام ابن تیمیہ حنبلی سے ہوا ہے، جبکہ حقیقت بر عکس ہے۔مفسرین، محدثین ومتکلمین کی ایک طویل فہرست ہے،جن میں مذاہب اربعہ کے اساطین وقت بھی ہیں،امام ابو الحسن اشعری کے ماننے والے بھی ہیں ، سلفی عقیدہ کے حاملین بھی اور ارباب سلطنت وحکومت بھی شامل ہیں،جنہوںنے ہر زمانے میںاس عقیدہ اورفلسفہ کی کھل کر مخالفت کی ہے، اپنی تحریروں کے ذریعہ اسلامی عقیدہ میں در آنے والی خرابیوں کو عقلی ونقلی دلائل کی روشنی میں مبرہن کیا ہے۔ بعض نے ان پر کفر کا فتوی صادر کیا،کچھ نے ان کتابوں کوجلانے اور پانی سے دہلنے کا حکم دیا۔ جن میں سے چند کے نام یہاں پر درج کیا جارہا ہے:
حافظ ابو بکر محمد بن عبد الغنی ابن نقطۃ بغدادی (ـوفات 629ھ): امام سخاوی کی تصریح کے مطابق سب سے پہلے ابن عربی پر طعن کرنے والے حافظ ابو بکر ابن نقطۃبغدادی ہیں۔
امام ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی (وفات 597ھ): اپنی کتاب کید الشیطان لنفسہ قبل خلق آدم ص: 64 میں ابن عربی کے بعض عقائد پر رد فرمایا ہے۔
قطب الدین ابو بکر محمد ابن القسطلانی (وفات:686ھ): صحیح بخاری کے شارح ہیں، انہوں نے بھی ابن عربی اور اس کے گروہ کی تردید میں ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے۔
عماد الدین احمد بن ابراہیم الواسطی (وفات: 711ھ) ابن شیخ الحزامیین: انہوں نے ابن عربی کی تردید میں تین رسالے تالیف فرمائے ہیں: (1) البیان المفید فی الفرق بین الالحاد والتوحید۔ (2) لوامع الاسترشاد فی الفرق بین التوحید والالحاد۔ (3) أشعة النصوص في هتك أستار الفصوص۔انہوں نے بڑی تفصیل سے وحدۃ الوجود اوراس گروہ کے دیگر عقائد کا جائزہ لیا ہے۔
نور الدین علی بن یعقوب البکری (724ھ): ان کا شمار امام ابن تیمیہ کے بڑے مخالفین میں ہوتا ہے۔ انہوں نےاشعری العقیدہ ہونے کے باوجود،وحدۃ الوجود پر کھل کر نکیر کیا ہے۔
شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ(وفات: 728ھ): انہوں نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں جا بجا ابن عربی اور اس کے عقائدکو موضوع بحث بنایا ہے، فتاوی ابن تیمية، جامع المسائل 4/393-425، 7/162- 171، 243-259، 8/176، 9/63 ، بغية المرتاد ص: 131، الرد الأقو م علی ما في کتاب فصوص الحکم، نقض المنطق ص: 141وغیرہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کاوشیں بڑی وقیع ہیں ، وہ برابراپنی علمی محفلوں اور مختلف تحریروں میں عقلی اور نقلی دلیلوں کے ذریعہ وحدۃ الوجود کےتار وپود بکھیرتے رہے، حاکمان وقت اوراساطین علمائے امت کی توجہ مبذول کراتے رہے۔اس کے لئے تکلیفوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن پائے استقامت میں لغزش نہ آئی، یہ عقابی تعاقب اتنا وقیع اور مستحکم تھا کہ اس باب میں انہیں مرجعیت حاصل ہوگئی۔ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم ان کی نفیس تحریروں سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے۔
علاء الدین احمد بن محمد سمنانی بیابانکی (وفات: 736ھ): معروف حنفی عالم اور صوفی ہیں،تین سو سے زائد تصنیفات بتائی جاتی ہیں، حافظ شمس الدین ذہبی، حافظ ابن حجر عسقلانی اور معروف مؤرخ صلاح الدین خلیل بن ایبک صفدی لکھتے ہیں: کہ وہ برابر ابن عربی، ان کے ہم نوا ؤں اور ان کی کتابوں کی مذمت اور تکفیر کرتےرہتے تھے۔
قاضی شرف الدین عیسی الزواوی مالکی(743ھ): ان کا فتوی ہے کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنے والا، کافر ہے، اس سے توبہ کرایا جائےگا، اگر توبہ نہیں کرتا تو قتل کردیا جائےگا، ارباب حکومت پر فرض ہے کہ اس کے تمام نسخوں کو جمع کرکےنذر آتش کرائے۔
معروف مفسر اور نحوی ابو حیان محمد بن یوسف غرناطی اندلسی (745ھ): انہوں نے اپنی تفسیر البحر المحیط3/449 میں(لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ہو المسیح ابن مریم) کی تفسیر میں ابن عربی اور وحدۃ الوجود کا جا مع جائزہ لیا ہے۔
شیخ الاسلام تقی الدین علی بن عبد الکافی السبکی (756ھ): ان کے نزدیک متاخرین صوفیہ ابن عربی اور ان کے اتباع نہایت گمراہ، جاہل اور دین اسلام سے خارج ہیں، چہ جائیکہ انہیں عالم کہا جائے۔ ابن طولون صالحی نے امام سبکی کا ذکر ان اہل علم میں کیا ہے جو ابن عربی کے گمراہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، انہیں مبتدع اور کافر شمار کرتے ہیں۔
قاضی سراج الدین ابو حفص عمر بن اسحاق غزنوی ہندی حنفی (773ھ)شارح ہدایۃ: آپ ابن عربی کی تکفیر کرتے تھے۔
قاضی صدر الدین علی بن علی الدمشقی المعروف بہ ابن العز الحنفی (792ء): انہوں نے شرح العقیدہ الطحاویہ (2/743-745 بہ تحقیق ڈاکٹر عبد اللہ الترکی) میں گفتگو فرمائی ہے۔
امام جلال الدین جلال بن احمد التبانی (793ھ): اپنے وقت کے بڑے حنفی عالم تھے، علامہ بدر الدین عینی شارح بخاری کی تصریح کے مطابق وہ ابن عربی اور ان کی پیروی کرنے والوں کی تکفیر کرتے تھے۔
امام محمد بن محمد المغربی المالکی المعروف بہ ابن عرفۃ (803ھ): ان کے نزدیک کوئی منصف مزاج مسلمان ابن عربی کے فاسق، گمراہ اور زندیق ہونے میں شک نہیں کرسکتا ہے۔
علی بن یوسف الماحوزی الدمشقی (803ھ): ابن عربی کی تکفیر کرتے تھے، بلکہ اس کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ اس کا کفر تمام کافر امتوں کے کفر سےعظیم ہے۔
قاضی سراج الدین ابو حفص عمر بن رسلان البُلقینی الشافعی (805ھ):وہ ابن عربی کی تکفیر کے ساتھ ساتھ، اس کی کتابوں کو پڑھنے سے روکتے بلکہ اس کو آگ سے جلانے کا حکم دیتے تھے، وہ فتوحات مکیہ کو قبوحات ھلکیہ سے یاد کرتے تھے۔
قاضی ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم العراقی المعروفہ بہ الحافظ العراقی(806ھ): ابن عربی کی تکفیر کرتے تھے، اس کے کلام کی تاویل نہیں کی جائے گی،اس بابت مذاہب اربعہ وغیرہم کے یہاں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
قاضی مصر علامہ عبد الرحمن ابن خلدون (732ھ-808ھ) نے اپنی تاریخ کے وقیع مقدمہ2/273 (تحقیق ابراھیم شبوح/احسان عباس) ابن عربی اور ان کے عقائد پر بحث کیا ہے، ان کے ایک اورمفصل کلام کو جو استفتاء کی صورت میں ہے، علامہ برہان الدین بقاعی نے تنبیہ الغبی الی تکفیر ابن عربی ص: 167، امام سخاوی نے القول المنبی اور امام تقی الدین فاسی نےالعقد الثمین 2/179-181 وغیرہ نے نقل فرمایا ہے۔
وہ فرماتے ہیں: گمراہ کن عقائد پرمشتمل کتابیں جیسے: فصوص الحکم، فتوحات مکیہ، بُد العارف، خلع النعلین، عین الیقین، ابن الفارض اور عفیف تلمسانی کے بے شمار اشعار، یہ سب اور ان جیسی مشابہ کتابوں کا حکم یہ ہے کہ دینی مصلحت کا خیال رکھتے ہوئےانہیں آگ کے حوالے کردیا جائے، یا ان پراتنا پانی ڈالا جائے کہ روشنائی کا اثر کاغذسےمحو ہوجائے، مبادا کہ اسے پڑھ کر کوئی گمراہ نہ ہوجائے۔میرے نزدیک مالکی مذہب میں یہ ہے کہ جادوپر مشتمل کتابوں کو ، یا جن سے عقیدے میں نقصان پہونچنے کا خطرہ ہو، انہیں جلادیاجائے گا۔ ارباب حکومت پر لازم ہے کہ وہ مصلحت عامہ کا خیال رکھتےہوئےایسے ضروری اقدامات کو ضروراختیار کریں۔ باختصار۔
شمس الدین محمد ابن خضر الزبیری العیزری الشافعی (808ھ): ابن عربی کی تکفیر کرتے تھے،انہوں نے اس کے عقائد ضالہ پرًتسورات النصوص علی تہورات الفصوص تحریر فرمایا ہے۔
قاضی یمن ، معروف لغوی اور صاحب تصانیف کثیرہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروزآبادی ( 817ھ): شروع شروع میں یہ بھی ابن عربی کادفاع کرنے والوں میں سے تھے، لیکن حافظ ابن حجر صاحب فتح الباری کی تصریح کے مطابق، انہوں نے بعد میں اپنے موقف سےرجوع کرلیا تھا۔
تغری برمش بن یوسف ترکمانی حنفی (823ھ):حافظ ابن حجرانباء الغمر 3/228میں لکھتے ہیں: وہ ابن عربی اور دیگر فلسفی صوفیاء کی برابر تنقیص کرتے رہتے تھے، اس حد تک کہ وہ ان کی تمام کتابوں کو امکان بھر نذر آتش کردیتے تھے، ایک دفعہ تو فصوص الحکم کے ایک نسخہ کو تو کتے کی دم سے باندھ دیا تھا، اس سلسلے میں انہیں عوا م میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔
مؤرخ مکہ تقی الدین محمد بن احمد ھاشمی قرشی فاسی (832ھ): انہوں نے ابن عربی کی تردید میں اک مستقل رسالہ تحذیر النبیہ والغبی من الافتنان بابن عربی تالیف فرمایا تھا۔اس کے علاوہ اپنی نفیس تالیف العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین میں ابن عربی کے ترجمہ میں بھی تفصیل سے ائمہ کے اقوال وآراء کو ذکر فرمایا ہے۔ان دونوں کتابوں میں ابن عربی کے حوالے سے مختلف ائمہ کے بہت سارے اقوال محفوظ ہوگئے ہیں۔اہمیت کے پیش نظر جارڈن کے معروف عالم اور محقق امام البانی کے شاگرد رشید شیخ علی حسن علی عبد الحمیدنےابن عربی کے ترجمہ کوعلیحدہ جزء فیہ عقیدۃ ابن عربی وحیاتی وما قالہ المؤرخون العلماء فیہ کے نام سے ایک مستقل رسالہ طبع کردیا ہے.
امام القراء ابو الخیر محمد بن محمد الشافعی المعروف بہ ابن الجزری (833ھ): انہوں نے یمن میں ایک سؤال کے جواب میں فرمایا تھا: ہاں ! اسلامی حکمرانوں ، خلفاء رسول ﷺ اور علماء وحکام میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طاقت رکھتے ہیں پر واجب ہے کہ وہ ابن عربی اور ان کے پیروکاروں کی شریعت مخالف کتابوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں ، تحریمی طور پر ان کے پڑھنے پڑھانے پر پابندی عائد کریں، ان لوگوں کے کلام کی طرف توجہ نہ دیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ ابن عربی کی ظاہر (شریعت)کی مخالفت کرنے والے کلام کی تا ویل کی جائے گی۔یہ نا حق قول ہے۔ حاصل کلام یہ ہےکہ میں نے جو کچھ کہا ہے ،جو میرا عقیدہ ہےاور جو کچھ میں نے اپنے ثقہ اساتذہ سےاس بابت سن رکھا ہے ، جو میرے اور اللہ تعالی کے درمیان حجت ہیں، کہ اگر اس آدمی (ابن عربی) کی طر ف شریعت مخالف کلام کی نسبت درست ہوئی، اس نے اپنی باتیں مکمل ہوش وحواس کے ساتھ کہا ہو، اور اسی پر اس کی موت ہوئی ہو، تو ایسا شخص یہود ونصاری سے زیادہ نجس ہے۔
شیخ الاسلام علاء الدین محمد بن محمد بخاری حنفی(841ء): موصوف اپنے علم وفضل کی بنیاد پرایک مدت جنوبی ہند کے شہر گلبرگہ میںبہ غرض درس وتدریس مقیم رہے ہیں، علوم وفنون میں بلند پایہ تھے،اسی لئے وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔عقائد کے باب غالی اشعری تھے، ساتھ ہی ساتھ تصوف اور سلوک میں مہارت رکھتے تھے، امام سخاوی کی تصریح کی مطابق انہوں نے بلاد ہند میں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تصوف کی نشر واشاعت پر کافی توجہ کی تھی ۔ وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن عربی دونوں کی تکفیر کرتے تھے،انہوں نے ایک رسالہ فاضحۃ الملحدین وناصحۃ الموحدین کے نام سے رقم فرمایا ہے۔یہ رسالہ ان کے استاذ سعد الدین تفتازانی کے نام سے پہلے استانبول سے چھپا تھا، بعد میں محترم محمد بن ابراہیم عوضی نے جامعۃ ام القری مکہ سے ماجستیر کے لئے دو جلدوں میں تحقیق کرچکے ہیں ۔
ان کے نزدیک وحدۃ الوجود ، حشیش(بھانگ) کے برابر استعمال سےحاصل ہونے متناقض خیالات کا مجموعہ ہے، اس لئے کہ ان کے نزدیک کائنات کا وجود ہی اللہ تعالی کا وجود ہے، معلوم ہوا جملہ موجودات صرف اللہ تعالی ہے، کوئی نبی ہے نہ ہی کوئی رسول، نہ ہی کوئی بھیجنے والا ہے، نہ ہی کوئی بھیجا گیا ہے۔
دوسری مقام پر ابن عربی کےبارے میں فرماتے ہیں: اس نے قران کریم کی تکذیب کی ہے،اللہ رب العالمین کے کلام مبارک میں تعارض کو جائز قرار دیا ہے، شریعت مطہرہ کے قاعدوں کوزمین بوس کردیا ہے،اس لئے اس کا شمار فرعون اور اس کے قوم میں کردیا گیا، جو کافر اور نہایت گمراہ تھے، ابن عربی اور فرعون پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنتیں نازل ہوں۔
اسی طرح وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے چند دینی بھائی برابرفصوص الحکم میں موجود اباطیل کی تردیدصرف عقلی دلائل سے مطالبہ کرتے تھے، اس کو اسلام میں ایک فتح شمار کرتے ہیں،بتوں کی پوجا کرنے والوں کے ساتھ جہاد سے بڑا جہاد مانتےہیں۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: جو ان کا عقیدہ رکھتا ہے وہ اکفر الکافرین واخسر الخاسرین ہے۔ ایک دوسری جگہ پر ابن عربی کو مُمیت الدین سے یاد کیا ہے۔
آخر میں فرماتے ہیں: یہ وہ عقائد ہیں، جن کے ذریعہ سےابن عربی نے دین مرصوص کے بنیاد کو ڈھایا ہے، اس نے ان عقائد کا بالکل انکار کیا ہے جو عقل سے بداہۃ اور کتاب وسنت سے قطعی طورپر ثابت ہیں۔ مزید اس نے دعوی کیا کہ وہ ملعون زندقہ جو عقل اور شریعت دونوں طریقوں سے باطل ہے، معرفت الہی کا ذریعہ ہے، اسی لئے شیطان نے اس کا نام تصوف رکھنے پر اکسایا ہے۔
حافظ شهاب الدين احمد بن علی ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری (852ھ): آپ ،تقی الدین فاسی، برھان الدین بقاعی، حافظ محمد بن عبد الرحمن سخاوی، حافظ احمد بن علی شوکانی کے مطابق ،ابن عربی کی کھل کر تضلیل اور تکفیر کرتے تھے۔ایک مجلس جس میں سلطان مصر، جملہ قاضیان مملکت (حافظ احمد بن حجر عسقلانی،قاضی زین الدین عبد الرحمن تفہنی، قاضی محمود عینی حنفی، قاضی محب الدین احمد بن نصر اللہ حنبلی ودیگر قضاۃ ) کسی معاملہ میں مشورہ کے لئے موجود تھے، بات ابن عربی کی نکل پڑی، تو شیخ علاء الدین محمد بخاری (صاحب فاضحۃ الملحدین) نے اس کی کھل کر تکفیر کی، شیخ شمس الدین محمد بساطی مالکی نے ابن عربی کی حمایت کی،شیخ علاء الدین بخاری نے کہا کہ تم نے حمایت کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہے، تمام حاضرین مجلس نے شیخ علاء الدین بخاری کی حمایت کی۔بالآخر بساطی مالکی کو اپنے موقف سے رجوع کرنا پڑا۔ شیخ برھان الدین بقاعی کے الفاظ میں تمام علماء عصر خواہ وہ اس مجلس میں موجود رہے ہوں یا غیر حاضر ،سب لوگوں نے شیخ علاء الدین بخاری کے موقف کی حمایت کی اور کسی نے کوئی جرح نہیں کی۔حافظ ابن حجر نے خود اپنے الفاظ میں لکھا ہے کہ میں اس علمی مجلس میں شیخ علاء الدین بخاری کی جانب تھا۔
یہی نہیں حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس موضوع پر مباہلۃ کیا تھا۔ آگے کی تفصیلات انہی کی زبان سےسنیں:
ظاہر برقوق سلطان مصرکے زمانہ میں ابن الامین نامی ایک شخص تھا، جوابن عربی کے لئے شدید تعصب رکھتا تھا،جبکہ میں ان دنوں برابر اس کے معقدات کی قباحت اور عیوب کو بیان کرتا رہتا تھا،اسی طرح مصر میں ایک شیخ صفاء نام کے ایک بزرگ تھے، جن سے سلطان برقوق بڑی عقیدت رکھتا تھا، ابن الامین بھی آسانی سے ھار ماننے والوں میں سے نہ تھا، اس نے مجھے دہمکی دی کہ وہ شیخ صفاء سے کہہ کرسلطان الظاہر سے شکایت لگوائے گا کہ مصر میں ایک ایسی جماعت ہے، جو صوفیہ کی برائی کرتی ہے یا اسی طرح کی کوئی بات کہے گا، جن میں میرا نام بھی ہوگا۔، ان دنوں میں ہم جیسوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے،آزمائشوں میں ڈالے جانے کے ساتھ، تاوان بھی لگایا جاتا تھا۔
میں صاحب حیثیت تھا، مجھے اس کی سزا اور ہلاکت کا خوف ہوا، تو میں نے اس سے کہا کہ اس معاملہ میں سلطان کے یہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میرے پاس اس سے آسان اور قریب حل ہے، بعض ائمہ حفاظ کے نزدیک یہ طے پاچکا ہےاگر دو لوگ کسی مسئلہ میں مباہلہ کرتے ہیں تو ان میں گمراہ پر سال پورا نہیں گذرنے پاتا ہے، ہم دونوں مباہلہ کرلیتے ہیں، تاکہ واضح ہوجائے کہ کون برحق اور کون ناحق ہے، ہم دونوں کے درمیان مباہلہ ہوا، میں نے اس سے کہا کہ تم یہ کہو: اے اللہ! اگر ابن عربی ضلالت پر ہے تو مجھ پر تیری لعنت ہو، اس نے یہ الفاظ دُہرائے، پھر میں نے کہا: اے اللہ! اگر ابن عربی ہدایت پر ہے تو مجھ پر تیری لعنت ہو۔ اس کے بعد ہم دونوں جدا ہوگئے، اس شخص کی رہائش روضۃ نامی مقام پر تھی،ایک دن اسےایک خوبصورت شخص نےاپنے یہاں مدعو کیا، گھر واپسی کے لئےرات کے پہلے پہر میں وہ میزبان اور دیگر احباب کے ساتھ نکلا، چلتے چلتے اسے محسوس ہوا کہ کوئی چیز اس کے پیر پرسے گذری ہے، اس نے اپنے رفقاء سے کہا کہ کوئی نرم چیز اس کے پیر سے گذری ہے، دیکھو وہ کیا ہے؟ لیکن وہ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملا، گھر پہونچتے پہونچتےاس کی بینائی سلب ہوگئی اور صبح ہوتے ہوتے وہ دنیا سے رخصت ہوگیا، یہ حادثہ ذو القعدہ 797ھ کو پیش آیا، جبکہ مباہلہ سال رواں کے رمضان میں ہوا تھا۔مباہلہ ہوتے ہی حاضرین کومیں نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ مباہلہ میں ناحق پر سال پورا نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ کی حمد سےایسا ہی ہوا۔ میں اس کے شر اور مکرسے بچا رہا۔
حافظ ابن حجر نے اس واقعہ کی طرف اپنی مشہور زمانہ شرح فتح الباری کے کتاب المغازی باب قصۃ اہل نجران میں اشارہ فرماتے ہوئے لکھاہے: تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہےکہ اگر کسی نے گمراہی کے ساتھ مباہلہ کیا ، تو اس پر مباہلہ کے دن سے سال نہیں گذر پاتا، ذاتی طور پر میرا مباہلہ ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوا جو بعض ملحدوں کے لئے تعصب رکھتا تھا، اس پر دو مہینہ نہیں گذر پائے کہ فوت ہوگیا۔
حافظ محمد بن عبد الرحمن سخاوی نے لکھا ہے کہ ہمارے شیخ حافظ ابن حجر نے کسی سؤال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: کسی انصاف پسند کو اس کی تحریروں کے کفر اور ضلالت پر مشتمل ہونے میں شک نہیں ہوسکتا ہے۔ بلکہ بے شمار کافر ومشرکین کے کفر سے بڑھ کر زیادہ سخت پر مشتمل ہے، اگر کوئی اس کی تحریروں پر مطلع ہوا، پھر اُسے اپنا عقیدہ اور مذہبی شناخت بنالیا، تو وہ بلا شک کافر ہے۔اور اگر کوئی آگے بڑھ ان کفریہ عقائد کی طرف دعوت دینے لگا،تو وہ زیادہ گنہگار اور بڑا کافر ہوگا۔ اسی پر ہم نے اپنےشیوخ اور ائمہ کو پایا ہے، اس پرکسی کا اختلاف نہیں منقول نہیں ہے۔
قاضی بدر الدین محمود عینی صاحب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری (855ھ): ان کے نزدیک وحدۃ الوجود کے قائلین کا بالاجماع قتل واجب ہے۔ ایک مقام پر تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر نہ ماننے والے فرقہ قدریہ کو مجوس کا خطاب دیا ہے، تو ایسے گر وہ پر جو خالق کو مخلوق سے تشبیہ دیتا ہے، دونوں وجود کو ایک مانتا ہے ، قدیم کو حادث اور حادث کو قدیم کہتا ہے ،اولی ہے کہ انہیں بھی مجوس کہا جائے۔
امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی (902ھ): انہوں نے ابن عربی اور اس کے کفریہ عقائد کے حوالے سے القول المنبی عن ترجمۃ ابن عربی کے نام سے ایک ضخیم کتاب مدون کی ہے، جس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے ابن عربی کے عقائد کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ لیاہے، پھر ان تمام ارباب فکر ونظر کے نام بڑی دقت نظری سےجمع کردیا ہے، جنہوں نے اس کارزار میں حصہ لیا ہے، یہ کتاب بڑی کارآمد اوربے حد مفید ہے۔
نور الدین علی بن سلطان محمد ہروی، ملا علی قاری حنفی(1014ھ): انہوں نے الرد علی القائلین بوحدۃ الوجودجس کا دوسرا نام رد الفصوص معروف بہ مرتبۃ الوجود ومنزلۃ الشہود، ذیل مرتبۃ الوجود ومرتبۃ الشہود اور فر العون ممن یدعی ایمان فرعون، تین رسالے ابن عربی کی تردید میں تحریر فرمائے ہیں۔
وہ ابن عربی اور اس کی متبعین کے بارے میں لکھتے ہیں: اگر تم حقیقت میں مؤمن اورسچے مسلمان ہو، تو ابن عربی اوراس کے گروہ کے کافر ہونے میں شک نہ کرو، اس قوم کے گمراہ ہونے میں ذرا بھی تامل نہ کرو، اگر تم پوچھتے ہو کہ ان پرسلام میں پہل کی جاسکتی ہے؟ تو میں (ملا علی قاری) کہتا ہوں کہ ابتداء سلام نہیںکیا جائے گا اور نہ ہی ان کے سلام کا جواب دیا جائے گا، بلکہ علیکم بھی نہیں بولا جائے گا۔ اس لئے کہ یہ یہود ونصاری سے زیادہ شریر ہیں، ان کا حکم وہی ہے جو دین اسلام سے مرتد ہوجانے والوں کا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ان میں سے کسی کو چھینک آجائے اور وہ الحمد للہ کہے، تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ نہیں بولا جائے گا، یہدیک اللہ سے جواب دیا جائے یا نہیں؟ سو یہ بھی محل بحث ہے۔ اسی طرح ان میں سے اگرکوئی مرجائے، تو اس پر صلاۃ جنازہ نہیں پڑھا جائے گا ۔ باطل عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی ساری عبادتیں قبول نہیں ہوں گی۔دار الاسلام میں ارباب حکومت پر لازم ہے کہ ایسے فاسد عقیدہ اور باطل تاویل کرنے والوں کو آگ سے جلا دیں اس لئے کہ یہ زیادہ نجس ہیں۔ اور زیادہ نجس ہیں ان لوگوں سے جو حضرتعلی بن ابو طالب کی الوہیت کادعوی کرتے ہیں، انہوں نے تو انہیں آگ سے جلاڈالا تھا،ان کی کتابوں کو جلانا واجب ہے۔ ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ ان شقاق ونفاق کو بیان کرے، اس لئے کہ علماء کی خاموشی اور رایوں کا اختلاف اس فتنہ اور دیگر آزمائشوں کے پنپنے کا سبب بنا ہے، ہم اللہ تعالی سے حسن خاتمہ کی دعا کرتے ہیں۔
شیخ احمد بن عبد الاحدفاروقی سرہندی (۹۷۱ھ- ۱۰۳۴ھ) : آپ نے اپنے مکتوبات کے متعدد مقامات پر وحدت الوجود پر نکیر فرمائی ہے، بلکہ وحدت الوجود میں پنہاں خرابیوں کو دور کرنے کے لئےاس کے بالمقابل وحدت الشہود کے نام سے مستقل نظریہ بھی پیش کیا ہے۔
علامہ محدث محمد حیات سندھی (۱۱۰۶۳ھ): انہوں نے ایک رسالہ ہی اس موضوع پر لکھ دیا ہے فتح ا لعین فی التکلم فی مسئلۃ العینۃ ووحدۃ الوجود ۔اس رسالہ میں انہوں نے ابن عربی کے عقائد کا جائزہ لیا ہے۔
سید ابو الفتح صدر الدین محمد گیسو دراز حسینی(۷۲۰ھ-۸۲۵ھ):تصوف میں شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی کے خلیفہ ہیں،آپ نے اپنے مکتوبات میں ابن عربی ، عطار اور مولانا روم کے وجودی عقائد پر سخت اعتراضات کیے ہیں اور انہیں اسلام دشمن قرار دیا ہے۔
نواب صدیق حسن خان حسینی قنوجی (1248ھ-1307ھ): نواب صاحب نے اپنی متعدد کتابوں اور رسالوں میں اس فاسد عقیدہ کا جائزہ لیا ہے۔
آپ اپنے رسالہ المعتقد المنتقد ص: 164 میں لکھتے ہیں: اصل اسباب میں یہ ہے کہ جو چیز کتاب وسنت میں ثابت ہے ، اس کی تصدیق کرنا واجب ہے، جیسے: عُلوِرب واستواءرحمن عرش پرونحو ذلک۔اور وہ الفاظ نفی واثبات کے جو ابتداع واحداث کئے گئے ہیں ، جیسے : وہ جہت میں نہیں ہے، یا متحیز یا غیر متحیز نہیں ہے ، یا نہ جسم ہے نہ جوہر نہ عرض، نہ متصل نہ منفصل، ونحو ذلک، سو کوئی نص اس بارہ میں آںحضرت ﷺ، یا صحابہ رضی اللہ عنہم، یا تابعین، یا ائمہ مسلمین سے نہیں آئی ہے۔ان میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی کہ اللہ جہت میں ہے، یا بے جہت ہے، یا متحیز ہےیا نہیں، یانہ جسم ہے نہ جوہر ۔ کیونکہ یہ الفاظ کچھ منصوص کتاب وسنت نہیں ہیں، نہ ان پر اجماع ہوا ہے۔ پھر جو لوگ کہ یہ الفاظ بولتے ہیں کبھی معنی صحیح کا ارداہ کرتے ہیں، اور کبھی معنی فاسد کا، اسی جگہ اہل حلول واتحاد داخل ہوئے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ میں ہے، اور وجود مخلوقات کا یہی وجود خالق ہے، غرض کہ لوگ تین طرح پر ہیں:
ایک: اہل حلول واتحاد۔
دوسرے: اہل نفی وجحود۔
تیسرے: اہل ایمان وتوحید وسنت۔
حلولیہ کا قول یہی ہے کہ اللہ ہر مکان میں ہےاور عین مخلوق ہے۔
اہل نفی کہتے ہیں کہ اللہ نہ داخل عالم ہےاور نہ خارج عالم۔ اور نہ مبائن خلق اور نہ فوق عالم۔ اور نہ اس کی طرف سے کوئی شئ نازل ہو ، نہ اس کی طرف کوئی شئ صاعد ہو، نہ کوئی اس سے قریب ہے۔ اور نہ وہ کسی پر تجلی کرے، اور نہ کوئی اس کو دیکھے۔ متکلمہ جہمیہ معطلہ کا قول یہی ہے، جس طرح کہ پہلا قول عُباد جہمیہ کا تھا، جہمیہ متکلمہ تو کسی شئ کی عابد نہیںہیں، اور عباد جہمیہ ہر شئ کی عابد ہیں۔ مرجع ان کے کلام کا طرف تعطیل وجحود کے ہے، جو کہ قول فرعون تھا۔ الحاصل جو کوئی اللہ کے اسماء وصفات میں خلاف کتاب وسنت کے تکلم کرتا ہے، وہ خائض بالباطل ہے،۔ وقد قال تعالی: واذا رایت الذین یخوضون فی آیاتنا فاعرض عنہم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ۔ پھر ان میں ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو اپنے اعتقادات باطلہ کو طرف ائمہ مجتہدین کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ وہ اقوال ان ائمہ وسلف سے ثابت نہیں ہیں۔
نواب صاحب نے اپنی کتاب قطف الثمر اور الدین الخالص میں وحدۃ الوجود کی تردید فرمائی ہے۔
ان کے علاوہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر، جن میں مفسرین، محدثین، فقہاء اور ارباب حکومت بھی ہیں، ابن عربی اور ان کی پیروی کرنے والوں کی تضلیل وتکفیر کرتی ہے۔معلوم ہوا کہ:
۱- وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خدا ہے اور خدا کائنات ہے۔جبکہ اللہ رب العالمین تمام کائنات کا خالق حقیقی ہے، وہی مالک الملک ہے۔
۲ – وحدت الشہود کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کائنات کا پر تو اور عکس اور ظل ہے۔
۳ – یہ دونوں نظریے ذات باری تعالی اور مخلوقات کے تعلقات کو بیان کرتے ہیں، اور تصوف کی زبان میں اسے توحید عینی اور توحید ظلی کہا جاتا ہے۔
۴ – معروف یہی ہے کہ فلسفہ وحدت الوجود کا بانی ابن عربی ہے، لیکن اس سے پہلے بھی امت مسلمہ اورغیر مسلمہ میں بھی اس کے قائلین رہے ہیں۔
5 ۵-معروف صوفی شیخ احمد بن عبدالاحد فاروقی سرہندی معروف بہ مجدد الف ثانی نے وحدت الوجود کی خرابیوں کو دور
کرنے کے لئے وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا، لیکن آگے چل کر اصلاح کے بجائے دو مخالف مکتبہ فکر ابھر کر سامنے آئےجو امت میں مزید تفرقہ کے ساتھ مسئلے کی پیچیدگی کا سبب بنے۔
۶- وحدۃ الوجود پر ایمان رکھنے سے ایمان وعقیدہ میں بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جن میں چند کو یہاں پر ذکرکیا جارہا ہے: ایسی صورت میں خالق ومخلوق دونوں ایک درجہ میں ہوجاتےہیں ، عابدہی معبود ہوتا ہے اور معبود بھی عابد بن جاتا ہے۔ ثواب دینے والا اور لینے والے دونوں برابر ہوتے ہیں۔خالق ومخلوق میں اتحاد کیسے روا ہوگا؟ ابن عربی کا یہ شعر نہایت مشہور ہے:
الرب حق والعبد حق یا لیت شعری من المکلف
اسی طرح یہ شعر بھی مشہور ہوا ہے: فیحمدنی واحمدہ ویعبدنی واعبدہ
اسی طرح سے علو رب وبرتری کے انکار کا راستہ کھل جاتا ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پریشانی کے وقت رسول اکرم ﷺ سے مدد طلب کرتےہوئے نظر آتے ہیں۔
7-ہر دور میں ائمہ محدثین وفقہاء کی ایک جماعت رہی ہے ، اسی طرح چند صوفیاء بھی وحدت الوجود اور وحدت الشہود کو شریعت مطہرہ کا حصہ نہیں مانتے تھے، بلکہ اس کا عقیدہ رکھنے والوں پر سخت نکیر کرتے تھے ،اس پر ان کے متعدد رسالے گواہ ہیں۔
۷- قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی روشنی میں اللہ تبارک وتعالی اپنی ذات وصفات میں یکتا اور بے مثال ہے، عیوب ونقائص سے بالکل پاک ہے ، واپنے عرش پر مستوی اور اپنی مخلوقات سے جدا وبر ترہے۔ نہ ہی اس کا کوئی ہم پلہ و ہم نوا ہے۔ وہ خالق، مالک اور معبود ومسجود ہے۔ جبکہ تمام مخلوقات مخلوق، محکوم، مملوک، اس کی عبادت کی پابند اور شریعت مطہرہ کی مکلف ہے۔لیس کمثلہ شئی وہو السمیع البصیر۔
حواشی
[1] وحدت الوجود ایک غیر اسلامی نظریہ پروفیسر الطاف احمد اعظمی ص: 79، فلسفہ وحدت الوجو مولانا سعید احمد اکبر آبادی د ص: 350-352۔
[2] وحدت الوجود اور وحدۃالشہود ڈاکٹر ملک غلام مرتضی ص: 5۔ملک سنز پبلشرز اینڈ بک سیلر لاہور۔
[3] الرد الاقوم علی مافی فصوص الحکم لابن تیمية ص:41-42، فلسفہ وحدت الوجود ص: 7، وحدت الوجود اور وحدۃالشہود ڈاکٹر ملک غلام مرتضی ص: 5، فرہنگ اصطلاحات تصوف ص: 171-172۔
[4] بغية المرتاد ص: 407، الرد الاقوم ابن تیمية ص: .
[5] مجموع الفتاوی 2/368،3/394، 5/283۔
[6] القول المنبي عن ترجمة ابن العربي للامام السخاوي 2/148۔
[7] ابن عربی: عقیدته وموقف علماء [...]