محمد ضیاءاللٰہ*

لسانیات کی اصطلاح میں زبان در اصل وہ ملفوظ آوازیں ہیں جو انسان اپنے منہ سے ادا کرتا ہے اور اپنے ما فی الضمیر کو ایک دوسرے تک پہنچا تا ہے ۔در اصل انسانی زندگی کا دارو مدر قطعی طور پر زبان پر منحصر ہے ۔ یہ ہما ری زندگی کا نہ صرف اثاثہ ہے بلکہ یہ ہماری زندگی میں نہایت اہم کام انجام دیتی ہے۔
زبان کا رشتہ کسی کلچر یا تہذیب سے وا بستہ ہو تا ہے ،علاقائی قومی یا عالمی سطح کی کوئی بھی زبان ہو اس کا اپنا روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل ہی اس کی انفرادی خصوصیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ان کے برجستہ و بر محل استعمال سے جملے اور شعر دونوں کے حسن میں چار چاند لگ جا تے ہیں ۔روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل زبان کا مرکزی نقطہ ہو تا ہے یعنی وہ دا ئرہ جو مختصر ہو نے کے با وجود اپنے گرد پھیلی ہو ئی ساری حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔روز مرہ ۔محاورہ اور ضرب المثل ہمارے مشا ہدات و تجر بات کو پیش کرتے ہیں۔
غرض محاورں اور ضرب الامثال میں ہمیں تہذیب و تمدن کے رجحانات، سماج کے عقیدے اور رسم و رواج کی تصویریں نظر آتی ہیں ۔محاورات ا و رضر ب الامثال اجتماعی زندگی کے بہترین مرقع ہوتے ہیں ان میں معاشرے کی پوری ذہنیت اور شخصیت رچتی بستی ہے۔محاورے اور ضرب الامثال رنگین الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ یہ اجتماعی تجربے کا ذریعہ اظہار ہیں ۔روز مرہ ،محاورہ اور ضرب الامثال فرد کی انفرادیت ختم کر کے اس کو اجتماعیت کا احساس دلا تے ہیں یہ دیکھنے میں جز معلوم ہو تے ہیں لیکن اس جز میں کل پنہاں ہو تا ہے ،اس میں ارتقائے تمدن کی کہا نی پو شیدہ  ہوتی ہے
یہ حقیقت ہے کہ اظہا ر خیال اور ادا ئے مطلب میں پیچید گی سے بچنے کے لیے بول چال کی زبان روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل کا استعمال نا گزیر ہو تا ہے روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل زبان کا جو ہر ہیں ان کے بغیر زبان کی کیفیت ایک بے روح قالب کی سی ہے ۔ روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل اردو ز بان و ادب کا ایک بیش بہا خزانہ ہیں ان کی مدد سے انشا پر دازوں اور شاعروں نے ابلاغ کے کما لا ت اور زبان کے جا دو جگا ئے ہیں اور اپنے کلا م و گفتگو میں حسن و لطافت ،دلکشی اور جاذبیت کا جو ہر پیدا کیا ہے ۔
یہ مسلمہ اصول ہے کہ زبان پہلے بنتی ہے اور قاعدے بعد میں مرتب کیے جا تے ہیں اس لیے زبان کا کچھ حصہ قواعد کی گرفت سے آزاد ہو تا ہے اس کے علا وہ زبان کا کچھ حصہ ایسا بھی ہو تا ہے جس پر لغوی معنی کے بجا ئے مجازی معنی کا اطلاق ہو تا ہے ۔یہ وہ حصے ہیں جو زبان میں نقص پیدا کر نے کے بجا ئے اس کی خوبصورتی میں اضا فہ کر تے ہیں ۔اس حصے کا جو قا عدہ متعین کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اہل زبان نے انہیں جن معنوں میں استعمال کیا اور جس ترتیب سے استعمال کیا ہے اس کا استعمال اسی طرح کیا جا ئے ۔زبان کے اسی حصہ میں روز مرہ ،محاورہ اورکہاوت یا ضرب المثل کا شمار ہو تا ہے ۔اسی لیے زبان و ادب سے لطف اندوز ہو نے کے لیے اس زبان کے روز مرہ ،محاوروں اور کہا وتوں سے واقفیت لازمی ہے ۔
دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان بھی روز مرہ، محاوروں اور کہا وتوں سے مالا مال ہے بلکہ کچھ لو گوں نے کثرت محاورہ کی وجہ سے اردو کو دوسری زبا نوں پر فو قیت دی ہے زبان و ادب کے مبتدی کے لیے ضروری ہے کہ وہ روز مرہ ،محاوروں اور کہا وتوں سے واقفیت حاصل کرے ۔اس لیے آئیے سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ماہرین لسانیات نے ان تصورات کی وضا حت کن الفاظ میں کی ہے ۔
روز مرہ :
پنڈت دتا تریہ کیفی ؔ نے روز مرہ کی و ضا حت اس طرح کی ہے ۔’’روز مرہ بیان کے اس اسلوب اور بول چال کو کہتے ہیں جو اہل زبان استعمال کرتے ہیں اس کے خلاف استعمال غلط سمجھا جا تا ہے جیسے گوارا کی ضد نا گوا را لانا جبکہ روزمرہ نا گوار ہے ‘‘۔                    کیفیہ،پنڈت برج مو ہن ،دتاتریہ کیفی ،انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۴۲ ؁ء صفحہ ۱۷۶
محمد سجاد مرزا بیگ نے ’’تسہیل البلا غت‘‘ میں روز مرہ کی وضا حت کچھ اس طرح کی ہے ۔’’روز مرہ اس بول چال اور اسلوب بیان کو کہتے ہیں جو خاص اہل زبان استعمال کرتے ہیں ۔اس میں قیاس کو دخل نہیں بلکہ سماعت پر دارومدار ہے ‘‘۔           تسہیل البلا غت ،محمد سجاد مرزا بیگ ،محبوب المطالع برقی پریس دہلی میں چھپی ،سن ندارد،صفحہ ۶۰
نو رالحسن نیر ؔ نے اپنی شہرۂ آفاق لغت ’’نو ر الغات ‘‘میں روز مرہ کی تعریف ان الفا ظ میں کی ہے ۔ ’’روز مرہ ایک خاص قسم کی ترتیب الفاظ جو اہل زبان کی زبان پر ہو اور جس کے خلاف بولنا فصاحت کے خلاف ہو اس میں الفاظ اپنے حقیقی معنی دیتے ہیں ۔جو جملے کی ترتیب یا الفاظ کا طریقۂ استعمال اردو زبان میں مقرر ہے روز مرہ میں اس کی مطا    بقت لا زمی ہے ۔                    نو ر الغات ،جلد اول ،مولوی نو رالحسن نیر ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ۱۹۹۸ ؁ء،صفحہ ۵
علامہ شبلی نعمانیؔ موازنہ انیسؔ ودبیرؔ میں روز مرہ محاورہ کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔’’جو الفاظ اور خاص ترکیبیں اہل زبان کی بول چال میں زیادہ مستعمل اور متداول ہو تی ہیں ان کو روز مرہ کہتے ہیں ‘‘۔
موازنہ انیس و دبیر،شبلی نعمانی ،ایجو کیشنل بک ہا ؤس ،علی گڑھ ،۲۰۰۳ ؁ء صفحہ ۵۲
ما ہرین لسانیات کی ان تعریفوں سے جو بات نکل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے ،روز مرہ دو یا دو سے زیا دہ الفاظ کا مرکب ہو ،وہ ترکیب و ترتیب ہو جوخاص اہل زبان استعمال کر تے ہیں ۔روز مرہ میں قیاس کو با لکل دخل نہیں ہے ۔حالانکہ محاورات ہند کے مرتب محبوب الرحمٰن فا روقی نے اس کلیہ سے انحراف کیا ہے انہوں نے ’’محا ورات ہند‘‘کے پیش لفظ میں لکھا ہے ۔

”روز مرہ سے مراد ایسے فقرے ہیں جن کی شکل متعین ہے اور جو مخصوص معنی میں بو لے جا تے ہیں ۔بعض اوقات ایک لفظ کا بھی روز مرہ ہو سکتا ہے اور بعض اوقات روز مرہ والے الفاظ کے لغوی معنی کچھ اور ہو تے ہیں لیکن اہل زبان انہیں کسی اور معنی میں بر تتے ہیں”محاورات ہند ،سبحان بخش ،بتصحیح و ترتیب محبوب الرحمن فاروقی ،مکتبہ جا معہ نئی دہلی ،مارچ ۱۹۹۴ ؁ ء صفحہ ۵
بنظر غا ئر مطا لعہ کر نے سے اندازہ ہو تا ہے کہ محبوب الرحمن فا روقی صاحب کے اس قول میں انحراف نہیں ہے بلکہ انہوں نے روز مرہ کے معنوں کو وسعت دی ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہو تا ہے کہ جس طرح زبان کے تمام الفا ظ و ترا کیب کو قاعدے کی گرفت میں نہیں رکھا جا سکتا اسی طرح روز مرہ کو بھی پو ری طرح قواعد کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا لیکن یہ صفت روز مرہ کو اہل زبان سے مزید جوڑ دیتی ہے ۔مندرجہ بالا تعریفوں کی روشنی میں روز مرہ کی تعریف اس طرح متعین کی جا سکتی ہے ۔’’روز مرہ زبان و بیان کے اس اسلوب کو کہتے ہیں جو اہل زبان استعمال کرتے ہیں اور اس کے خلاف استعمال کرنے کو غلط سمجھتے ہیں ۔روز مرہ میں قیاس کو دخل نہیں ۔روز مرہ حقیقی معنوں میں استعمال ہو تے ہیں انہیں زبان و قواعد کے پیما نے سے نہیں ناپا جا سکتا اور نہ ہی روز مرہ پر قیاس کر کے ہم معنی لفظ کو بدل کر یا ترتیب دے کر روز مرہ بنا یا جا سکتا ہے‘‘جیسے :اس کی آنکھ میں درد ہے ۔ایک روز مرہ ہے اس پر قیاس کر کے اگر ہم یہ کہیں اس کی چشم میں درد ہے تو یہ درست نہیں کہ وہ روز مرہ کے خلاف ہے کیوں کہ اہل زبان اس طرح نہیں بولتے ۔روز مرہ تو صرف اس لیے روز مرہ ہے کہ وہ روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہے اس میں کسی قسم کا تصرف جا ئز نہیں یہ صد فی صد اہل زبان کی تقلید چا ہتا ہے۔
محاورہ
لغت میں یوں تو محاورہ بات چیت کرنے کو کہتے ہیں ۔لیکن اصطلاح میں محاورہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کے ان مجمو عہ کو کہتے ہیں جو کسی مصدر سے مل کر بنا ہو اور وہ لغوی یا حقیقی معنی کے بجا ئے مجا زی معنی میں استعمال ہوا ہو ۔
محاورہ زبا ن و ادب کا جو ہر ہوتا ہے ۔محاورہ سماج کی گود میں پرورش پاتا ہے اس لیے سماج کے تجربات و مشا ہدات کا اظہار محاورہ میں جا بجا نظر آتا ہے ۔محاورہ کی تشکیل میں سماج کا ہر فرد انجا نے میں حصہ لیتا بلکہ ہو تا یوں ہے کہ سماج کا کوئی واقعہ یا حادثہ سماج کو متأ ثر کرتا ہے اسی واقعہ پر فرد اظہارِ خیال کر تا ہے ۔ لیکن یہ اظہار با لواسطہ نہیں ہو تا بلکہ اس میں واقعہ کی طرف اشا رہ ہو تا ہے ۔اسی اظہار میں کو ئی ایسا فقرہ یا جملہ غیر ارا دتاً زبان سے ادا ہو جا تا ہے جو سماج میں قبول عام کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے یہی مقبولیت اس کو رواج دیتی ہے اور وہ محاورہ بن جا تا ہے ۔ محاورات اردو زبان کی زینت ہیں اردو ادب کا دامن نثر ہی نہیں بلکہ صنف نظم بھی رنگا رنگ محاوروں کی گلکا ریوں سے مزین ہے ۔زبان و ادب کی تفہیم کے لیے روز مرہ کی طرح محاورہ سے واقفیت بھی ضروری ہے ۔ما ہرین نے محاورے کی تعریف مختلف طرح سے کی ہے ۔
پنڈت دتا تریہ کیفی ؔ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’کیفیہ ‘‘ میں محاورہ کی وضاحت ان الفا ظ میں کی ہے۔”وہ کلام جس کے لفظ اپنے معنی غیر مو ضوع میں استعمال ہو تے ہیں محاورہ ہے محاورہ کم از کم دو کلموں سے مرکب ہو تا ہے۔محاورہ قواعد کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتا۔کیفیہ،پنڈت برج مو ہن ،دتاتریہ کیفی ،انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۴۲ ؁ صفحہ۱۷۸
مولوی نو رالحسن نیر ؔ نے ’’نو رالغات ‘‘میں محاورہ کی وضاحت اس طرح کی ہے ۔

”محاورہ جب ایک یا کئی لفظ مصدر مل کر حقیقی معنی سے متجا وز ہو کر کچھ اور معنی دیں تو اس کو محا ورہ کہتے ہیں ۔جیسے: آگ پا نی میں لگا نا ۔محاورہ میں مصدر کے جملہ مشتقات استعمال ہو تے ہیں ۔لیکن اصل محاورہ میں کسی قسم کے تصرف کرنے کا اختیار نہیں”     نو ر الغات ،جلد اول ،مولوی نو رالحسن نیر ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ۱۹۹۸ ؁ء،صفحہ۶۹۳

 محمد سجاد مرزا بیگ نے ’’تسہیل البلا غت ‘‘میں محاورہ کی تعریف کر تے ہو ئے لکھا ہے ۔
”جب کو ئی کلا م دو یا دو سے زیا دہ الفا ظ سے مرکب ہو اور وہ اپنے معنی غیر مو ضوع لہ میں استعمال ہو تے ہوں تو وہ کلام محاورہ کہلا تا ہے ۔جیسے : غم کھا نا”تسہیل البلا غت ،محمد سجاد مرزا بیگ ،محبوب المطالع برقی پریس دہلی میں چھپی ،سن ندارد،صفحہ ۶۰
الطاف حسین حالی ؔ ’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘میں محاورہ کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔
”محاورہ لغت میں مطلقاً بات چیت کرنے کو کہتے ہیں خواہ وہ بات چیت اہل زبان کے روز مرہ کے موا فق ہو خواہ مخا لف لیکن اصطلاح میں خاص اہل زبان کے روز مرہ یا بول چال یا اسلوب بیان کا نا م ہے”                                                                                                       مقدمہ شعر و شا عری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،اتر پردیش اردو اکاد می لکھنئو ،۱۹۹۳ ؁ ء صفحہ ۱۶۳ حالی ؔ محا ورہ کے ذیل میں آگے لکھتے ہیں:

   ”محاورہ تقریباً ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ میں پا یا جا ئے کیو نکہ مفرد الفاظ کو روز مرہ یا بول چال یا اسلوب بیان نہیں کہا جا تا”                مقدمہ شعر و شا عری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،اتر پردیش اردو اکاد می لکھنؤ ،۱۹۹۳ ؁ ء صفحہ ۱۶۳
حالیؔ نے روز مرہ اور محاورہ دو نوں کے لیے دو یا دو سے زیا دہ الفا ظ ہو نے کی شرط لگا ئی ہے ۔یہ محاورہ کی ایسی شرط ہے جس پر ما ہرین متفق نظر آتے ہیں ۔لیکن حا لیؔ نے محا ورہ کے ذیل میں آگے جو کچھ لکھا ہے وہ اختلاف کا سبب ہے۔حالی آگے محاورہ کی مثال دیتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔پانچ اور سات دو لفظ ہیں جن پر الگ الگ لغت کا اطلاق ہو سکتا ہے مگر ان میں سے ہر ایک کو محا ورہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ دونوں کو ملا کر جب پانچ سات بو لیں گے تب محاورہ کہا جا ئے گا ۔حالی ؔ نے محا ورہ کی یہ جو مثال دی ہے وہ روز مرہ کی ہے ۔اسی طرح حالیؔ آگے لکھتے ہیں ۔
”  وہ ترکیب جس پر محا ورہ کا اطلا ق کیا جائے قیاسی نہ ہو بلکہ معلوم ہو کہ اہل زبان اس کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں ۔مثلاً پانچ سات یا سات آٹھ پر قیاس کر کے چھ آٹھ یا آٹھ چھ بولا جا ئے تو اس کو محاورہ نہیں کہیں گے ۔کیونکہ اہل زبان اس طرح نہیں بو لتے  ”
مقدمہ شعر و شا عری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،اتر پردیش اردو اکاد می لکھنئو ،۱۹۹۳ ؁ ء صفحہ ۱۶۳
حالی ؔ نے محاورہ کے لیے جو شرطیں متعین کی ہیں وہ روز مرہ پر صادق آتی ہیں ۔حالی ؔ نے روز مرہ اور محاورہ کو ایک دوسرے سے ملا دیا ہے ۔اس لیے یہ کہنا مشکل ہو جا تا ہے کہ حالی ؔ روز مرہ کی تعریف کر رہے ہیں یا محا ورہ کی ۔ما ہرین نے محاورہ کے لیے جو شرطیں متعین کی ہیں ۔وہ اس طرح ہے ۔
دو یا دو سے زیا دہ الفا ظ کا مجمو عہ ہو۔
مجا زی معنوں میں مستعمل ہو۔
وہ مصدر سے مل کر بنا ہو۔
محاورہ میں روز مرہ کی طرح الفاظ کی تبدیلی جا ئز نہیں لیکن مصدر کے مشتقات کا استعمال قواعد کے اعتبار سے ضروری ہے۔محاورہ کے الفاظ کی تقدیم و تا خیر کی گنجا ئش ہے حالانکہ سید قدرت نقوی نے ’’لسانی مقالات‘‘ میں محاورے کی ترتیب میں تبدیلی کو نا جا ئز قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں۔
”محاورہ کی ترتیب کو بد لا نہیں جا تا اگر بدل دیں تو وہ خلاف فصاحت اور ایک غلطی تسلیم کی جا ئے گی مثلاً: ہاتھوں کے طوطے اڑنا اس کی تر تیب کی تبدیلی اس شعر میں پا ئی جا تی ہے جو بے لطفی کا سبب بن گئی ہے ۔
بے ترتیبی کی مثال
اس کا خط جب دیکھتے ہیں صیاد
طوطے ہا تھوں کے اڑا کرتے ہیں
ترتیب کی مثال
جب یہ سنا دزد حنا دل کا چور ہے
ہا تھوں کے طوطے اڑ گئے رنگ حنا کے ساتھ             جلیل ؔ ؔ
لسانی مقالات :مرتبہ،سید قدرت نقوی ،ناشر ڈاکٹر جمیل جا لبی ،صدر مقترہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۸ ؁ء صفحہ ۳۳۔۲۳۲
جبکہ سید انور حسین نے ’’نظام اردو ‘‘میں محاورے کی ترتیب میں تبدیلی کو جا ئز ہی قرار نہیں دیا بلکہ انہیں کہیں کہیں مستحسن بھی قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں:
”محاورات میں ایسا تغیر جس سے اس کی اصلیت اس طرح بگڑ جا ئے کہ روز مرہ کی تعریف میں بھی نہ آئے نا جا ئز ہے اور نہ بگڑے تو جا ئز ہے اور حسن کلام بڑھ جا ئے تو مستحسن ہے۔”
لفظی تبدیلی کو انور حسین نے بھی نا جا ئز قرار دیا ہے مثلاً غم کھانا ۔پتھر چٹانا کی جگہ اگر کو ئی صدمہ کھانا اور سنگ چٹانا کہے تو یہ نا جا ئز تصرف ہے ۔تصرف مستحسن کے ذیل میں لکھتے ہیں
کودکی ’پیری’جوانی دیکھ لی
تین دن کی زندگا نی دیکھ لی            انیسؔ
”محاورہ میں دو دن یا چار دن کی زندگی ہے جس کا مفہوم قلت زمانہ ہے تعداد معینہ نہیں ۔مگر قا درالکلام مصنف تین زمانے ظاہر کر نے کے بعد تین دن کی زندگا نی کہہ کر وہ معنی آفرینی کر رہا ہے جو اس کے لیے ہے کہ محا ورہ غلط ہو نے کے بدلے نئے جا مہ میں آکر دوسرا محاورہ بن گیا ۔ محاورہ میں ایسا تصرف جا ئز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے”
نظام اردو:سید انور حسین آرزو ،اتر پردیش اردو اکاد می لکھنو ،۱۹۷۹ ؁ء ۸۲۔۷۹
زبا ن و ادب میں محاورہ کے استعمال کا فائدہ یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں بڑی سی بڑی با تیں بیان کر دی جا تی ہیں خاص طور پر شعر و ادب میں محاورہ سے بہت کام لیا جا تا ہے ۔شعر و ادب میں وسعت معنی اور لطف پیدا کرنے کی زیاد ہ ضرورت ہو تی ہے اس لیے بھی محاورہ کی اہمیت بڑھ جا تی ہے ۔محاوری کی کثرت اور اہمیت کے مد نظر ما ہرین نے اس کی تقسیم مختلف طرح سے کی ہے ۔
پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی نے اپنی تصنیف ’’کیفیہ ‘‘میں محاورہ کی ضاہری شکل یا مو ضوع کے پیش نظر اسے ۱۲ خانوں میں تقسیم کیا ہے ۔
۱ حیوانی محاورے ہا تھوں کے طوطے اڑنا
۲ اعضائے محاورے آنکھ دکھانا
۳ نبا تا تی محاورے بانس پر چڑھنا
۴ خورد نوشی محاورے آٹے دال کا بھا ؤ معلوم ہو نا
۵ پوشاکی محاورے چولی دامن کا ساتھ ہو نا
۶ مو سمی محاورے آگ برسنا۔ہوا ہو جانا
۷ فلکیا تی محاورے آسمان ٹوٹ پڑنا
۸ عددی محاورے تین پانچ کرنا
۹ رزم اور شجاعت کے محاورے کام آنا
۱۰ نفسیاتی محاورے کلیجہ منہ کو آنا
۱۱ آبی محاورے پانی نہ مانگنا
۱۲ حرفت کے محاورے کو لھوکا بیل ہو نا
پنڈت دتا تریہ کیفی کی اس تقسیم میں محاورے کی ظاہری شکل کو سامنے رکھا گیا ہے ۔اور محاورے میں استعمال ہوئے الفاظ کی بنیا دپر اس کو مختلف خانوں میں بانٹا گیا ہے ۔اس تقسیم میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ایک محاورہ کئی حصوں میں رکھا جا سکتاہے مثلاً ’کلیجہ منہ کو آنا‘ نفسیاتی محاورے کے ساتھ ساتھ اعضائی محاورے کے ذیل میں بھی آسکتا ہے ۔اسی طرح ’پانی نہ مانگنا ‘آبی محاورے کے ساتھ ساتھ خوردو نوشی محاورے کے ذیل میں بھی آسکتا ہے ۔اس لیے اس تقسیم کو منطقی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اس تقسیم سے مبتدی کے لیے کو ئی کا رآمد چیز بر آمد ہو سکتی ہے ۔لیکن اس تقسیم سے محاورے کی وسعت اور کثرت کا ضرور پتہ چلتا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہما ری زبان میں محاورے کثرت سے تو پا ئے ہی جا تے ہیں ان میں تنوع اور رنگا رنگی بھی ہے ۔لیکن کیفی نے ان محاوروں کے ذیل میں جو مثا لیں دی ہیں اس میں محاورہ اور ضرب المثل گڈ مڈ سے ہو گئے ہیں محاورں کے ذیل میں کہا وتوں کا بھی اندراج کر دیا گیا ہے۔
سید قدرت نقوی نے بھی ’’لسانی مقا لات ‘‘میں محاورہ کی تقسیم کی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے الفاظ کے معنی کے لحاظ سے محاورے کو تین قسموں میں بانٹا ہے ۔
۱۔ ایک وہ محاورے جن میں اسما ء مجازی معنی میں استعمال ہو تے ہیں ۔جیسے :کا فور ہو جا نا
۲۔ دوسرے وہ محاورے جن میں مصادر اور ان کے مشتقات مجا زی معنی میں استعمال ہو تے ہیں ۔جیسے : غم کھا نا
۳۔ تیسرے وہ محاورے جن میں اسما ء وافعال دونوں مجا زی معنی میں استعمال کیے گئے ہوں ۔مثلاً : رال ٹپکنا ،دال گلنا وغیرہ۔
یہ حقیقت ہے کہ محاورے سے زندگی کی کسی نہ کسی حقیقت کی عکاسی ہو تی ہے ۔اور جس طرح زندگی گو نا گوں کیفیت رکھتی ہے اسی طرح محاورے بھی اپنے اندر زندگی کی مختلف حقیقت و کیفیت کو سموئے ہو ئے ہے اسی لیے جس طرح زندگی کو مختلف خا نوں میں نہیں بانٹا جا سکتا اسی طرح محاوروں کو بھی الگ الگ خانوں میں نہیں رکھا جا سکتا ،کیونکہ ایک محاورہ زندگی کی کئی کیفیتوں اور حقیقتوں کو پیش کر رہا ہو تا ہے ۔اس لیے محاورے کو لفظی ،معنوی یا مقصدی کسی طور پر تقسیم کرنا نہایت مشکل امر ہے ۔  سید قدرت نقوی نے محاورے کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کرایک اور تقسیم کی ہے ۔
ا۔ سادہ محاورے
۲۔ تشبیہی محاورے
۳۔ استعاراتی محاورے
۴۔ کیفیاتی محاورے
۵۔ تجرباتی محاورے
۶۔ مشاہداتی محاورے
۷۔ رسم و رواج پر مشتمل محاورے
۸۔ روایاتی محاورے
۹۔ تہذیبی محاورے
قدرت نقوی کے علاوہ یو نس اگاسکر نے بھی محاورے کی تقسیم کی ہے ۔انہوں نے ’’اردو کہا وتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو‘‘میں محاورں کو داخلی خصوصیات کے پیش نظر تقسیم کی وکا لت کی ہے ۔
تقسیم خارجہ ہو یا داخلی لفظی ہو یا معنوی اس سے محاورے کی افا دیت و اہمیت میں کو ئی اضافہ نہیں ہو رہا ہے ،لیکن اس تقسیم سے محاورے کی نو عیت اور زبان میں اس کی معنویت میں ضرور اضا فہ ہوا ہے ۔محاورے کی اس رنگا رنگی نے زبان کو ہمہ گیر بنا دیا ہے ۔
کہا وت یا ضرب المثل:
اردو ادب میں محاوروں کی طرح کہا وتوں کی بھی بڑی اہمیت ہے ۔کہا وت یا ضرب المثل سیکڑوں سال کے تجربات و مشا ہدات اور واقعات و حادثات کے حقائق کی بنیاد پر استعمال کیے ہو ئے وہ مخصوص جملے ہیں جو دانشوروں اور تجربہ کار لوگوں کی زبان سے مخصوص مو قعوں پر با ر بار ادا ہوئے ہوں۔
ضرب الامثال یا کہا وتیں کسی بھی زبان کے لسا نی سرمایہ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں یہ سیدھے طور پر ادب کو عوام سے جوڑ تی ہے ۔ضرب المثل یا کہا وت کا معدن عوام ہے ۔یہ کلی طور پر عوام کی پیدا وار ہے ۔اس کو بنا نے کے لیے کو ئی مہم نہیں چلا ئی جا تی اور نہ ہی اس کے لیے ادبی اصطلاح وضع کر نے کی طرح کسی قسم کی کمیٹی تشکیل دی جا تی ہے ضرب المثل یا کہا وت گڑھی نہیں جاتی بلکہ یہ عوام کے ہزاروں سال کے تجربات و مشاہدات اور واقعات و حادثات کے حقائق کی بنیا د پر استعمال کیے ہو ئے جملے ہو تے ہیں ۔ان جملوں کو پہلے کسی فرد نے کسی واقعہ ،حادثہ یا تجربات کے بنیاد پر ادا کیا ہو گا اور جملہ مختصر ،جامع اور پر معنی رہا ہو گا جس نے لو گوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہو گا اور وہ جملہ رفتہ رفتہ رواج پا گیا ہو گا ۔اس کے علاوہ سماج کے بڑے بو ڑھوں نے اپنے تجر بات کو نصیحت کے پیرا ئے میں بھی بچوں کو بتا تے چلے آئے ہیں ۔یہ بھی کہا جا تا ہے کہ لو گ اپنے ہنر اور فن و کما لات کو بھی اپنے آنے والی نسل کو کہا وت کے روپ میں منتقل کر دیا کر تے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ادب میں زندگی کے گو نا گوںں گوشے کو پیش کر نے والے ضر ب الامثال کا ذخیرہ مو جود ہے ۔
ضر ب المثل کی ادب میں افا دیت و اہمیت کے پیش نظر اسے سمجھنے کی ضرورت قدرے بڑھ جا تی ہے اس لیے آئیے          ماہرین کے خیا لوں کی روشنی میں کہا وت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پنڈت دتاتریہ کیفی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’کیفیہ ‘‘میں کہا وت کی تعریف ان الفا ظ میں کی ہے ۔
’’کہا وت کی بنیاد مسلمہ تمثیل یا تلمیح ہوا کرتی ہے اسے ضر ب المثل بھی کہتے ہیں ‘‘
کیفیہ،پنڈت برج مو ہن ،دتاتریہ کیفی ،انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۴۲ ؁ء صفحہ۱۹۳
پنڈت کیفی نے کہا وت کے لیے مسلمہ تمثیل یا تلمیح کی شرط لگا ئی ہے ۔یہ سچ ہے کہ اردو کی بیشتر کہا وتیں کسی نہ کسی تا ریخی واقعہ کا پس منظر رکھتی ہیں ۔اگر کہا وت تاریخی شواہد سے متضاد بھی ہو تو عوام کا اس پر اس درجہ اعتماد ہو تا ہے کہ اسے سچ تصور کیا جا تا ہے ۔مولوی نو رالحسن نیر نے ’’نو رالغات‘‘ میں ضر ب المثل کی وضا حت اس طرح کی ہے ۔
”مثل ایک یا چند جملے جو عر صۂ دراز سے کسی خاص مو قع پر بطور مثال بولے جاتے ہیں اور اپنے لفظی معنی سے متجا وز ہو کر کچھ اور مضمون ادا کرتے ہیں”
نو ر الغات ،جلد اول ،مولوی نو رالحسن نیر ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ۱۹۹۸ ؁ء،صفحہ۱
مو لوی نیر نے ضر ب المثل کے لیے عر صۂ دراز سے مروج ہو نے کی شرط لگا ئی ہے یعنی ضر ب المثل یا کہا وت وہی فقرہ یا جملہ کہلا سکتا ہے جو سینہ بسینہ منتقل ہوتا چلا آیا ہو ۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج کو ئی واقعہ ظہور پذیر ہوا اور اس موقع پر صاحب نظر نے جو محسوس کیا اسے ایک چست جملے میں ادا کر دیا جو اگلے دو چار سالوں میں کہا وت بن جا ئے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اب کہا وت بن ہی نہیں سکتا ،بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام مروج ہو جا ئے اور اس واقعہ سے سماج کے بیشتر لو گو ں پر یکساں اثر ہوا ہو تاکہ وہ جملہ یا فقرہ ان کی اپنی زبان سے ادا ہونے لگے ۔یہی مقبو لیت اور استعمال اس جملے کو کہا وت کی مسند پر بٹھا سکتا ہے ۔لیکن کہاوت کے بننے کا وقت متعین نہیں کیا جا سکتا کہ اتنی مدت بعد کو ئی فقرہ یا جملہ کہا وت بن جا ئے گا ۔بلکہ اس جملے میں اگر توانائی ہو گی تو خود اپنی جگہ بنا لے گا۔ ڈاکٹر یونس اگاسکر نے ’’اردو کہا وتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو ‘‘میں ضر ب المثل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ۔
”کہا وت قدما کے طویل تجربات و مشا ہدات کا نچوڑ وہ دانشمندانہ قول ہے جس میں کسی کی ذہانت نے زور بیان پیدا کیا ہو اور جسے قبول عام نے روز مرہ کی زندگی کا کلیہ بنا دیا ہو”
اردو کہا وتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو ،ڈاکٹر یونس اگاسکر ،ناشر کو کن اردو رائٹر گلڈ شاخ نیروبی ،۱۹۸۸ ؁ء صفحہ ۳۰
ڈاکٹر یو نس اگاسکر نے اردو کہا وت کے لیے صرف قدما کے تجربات کی قید نہیں لگا ئی ہے بلکہ طویل کی صفت بھی بڑھا دی ہے اس سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ قدما کے طویل تجر بات و مشا ہدات کی شرط ہی کسی جملے یا فقرے کو کہا وت کے مسند پر بٹھا سکتی ہے ۔یعنی وقت کی کسوٹی کی اہمیت کہا وت کے بننے میں بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ علما نے کہا وت کے لیے ہر دل عزیز اور عام پسند ہو نے کی بھی شرط لگا ئی ہے ۔
محبوب عالم نے ’’محبوب الامثال‘‘میں ضرب المثل کی کی خوبی بیان کر تے ہو ئے لکھا ہے ۔ ”ضرب المثل کی نہا یت ضروری صفت یہ ہے کہ وہ ہر دل عزیز اور عام پسند ہو کیوں کہ اگر اس کو یہ صفت حاصل نہیں ہے تو اس کا اعجاز ،دانش ، ملا حت اور جملہ حسن و سیرت کو ئی کا م نہیں آتا”
محبو ب الامثال ،محبوب عالم ،مطبع خا دم التعلیم ،گو جرنوالہ ،۱۸۸۷ ؁ء صفحہ ۱۱

        محبوب عالم نے کہا وت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی شرط کہاوت کے عام پسند ہو نے کو بتایا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اعجاز،دانش اور ملا حت کو بھی کہا وت کا حسن قرار دیا ہےمندرجہ بالا خصوصیات کے پیش نظر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ۔ضرب الامثال یا کہا وتیں سماج کے ہزاروں سال کے تجربات و مشا ہدات ،واقعات و حا دثات اور عقائد و رسو مات کا وہ نچوڑ ہو تی ہیں جو عر صۂ دراز سے خاص خاص موقع پر بطور مثال بو لی جاتی ہیں ۔اور اپنے لغوی معنی سے الگ مجازی معنی دیتی ہیں ۔ مثلاً:جس کی لا ٹھی اس کی بھینس،اندھیر نگری چوپٹ را جہ،بندر کیا جانے ادرک کا سواد
روز مرہ اور محاورہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ روز مرہ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہو تا ہے جبکہ محاورہ مجا زی معنوں میں :مثلاً دال گلنا اگر اس سے مراد دال پکنے کا معنی لیا جائے تو روز مرہ ہے کیونکہ یہ حقیقی معنی ہے ۔ دوسری طرف اگر اس سے مقصد پو را ہونا اور کامیاب ہو نا مراد لیا جائے تو محاورہ ہے کیوں کہ اس وقت یہ مجا زی معنی میں ہو گا
قدرت نقوی نے اپنے مضمون’’محاورات کی حقیقت‘‘میں روز مرہ اور محاورہ کی فرق کو اس طرح واضح کیاہے۔
”اگر الفاظ اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوں اور ترکیب و ترتیب اہل زبان کے استعمال کے موا فق ہو تو اس کو اصطلا حاً روز مرہ کہا جا تا ہے ۔ اور اگر مجا زی معنی میں مستعمل ہو تو محاورہ”
لسانی مقالات ،مرتبہ سید قدرت نقوی ،ناشر ڈاکٹر جمیل جا لبی ،صدر مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۸ ؁ء صفحہ ۲۳۲

        تحریر و تقریر  اورنظم ونثر میں روز مرہ کے استعمال سے عبارت کی فصاحت بر قرار رہتی ہے اور اس کی پا بندی لازمی ہے جبکہ محاورہ حسن کلام اور زور بیان میں اضافہ کرتا ہے ۔اور اس کے استعمال نہ کر نے سے تحریرو تقریر میں کسی قسم کا نقص پیدا نہی ہوتا ۔اسی لیے روز مرہ سے قدم قدم پر سابقہ پڑتا ہے جبکہ محاورہ سے کبھی کبھی ۔جیسے کل رات میں ریلوے لا ئن پر کھڑا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ٹرین ہوا سے با تیں کرتی ہو ئی چلی جاتی ہے ،اس جملہ میں اگر ہم ہوا سے باتیں کرنے کا استعمال نہ کریں تو عبارت میں کو ئی نقص پیدا نہیں ہو تا بلکہ اس کی جگہ ٹرین بہت تیز چل رہی تھی کا فی ہے ۔اور اس سے روز مرہ میں بھی کو ئی نقص پیدا نہیں ہو تا۔ محا ورہ کے لیے مصدری علامت ’’نا ‘‘کا ہو نا ضروری ہے جبکہ روز مرہ کے لیے ضروری نہیں ۔محاورہ جیسے ”       دال گلنا،دل آنا،ہتھے چڑھنا وغیرہ روز مرہ جیسے” ہمارا روز کا یہ معمول ہے۔روز مرہ کی ترتیب و تر کیب میں کسی قسم کے تصرف کی گنجا ئش نہیں ہے جبکہ محا ورہ میں مصدر کے جملہ مشتقات سے کام لیا جا تا ہے ۔جیسے ہما را ہرروز کا معمول ہے،ہر روز روز مرہ ہے اس کی جگہ ہم ہر دن نہیں کہ سکتے لیکن محاورہ میں مصدر کے مشتقات کا استعمال ہو تا ہے جیسے غم کھانا ،اس کی جگہ غم کھا تی ،کھانا،کھا ئے کھاے گا وغیرہ کا استعمال جا ئز ہے
پنڈت کیفی لکھتے ہیں ۔   ” روز مرہ محاورہ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ محاورہ میں قواعد کی پابندی لازم ہے اور روزمرہ قواعدکےرستے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ جیسے بے اور نا دونوں حرف نفی ہیں لیکن نا حق کی جگہ ہم بے حق نہیں کہ سکتے جو کہ قواعد کی رو سے صحیح ہو تے ہو ئے بھی روز مرہ کے خلاف ہے۔ ”

                                                                                       کیفیہ،پنڈت برج مو ہن ،دتاتریہ کیفی ،انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۴۲ ؁ء صفحہ۱۷۶

 محاورہ اور ضر ب المثل میں بنیا دی فرق یہ ہے کہ محاورہ مکمل جملہ نہیں ہو تا بات کو واضح کر نے کے لیے اسے چند جملوں کی ضرورت ہو تی ہے اس کے بر خلاف کہاوت یا ضرب المثل ایک مکمل جملہ ہو تا ہے جو اضافی جملے کے سہا رے کے بغیر اپنا پورا و مکمل مفہوم ادا کرتا ہے۔
پنڈت کیفی’’ کیفیہ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ ”  کہا وت اور محاورہ میں بڑا فرق یہ ہے کہ محاورہ کلام کا جزو بن کر اس میں جذب ہو جا تا ہے ۔کہاوت میں یہ قابلیت نہیں یہ اگر حذف کر دی جا ئے تو کلام تام رہے گا ۔مثلاً محاورہ:جنگ کی وجہ سے وہ تجویز کھٹائی میں پڑ گئی۔ کہاوت:بینک میں تو جو کچھ تھا ڈوبا ہی آپ نے بھی تقا ضا شروع کر دیا سچ کہتے ہیں مرتے کو ما ریں شاہ مدار”                                       کیفیہ،پنڈت برج مو ہن ،دتاتریہ کیفی ،انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۴۲ ؁ء صفحہ۱۷۶
محاورے مصدری علامت ’’نا‘‘سے مل کر بنتے ہیں جبکہ کہا وتوں کے لیے مصدر اور اس کے مشتقات کا ہو نا ضروری نہیں ہے۔محاورہ جیسے چولی دامن کا ساتھ ہو نا ،کہا وت جیسے آم کے آم گٹھلیوں کے دام ۔کہا وت قواعد کی پا بندی سے با لکل آزاد ہے جبکہ محاورہ میں قواعد کی پا بندی کسی حد تک کی جاتی ہے جیسے مصدر کے جملہ مشتقات کا قواعد کے مطا بق استعمال کرنا ۔    کہا وت جیسے :’’نہ نو من تیل ہو گا نہ را دھا نا چے گی‘‘یہ کہا وت جوں کا توں استعمال کیا جائے گا اس میں مذکر مؤنث ،واحد ،جمع کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا ئے گی ۔کہا وتوں کے الفاظ کی تعداد محاورے کی بنسبت زیا دہ ہو تی ہے اور مقصد کی ادا ئیگی کے اعتبار سے بھی کہا وتوں میں محاورے کے مقابلے زیادہ وسعت و ہمہ گیری پا ئی جاتی ہے کیو نکہ کہا وتوں کے پیچھے کو ئی نہ کو ئی تا ریخی واقعات و مشا ہدات مذہبی عقائد و نظریات یا سماجی رسم و رواج کی قدریں پوشیدہ ہو تی ہیں جو کہا وتوں کو ہمہ گیریت عطا کر تی ہے ۔
سماج اور زبان ایک دوسرے کے لیے لا زم و ملزوم ہیں ۔جس طرح زبان کے بغیر سماج کو تصور ممکن نہیں اسی طرح سماج کے بغیر زبان کا تصور بھی امکان سے با ہر ہے ۔زبان نے ہی فرد کو فرد سے جو ڑ کر سماج کی تشکیل کی اور دوسری طرف سماج کی ظرورت نے ہی زبان کو جنم دیا اور اسی کے گود میں زبان کی پرورش و پر داخت ہو ئی یہی وجہ ہے کہ سماج کی ترقی کے ساتھ ساتھ زبان نے بھی ترقی کی سماج کی ترقی کاا ثراس کی زبان پر براہ راست پڑتا ہے اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ جو سماج جتنا ترقی یافتہ اور مہذب ہوتا ہے اس کی زبان بھی اتنی ہی مہذب سمجھی جا تی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سماج کی طرح زبان بھی طبقوں میں منقسم ہے۔سماج میں رو نما ہونے والے واقعات و حادثات زبان کے بننے اور بگڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔بسا اوقات ایک واقعہ ایک زبان کی ترقی میں معاون و مدد گار ہو تا ہے تو دوسری زبان کی باڑھ روک دیتا ہے۔اس لیے سماج کے تجربات و مشا ہدات واقعات و حادثات کو زبان میں اہم جگہ دی جا تی ہے ۔سماج اپنے تجربات و مشاہدات اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حادثات کو آنے والی نسل کو سونپ دیتے ہیں ۔جس کے لیے انہیں کم سے کم لفظوں کا سہا را لینا پڑتا ہے یا اشارہ کنا یہ میں اپنی سر گزشت کو آنے والی نسل کو سونپ دیتے ہیں ۔یہی جملے اور فقرے جو سماج کے تجربات و مشا ہدات پر مبنی ہو تے ہیں محاورات اور ضرب المثل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔زبان کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقا ء کو بڑی اہمیت حاصل ہے فرد پہلے کچھ با تیں سوچتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے ۔اسی سوچ یا عمل کے لیے الفاظ ترا شے جاتے ہیں انہی الفاظ سے زبان بنتی ہے ۔زبان بننے کے بعد اس کے قاعدے متعین کیے جا تے ہیں اور اس قاعدے میں اہل زبان کو سند کی حیثیت دی جا تی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جو قواعد کی گرفت میں نہیں آپاتا پھر بھی وہ اس زبان کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے اور زبان کے حسن میں اضا فہ کر تا ہے ۔اسی زمرے میں روز مروں ،محاوروں اور کہاوتوں کا شمار ہو تا ہے۔
روز مرہ اہل زبان کے بول چال کا طریقہ ہے جس کی وجہ سے اسے زبان میں بڑی اہمیت حاصل ہے روز مرہ میں سماج کا بڑا دخل ہو تا ہے اور سماج کا اثر روز مرہ پر صاف دکھا ئی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہما ری زبان اردو کے دو بڑے مرا کز لکھنؤ اور دلی کے روز مرہ اور محاورہ میں نما یاں فرق نظر آتا ہے جو کہ سماجی فرق کی بنا پر ہے ۔ان دونوں کو اردو ادب میں قبولیت کا درجہ حاصل ہے۔اس کے علا وہ بھی سماج میں زبان کے چلن میں خاصا اختلاف پایا جا تا ہے ۔اس اختلاٖف کے با وجود سماج میں داخلی طور پر روز مرہ کی پا بندی کی جاتی ہے جس سماج میں جن الفاظ کا چلن ہے اور جو ترکیب و ترتیب متعین ہے ،اس کی پا بندی لازمی ہے ۔محاورہ اور ضرب المثل کی تخلیق غیر محسوس طریقے سے سماج میں جاری وساری رہتی ہے اور سماج کا اثر محاورہ اور ضرب المثل پر پڑتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سماج کے ہر طبقے کا اپنا اپنا محاورہ اور ضرب المثل ہوتا ہے جو اس خاص طبقے میں پیش آنے والے واقعات وحادثات اور تجربات ومشاہدات پر مبنی ہوتا ہے۔لیکن یہ محاورہ اور ضرب المثل تب تک زبان کا حصّہ نہیں بن پاتی جب تک کہ اس کو ہمہ گیریت حاصل نہ ہوجا ئے اور سماج کے دوسرے طبقے میں بھی اس کا رواج ہوجائے ۔زبان کے ساتھ ساتھ بولیوں میں بھی محاورہ اور ضرب المثل پائے جاتے ہیں اور جس طرح بولیوں کے الفاظ تدریجی ارتقا کے ساتھ زبان کا حصّہ بن جاتا ہے اسی طرح محاورہ اور ضرب المثل بھی ترش ترشا کر زبان میں داخل ہوجاتے ہیں۔یونس اگاسکر نے’’ اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو‘‘ میں کہاوت اور سماج کے تعلقات کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔                                   ’’              انسان کے سماجی تعلقات میں عمل سوجھ بوجھ اور شعور عامہ کی اہمیت مسلم ہے کہاوتیں اسی عملی سوج بوجھ اور شعور عامہ کی بہترین مظہر ہوتی ہیں۔ہر کہاوت انسانی رویے اور سماجی لین دین کا ایسا سکّہ ہے جس کا چلن ختم ہوجانے پر بھی اس کی اہمیت ختم نہیں ہوتی

                                           اردو کہاوتیں اور ان کے سماجی ولسانی پہلو،ڈاکٹر یونس اگاسکر،ناشر کوکن اردو رائٹر گلڈ شاخ نیروبی،۱۹۸۸ ؁ ء، صفحہ ۱۳
یونس اگاسکر کے اس قول کو کہاوتوں تک محدود نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اس کا اطلاق محاوروں پر بھی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ محاوروں میں بھی انسانی رشتوں اور اس کے سماجی تعلقات میں شعور عامہ کا اظہار ہوتا ہے۔ محاورہ اور ضرب المثل معاشرے کے آئینہ دار بھی ہیں اور ان سے معاشرے کی قدروں کا اندازہ بھی بہت اچھی لگایا جاسکتا ہے۔محاوروں اور کہاوتوں سے کسی سماج کے تصور حیات،اخلاقی کردار اور معاشرتی برتاؤکا تخمینہ بڑی آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا وجود انسانی تہذیب ولیاقت کی ہر سطح پر ہے ادنی طبقہ سے لے کر اعلیٰ طبقہ تک سبھی انسان محاورے اور ضرب المثل کا استعمال کرتے آئے ہیں۔انسانی سماج میں محاورہ اور کہاوت کی ہمہ گیر اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں انسان کے سماجی و انفرادی شخصیت کے تعمیر کے راز پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اسی لیے کہا جا تا ہے کہ اگر سماج کا گہرا مطا لعہ مقصود ہواور اجتما عی شعور ،لا شعور سے واقفیت حاصل کرنی ہو تو اس سماج میں مروج محاوروں اور کہا وتوں کا باریک بینی سے مطا لعہ لازمی ہے ۔کیونکہ عوام کے غورو فکر اور طرز زندگی سیاسی ،سما جی و اخلاقی قدریں بڑی حد تک کہا وتوں اور محا وروں سے ظا ہر ہو تی ہیں ۔ کہاوتیں اور محاورے عام انسانی زندگی کے تجربات و مشاہدات کا مظہر ہو تے ہیں ۔محبوب عالم نے کہا وتوں کی اہمیت کو اس طرح بیان کیا ہے ۔
” ان سے صرف تواریخ کو ہی مدد نہیں ملتی بلکہ ملک کی اطوار اور با شندوں کی عا دتوں ،رسموں ،حاجتوں ، حرفتوں ، خیالوں اوربد عتوں کو بھی کما حقہ روشن کر دیتے ہیں ۔”
محبو ب الامثال ،محبوب عالم ،مطبع خا دم التعلیم ،گو جرنوالہ ،۱۸۸۷ ؁ء صفحہ
کہاوت اور سماج کے رشتہ کا اندازہ اس سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ کہا وت کی بنیا دی شرط عمومیت ہے یعنی اسے خاص وعوام میں قبولیت حاصل ہو ۔کیونکہ عمومیت کے بغیر کو ئی فقرہ کہا وت کہلا نے کا مستحق نہیں ہو سکتا اگر چہ وہ دیگر تمام محاسن سے پر ہو۔       بولیوں میں بھی تھو ڑی سی تبدیلی کے ساتھ محاورہ اور کہا وت کا رواج رہتا ہے ۔جیسے ہما رے علا قے میں ایک کہا وت مروج ہے ’’باپ گن پتا تن گھو ڑا نے بہت تو تھو ڑم تھو ڑا‘‘یہ کہا وت ہما رے علا قہ کے عوام و خاص کی زبان پر جا ری و ساری ہے ۔اس کی نکھری صورت نو راللغات میں اس طرح درج ہے ’’باپ پر پوت پتا پر گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘دونوں ایک ہی معنی میں استعمال کیا جا تا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ادب میں کہاوت یا محاورہ کے نکھرنے کے با وجود سماج میں جوں کو توں استعمال ہو تا رہتا ہے یا یوں کہ سکتے ہیں کہ کہاوت مختلف علا قوں میں تھوڑی بہت بگڑی صورت میں بھی چلن میں ہے ۔
ان تمام تفصیلا ت و حقائق کے پیش نظر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ روز مرہ محاورے اور ضرب الامثال ہماری ذاتی زندگی سے گہرے رشتے رکھتے ہیں ۔یہ ہماری اجتماعی اور انفرا دی رشتوں اور کیفیتوں کے آئینہ دار ہیں اور ان کا رشتہ ہما رے سماجیا تی پس منظر تاریخی و تہذیبی ما حول سے جڑ تا ہے ۔اسی لیے کہا جا تا ہے کہ جو شخص کسی زبان کے محاوروں پر پورے طور پر حاوی ہے وہ اس ملک کے مو جودہ اور قدیم سیا سی و سماجی ،اخلاقی و مذہبی حالات سے ضرور اچھی طرح واقف ہو گا اور کیوں نہ ہو کہ یہ ہما ری زندگی کا نہ صرف اہم اثا ثہ ہے بلکہ یہ ہما ری زندگی کا آئینہ بھی ہے ۔
روز مرہ محا ورہ اور ضرب المثل نہ صرف انسانی خیا لات و جذبات اور احسا س و کیفیات کے اظہار میں معاون ہیں بلکہ زبا ن و ادب میں حسن و دلکشی پیدا کرنے کے وسا ئل اور کلام کو جا مع و مانع بنا نے کے اہم ذرا ئع بھی ہیں ۔ادب کے کسی صنف سخن کو مقبولیت و شہرت کی چوٹی تک لے جا نے میں روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل کا نا قابل فرا موش حصہ ہو تا ہے تقریبا ادب کے تمام اصنا ف سخن ان قیمتی و بیش بہا جوا ہر و لعل سے آراستہ ہیں ان کی عدم مو جودگی سے ادب بے روح اور بے کیف بن کر رہ جا تا ہے ۔تمام اصناف سخن میں روز مرہ ، محاورہ اور ضرب المثل کا سلیقے کے ساتھ استعمال اسے فصا حت و بلا غت کے اعلیٰ درجہ پر پہنچا دیتا ہے ۔ حالی لکھتے ہیں

          ”محاورہ کو شعر میں ایسا سمجھنا چا ہیے جیسے کو ئی خوبصورت عضو بدن انسان میں اور روز مرہ کو ایسا جاننا چا ہے تناسب اعضا بدن انسان میں جس طرح بغیر تناسب اعضا کے کسی خاص عضو کی خوبصورتی سے حسن بشری کا مل نہیں سمجھا جا سکتا اسی طرح بغیر روز مرہ کی پا بندی کے محض محا ورا ت کے جا و بے جا رکھ دینے سے شعر میں کچھ خوبی پیدا نہیں ہو سکتی۔”                                                  مقدمہ شعر و شا عری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،اتر پردیش اردو اکاد می لکھنؤ ،۱۹۹۳ ؁ ء صفحہ ۱۶۵
روز مرہ کی پا بندی نظم و نثر میں لا زمی ہے اور اس کے خلاف چلنے سے کلام کی فصاحت جاتی رہتی ہے جبکہ محا ورہ اور ضرب المثل کے استعمال سے کلام کی دلکشی بڑھ جا تی ہے اور تا ثیر میں اضافہ ہو جا تا ہے اگر محاورہ اور ضرب المثل کا استعمال تحریر و تقریر میں نہ کیا جا ئے تو اس سے کلام کے فصاحت پر حرف نہیں آتا لیکن اس کے استعمال سے نظم و نثر میں چا ر چاند لگ جا تے ہیں ۔پریم پال اشک نے ’’روز مرہ و محاورہ غالب‘‘میں لکھا ہے۔
”روز مرہ و محاورہ زبان کا جو ہر ہے ان کے بغیر زبان کی کیفیت ایک بے روح قالب کی سی ہے ۔روز مرہ کو جملے کی تراش خراش میں بڑا دخل ہے اور محاورات کے بر محل استعمال سے جملے اور شعر دو نوں کے حسن کو چار چاند لگ جا تے ہیں ۔روز مرہ تحریر و تحریر دو نوں کی جان ہے اور محاورہ ان کا ایمان ۔”

روز مرہ و محاورہ غالب ،پریم پال اشک،قصر اردو ،اردو بازار دہلی ،۱۹۶۹ ؁ء صفحہ

      محاورے اور کہا وتیں زندگی کی کسی نہ کسی حقیقت کی طرف اشا رہ کر تے ہیں اور جس طرح زندگی گو نا گوں حالات اور رنگا رنگ واقعات کے مجمو عے کی تعبیر ہو تی ہے اسی طرح محاورات و ضرب الامثال کا عالم ہے کہ وہ بھی زندگی کے ہر موڑ کی عکا سی کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔ یونس اگاسکر کی کتاب ’’اردو کہا وتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو ‘‘میں پیش رس کے عنوان سے گوپی چند نا رنگ نے لکھا ہے ۔ ”زبان کی زمینی تہوں سے نکلنے والی کہا وتیں اور مثلیں صدیوں کے عمل میں رواج اور چلن کے ذریعے اس مرتبے پر پہنچتی ہیں جہاں وہ ترا شیدہ ہیروں کی طرح چمکنے     لگتی ہیں اور ان سے کلام میں نہ صرف حسن اور زور بلکہ معنیاتی گہرا ئی اور تہہ داری بھی پیدا ہو جا تی ہے”                                                اردو کہا وتیں اور ان کے سماجی و لسانی پہلو،ڈاکٹر یونس اگاسکر ،ناشر کو کن اردو رائٹر گلڈ شاخ نیروبی ۱۹۸۸ ؁ء صفحہ۷
کہا وتوں میں معنیا تی گہرا ئی اور تہہ داری کے ساتھ ساتھ دلکشی بھی ہو تی ہے ۔ان میں ایک خاص ترتیب و تر کیب کی وجہ سے ایسی سریلی آوازوں کی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے جو دل و دماغ پر بڑی تیزی کے ساتھ اثر انداز ہو تی ہے ۔جب ان میں کسی خاص حرف یا اس سے بننے والے الفاظ کو بار بار استعمال کیا جا تا ہے تو اس میں ایک خاص قسم کی نغمگی و مو سیقی پیدا ہو جا تی ہے جو اد بی تحریروں کی کشش کو بڑھا نے میں معا ون ہو تی ہے۔       کہا وتوں کو زبان کا سنگار بھی کہا گیا ہے ۔اس سے زبان کے قدرتی حسن میں اضافہ ہو تا ہے خاص طور سے تخلیقی ادب میں کہا وتوں کا استعمال زینت اسلوب کا با عث ہوتا ہے جس طرح صنا ئع بدائع کے استعمال سے نظم و نثر کا حسن بڑھ جا تا ہے اسی طرح        کہا وتوں کے استعمال سے مختلف اصناف ادب کی خوبصورتی اور کشش میں اضا فہ ہو جا تا ہے۔یقیناروز مرہ ، محاورہ اور کہا وت ادب کے تمام اصناف سخن کی دلچسپی اور معنی خیزی کو وسعت و گہرا ئی عطا کر تی ہیں اور زبا ن و ادب میں ان کے استعمال سے مزید لطف پیدا ہو تا ہے زبان کے اسلوبیاتی مطا لعے کے سلسلے میں کہا وتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں    ۔مشہور عربی مثل ہے ۔’’المثل فی الکلام کا الملح فی الطعام ‘‘یعنی کلام میں مثل اسی طرح ہے جس طرح کھانے میں نمک، حقیقت یہ ہے کہ زبا ن و ادب میں کہا وتوں کا استعمال نمکینی و شیرینی دونوں کو بڑھا تا ہے ۔کیونکہ مثل خواہ سادہ ہی ہو اوراسے روز مرہ میں جگہ ملی ہو ئی ہو لیکن حکمت اور تجربہ سے لبریز ہو نے کی وجہ سے دلوں پر زیا دہ اثر کر تی ہیں ۔ان کے بر محل استعمال سے بڑے بڑے کام انجام کو پہنچتے ہیں اور کلام کے حسن کے اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کے مطا لب و مفا ہیم کو دو با لا کر دیتی ہے ۔قطعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک کسی زبان میں روز مرہ۔ محاورے اور ضرب المثلیں نہ پا ئی جائیں وہ زبان کہلا نے کے مستحق نہیں۔

*ریسرچ اسکالر ۔جے۔این۔ یو
فون نمبر   8002817454

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *