محمد اصغر انصاری *

کھینچو نہ کمانوں کو، نہ تلوار نکالو

جب  توپ مقابل  ہو، تو اخبار نکالو

سر سید احمد خاں کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔وہ اعلیٰ ذہنیت کے مالک تھے۔ان کی علمی کاوشوں کے بارے میں کسی بھی ادیب یا دانشور کو اعتراض نہیں۔وہ بیک وقت علم داں،صحافی ،ماہر اقتصادیات اور نہ جانے کتنے علوم و فنون پر ان کی دستگاہ تھی۔محققین کے لیے بابِ سر سید ابھی تشنہ ہے۔ان کی قومی خدمات کو ہم نظر اندازنہیں کر سکتے کہ کس طرح ہمارے موجودہ وقت اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے اپنا تن،من اور دھن ایک کر دیا۔ایسی مثال آپ کو کم ہی نظر آتی ہیں۔

آج جب ہم سرسید احمد خاں کی صحافت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے خدمات کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا  ہے کہ انھوں نے اپنی صحافت کے ذریعے قوم و ملت کے لیے بہترین کا م کیا ہے۔سرسید کی خوبی بیا ن کرتے ہوئے شیخ عمران لکھتے ہیں……….

                        “سر سید کی شخصیت جتنی بڑی دلکش تھی ،اتنی ہمہ گیر بھی تھی وہ بیک وقت اصلاح  معاشرہ کے پرزور علم بردار ،غیر معمولی بصیر ت کےماہر تعلیم،دیدور سیاسی مدبر، روشن خیال مذہبی مفکر،گہری لگن کے مورخ،موثر اور فکر انگیز تحریر کے مالک انشاء پرداز تھےہی اس کے علاوہ وہ بے باک و بے خوف صحافی  بھی تھے۔”  (1)

سب سے پہلے ہم صحافت کی بات کرتے ہیں،کہ صحافت کسے کہتے ہیں؟ صحافت کی تعریف  کرتے ہوئے ڈاکٹر احسان عالم اپنی کتاب ”اکیسوی صدی میں اردو صحافت” میں لکھتے ہیں…..

                             “لفظ  صحافت صحیفہ سے نکلا ہے۔صحیفہ کا لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں ۔صحیفہ سے  مراد ایک ایسا جریدہ جو خاص وقفہ پر نکلتا ہو۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اخبارات ،رسائل اور جرائد، صحیفہ کے زمرے میں آتے ہیں ۔”  (2)

مشہور مفکر میتھو آرنالڈ نے صحافت کے بارے میں لکھا ہے کہ…….

“صحافت عجلت میں لکھا گیا ادب ہے” مین نے اس مضمون کی شروعات اکبرالہ آبادی کے ایک مشہور شعر سے کیا ہے…..

کھینچو  نہ  کمانوں کو ، نہ تلوار نکالو

جب توپ  مقابل  ہو، تو اخبار   نکالو

یہ اکبر الہ آبادی کا بہت ہی پیارا شعر ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ قوم کی خدمت میں جس طریقے سے حصہ لے رہے تھے،وہ باعثِ نجات ہے۔چاہے وہ مرد مجاہد کی شکل میں ہو یا بے باک صحافی کے روپ میں۔آپ کے مضامین ملک میں انقلاب پیدا کر رہے تھے۔

صحافت کو چار ستونوں میں بانٹ کر دیکھا جاتا ہے۔پہلا ادارت،دوسرا شعبہ اشتہارات ،تیسرا تجارت یعنی سر کلیشن (circulation)اور چوتھا انتظامیہ(management)۔ان چار شعبوں کی عدم موجودگی میں کوئی بھی اخبار یا رسالہ کبھی بھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتا ان سب چیزوں کے بر عکس سر سید کی صحافت عوامی فلاح و بہبود کے لیےتھی۔ان کا خیال تھا کہ اخباروں کے ذریعہ مسلم قوم کو بیدار کیا جا سکتا ہے۔وہ اپنے مضامین میں ایسے عنوان شامل کرتے تھے،کہ جس سے ہندستانی قوم اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ سکے۔

سر سید پہلے مسلم رہنما تھے جنہوں نے انگریزوں کی پروردہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کےمقابلےمحمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کرکےایک طرف مسلمانوں کو کانگریس میں شمولیت سے باز رکھنے اور دوسری طرف مسلمانوں کو ہندؤں کے برابرلانے اورحکومت کے عمل دخل میں شریک کرنے کے لیےہندستان کے دور دراز علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیمی حالات سدھارنے کے لیے ملک گیر مہم چلائی۔سر سید کے اسلوب بیان کے بارے میں مولانا الطاف حسین حالیؔ لکھتے ہیں……

                “سرسید احمد خاں کے علمی اور تاریخی  مضامین  میں دریا کے بہاؤ کی سی روانی ہے، تو مذہبی اور سیاسی تحریروں  میں چڑھاؤکی تیرائی  کا سا  زور ہے۔اعتراضات کے جواب میں متانت اور سنجیدگی ہےتوبے  دلیل دعوؤں کے  مقابلے میں  ظرافت اور خوش طبعی۔غصہ مہربانی سے پر لطف ہےاور نفریں اورآفریں سے زیادہ خوش آئند  ہے۔”  (3)

1857ء کی جنگ آزادی کے متعلق سرسید احمد خاں نے  ایک خط میں لکھا ہے کہ :’غدر کیا ہوا؟ ہندؤوں نے شروع کیا،مسلمان دل جلے تھے،وہ بیچ میں کود پڑے۔ہندو تو گنگا نہاکر جیسے تھے ،ویسے ہی ہو گئےمگر مسلمان کے تمام خاندان تباہ و برباد ہوگئے……….غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنےکا رنج تھا نہ مال و اسباب تلف ہونے کا ۔جو کچھ رنج تھااپنی قوم کی بربادی کا تھا۔’

سرسید احمد خاں نے اپنی صحافتی زندگی کی شروعات “سیدالاخبار”سے کی۔”سید الاخبار” سرسید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد کے ادارت میں شائع ہوتاتھا۔سر سید نے بڑے بھائی کے انتقال کے بعد اخبار کی ادارت کا ذمہ اپنے اوپر لے لیا ۔سیدالاخبار کے بارے میں امداد صابری اپنی ہمہ گیر تصنیف ‘تاریخ صحافت اردو : جلد اول’میں تحریر فرماتے ہیں…..

                “یہ اخبار اس وقت وجود میں آیا  جب سر سید مرحوم کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی۔ سر سید کے ابتدائی مضامین غالباََ اسی اخبار میں شائع ہونے شروع ہوئے تھے۔” (4)

سرسید احمد خاں ایک مفکر المثل انسان تھے۔انہیں قوم کی خدمت کس طریقے سے کرنی ہے ،بخوبی واقف تھے،جب سر سید مرادآباد میں مقیم تھےاس وقت شمالی مغربی صوبہ میں قحط پڑا۔اس وقت سرسید احمد خاں نے حسن اخلاق کا ثبوت دیا۔وہ خود قحط سے متاثر لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ان سب چیزوں سے متاثر ہوکرراجہ جے کشن پرساد نے لکھا ہےکہ……

                        ” جب سر سید نے  ‘لائل  آف محمڈنزآف انڈیا’  لکالنا  شروع کیا  تو اس کے  فکروں  سے مجھے یہ خیال   ہوا کہ سرسید  احمد خاں نہایت معتصب  آدمی  ہیں، اور ہندؤوں سے ان کو ہمدردی نہیں ہے۔اس وقت مصمم ارادہ ہو گیا تھا کہ اسی طرح ایک رسالہ ہندو خیر خواہ کے تذکرے میں نکالا جائے۔اور پھر ان سے ملاقات کے بعداس چیز کا اظہار کیا تو ان کا اندازہ الگ نکلا۔”(5)

“رسالہ خیر خواہ مسلمانان” 1960ء میں سر سید نے نکالنا شروع کیا ۔اس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں زیادہ تر مضامین مسلمانوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خاص طور سے لکھے جاتے تھے۔اس رسالے سے مسلمانوں کی جو امیدیں قائم ہوئی تھی سر سید اس کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔اس رسالے کے عنوان سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی خیر و عافیت کے لیے یہ رسالہ نکالا گیا تھا ۔سر سید کی دور اندیشی فکر سے ہم مستفیض ہو،اسی لیے یہ رسالہ قوم کی خدمت میں نکالا گیا تھا۔

سرسید احمد خاں اس وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے،سمجھتے ہوئےعمل کے میدان میں داخل ہوئے۔ن کا خیال تھا کی مسلمانوں اور انگریزوں کےدرمیان خوشگوار تعلقات قائم کیےجائیں۔ 1963ء میں سر سید نے ایک ایسی تجویز پیش کی کہ ایک ایسی مجلس قائم کی جائےجو ہندستان میں علم کی توسیع اور ترقی کے لیے کام کرے۔علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے تعلق سے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید تحریر فرماتے ہیں……

                3/مارچ 1966ء کو ‘علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی’  یا علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ جاری ہوااور

                سر سید کے وفات کے بعد بھی باقائدگی سے  نکلتارہا۔یہ  اخبارپہلے ہفت  روزہ تھا ،پھر سہ روزہ

                 ہو گیا۔اسی کا ایک کالم انگریزی اور ایک کالم اردو میں ہوتا تھا  اور بعض مضامین انگریزی  اور

                اردو میں الگ الگ چھاپے جاتے تھے ۔اس لیے اس سے ہندستانی اور امگریز دونوں فائدہ اٹھا

                سکتے تھے۔”  (6)

اخبار سائنٹفک سوسائٹی سے قبل اردو اخبار میں اداریے لکھنے کا رواج نہیں تھا ۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سےیہ رواج عام ہوا۔ اداریہ کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ بنا ہنگامہ خیزی اور بے جا جوش و خروش سے ہٹ کر کسی بھی مسئلہ کو دلائل سے قاری کو مطمئن کریں۔محمد افتخار کھوکھراداریے کے سلسلے میں سر سید احمد کے بارے میں لکھتے ہیں……….

                ” سرسید احمد خاں نے ایسے اداریے تحریر کیےجن کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر پہلو پر

                گہری نطر رکھتے تھے۔وہ پیشہ ور صحافی نہیں تھے لیکن مختلف واقعات پر  ان کارد عمل جس سلیقے

                سے ہوتا تھاوہ اہلِ صحافت کے لیے مشعلِ راہ کے مانند ہے۔یہ اخبار اردو صحافت میں مقصدیت

                کو فروغ دینے والا پہلا اور جامع نمونہ تھا۔”  (7)

سرسید احمد خاں کی خوبی یا قابلیت یہ تھی کہ وہ عوام الناس کے خیالات کی ترجمانی بے باکی کے ساتھ ،لیکن اس طرح دامن بچا کر کرتے تھے کہ بات بھی بن جائے اور اجنبی حکومت کے ارباب  پریشان بھی نہ ہو ۔ ان کے اخبار کی ایک اور خوبی خبروں کی صحت اور اختصار ہے۔اس زمانے کے اخباروں میں بہت طویل طویل خبریں شائع ہوتی تھی ،ترجمہ بہت غلط سلط ہوتا تھا۔اس کے علاوہ خیال آرائی زیادہ کی جاتی تھی ۔خبروں کا تسلسل بنائے رکھنے کا بہتر نمونہ  اس وقت اخبار سائنٹفک سوسائٹی ہی میں بہتر نظر آتا ہے۔ اخبار سائنٹفک سوسائٹی ایک سیاسی ،علمی ،اخلاقی اور معاشرتی اخبار تھا جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندستانیوں کے لیے منظر عام پر لایا گیاتھا۔ہندستان میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کو اردو صحافت کے ضمن میں وہی مقام حاصل تھا جو آج انگلستان میں ‘دی ٹائمز'(The Times) کو حاصل ہے۔

1858ء میں جب سر سید احمد انگلستان کے سفر پر گئےتو وہاں انھوں نے  دو مشہور علمی وادبی  اخبار ‘ٹیٹلر’و’اسپکٹیٹر (The Tatler ,& The Spectator) نظر آئے۔یہ اخبار انگلستان کے دو مشہور صحافی رچرڈاسٹیل(Richard Steele ) اورجوسف ایڈیسن((Joseph Addison    نکالتے تھے۔ سرسید احمد خاں نے دیکھا کہ یہ دو اخبار انگلستان میں تہذیب الاخلاق کا کام کر رہے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ہندستان میں ایک ایسا رسالہ نکالا جائےجس کے ذریعے سوئی ہوئی قوم کو جگایا جاسکے۔انگلستان سے ہندستان لوٹنے کے بعد انھوں  ‘تہذیب الاخلاق ‘ کا اجراء24/دسمبر 1870ءکو کیا۔

تہذیب الاخلاق کا پہلا پرچہ 24/دسمبر کا شائع ہوا۔اس کے دو نام تھے ۔اردو میں تہذیب الاخلاق اور انگریزی میں دی محمڈن سوشل ریفارمر((The Social Reformer ۔تہذیب الاخلاق کبھی مہینے میں دو بار تو کبھی مہینے میں تین بار شائع ہوتا تھا۔یہ سلسلہ مسلسل تین سال تک چلتا رہا۔ تہذیب الاخلاق نے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا۔ تہذیب الاخلاق نے مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام کو رائج کریں۔تعلیم نسواں کا بھی انتظام کریں اور ہر قسم کے علوم و فنون سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں ۔سر سید کا تہذیب الاخلاق جاری کرنے کا خاص مقصد یہی  تھا۔ تہذیب الاخلاق کی خوبی بیان کر تے ہوئے محمد افتخار کھوکھرسر سید کے بارے میں لکھتے ہیں…….

                ”سرسید احمد خاں نے   اردو صحافت کو اعلیٰ روایت سے ہمکنار کیا۔صداقت ،بے خوفی  اوربے

                غرضی ان کی صحافت کا طرہ امتیاز تھا۔ سرسید احمد خاں نے جس مسئلے کو بیان کرنا چاہا بے خوف

                اور بے غرض ہوکر بیان کیا ۔ان کے ذہن و قلب میں جو کچھ آیا ،اسے درست جان کر بیان کر

                دیا۔اپنی ذات کے لیے کبھی کسی پر کیچڑ نہ اچھالی اور نہ ہی بے جا تنقید کو روا رکھا۔”  (8)

سرسید احمد خاں سے پہلے ہمیں میر امن کی’ باغ و بہار’ اور مرزا غالب کے خطوط میں نثر کے اولین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔مرزا غالبؔ اپنے خطوط کو مکالمے کی شکل میں لکھا کرتے تھے۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسےدو شخص آپس میں گفتگو کر رہے ہو۔ پھر بھی اس وقت نثری مضامین کی کمی تھی۔حالانکہ میر امن اور مرزا غالبؔ کے حوالے سےنثری مضامین عوام تک کم پہنچا،لیکن انھوں نے سرسید احمد خاں کے لیے راہیں ہموار کی۔ سرسید احمد خاں نےاپنے اخبار میں اس بات کا خیال رکھا کہ عوام ان کی سادہ لفظی کو آسانی سے سمجھ سکے،کیونکہ سر سید عوام کی نفس کو بہتر جانتے تھے۔تہذیب الاخلاق کے حوالے سے معین الدین صاحب نے سر سید کے بارے میں لکھا ہے کہ…….

                   ” جناب سرسید نے ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کی دستگیری کی جب  ان کی ہمتیں پست ہو

                   چکی تھی۔ساری قوم پر بے بسی اور مایوسی طاری تھی ،اور انھیں کوئی ایسا راستہ دکھائی نہ دیتا تھا

                   جس سے وہ اپنی تہذیب کی حفاظت کے ساتھ فارغ البالی اور عزت کے زندگی بسر کر سکیں۔”(9)

سرسید احمد خاں کے مضامین میں مذہب کو جدید زندگی کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش ملتی ہے۔ان میں ایسے مذہبی مسائل زیر بحث آئے جن کا تعلق عام زندگی سے براہ راست ہوتا ہے۔وہ دوسرے مذاہب کی کتابوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے کہ اسلام دین فطرت ہے۔انھوں نے اسلام کے بنیادی عقائد کے متعلق سائنٹفک انداز میں بحث کی ہے۔مذہب کو مدنظر رکھتے ہوئے سرسید احمد خاں کے بارے میں پروفیسرثریا حسین نے اپنی مشہور کتاب ‘ سرسید احمد خاں اورا ن کا عہد’ میں رقم طراز ہیں……

                ” سرسید احمد خاں نے احادیث،کتبِ احادیث،اقسام احادیث و قصص   احادیث وتفاسیرجیسے

                 عنوانات پر مضامین لکھے ،جن میں کچھ مسائل اٹھائے۔انھوں نے اپنے مضمون ‘احادیث’میں

                یہ سوال کیا کہ حدیث  بلفظ روایت کرنی   لازم ہےیا  بالمعنی؟کچھ محدثین کے  خیال  میں  روایت

                بالمعنی صحیح اور کچھ بلفظ روایت کو بہتر سمجھتے ہیں۔” (10)

سرسید احمد خاں ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے جس کا اعتراف ہر دور کے ادباءاور اصحاب علم و فکر نے کیا ہے۔ان میں چند کے تاثرات سرسید احمد خاں کی شخصیت کو نمایاں کرتی  نظر آتی ہے۔اکبر الہ آبادی جو ہمیشہ ان پر طنز کرتے ،ان کے مشن کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ……

”ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے۔”

مہدی افادی کا قول بھی یہاں درج کرنے کے قابل ہے،کیونکہ وہ سرسید احمد خاں کے بارے میں لکھتے ہیں…….

                ”لوگ کہتے ہیں کہ سر سید نے کالج بنایا،میں کہتا ہوں اس نے قوم بنائی ،قومیت کا

                تصورپیش کیا ،نئی نسل ساری کی ساری ‘تہذیب الاخلاق’ کی پروردہ ہے۔”

حامد حسن قادری کے بقول………

                ” سرسید احمد خاں کی زندگی میں،بلکہ پوری انیسوی صدی میں کوئی دوسرا مصنف ایسا نہیں ہے،

                جس کی تعداد میں اتنی زیادہ ،موضوعات میں اتنی مختلف ،ضخامت میں اتنی  گراں ،خوبیوں میں

                 اتنی اعلیٰ ،فوائد میں اتنی کثیراور اثر اتنی وسیع تصانیف رقم کی ہیں۔”

یہ حقیقت ہے کہ رسالہ تہذیب الاخلاق سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔یہ رسالہ سب سے زیادہ افسردہ دل اورمردہ قوم کے لیے تھا۔اس سے قوم میں زندہ دلی پیدا ہوئی اور  رسالہ نے یہ ثابت کر دیا کہ زبان اردو میں ہر قسم کے مضامین اور خیالات کے ساتھ ادا ہو سکتے ہیں۔بحرحال سرسید احمد خاں اعلیٰ پایہ کے صحافی تھے۔ایک صحافی کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انھوں نے انجام دی ہیں ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سرسید احمد خاں نے اردو صحافت  کووہ وزن و وقارعطا کیا جس کی نظیر کم ہی نظر آتی ہے۔میں اس مقالہ کو اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا جس میں ان کے کارناموں کا ذکر ہوا ہے۔

تیرے احسان رہ رہ کر سید یاد آئیں گے ان کو

کریں  گے   ذکر  ہر مجلس میں دہرائینگے   ان کو

حواشی

1۔شیخ محمد عمران،مرد صحافت: سرسید احمد خاں،ماہنامہ تہذیب الاخلاق،سر سید نمبر اکتوبر 2013ء،ص:118

2۔ڈاکٹر احسان عالم،اکیسوی صدی میں اردو صحافت،مرتب ڈاکٹر امام اعظم،ایجوکیشنل بک ہاؤس دہلی،2016ء،ص:139

3۔محمد افتخار کھوکھر،تاریخ صحافت،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،1995ء،ص:78

4۔احمد ابراہیم علوی،اردو صحافت کا جائزہ،کوالیٹی پرنٹرس لکھنؤ،2000ء،ص:144

5۔خلیق احمد نظامی،جدید ہندوستان کے معمار: سرسید احمد خاں مرتب ڈاکٹر اصغر عباس،وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند،1971ء،ص:47

6۔عبدالسلام خورشید،صحافت پاکستان و ہند میں ،مجلسِ ترقی ادب لاہور،1963ء،ص:204

7۔ محمد افتخار کھوکھر،تاریخ صحافت،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،1995ء،ص:80

8۔ایضاََ،ص:88

9۔معین الدین، ماہنامہ تہذیب الاخلاق،سر سید نمبر اکتوبر 2013ء،ص:166

10۔پروفیسر ثریا حسین،سر سید اور ان کا عہد،ایجوکیشنل بک ہاؤس علیگڑھ،1993ء،ص:251

کتابیات

1۔تاریخ صحافت ،جلد اول و دوم،امداد صابری،کلکتہ،1953ء

2۔حیات جاوید،الطاف حسین حالی،انجمن ترقی اردو بیورو،دہلی،1939ء

3۔تاریخ صحافت، محمد افتخار کھوکھر ،اسلام آباد ،پاکستان،1995ء

4۔سر سید اور ان کا عہد، پروفیسر ثریا حسین ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علیگڑھ،1993ء

5۔ماہ نامہ تہذیب الاخلاق،سر سید نمبر،علی گڑھ،2013ء

6۔اردو صحافت کا جائزہ،احمد ابراہیم علوی،کوالیٹی پریس لکھنؤ،2000ء

7۔ اکیسوی صدی میں اردو صحافت،مرتب ڈاکٹر امام اعظم،ایجوکیشنل بک ہاؤس دہلی،2016ء

8۔ جدید ہندوستان کے معمار:سرسید احمد خاں مرتب ڈاکٹر اصغر عباس،وزارت اطلاعات و نشریات حکومت ہند،1971ء

9۔ ماہ نامہ تہذیب الاخلاق،سر سید نمبر،علی گڑھ،اکتوبر،2014ء

10۔جدید اردو صحافت،طٰہٰ نسیم،ہنی بک ہاؤس ،دہلی

    * ریسرچ اسکالر (اردو)

شعبہ عربی،فارسی، اردو و مطالعات اسلامی

بھاشا –بھون،وشو- بھارتی یونیورسٹی، شانتی نیکیتن

مغربی بنگال۔731235

موبائل نمبر۔7076554040

ای میل۔mdashgaransari@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *