نور الصباح*

رضیہ سجاد ظہیر 15؍فروری 1917ء کو اجمیر، راجستھان میں خان بہادر سید رضا حسین کے گھرانے میں پیدا ہوئیں،جو اجمیر اسلامیہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ان کے دادا سید امام حسین آثم صاحب دیوان شاعر تھے۔ وہ لوگ تعلیم و تعلم اور درس و تدریس سے منسلک ایک روشن خیال ماحول کے پروردہ تھے، لہذا رضیہ سجاد ظہیر کو بھی تعلیم کے لیے کسی جدوجہد کا سامنا نہیں کرنا پڑا، انہوں نے میٹرک ، ایف اے اور بی اے تک کی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی،پھر شادی کے بعد الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری فرسٹ ڈویژن سے حاصل کی۔ ان کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ان کا نام شادی سے قبل رضیہ دلشاد تھا ۔ 10؍دسمبر 1938 میں 21؍ برس کی عمر میں سجاد ظہیر سے شادی کے بعد رضیہ سجاد ظہیر بن گئیں۔ انہو ں نے ایسے وقت میں ہوش سنبھالا تھا ، جب متوسط طبقے میں تعلیم نسواں کا رواج عا م ہوا، پڑھنے اور لکھنے والی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ محمدی بیگم اور بیگم بھوپال کی ادارت میں’ ’ تہذیب نسواں‘‘ اور ’’ظل السلطان‘‘ جیسے رسالے نکلتے تھے۔ اس وقت خواتین افسانہ نگاروں کی تعداد میں اضافے ہوئے تو مختلف رسالے بھی نکلنے لگے۔ وہ رسالے’’ عصمت‘‘ ’’سہیلی‘‘ ’’نور جہاں‘‘ اور’’ خاتون‘‘ وغیرہ تھے ، جن میں طیبہ بیگم، نفیس دلہن، عطیہ فیضی، صغریٰ ہمایوں اور خجستہ سہروردی وغیرہ نے اپنے افسانوں کے ذریعہ سے عورتوں میں بیداری پیدا کرنے کا کام شروع کیا۔ انہیں اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی خودی کی شناخت کی طرف توجہ دلائی۔ افسانہ نگار خاتون کے ساتھ ساتھ ناول نگار خاتون کا گروہ بھی پے در پے سامنے آمنے لگا،جن میں طیبہ بیگم، عباسی بیگم، والدہ افضل علی اور نذر سجا د حیدر کے نام کافی شہرت کے حامل ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے عورتوں کی گھریلو الجھنوں ، ان کے حقوق کی رہنمائی ، گھریلو تشدد اور ان کے پس پردہ ان وجوہات کو پیش کیا جو عورتوں کی خانگی زندگیوں کو اجیرن کرنے کے لیے کافی تھیں، پھر بعد کے عرصے میں حجاب امتیاز علی نے رومانوں کی سیر کرانے کے علاوہ ان حقیقتوں کو بھی آشکار کرنے کی کوشش کی جو عورتوں کے لیے مشکلات کی راہیں کھڑی کرتی تھیں، انہو ں نے جہیز جیسی ملعون چیز کو اپنی کہانی میں پیش کیا۔ تو دولوگوں کے مابین دھڑکتے ہوئے دلوں کی داستان بھی سنائی ،اور اس داستان کی پامالی کی وجوہات بھی بیان کیں، رضیہ سجاد ظہیر نے جب ہوش سنبھالا تو ان ادیباؤں کی کتابیں اور عورتوں الم زدہ داستانیں ان کے ارد گرد بکھری پڑی تھیں۔ جس کا اثر ان کی شخصیت پر پڑا ۔اجمیر میں ان مفلس سیدانیوں سے ان کے گہرے مراسم بھی تھے جو وقتاً فوقتاً ان کے افسانوں میں نظر آتے ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر کی شریک حیات تھیں۔ ان دونوں کے مزاج یکساں تو تھے ہی ذہنیت میں بھی یکسانیت تھی۔ رضیہ سجاد ظہیر بھی ترقی پسند ادیبوں کے صف اول میں شمار کی جاتی تھیں، وہ اشتراکی خیالات کی ہمنوا تھیں اور ان کے افسانوں کے کردار بھی اسی ہمنوائی کے مرہون منت تھے۔ وہ شادی سے قبل بھی چھوٹی موٹی تحریریں رقم کیا کرتی تھیں ۔ شادی کے بعد ان کے قلم کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔ ’ ’پھول‘ ‘’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’عصمت‘‘ وغیرہ میں ان کے افسانے شائع ہوتے رہے۔ انہو ں نے افسانے ناول ، ناولٹ تحریر کرنے کے علاوہ بے شمار کتابوں کے ترجمے کیے۔ناولٹ ’ ’سرشام‘‘1953ء میں شائع ہوا۔ ناول’ ’کانٹے‘‘ 1954ء میں،’ ’سمن‘‘ 1963ء اللہ میگھ دے، اور ان کے خطوط کا مجموعہ نقوش زنداں 1954ء میں شائع ہوا ۔ایک نا مکمل ناول ’ ’دیوانہ مرگیا‘ ‘ہے۔ جو مکمل ہونے کے بعد سترہ ابواب پر مشتمل ہوتا مگر جس کے محض گیارہ باب ہی تحریر میں لائے جاسکے۔

انہیں مختلف انعامات سے نوازاگیا جن میں نہرو ایوارڈ ہے جو 1966ء میں دیاگیا۔ یو پی اردو اکیڈمی ایوارڈ 1972ء میں اور 1974ء میں اکھل بھارتیہ لیکھیکا سنگھ ایوارڈ ۔رضیہ سجاد ظہیر نے اپنے افسانوی کردار جیتی جاگتی زندگی سے اخذ کیے ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعہ معاشرتی حقیقتوں کی سچی تصویریں پیش کی ہیں۔ ان کے خیالات کی وسعت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا تھا جو مختلف محنت کش عوام کی زندگیوں کو فرحت بحش دے اور ان پر ہو رہے ظلم و ستم کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ انہو ں نے ترقی پسند تحریک سے اثر تو قبول کیا مگر پروپیگنڈہ کے طور پر اس کوقبول نہیں کیا،بلکہ کسانوں، مزدوروں او رمفلسوں کو ان کا حق دلانے کے لیے قلم میں روانی آتی گئی۔ اسی طرح انہو ں نے عورتوں کے مسائل کو بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے ان کو قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ ان کے غم کو محسوس کیا، پھران کے درد والم کی داستانیں رقیب روسیاہ کے مانند صفحہ ابیض کو مضطرب کرنے لگیں۔ انہوں نے طوائف کی زندگی کے خوفناک پہلو کو افسانے کا موضوع بنا کر اس کے رنج و الم کو بیا ن کیا۔ اس کے اندر ممتا کے ایسے جذبے کو ابھارکر عیاں کیا ہے کہ معاشرے میں سانس لے رہے سفید پوش لبادے میں ملبوس مکروہ دل بھی تڑپ اٹھے۔ یادوں کے کچھ ایسے چنار اتنے دلکش انداز میں نشاندہی کی ہے جس پر وقت نے غم و اندوہ کی تہیں جمادی ہیں، مگر عورت ایسی صبر آزما شخصیت ہے کہ وہ ان یادوں کی بے ضررشی کو بھی حاصل کر کے خوش ہو جاتی ہے۔جس کے عکس ’ ’کچھ سہی‘‘ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ان کے یہاں مختلف النواع موضوعات پر مشتمل افسانے ملتے ہیں۔مثلاً ’’ اندھیرا‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو صرف ایک رات کے سفر پر منحصر ہے، جو فسادات کے بعد ہولناک ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔اس میں ایک تنہا عورت فرسٹ کلاس کے ڈبے میں خدشات کے عالم میں سفر کرتی ہے ، جس کو اپنی منزل امرتسر کا انتظار ہے۔ یہ افسانہ اتنے خوفناک عالم اور نفسیاتی خوف کی ہیتوں میں آگے بڑھتا ہے کہ خود اس کے قاری پر بھی دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ دہشت کبھی دبیز چادر میں ملفوف ہو جاتی ہے، تو کبھی ابھر کر ایک ایسا سایہ بن جاتی ہے کہ قاری اس کے گھیرے میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ پورے افسانہ میں ایک خوفناک سایے کا پہرا ہے مگر افسانے کا منتہا اتنا دلفریب ہے کہ قاری سارے خوف اور بندشوں سے آزاد ہو کر خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ افسانے کی راوی خود ایک مخصوص تازگی میں غرق دہشت ناک ما حول کے پیچ و خم کا استفہامیہ نشان بن جاتی ہے۔ ’ ’دل کی آواز‘‘ بالکل مختلف پیرائے میں تحریر کر دہ افسانہ ہے۔جس کی راوی خود اس کا مرکزی کردار ’ شبانہ‘ ہے جو ایک شہرت یافتہ افسانہ نگار ہے اور اس کا ایک شیدائی راجندر شرما اپنی سماعت سے اتنامحروم ہے کہ بلند سے بلند آواز بھی اس کی سماعت تک نہیں پہنچتی ہے ،مگر شبانہ کی آواز جو کہ زیر لب ادا ہوتی ہے، اس کے دل تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ اس افسانے کا اسلو ب انتہائی مختلف ہے جو تھوڑی سی کشمکش تھوڑی سی تشویش کے ساتھ اپنے اختتام تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح ان کی کہانی ’’ دوسرا نام‘‘ تخیلات کی مدد سے کہانی کے تار بنے جانے پر بحث کرتی ہے اور وہ تار کہیں نہ کہیں ہماری زندگی سے جڑے ہوتے ہیں۔ ’ ’نمک‘ ‘ہندو پاک کی تفریق پر پاکستان میں سکونت پذیر اس عورت کی کہانی بیان کرتی ہے، جو صغیف العمری میں بھی ہندوستان کو نہیں بھول سکی ہے۔ ’’واردات‘‘ لکھنؤ کی کوتوالی میں تحریر کیا ہوا فسانہ ہے، جہاں انگریزی حکومت کے بعد انصاف کی جگہ نا انصافیوں نے ڈیرا جما لیا تھا ، اسی پس منظر میں ان معاشرتی برائیوں کا تجزیہ کیا ہے جو حکومت کی طرف سے معصوم انسانوں کی زندگی کا جز بنتی ہیں۔ معصوم عوام حکومت پر اعتماد کر کے اپنا قیمتی ووٹ دیتی ہے، وہی حکومت ان معصوموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیتی ہے،کانگریسی لیڈروں کی کارکردگی کو اشارو ں کنایوں میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح انہو ں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھائے ہیں۔ ناداروں ، مفلسوں اور غریبوں کی زندگیوں کو ضبط تحریر میں لا کر ان کی پریشانیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ وہیں عورتوں کے مسائل کو بھی بہت ہی گہرائی و گیرائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی شخصیت کا قریب سے مشاہدہ کر کے ان کی نفسیاتی گرہوں کے اندر جھانک کر اپنی وسیع النظری اور ذکی الحسی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ صالحہ عابدحسین ان کی کہانیوں کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’ یہ ان زندگیوں کی روداد اور کہانیاں ہیں جن کو رضیہ نے بہت قریب سے دیکھا ، ان کی سیرت کا مطالعہ کیا۔ ان کی شخصیت کو پرکھا اور ان کے درد کو محسوس کیا ہے۔ ان میں ملازمین ہیں ، غریب لڑکیاں ہیں، بے سہارا لڑکے ہیں، محبت کی ماری ناکام بیویاں ہیں۔‘‘(1)

رضیہ سجاد ظہیر نے ان ناکامی محبت کی ماری عورتوں پر خامہ فرسائی کی، جو اپنے محبوب کی منتظر ہوتی ہیں اور وہی ان محب و پر ستار عورتوں کے دلوں کوتوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ دل ایک تار میں جوڑ دیے جاتے ہیں تو بھی وہ اپنی محبت حاصل کرنے میں ناکام ہو تی ہیں حتیٰ کہ وہ ناکامی بڑھاپے کی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ ’ ’بڑا سوداگر کون‘‘ میں انہو ں نے ایک ایسے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے جو معاشرتی لحاظ سے سطحی ہے ، مگر زندگی کے اعتبار سے بہت ہی نازک ہے۔ یہ افسانہ بڑی عمر کے میاں بیوی کے مسائل کااحاطہ کرتا ہے جس میں بیوی پچاس سال کے بعد پیروں سے مفلوج ہو جاتی ہے اور شوہر اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، عورت سے ایک مرد کی غرض ہی پوشیدہ ہوتی ہے کہ جب مرد جوان وتوانا ہوتا ہے تو اپنی من مانی کرتا ہے، بیوی پر ہاتھ اٹھاتاہے، پیشہ ور عورتوں کے پاس جاتاہے، شراب کے نشے میں رات کے آخری پہر لوٹتا ہے تو بیوی اس کا انتظار کرتی ہوئی ملتی ہے، پھر اس کی مار برداشت کرتی ہے ، غرض کہ بیوی کا ذرا بھی خیال نہیں کیا جاتا ، مگر جب عمر کی آخری دہلیز میں بچے اور بہوئیں کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں تو بیوی ہی اس کی خدمت کا واحد ذریعہ نظر آتی ہے، اس لیے اس کے مرض کی ہرممکن دوا بننے کی کوشش میں اس کی جھڑکیاں برداشت کرتا ہے افسانہ نگار کے استفہامیہ انداز پر ضعیف العمر اور مفلوج زدہ بڑھیا اپنی داستان الم بیان کرتی ہے:۔

’’ پچاس برس‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا۔‘‘وہ مسکرائی، ’ ’ ہاں ہاں پچاس برس، تے ،میں نے اس کے لیے بہت سے بچے بھی جنے، جن میں بس دو لڑکے اور ایک لڑکی زندہ ہیں۔ تے میں نے اس کی ماں بہنوں کی گالیاں بھی کھائیں،کبھی کبھی یہ کسی کسی عورت سے آنکھ بھی لڑاتا تھا۔ میں رات کو ایک ایک بجے تک اس کے لیے دروازہ کھولنے کو جگتی تھی اور یہ شراب پی کے آتا تھا ، کبھی کبھی مجھ کو مارتا بھی تھا۔‘‘(2)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں ایک عورت جب شادی کر کے دوسرے گھر ایک بیوی کی حیثیت سے منتقل کی جاتی ہے تو اس کو انتہائی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شوہر کی مار پیٹ ، ساس اور نندوں کی گالی گلوچ ، حتیٰ کہ شوہر کی بے وفائی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، مگر جب بچے اور بہوؤیں بڑھاپے میں دغا دے جاتے ہیں تو شوہر کی نظر میں وہی کم ظرف بیوی اعلیٰ ظرفی کی میزان پر فائز ہو جاتی ہے اور وہ اس کو سہارا سمجھ کر اس کی خدمت کرنے میں منہمک ہو جاتا ہے۔ مفلوج بیوی اب اس بات پر مطمئن اور شاداں رہتی ہے کہ اس کے شوہر کو کوئی دوسری عورت آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گی۔ شوہر خدمت اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ افسانہ نگار خاتون نے جب اس بڑھیا عورت کے شوہر سے انتہائی احترام کے ساتھ اعتراف خدمت کیا تو اس کے جواب پر وہ خود ہی چکرا گئی:۔

’’ وہ بولا‘‘، بات یہ ہے جی کہ میری بھی عمر اب ستر بہتر سے بھی اوپر ہو ئی، کسی دن بھی کھاٹ پکڑ سکتا ہوں تو یہی میری خدمت کرے گی ورنہ میراکیاہوگا، آپ سوچئے اپنی سیوا میں اس کے علاوہ کس سے کروا سکتا ہوں۔‘‘(3)

غرض کہ اپنی رفیق حیات کی اس خدمت میں مرد کی غرض پوشیدہ ہوتی ہے۔ افسانہ نگار خاتون کا افسانہ بیان کرتے کرتے چکرانا مصلحت سے خالی نہ تھا۔ جب کہ راوی کو عورت کی اس بات پر غصہ آرہا تھا کہ اپنے شوہر کی خدمت گزاری پر وہ انتہائی مزاحیہ طرز ادا سے کام لے کر اس کی خدمات کی توہین کر رہی تھی کہ :۔

’’وہ بڑے زور سے ہنسی ، منہ اتنا کھل گیا کہ اس میں رکھی ہوئی سنترے کی ادھ کچلی ہوئی پھانک دکھائی دینے لگی ۔’’بڈھا ہو گیا ہے نا… ‘‘اب کیا مارے گا…. اور عورت بھی اب کون اس کو منہ لگائے گی، بیٹے بھی بہوؤں کو لے کے الگ ہو گئے ۔ اب اسے پتہ چلا ہے کہ اس کی ساتھی بس میں ہی ہوں۔‘‘
’’وہ بڑے زور سے ہنسی ، منہ اتنا کھل گیا کہ اس میں رکھی ہوئی سنترے کی ادھ کچلی ہوئی پھانک دکھائی دینے لگی ’ بڈھا ہو گیا ہے نا… ، اب کیا مارے گا…. اور عورت بھی اب کون اس کو منہ لگائے گی، بیٹے بھی بہوؤں کو لے کے الگ ہو گئے ۔ اب اسے پتہ چلا ہے کہ اس کی ساتھی بس میں ہی ہوں۔‘‘(4)
رضیہ سجاد ظہیر نے اس افسانہ میں عورت کے انتہائی اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے کہ پوری زندگی تو وہ اپنے شوہر اورس کے گھر والوں کی خدمت کرتی رہتی ہے ، ہر ظلم و ستم سے بے نیاز ، خالی دامن، خالی ہاتھ تمام خوشیوں سے مبرا، اگر عورت کے ہاتھ کچھ آتا بھی ہے تو پوری جوانی کو نچھاور کر دینے کے بعد اس میں بھی ریا کاری اور مطلب پرستی پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی عورتوں کے اس قدر اذیت ناکی میں گزر ے ہوئے جوانی کے ان سنہرے سالوں کا حساب کون دے گا، جو اس شخص کی نذر ہو گئے جس کے لیے وہ اپنے گھر کی دہلیز ، ان گلیوں کی مانوس رونقوں کو چھوڑ کر چلی آتی ہے ،جس میں اس کے بچپن کے دن گزرے تھے۔ یہ انتہائی گمبھیر مسئلہ ہے کہ عورتیں اپنی جوانی ایک ایسے شخص کے لیے ختم کر لیتی ہیں ،جو ان کا مجازی خدا ہوتا ہے اور معاشرے میں اس خدا کی عزت پر کوئی شک نہیں جس کو بے داغ اور تمام سیہ کاریوں سے پاک عزت کے اس گنبد پر براجمان کر دیا گیا ہے۔جس پر چاند ، سورج کی روشنی کے علاوہ مزید کوئی چیز اپنے لمس نجس نہیں کرسکتی ہے۔’’ لاوارث‘‘ بھی اسی قبیل کا افسانہ ہے، جس میں ایک ماں اپنے بیٹے کی بد گمانیوں کا شکار ہوتی ہے۔ وہ ان بد گمانیوں کی وجہ سے اتنی افسردہ ہوتی ہے کہ خود کو لاوارث گرداننے لگتی ہے ، حتیٰ کہ اپنا سارا سرمایہ یتیم خانہ کے بچوں کے نام کردیتی ہے ۔ خود کو سپرد آتش کرنے کی وصیت کردیتی ہے،یہی روداد الم’’ لاوارث‘‘ کے نسوانی کردار مس گنگولی یعنی مسز سری واستو کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مس گنگولی امیرو الدین کی بیٹی تھیں مگر وہ اپنے والدین سے دور ایک ہاسٹل میں پناہ گزیں تھیں ۔کسی حادثے کی بنا پر ان کی فطرت میں خاموشی اور ان کی شخصیت میں کم سخنی حلول کرگئی تھی۔ وہ انتہائی درجے کی قناعت پسند اور خوددار طبع تھیں۔ اتنی خوددار اور لوگوں سے بے نیاز کہ دنیا کے پیچ و خم سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا کہ اچانک ان کی منگنی رمیش سریواستو سے ہو جاتی ہے اور وہ ان کے ساتھ شاد ی کے بعد افرا تفری کے عالم میں بمبئی میں قیام پذیر ہو جاتی ہیں۔

رضیہ سجاد ظہیر کے بیشتر افسانے وارداتی کہانیاں محسوس ہوتی ہیں، اندازہ ہوتاہے کہ انہو ں نے جتنے بھی افسانے بیان کیے ہیں ، وہ وارداتیں ان کے ساتھ پیش آچکی ہیں اور ان کے بیان کا اسلوب یاد داشت کے طور پر ہوتا ہے۔ مذکورہ افسانہ بھی یاد داشت کے ہی طور پر بیا ن کیاگیا ہے ۔جس میں مسز سریواستو بمبئی سے ان کو ایک خط لکھتی ہیں، خط کچھ یوں ہے:۔

’’اس میں نے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بیوہ ہو چکی ہیں، ان کے شوہر ان کے لیے ایک کمرے کا فلیٹ اور گذر بسر کا کچھ انتظام کر گئے ہیں ، خود وہ لاوارث بچوں کے کسی ہوم میں بھی کچھ کام کرتی ہیں، اور زیادہ تر وقت کتابیں پڑھنے میں گذر جاتا ہے۔‘‘(5)

گویا انہوں نے شادی جس غرض سے کی تھی وہ غرض ہی تہہ و بالا ہو چکی تھی اور وہ بیو ہ ہو گئی تھیں، خط میں صرف بیوگی کا ذکر ملتا ہے، کسی اولاد کا نہیں، اسی طرح مسز سریواستو دوبارہ بے یارو مدد گار لاوارث بچوں کی خدمت میں اورکتابوں کے مطالعے میں اپنا وقت گذارتی ہیں۔ راوی ان کے آنے کی منتظر ہوتی ہے ۔ وہ تونہیں آتی ہیں مگر اچانک پولیس کے فون سے وہ چونک کر جب مسز سریواستو کے فلیٹ پر جاتی ہے تو دنگ رہ جاتی ہے ، کیونکہ راوی کے گھر آنے سے قبل ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے۔ جب وہ ان کے وصیت نامے کو کھولتی ہے تو اس میں ایک فریم کی ہوئی تصویر ملتی ہے، جس پر بمبئی کے ہی مضافات کا پتہ اور فون نمبر لکھا ہوتا ہے، جب وہ وہاں پہنچتی ہے تو حیرت زدہ رہ جاتی ہے کیونکہ اس لڑکے کی شکل مسٹر رمیش سریواستو سے ہی ملتی ہے، مگر راوی کے بتانے پر جب راجندر کے منہ سے ’ واہ اماں‘ بے ساختہ ادا ہوتا ہے تو خود راوی مجسم سوال بن جاتی ہے:۔
’’ مسز سریواستو کے بیٹے نے ان کے متعلق جو ’ واہ‘ کہا تھا۔ اس میں حسرت تھی یا بیزاری، طنز تھا یا مذاق، ماں کے لیے تعریف تھی یا اپنے لیے پشیمانی ،؟ کیا اسے یہ معلوم تھا کہ اس کی ماں نے اپنے آپ کو وصیت میں لاوارث لکھا تھا۔ مگر وہ اس کی تصویر کو روز اپنے ہاتھوں سے صاف کیا کرتی تھیں۔‘‘(6)

مذکورہ افسانہ کے ذریعہ رضیہ سجاد ظہیر نے عورتوں کی بے بسی کو پیش کیا ہے کہ ایک عورت جب بچہ پیدا کرتی ہے تو اپنے خون جگر سے اس کی پروش و پرداخت کرتی ہے۔ راتوں کی نیندیں اس کے لیے اپنے اوپر حرام کر لیتی ہے۔ مگر جب بچہ انگلی تھام کر چلتے چلتے شعور کی منزل تک پہنچ جاتا ہے ، خود اس کی ماں ایک گم گشتہ راہ کے مسافر کی طرح ہو جاتی ہے۔

مجموعی طو رپر کہا جاسکتا ہے کہ عورت جوانی میں والدین کی مرہون منت ہوتی ہے، شادی کے بعد شوہر کی ، شوہر کے بعد بچوں کی، لیکن سجاد ظہیر نے مسز سریواستو کی مجبوری کو پیش کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ ایک عورت شادی سے قبل بھی اپنے اعتمادپر جی سکتی ہے۔ شادی کے بعد بچوں کے دغا دیے جانے پر بھی اپنے قوت بازو کی رہین منت ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح کا ایک نسوانی کردار’ ’نیچ‘‘ میں ’ شاملی‘ کے روپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ افسانہ بھی ایک قوت ارادی شخصیت کی مالک عورت کا ہے، جو ادنیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور اپنے شوہر سے قطع تعلق کر کے منیجر صاحب کے بچے کو کھلانے کے لیے ملازمت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے اندر اتنی خودداری ہے کہ وہ مشکل ترین ساعتوں اور صعوبتوں کو برداشت تو کرسکتی ہے مگر اس کی عزت نفس کسی کی دست نگربن کر رہنا گوارا نہیں کرتی۔ مگر معاشرہ ایسی عورت کی کردار کشی کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
انہو ں نے عورتوں کی معاشی بدحالی اور ازادواجی زندگی کی پشیمانیوں اور ان کے درد و غم اور افسردگی کو بھی پیش کیا ہے کہ ایک مرد شادی سے قبل کس طرح کا رویہ رکھتاہے اور شادی کے بعد اس کے رویے میں کیسی تبدیلی آجاتی ہے۔ شادی سے قبل جب لڑکی لڑکے کی ملکیت نہیں ہوتی تو ایک لڑکا اپنی عالیشان شخصیت کا رعب ڈالنے کے لیے مہنگے ہوٹل میں ٹھہرتا ہے۔ اس کے لیے چاند تارے توڑ نے کی تمنا کرتا ہے۔ پہاڑوں کی سیر کراتا ہے اور ایسے راستوں کا انتخاب کرتا ہے جہاں چاندنی کی بھی رسائی نہ ہو۔رضیہ سجاد ظہیر نے یو ں تو افسانے میں ایک معمولی سے مسئلے کو پیش کیا ہے، مگر یہ مسئلہ معمولی ہونے کے باوجود بہت نازک ہے، کیونکہ جب شوہر ہی ان خوشیوں کے رنگوں کو ہلکا کردے گا تو عورت کی زندگی میں افسردگی کے علاوہ رہ کیا جائے گا۔ عورت ایک شوہر کے لیے ہی اپنے کنبے کو چھوڑ کر آتی ہے ،جب شوہر ہی اس کو اس کی خوشیوں سے محروم کردے گا تو اس کے حصے میں رنج اوردرد کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا، جبکہ مرد ہی عورت کی خوشیوں کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر شوہر شادی کے بعد خود غرض نہ بن جائے تو عورت کے سامنے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو، اسی طرح کی افسردگی اور نجیدگی ’ ’ کچھ تو کہیے‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ انہو ں نے مسئلہ کو پیش کر کے اسے سلجھانے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کے بیشتر نسوانی کردار پختہ عزم اور پختہ ارادے کے نظر آتے ہیں۔ جو اپنی کلفت بھری زندگی کو بہ نفسہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس طرح کے کردار ’’دو دل ایک داستان‘‘ میں نظر آتے ہیں، مگر اس پختگی میں بھی افسردگی قائم رہتی ہے اور وہ افسردگی مرد اساس معاشرے کی دین ہے۔عصمت چغتائی ان کی سادہ، پروکار مگر سادگی میں بھی پیچیدگی لیے ہوئے نازک اور حساس مسائل کے بارے میں رقمطراز ہیں:۔
’’ رضیہ سجاد ظہیر کے قلم سے ہمیشہ زہر کے بجائے امرت ٹپکا ، وہ امرت جو زہر کا کاٹ ہے۔ رضیہ کے ناولوں اور کہانیوں کے کردار بالکل مصنفہ کی طرح مخلص صاف گو اور صاف ستھرے ہوتے ہیں ، سب ہی کردار بہت جانے پہچانے، جسم فروشی کے مسئلہ کو رضیہ کی تحریروں میں شاید ہی کبھی اہمیت حاصل ہوئی ہو، جسم سے زیادہ اہم جذبات اور احساسات ہیں۔ تند اور تیز نہیں، بڑے دھیمے ، بڑے معصوم، جن کی توڑ پھوڑنے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے۔ زندگی کی تلخیوں ، محرومیوں اور پرپشانیوں پر ذرا سا بسورنے کے بعد کھلکھلا کر ہنس دینا، نہ کسی سے شکایت نہ گلہ۔‘‘(7)
رضیہ سجاد ظہیر کے اندر جو قوت ارادی تھی وہی قوت ان کے نسوانی کرداروں میں بھی نظر آرہی ہے، اگرچہ ان کے کردار مسائل کا شکار ہیں ، مگر ہنستے مسکراتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ’ ’بیچوں کی پپڑی‘‘ کی طوائف ہو یا’’ دو دل ایک داستان‘‘ کی ’رما دیوی،’’ نیچ کی‘‘ ’شاملی‘ ہو یا ’ ’نگوڑی چلے آوے ہے ‘‘کی ’ جلیل فاطمہ ‘’’لاوارث‘ ‘کی ’مسز شریواستو‘ ہوں یا’’لنگڑی ممانی ‘‘کی ’ لنگڑی ممانی‘ ’’ کچھ توکہئے ‘‘ کی’ یاسمین ‘ہویا ’’تب اور اب ‘‘کا نسوانی کردار ۔ہر جگہ ہر ماحول میں ، ان کے نسوانی کردار مشکلوں کا سامنا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

حواشی

1 ۔افسانوی مجموعہ ،زرد گلاب،ص:21، رضیہ سجاد ظہیر،دیباچہ،صالحہ عابد حسین،نیو پبلک پریس ،دہلی،1981

-2افسانوی مجموعہ،اللہ دے بندہ لے،ص:164، رضیہ سجاد ظہیر،افسانہ بڑا سوداگر کون،فیمس آفسیٹ پریس،دہلی،18دسمبر1984

3۔ایضا،ص:166

4۔ایضا،ص:165

5۔ایضا،افسانہ،لاوارث،ص:211

6۔ایضا،ص:216

7-اردو ناول نگار خانہ، ص:88، کے کے کھلر، سیمانت پرکاشن، نئی دہلی، 1983،

مراجع:

1-پریم چند کے ناولوں میں نسوانی کردار، شمیم نکہت، جمال پریس، دہلی، 1966

2-تانیثی فکر کی جہات، ڈاکٹرآمنہ تحسین، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی،2012

3-تانیثیت اور قرۃالعین حیدر کے نسوانی کردار، اعجازالرحمٰن، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2010

4-ترقی پسند اردو افسانے میں عورت کی عکاسی، اشرف لون، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 2013

5-ترقی پسند افسانے میں عورت کا تصور، خورشید زہرا عابدی، جے آر آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 1997

6-عورت اور سماج، ڈاکٹر محمد شہزاد شمس، کلاسک آرٹ پرنٹرس، دہلی، سن اشاعت ندارد

7-عورت خواب اور خاک کے درمیان، کشور ناہید، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 2005

8-عورت زبان خلق سے زبان حال تک، کشور ناہید، لاہور، 1993

9-عورت زندگی کا زنداں، زاہدہ حنا، دی دی سنز پرنٹرس، کراچی، 2004

10-مسلمان عورت ترجمہ ابوالکلام آزاد، فریدہ وجدی آفندی، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، 1987

11-مطالعات نسواں، ڈاکٹر آمنہ تحسین، عفیف آفسیٹ پرنٹرس، دہلی، 2008

*ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *