بال گنگا دھر
ریسرچ اسکالر، جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی
عورت کے بنا دنیا کا تصور ممکن نہیں ۔ دنیا کہ ہر شئے اس کے وجود کی گواہی پیش کرتی ہے۔ تہذیب و تمدن ، رسم و رواج ، اخلاق و عادات، وغیرہ اس کے دم سے ہے ۔قابل غور ہے کہ مال و اسباب کی لڑائی نے جہاں معاشرے میں ورن، ذات، نسل، رنگ، خاندان ،علاقہ وغیرہ کو جنم دیا وہیں عورت و مرد کے درمیان فرق بھی کیا ۔ لیکن عورت و مرد میں تفریق کے کیا وجوہات رہے آج بھی موضوع بحث ہے۔ تمام مفکرین اس بابت و قتاؒ فوقتاؒ اپنے نقطء نظر کا اظہا کرتے رہے ہیں۔ آج دنیا کے ہر حلقے میں خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔ عورت پہلے بیٹی بہن ،پھوپھی، خالہ، بھابھی، مامی، دادی ، نانی، وغیرہ کی شکل میں معاشرے میں رول ادا کرتی ہے۔ اور ہر رول میں اسے اس کے عورت ہونے کی باعث ظلم و حقارت سہنا پڑتا ہے۔ دنیا ئے ادب کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ خاتون قلم کاروں نے زمانہ قدیم سے تخلیق و تحریر کے ذریعہ اپنے حقوق کے لئے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ شاعری کے حوالے سے بطور خاص شاعرات کی طویل فہرست ملتی ہے ۔ لیکن یہاں ہمارا مقصد دنیائے ادب میں شاعری کے حوالے سے عربی، فارسی اور اردو زبان و ادب کی شاعرات کا جائزہ لینا ہے۔
عرب زمانہ قدیم سے علم و ادب کا مرکزو محمور رہا ہے۔ جس کی سرزمین سے مذہب اسلام دنیا میں نمودار ہوا۔ لیکن اسلام کی آمد سے قبل یہاں کے لوگوں کی جہالت بھری زندگی کو زمانہ جاہلیت کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسلام کے آنے سے ان کے اندر انسانی وقار کا مقصد بیدار ہوا۔ جس نے نہ صرف وہاں کی عوام وخواص کو متاثر کیا بلکہ دنیائے ادب کے فکرو فلسفے سے عربی معاشرہ روشناس ہوا۔ ایسے میں خاتون شاعرہ کی آمد قابل احترام ہے۔ جس کے لئے عربی شاعری کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہلا جاہلیت کا دور ہے جو اسلام کے قبل ہے۔ دوسرا مخضرمی دور ہے، یہ اسلام کے قبل اور بعد دونوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تیسرا دور اسلامی عہد کاہے جو آنحضرت ﷺکے زمانے سے لیکر بنو امیہ تک تسلیم کیا جاتا ہے۔ چوتھا اور آخری دور محدث ہے جو دولت عباسیہ کے شعراء اور ان کے مابعد ماناجاتا ہے۔ عربی زبان کا پہلا شاعر مہمل کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ جو مشہور شاعر امراء القیس کا ماموں تھا اور امراء القیس کا زمانہ حضور اکرم سے چالیس سال قبل کاہے۔ قابل غور ہے کہ زمانہ جاہلیت سے ہی عربی شاعری میں شاعرات کی طویل فہرست ملتی ہے۔ جس میں خرنق بنت بدر الیلی العفیفہ، جلیلہ بنت مرہ، خنساء ام الصریح ، عاتکہ بنت عبدالمطلب ، صفیہ، ہند بنت حارث، ام ایمن مشہور ہیں۔ ان شاعرات میں خنساء کا شعری مقام سب سے بلند ہے۔ عربی سماج میں جاہلی دور سے شاعری ہوتی رہی ہے۔بقول ڈاکٹر شاہد نوخیزاعظمی : اس پس منظر میں اگر آپ دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب سے عربی شاعری کا آغاز ہوتا ہے یا عربی کے مشہور شاعر تک رسائی ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت سے شاعرتات بھی دکھائی دیتی ہیں۔یعنی دور جاہلیت سے ہی عربی شاعری میں شاعرات کی بھی ایک طویل فہرست ملتی ہے۔(۱)
خنساء کا اصلی نام تماضر بنت عمر و بن الشرید سلیمیہ ہے۔ زمانے جاہلیت سے لیکر دور جدید تک ان کی پایہ کا کوئی شاعرہ نہیں ہوئی۔ ان کے والد اپنے قبیلہ بنو سلیم کے سردار تھے خنساء کو علم و ادب پر مہارت حاصل تھی۔ وہ اپنے قبیلے مرادس بن ابی عامر (السّلمی ) سے شادی کی۔ مذہب اسلام کا جسے جیسے ان کی زندگی پر اثر مرتب ہوا ان کی شاعری انسانی بصیرت کی ترجمان بنتی گئی۔ ان کی وفات ۲۴ ھ میں ہوئی۔ خنساء کی بلند فکرکے باعث ہی تمام علماء ادب اور نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ زمانے جاہلیت اور اسلام کے دور میں بھی خنساء جیسی کے بلند پائے کی کوئی دوسری شاعرہ نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعرانہ عظمت کی تصدیق اسی بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضور اکرم نے جس شعراء کا ذکر کیا ہے ان میں خنساء کا نامِ سرِ فہرست ہے۔
خنساء کی بیشتر شاعری مرثیہ گوئی پر مشتمل ہے۔ ان کے مرثیے کی شروعات ان کے دوبھائیوں معاویہ اور صخر کے اوپر ہے۔ جن سے ان کا دلی لگاؤ تھا۔ لیکن ان کے مرثیہ اانسان کو ظلم کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ مثلاً
اعینی جود اولا تجمرا الا تبکیاں نصخر الندی؟
لا تبکیان الجرئ الجمیل الا تکبیان الفتی السیدا؟
رقیع العماد، طویل النجا دو مساد عسیرت امردا
ان کے دیوان مندر جہ ذیل ادوار میں شائع ہوئے ۔
(۱)’’دیوان الخنساء المطبقۃ الوطنیہ‘‘مصر۱۳۰۵ ھ بمطابق ۱۸۸۸ ء
(۲)’’دیوان الخنساء القاہرہ‘‘ ۱۳۱۵ ھ
(۳)انیس الخنساء فی شرح دیوان الخنساء المطبع الکاثو لیکۃ بیروت ۱۸۹۶ ء دورِ جاہلیت اور دور جدید میں عربی شاعرات کی طویل فہرست دیکھی جا سکتی ہیں۔ جنہونے عربی زبان و ادب میں اپنے نسوانی جذبے کا اظہار کیا ہے۔ جس میں عزیز ہارون و داد سکاکین، فلک طرزی، فووی طوقان، سلمیٰ حضرا، غادۃ الصحرا، ثریا قابل، رقیہ ناظر، ڈاکٹر فاتنہ شاکر، ڈاکٹر مریم بغدادی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
نازک الملائکہ خنساء کے بعد عربی کی دوسری بڑی شاعرہ ہیں۔ جن کی شعر فہمی اور شعر گوئی کا ڈنکا عربی شاعری کے آسماں پر درخشا ہے۔ نازک الملائکہ ۱۹۲۳ میں بغداد میں پید اہوئیں والدہ مکرمہ اچھی شاعرہ تھیں۔ ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آئے جس میں عاشق اللیل ۱۹۴۷ ء شنطایاورِیاد ۱۹۴۹ ء ، قرارۃ الموجہ ۱۹۵۷ ء میں شائع ہوا۔ ان کی شاعری یاس و حرما، تنہائی، وحشت ، خوف، اندھیرا مشکت اور موت کی نفسیاتی کی ترجمانی کرتی ہے۔ بقول ڈاکٹر شاہد نوخیزاعظمی ’’نازک کی شاعری میں نازک خیالی بھی ہے اور برجستہ گوئی بھی‘‘ (۲) مثلاً
اللیل ینال من آنا
آنا سرۃ القلق العمیق الاسود۔
’’یعنی رات پوچھتی ہے کون ہوں میں میں اس کی سیاہ گہری پریشانی کا راز ہو۔ ‘‘
غادۃ الصحرا عربی زبان کی ایسی شاعرہ ہیں جنھیں جدید عربی سعودی شاعرات میں بلند مرتبہ حاصل ہے۔ ان کی شاعری حسن و فطرت، صحرائی زندگی کی سادگی اور جدو جہد کو موضوع بتاتی ہیں۔ لیکن ان کی شاعری تلخی، محرومی حرماں نصیبی اور بد حاکی ترجمان ہیں۔ جس کے بیاض ورق درد، فکر ،تشنگی اور خود کلامی کا ذخیرہ بن گئے ہیں۔ مثلاً بلا د موع ملا ذل علا غصص والحب آو بعد ماکان کتمانا
’’یعنی جس محبت میں آنسوؤں خواریوں اور غم و اندوہ کا اظہار نہ ہوسکے ا س کی پوشیدہ رکھنا، اف کتنا اذیت ناک ہے۔‘‘
غادۃ الصحر اکے متعلق مشہور مورخ ادب الشیخ بکری امین لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں شک نہیں کہ اس خاتون کو فیاضی کے ساتھ ساتھ شاعرانہ صلاحیت قدرت نے عطاکی ہے۔تاریخ ادب میں اس کا تذکرہ عصر حاضر کی بلند پایا غزل گو شاعرہ کی حیثیت سے لیا جائے گا۔‘‘ (۲)
سعودی عرب کی جدید شاعرات میں ثریا قابل کا نام صف اول پہ ہے ۔بدلت حالات اور زندگی کی کشمکش ملک کے حالات ان کی شعری تخلیق کے محبوب موضوع رہے ہیں ’’ الاوز ان لباکیۃ ‘‘ ان کا دیوان ہے۔جو ۱۹۶۳ ء میں شائع ہوا۔ ان کی شاعری موزو اور اوزان و قوافی سے آزاد ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ثریا کی شاعری حب الوطنی اور حترامِ انسان سے لبریز ہے۔ ان کا اسلوب علم و جبر کے خلاف احتجاجی رخ اختیار کر لیا ہے۔ علاوہ ازیں خواتین میں شعرو ادب کا ذوق پیدا کرنے کے لیے ’’الجمعیۃ الظہریۃ النسائیۃ‘‘رقا ہی ادارہ قائم کر عورتوں میں شعری نشستو کو عمل میں لایا۔
سعودی کی دیگر شاعرہ کی طرح ماننہ رقیہ ناظر صف اول کی شاعرہ ہیں۔ بلند فکر، حساس طبیعت، تخلیق میں معنی آفرینیت، اور تجربات و مشاہدات کی تخلیق بزم کو درخشا کرتے ہیں۔ ان کا مشہور قصیدہ ’’مسدت السہل‘ ۷۸۸۷، ۲۱ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۵ کو شائع ہوا۔ رقیہ ناظر عورت و مر د کی ذہنی و نفساتی ردِ عمل سے واقف تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیق میں اس بابت بھر پور عکاسی ملتی ہے۔ شاعری کے علاوہ وہ معاشرے کی تمام خامیوں کو موضوع بتاتے ہوئے نظم ونثر میں قابل احترام کام کئے ہیں۔
لافانی کام انجام دیا ہے۔ ان کا معروف مقالہ’’الحریۃ‘‘ ہے جس میں انسان کی افرادی آزادی اور سماجی کشمکش کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس لئے ہم یہ کہ سکتے ہیں تخلیق معاشرے کی رہنمائی کرتی نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر فاتنہ شاکر سعودی کے جدہ میں ۱۹۴۰ ء میں پیدا ہوئیں۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جدہ میں ’’جامعہ ملک عبدا لعزیز ‘‘ہیں درس و تدریس کا کا م انجام دیا۔ شاعری اور نثر نگاری پر یکساں عبور حاصل تھا۔ ان کے بیشتر پروگرام’’البیت السعودی‘ ‘ سے نسر ہوتا تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے عورتوں کا مشہور و مقبول میگزین لندن سے شائع کیا۔ جس کی پہلی مدعیہ فاتنہ شاکر ہوئیں ۔
باغیانہ تصورکی شاعرہ ڈاکٹر مریم بغدادی کانام جدید عربی شاعرات میں قابل ذکر ہے۔ ان کے کار نامے نسائی ادب میں بلند مرتبہ کے حامل ہیں۔ انہوں نے پیرس کے سو بورن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے اشعار وجوان و موسیقیت سے لبریز ہوتے ہیں۔ ناامیدی ،یاس ، درد ،حسرت، بدنصیبی کے جذبات ان کی تخلیقات میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔
عربی شاعری کے علاوہ فارسی میں بھی شعرو سخن کی بھر پور روایت رہی ہے۔ فارسی کا پہلا شاعر خظلہ باد عمیقی کو تسلیم کیا جا تا ہے۔ جب کہ فارسی کا پہلا صاحب دیوان کا تاج پہلا شاعر رود کی سمرقندی کو حاصل ہے۔لیکن فارسی شاعرات میں مشہور و معروف نام قرۃالعین طاہرہ کا ہے۔
عربی شاعری کو اگر ہم دیکھیں تو شاعرات بڑی تعداد میں ہیں۔ اس کے برخلاف فارسی میں بہت کم شاعرہ ہیں۔ فارسی شاعری کی تاریخ اور بعد کے تذکروں سے ان کی بابت بہت ہی کم ذکر ملتا ہے۔ لباالباب ، تذکرۃ الشعراء، شعرالعجم، ہسٹری آف پرسیا، اور تاریخ ادب ایران میں فارسی شاعرات کا تذکرہ تک نہیں ہے ۔ جب کہ عربی شاعری کی طرح فارسی میں بھی شاعری ہوتی رہی ہے۔
فارسی شاعرات کے حوالے سے جن شاعرات کا تذکرہ ہمیں بھارت کی تاریخ میں ملتا ہے ان میں گل بدن بیگم کا نام صف اول پہ ہے۔ بابر کی بیٹی ہونے کی باعث انہیں میراثی اور شاعری ورثے میں ملی تھی۔ ان کی شاعری میں تہذیب و ثقافت اور معاشرے کے بدلتے حالات کی ترجمانی ہے ۔ ریاض الشعراء مخزن الغرائب اور میر مہدی شیرازی تذ‘‘تذکرۃ الخواتین‘‘ میں ان کا نام شاعرات میں شامل ہے۔ ان کے شعر ی استعارے معاشر ے کی روداد ہیں۔ مثلاً
ہر پری روے کہ او باعاشق خود یار نیست
تویقیں می داں کہ ہیچ از عمر برخورد دار نیست
گل بدن بیگم کی مشہور و معروف مصنف ’’ہمایونامہ‘‘ہے۔ گل رخ بیگم بھی بابر کی بیٹی تھیں جو سالح سلطان بیگم کے بطن سے پید اہوئی تھیں۔ انہوں نے فارسی اور ترکی زبان میں بہت سی شاعری کی ہے۔ ان کے اشعار ’’ریاض الشعراء‘‘ ’’فخرن الغرائب‘‘ اور’’صبح گلشن‘‘ میں شامل ہیں۔
بابر کی نواسی اور گل رخ بیگم کی بیٹی سلیمہ سلطان بیگم فارسی کی اچھی شاعرہ تھیں، ان کا ذکر’’تذک جہاگیری’ صفحہ ۱۱۴ میں ملتا ہے۔ بیرم خاں کی بیٹی جانان بیگم کا نام فارسی شاعرات اور نثر نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مذہبی علوم سے دلچسپی ہونے کے باعث انہوں نے قرآن پر تبصرہ لکھا۔ان کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔
خیز تازہ برہ گزار کنیم
خو بش راپشم انتظار کنیم
(بزمِ تیموریہ، بحوالہ، ۲۴۳، گذشتہ پروین شاکر)
مشہور بادشاہ جہاگیر کی بیوی نور جہاں فارسی کی معروف شاعرات میں شمار کی جاتی ہیں۔ علم و ادب سے ان کی گہری دلچسپی تھی۔ بدیحہ گوئی اور حاضر جوابی میں انہیں عبور حاصل تھا۔ مثلاؒ ’’دروادی شعر بسیار خوش سلیقہ است … ہر مشکل موضوع پر انہیں آسان زبان میں شاعری لکھنے کا ہنر معلوم تھا۔ستارہ نیست بدیں طول سربر آوردہ (صفحہ ۳۱، فلک بشاطری شہ کمر بر آوردہ)
شاہ جہاں اور ممتاز محل کی بیٹی جہاں آرابیگم کا نام لیے بغیر فارسی شاعرات کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ وہ ۲۶ سال کی عمر سے ہی شعر و ادب میں تخلیق انجام دینے لگی تھیں۔ نونس ارواح میں ان کے بیشتر اشعار مشتمل ہیں۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب کی بیٹی اور پہلی اولاد زیب النساء بیگم نے فارسی شاعری میں اپنی فکری بلندی کا اظہار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں حدیث کا بارہاں تذکرہ ملتا ہے۔ ان کا مجموعے کلام ’’دیوان مخفی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
جدید فارسی شاعرات میں پروین اعتصامی ، فروغ فرخزاد، سیمین، بہیمانی، لیل کسریٰ اور پردین صا کا نام صف اول پہ ہے۔ پروین اعتصامی ۱۹۰۶ ء تہران میں پیدا ہویں۔ ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا۔ ان کے مشہور قطعات میں لطف حی، کعبہ دل، گوہر اشک، روح ازاد ، درہائے نور، گوہر و سنگ ، حدیث مہر، ذرہ، جوپانی خدا، نغمۂ صبح، اور دیگر قطعات مشہور ہیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے۔
گفت باز نجیردر زندان شبی دیوان ای
عاقلاں پیدا ست کردیوانگاں تر سیدہ اند
فروغ فرخزاد فارسی کی باغی شاعرات میں تسلیم کی جاتی ہے۔ ان کی شاعری روایت سے بغاوت کرتی نظر آتی ہیں۔ ۱۹۰۳ ء میں تہران میں پیدا وئی اور اپنے کمال فن سے بہت کم وقفے میں آسمان ادب پر اپنا نور بکھیردیا۔ ان کے شعری مجموعے ’’اسیر‘‘۱۹۵۶ ء ،دیوار، اعصیان ، تولدی دیگر اور پانچواں اور آخری مجموعہ ’’ایمان بیاوریم بآغاز فصل سرد‘‘ شائع ہوا۔ وہ اپنے اسی شعر کے حوالے سے لب کشاہیں۔
نگاہ کس کہ غم دروں دیوہ ام
چگونہ قطرہ آب می شود
چگونہ سایہ سیاہ سرکشم
اسیر دست آفتاب می شود
(بحوالہ صفحہ ۳۸ گذشتہ پروین شاکر)
پروین تکسین فارسی شاعری کی علمبردار شاعرات میں شمار کی جاتی ہیں۔ فارسی ادبیات میں گرجیوٹ تھیں اور قدیم و جدید آہنگ میں شاعری کرتی تھیں۔ اسی سلسلے میں سیمین بہیائی کا بھی نام قابل ذکر ہے ۱۹۳۸ میں تہران میں پیدا ہوئی اور قدیم شاعری کی پرستار تھیں۔ ان کا پہلا شعر مجموعہ ۱۹۵۲ ء جای پا‘‘ اور چل فراغ کے نام سے شائع ہوا۔ ان کے شعر فہمی کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔
زہد ان افق بارو از نطفۂ نور است
خورشید جگر گوشہ این ظلمت کو داست
فارسی کی جدید شاعرات میں پروین تکسین کا نام قابلِ ذکر ہے۔ قدیم و جدید شاعری ان کی تخلیقی نور طہارت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان کے شعر و ادب کو وہ پزیرائی نہیں ملتی جس کی در کار ہے۔
ہمارے ملک میںSocial Justiceکی آواز آئین کی شکل میں ۱۹۵۰ میں نافذ ہونے سے عورتوں کے حقوق Secureہوئے۔ جس کے لیے ڈاکٹر امبیڈ کر نے درجنوں کتابیں لکھی اور ۱۹۵۱ ء میں آئین بنانے کے بعدHindu Code لائے جس میں خواتین کو ان کے والد اورشوہر کی جائداد میں حصہ ملنے کی بات کی ۔ اسی لیے وہ کہتے تھے کہ میں کسی ملک کی ترقی اس بات سے مانتا ہوں کہ وہاں کی عورتوں نے کتنی ترقی کی ہے۔
عربی ، فارسی اور اردو شاعری میں خواتین شاعرات کا تخلیق کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل عربی کی شاعرہ خنسا سے لیکر پروین شاکر تک کہ شاعری نسوائی جذبات ان کے حقوق اور Self Respect کی تحریک کے طور پر نظر آتی ہے۔ واضح ہے کہ جس گھر کی عورتوں میں علمی و سماجی بیداری نہیں ہوگی اور جب تک ان کے حقوق نہیں ملتے اور معاشرے کا ان کے متعلق سوچنے کا نظریہ نہیں بدلتا تب تک کوئی ملک بلندی پر نہیں پہنچ سکتا۔
اردو کی پہلی شاعرہ میرتقی میر کی دختر بیگم تقی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کے اشعار تذکرۃ شمیم سخن ، بہارستان ناز اور ’’تذکرہ خواتین‘‘ میں مشتمل ہیں سادہ و سلیس زبان میں فلسفہ ء زندگی کو پیش کرنے کا انہیں ہنر معلوم تھا۔ ان کے چند اشعار مد نظر ہیں۔
بر سو غم گیسو میں گرفتار تو رکھا
اب کہتے ہو کیا تم نے ہمیں مار تو رکھا
کچھ اسے ادبی اور شب وصل نہیں کمی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا
ان کی شاعری زندگی کی سادگی اور حساس طبیعت کی ترجمان ہے۔ میرتقی میر کی طرح ان کے بھی شاعرانہ مزاج میں طہارت اور خلوس مضمرہے۔
میر کے دور سے تعلق رکھنے والی شاعرات میں جمعیت کا نام قابلِ ذکر ہے۔ ان کا مذہب عیسائی تھااور انگریزی زبان کی بڑی صلاحیت کے با وجود وہ اردو کی اچھی شاعرہ تھیں۔
ایک شعر ملاحظہ ہو۔
مقسوم کی خوبی ہے یہ قسمت کا ہے احسان
رہتا ہے خفا مجھ سے جو دلبر کئی دن سے
نواب مرزا احمد تقی کی بیٹی’’یارسا‘‘ بھی اردو کی بہترین شاعرات میں شمار کی جاتی ہیں۔ زبان وادب میں اسی قدر دلچسپی تھی کہ سہل زبان میں معنی آفریں تخلیق کرتی تھیں۔
اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کو تسلیم کیا جاتاہے۔ تو وہیں صاحب دیوان شاعرہ حیدرآباد کی مشہور طوائف ماہِ لقا کو مانا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بیگم دختر نواب اعظم نواب شاہ جہاں، بیگم شریں، نجم النساء نے تاریخ شاعری میں اپنے نسوانی جذبات کا خلاصہ کیاہے۔ ایک دور تھا جب عورتوں کی شاعری کرنے پر ان کی عصمت پر سوال کھڑا کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بہت کم خواتین شاعری کر پاتی تھیں۔ جب کہ شاعری کرنا مردوں کی شان سمجھا جاتا تھا۔
ترقی پسند دور کی مشہور شاعرات سعیدہ بیگم، رقیہ بانو، زہرہ صفیہ، شمیم، زیب تاجور، زاہدہ خلق، نجمہ تصدیق، آمنہ، برجیس، کنیز، میمونہ اور نازش کا نام اہم ہے۔ ملک کے آزاد ہونے کے بعد جب آئین نافذ ہوا تو ہر طبقے کو ان کے حقوق میسر ہوئے۔ جنہیں پڑھنے لکھنے کا حق نہیں تھا۔ جب ان کے ہاتھ میں قلم آئی تو انہوں نے سماج میں اپنے ہونے کا احساس کرایا۔ اردو شاعری پر اس کا خاص اثر ہوا۔ قدامت پسند معاشرے میں جب عورتوں کو پڑھنے لکھنے کا موقع ملا تو وہ ہر میدان میں کم و بیش نظر آنے لگی ہیں۔ اس سلسلے میں زاہدہ زیدی ، ساجدہ زیدی، فہمیدہ ریاض اور کشورنا ہید کا نام قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ اسی دور میں پاکستان میں شاعری کی آواز بلند ہوئی۔ یہاں کی مشہور شاعرات میں یاسمین حمیدہ، ممتاز مرزا، اور پروین شاکر کا نام لائق تعرف و قابل احترام ہے۔ رقیہ بانو ۔ جس کی شاعری خواتین اور معاشرے کے درمیان حیرت انگریزدنیاکی ترجمانی ہے۔ عورت و مر دمیں اس قدر غیربرابری ہے کہ آدمی عورتوں کی کئی بار اپنے پیر کی جوتی سمجھتا ہے ۔جب کہ ایک عورت ہی سے انسان اور کائنات کا وجود قائم ہے۔ پروین شاکر ان میں رقیہ بانو اور آمنہ برجیس کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
بدل دونگی نظام زندگی کو سعی پیہم سے
زمانہ کانپ اٹھے گا میرے عزم مصمم سے
اس شعر میں اپنے وجود کے لیے بغاوت کا آہنگ ہے۔ ا
اردو کی جدید شاعرہ میں سب سے مشہور نام پروین شاکر کا ہے۔ جو اردو ہی نہیں بلکہ دنیا ئے ادب کی معروف تانیثی شاعرات میں شمار کی جاتی ہیں۔ ان کی ولادت ۲۴؍نومبر ۱۹۵۲ ء کراچی پاکستان میں ہوئی۔ والد سید شاکر حسین تھے جن کا تعلق بہار سے تھا جو کہ اچھے شاعر تھے ، اور ثاقب تخلص استعمال کرتے تھے۔ والدہ افضل ان کی بیگم عرف منن نے بڑی محبتوں سے پروین شاکر کی پرورش کی۔ والد سات والد سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔جس میں سید جابر حسین، ناظر حسین، بابر حسین اور نادر حسین ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کراچی کے کیمبرج اسلامیہ مشن رائرنگ اور زاہدہ تقی کے اسکول رضدیہ گرلز سکنڈری سے انٹر کیا۔ اور عبداللہ گرلز کالج میں بطور انگریزی کی لکچر دو سال تک رہیں۔
لسانیات میں ایم۔ اے کرنے کے بعد ۱۹۷۶ ء میں خاندانی خالہ زاد بھائی نصیر علی شادی ہوئی جو پاکستان میڈیل کورس میں ڈاکٹر تھے۔ لیکن دونوں کے رشتے شک و ہ الزامات کی بنیاد پر ٹو ٹ گئے ۔۱۹۷۶ ء میں ماں بینی اور ۱۹۸۷ ء میں ان کا طلاق ہوگیا۔۱۹۸۱ ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ۱۹۸۲ ء میں پاکستان سوسل سروس میں امتحان پاس کیا۔ ۱۹۹۰ ء میں انہیں ہاروڈ یونیورسٹی سے اسکالرشپ ملی اور وہاں وہ پڑھائی کے لیے گئیں۔ اور ۱۹۹۳ ء میں پاکستان واپس آئیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ خوشبو ۱۹۷۷ء میں، دوسرا، صدبرگ ۱۹۸۰ء میں،تیسرا خود کلامی۱۹۸۵ء انکار منظر عا م پر آیا۔ پاروین شاعری کی ادبی اور غیر ادبی خلقے میں خوب پزیرائی ہوئی۔۱۹۷۸ء میں خوشبو پر انہیں آدم جی ایوارڈ،۱۹۸۵ء میں ڈاکٹر اقبال ایوارڈ،۱۹۸۶ء میںیو یس آئی ایس ایوارڈ،اور سب سے بڑا فیض احمد فیض انٹر نیشنل ایوارڈ سے انہیں نوازہ گیا۔
۔انگریزی ادبیات پر ان کی اچھی پکڑ تھی۔ ان کی شاعری میں آفاقیت ، نسوانیت، انسانی نفسیات اور روایت شکنی کی تخلیق بطورِ خاص تلاش کی جاسکتی ہے۔
پروین شاکر کی شاعری نسوانی جذبے کا شدت سے اظہار کا نام ہے۔ پروین شاکر شاعری کے ذریعہ عورت اور مرد کے درمیا ن فرق کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔اب تک کی اردو شاعری میں پروین شاکر سے بڑی کوئی خاتون شاعرہ نہیں ہوئی۔وہ محبت اوررشتے کو مختلف زاویے سے منظر عام پر لاتی ہیں۔نظم خشبو
کی زبان میں لکھتی ہیں۔
زبان غیر میں لکھا ہے تونے خط مجھ کو
بہت عجیب عبارت،بڑی ادق تحریر
یہ سارے حرف میرے جد فہم سے باہر
میں اک لفظ بھی محسوس کر نہیں سکتی (صفحہ نمبر ۸۰،خوشبو،پروین شاکر،ایجوکیشنل پبلسنگ ہاوس،دہلی)
آج دنیا میں تانیثی تحریک تیزی سے بڑدھ رہی ہے عورت اپنے حوقوق کے لئے ہر سمت لب کشا ہیں۔عربی،فارسی اور اردو شاعری اس کے اثر سے جدا نہیں ہے۔ بلکہ ان زبانوں میں خواتین بڑھ چڑھ کے تخلیق کر رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف عربی،فارسی اور اردو شاعری میں خواتین کی تخلیق کا اضافہ ہو رہا ہے،بلکہ آوازء نسواں بھی بلند ہو رہی ہے۔
حواشی
(۱) بقول ڈاکٹر شاہد نوخیزاعظمی بحوالہ صفحہ ۲۸گذشتہ پروین شاکر
(۲) ایضاؒ صفحہ ۰ ۳گذشتہ پروین شاکر
(۳) پروین شاکر خوشبو صفخہ ۸۰