محمد معروف سلیمانی*

                ’’آشفتہ بیانی میری ‘‘ رشید احمد صدیقی کی مشہور خودنوشت ہے۔ جس میں رشید احمد صدیقی نے اپنی زندگی کے مختلف شعبوں بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (ایم ۔اے۔او۔کالج) کی ترجمانی کی ہے ۔ ۱۹۵۸ء میں پہلی بار یہ کتاب علی گڑھ مسلم ایجوکیشنل پریس سے شائع ہوئی ۔ اس کی دوسری اشاعت لکھنؤ، سرفراز قومی پریس ۱۹۵۸ء، تیسری اشاعت دہلی، مکتبہ ادب نو ۱۹۶۰، چوتھی اشاعت مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے ۱۹۶۲ء میں ہوئی ۔پیش نظر یہ مطبوعہ اگست ۲۰۰۲ء میں مکتبہ جامع لمیٹڈ نئی دہلی سے شائع ہوا جو ۱۵۱ صفحات پر مشتمل ہے ۔

                اردو ادب میں تقریباً پچاس سے زائد خودنوشت لکھی گئی ہیں جن۔ میں یادو ں کی دنیا (یوسف حسین خان )،

آپ بیتی(عبد الماجددریابادی)،یادوں کی بارات (جوش ملیح آبادی )، شہاب نامہ (قدرت اللہ شہاب)، میرے

ماہ وسال(جاوید شاہین)،کار جہاں دراز ہے (قرۃ العین حیدر)،گھومتی ندی (وارث کرمانی )، خواب باقی ہیں (آل احمد سرور)، اپنی تلاش میں (کلیم الدین احمد )، ابھی سن لو مجھ سے (کلیم عاجز)،اس آباد خرابے میں (اختر الایمان )،کاغذی ہے پیرہن(عصمت چغتائی )، ہم سفر(حمیدہ بیگ اختر رائے پوری)، جو رہی سوبے خبر رہی (ادا جعفری)، سلسلہ روز و شب (صالحہ عابد حسین )خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ لیکن جو مقبولیت رشید احمد صدیقی کی خودنوشت ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ کو حاصل ہوئی وہ اردو کے کسی اور خود نوشت کو حاصل نہ ہوسکی ۔

                رشید احمد صدیقی نے اس خود نوشت میں صرف اپنی آپ بیتی بیان نہیں کی۔ بلکہ علی گڑھ کی تہذیبی روایت کی عکاسی بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کی ہے۔ شاید اسی وجہ سے اسے شہرت نصیب ہوئی ۔لیکن ہم اس کی مقبولیت و شہرت کی وجہ صرف اس چیز کو قرار نہیں دے سکتے ۔ بلکہ اس کا انوکھا انداز بیان ، زبان کی شگفتگی و شائستگی ، دلچسپ واقعات ، شعر و ادب سے متعلق مختلف نظریات ، مختلف اشخاص کا تذکرہ ، تعلیم و تدریس کی اہمیت و افادیت ، اخلاق و کردار کے مثبت پہلو وغیرہ ایسے عناصر ہیں جو اس خود نوشت کی معروفیت و شہرت کا سبب بنتی ہیں ۔

                جیسا کہ رشید احمد صدیقی سے متعلق یہ اعتراض کیا گیا کہ ان کی تحریروں میں علی گڑھ ہی نظر آتا ہے ۔ وہ خود اس بات کا جہاں اعتراف کرتے ہیں ، وہیں انھیں اس بات پر فخر بھی ہے ۔

                یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب کوئی شخص جس ماحول ، آب وہوا اور سوسائٹی میں پروان چڑھتا ہے تو مستقبل میں اس کی زندگی کے مختلف گوشے بھی اسی ماحول و آب وہوا کے ترجمان بن جاتے ہیں ۔ چنانچہ قرۃ العین حیدر کا ماحول جاگیردارانہ ماحول تھا لہذا ان کے ناولوں اور کرداروں میں جاگیردارانہ ماحول کی عکاسی ملتی ہے ۔ٹھیک اسی طر ح منشی پریم چند کو دیہی علاقوں اور کسانوں سے دلچسپی تھی تو انھوں نے اس سے جڑے کرداروں اور کہانیوں کو اپنی تحریروں کا ذریعہ بنایا ۔ایسے ہی عصمت چغتائی نے (مڈل کلاس فیملی کی )عورتوں کے جذبات ، ان کے دل کی کسک اور احساسات کو اپنے ناولوں اور افسانوں میں پرویا۔ کیوں کہ وہ اسی ماحول کی پروردہ تھیں ___ اس تناظر میں دیکھا جائے تو علی گڑھ رشید احمد صدیقی کا سب کچھ تھا ۔ ان کا محبوب بھی، ان کی تعلیم گاہ بھی ،ان کی تربیت گاہ بھی، ان کی رزق گاہ بھی ۔ تو بھلا کیسے ان کی تحریریں اپنے محبوب علی گڑھ کے بیان سے خالی رہ جاتیں ۔اسی لئے رشیداحمدصدیقی کی تحریروں میں علی گڑھ کی جھلک ملتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی پوری زندگی علی گڑھ کی تہذیب و روایت کی عکاس ہے ۔

                اس خود نوشت کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:

                تاریخی شہر جونپور سے متعلق ذکر ، علی گڑھ ایم ۔اے۔اوکالج کی تعلیمی و تفریحی سرگرمیوں کا ذکر ، یہاں کی تہذیب و روایت کا تذکرہ ، ملک کے حالات پر تبصرہ ، مختلف شخصیتوں سے متعلق ذکر، سرسید اور ان کے رفقاء کا تذکرہ، شعرو ادب سے متعلق ذاتی افکار و نظریات کا بیان ، ہمارے لئے توجہ کے مرکز ہیں ۔

                اس کتاب میںرشید احمد صدیقی نے جونپور شہر کی تاریخی عمارتوں اور وہاں کے لوگوں کا شعرو ادب سے متعلق دلچسپی کو بیان کیا ہے۔ خاص طور سے جونپور کی جامع مسجد ، قلعہ ، لائبریری،پرانا پل، بارش کے موسم میں گومتی ندی کی طغیانی وغیرہ کی تصویر کشی کی ہے ۔ یہاں ایک اقتباس ملاحظہ ہو :

                                ’’جونپورتاریخی شہر ہے وہاں شاہانِ مشرقی کے آثار اب تک موجود ہیں ۔ کئی جیّد مسجدیں، مزارات اور ایک عالی شان قلعہ، عیدگاہ ، پُل، پختہ سرائے اور کتنے سارے کھنڈر شاہی زمانے کے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دریائے گومتی وسط شہر سے گزرتا ہے ۔ جس پر شاہی زمانے کا بڑا مضبوط پُل ہے ۔ برسات میں بالضرور طغیانی آتی ہے ۔ یہ زمانہ شہر میں تردد اور تفریح دونوں کا ہوتا ہے ‘‘۔۱؎

                علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خاں کے خوابوں کی تعبیر کہی جاتی ہے اور ہندوستانی قو م بالخصوص مسلم قوم کا مستقبل ۔ رشید احمد صدیقی جونپور سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۹۱۵ء میں علی گڑھ آئے ۔ اور ایم ۔ اے۔او۔ کالج میں داخلہ لیا ۔ یہاں کی آب وہوا ، تہذیب وتمدن سے وہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ یہیں بحیثیت اردو کے استاد، پروفیسر اور صدر شعبہ اردو رہے ۔ اور پھر زندگی کے آخری سانس تک علی گڑھ کو نہیں چھوڑا اور یہیں کی مٹی کے ہوکر رہ گئے ۔

                رشید احمد صدیقی علی گڑھ کی تعلیم و تربیت اور یہاں کے اساتذہ سے استفادہ کرکے اپنے اندر بے پناہ صلاحیتیں پیدا کیں۔ اور اردو کے ایک بڑے ادیب کہلائے ۔ ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ کے علاوہ انھوں نے اردو کی کئی نادر تصانیف و تالیفات میں اضافہ کیا۔جن میں طنزیات ومضحکات (۱۹۴۱ء)، گنج ہائے گراں مایہ (۱۹۴۲ء)، جدید غزل(۱۹۵۵ء)، ہم نفسانِ رفتہ (۱۹۶۶ء)،علی گڑھ کی مسجد قرطبہ(۱۹۶۷ء)، غالب کی شخصیت و شاعری(۱۹۷۰ء)،ہمارے ذاکر صاحب(۱۹۷۳ء)، علیگڑھ ماضی و حال (۱۹۷۰ء)، زبا ن اردو پر سرسری نظر(۱۹۷۰ء)،اقبال کی شاعری(۱۹۷۰ء)خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

                ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے بعد ملک و قوم پر جس طرح کی مصیبتوں و پریشانیوں کا پہاڑ ٹوٹا وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ ایسے موقع اور حالات میں ایم ۔اے ۔او کالج علی گڑھ نے جو اہم کردار ادا کیا اس کا بیان اپنی خودنوشت میں رشید احمد کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

                                ’’غالباً مدرسۃ العلوم علی گڑھ(ایم ۔ اے۔او۔ کالج) ہی ایساادارہ تھا جس پر قوم کا پورے طور پر ہمیشہ بھروسا رہا ۔ جس نے بحیثیت مجموعی قوم کی سب سے مفید اور دیر پا خدمات انجام دیں اور جس کی خدمات کو متفقہ طور پر تقریباً ہر حلقے میں سراہاگیا ۔ جس نے مسلمانوں کو ہرسمت سے تقویت پہنچائی، ان کے حوصلے اور عزائم کو پروان چڑھایا اور دور نزدیک ان کی توقیر بڑھائی۔ اس کی تاریخ میں وقتاً فوقتاً طرح طرح کے نشیب و فراز بھی آئے جن پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کی خدمات کے بیش بہا ہونے میں کوئی کلا م نہیں ۔‘‘  ۲؎

                سرسید احمد خان، مدرسۃ العلوم کا قیام ، علی گڑھ کی تہذیبی روایت کا ابتدائی نقشہ اور سرسید کے رفقا کے ذریعے انجام دی جانے والی بیش بہا خدمات کی طرف رشید احمد صدیقی یوں روشنی ڈالتے ہیں :

                                ’’سرسید مغلیہ سلطنت کی تباہی اور غدر کی ہولناکیوں سے برآمد ہوئے تھے ۔ ان کی شخصیت ان صلاحیتوں پر مشتمل تھی جن کو ایک طرف مٹتے ہوئے عہدکا قیمتی ورثہ اور دوسری طرف اس کی جگہ لینے والے صحت مند تصرفات کی بشارت کہہ سکتے ہیں ! وہ ایک ایسے رشتے یا واسطے کے مانند تھے جو ایک عظیم ماضی کو اس کے عظیم تر مستقبل سے منسلک و مربوط رکھتا ہے ، جس کے بغیر نہ تو کسی قوم کے تہذیبی شعور میں ربط وتسلسل باقی رہتا ہے نہ خود نسلِ انسانی اس منزلت پر فائز ہوسکتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے ! مدرسۃ العلوم کا قیام انھیں صلاحیتوں کا تقاضہ تھا جن کو سرسید اور ان کے رفقائے کرام نے اپنی تحریر، تقریر، شاعری، شخصیت، اور عمل محکم اور مسلسل سے متشکل ، مستحکم اور مزیّن کردیا۔‘‘۳؎

                بانیٔ درسگاہ سرسید کی اہمیت و مرتبت سے متعلق لکھتے ہیں :

                                ’’ وہ بڑے مخلص، ہمدرد، ذہین ، دلیر، عالی حوصلہ ، دور اندیش، اَن تھک اور ناقابل تسخیر تھے۔ ان میں جہاں داری اور جہاں بینی کی جھلک ملتی ہے ۔ جو کبھی ہمارے اسلاف کی صفات تھیں!‘‘۔ ۴؎

                سرسید احمد نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر قوم و ملت کی فلاح و بہبود اور جدید اعلیٰ تعلیم کی طرف گامز ن کرنے کی جو بے لوث کوششیں و کاوشیں کی وہ سب ناقابل فراموش ہیں ۔ قوم و ملت سرسید اور ان کے رفقاء کے مقروض ہے جس سے کبھی بھی راہ فرار نہیں ۔ سرسید احمد خان کا اپنے دوستوں کو ایک ساتھ رکھ کر ایک عظیم مقصد پر کام کرنا اور اسے پایۂ تکمیل میں پہنچانے میں لگنا ، بہت بڑے منصوبے کو سر کرنا تھا ۔ اس ضمن میں خود نوشت کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو :

                                ’’سرسید کے رفقائے کرام سے ہم بخوبی واقف ہیں ۔ اگر سرسید کی عظیم شخصیت ان جی نیسوں(Geniuses)کو اپنے حلقۂ اثر میں لے کر ان کے بطون میں تہلکے نہ پیدا کردیتی تو کون کہہ سکتا ہے متفرق اور منتشر رہ کر یہ قوم وملک کی خدمت کرسکتے۔‘‘۵؎

                اس کتاب کے مطالعہ سے بہ یک وقت جہاں مکمل علی گڑھ اور اس کی روایات کی تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں تو وہیں علی گڑھ کے طلباء ، ان کے لباس کی وضع قطع، ڈسپلن کا خیال ، وقت کی اہمیت و پابندی، تہذیبی پاس و لحاظ، انداز گفتگو اور دستر خوان کے آداب، چھوٹے بڑے کا احترام وغیرہ کے اوپر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ذیل میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو :

                                ’’مقرر ہ یونی فارم میں ، مقررہ اوقات میں، مقررہ آداب کے ساتھ ڈائننگ ہال جا کر ہر طرح کے ساتھیوں کے ہمراہ سالہا سال کھانا، پینا ، ہر موضوع پر آزادی کے ساتھ گفتگو کرنا، طبیعت کتنی ہی بدحظ یا افسردہ کیوں نہ ہو کھانے کے میز پر اچھے لوگوں کے طور طریقے ملحوظ رکھنا ، مانیٹروں (Monitars)، منشیوں، نوکروں سے طرح طرح کے مواقع پر عہد برآہونا، ایسی باتیں تھیں جو سیرت میں تواز ن اور شخصیت میں دل آویزی پیدا کرتی تھیں ۔‘‘  ۶؎

                علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کسی خاص طبقے ، علاقے ، مذہب یا نسل کے نہیں ہوتے بلکہ مختلف طبقے، مذہب، علاقے ، ملک اور نسل کے ہوتے ہیں ۔ اور ایک ساتھ ہوسٹلوں(Hostels)میں مقیم رہتے ہیں ۔ طلباء کا ایک ساتھ رہنے ، کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، کھیلنے کودنے جیسی چیزیں ایک خاندان کی نوعیت اختیار کرلیتی ہیں ، جو علی گڑھ کی طرۂ امتیاز ہیں۔ اس سلسلے میں خود نوشت کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

                                ’’علی گڑھ یونیورسٹی کی حیثیت محض ایک درسگاہ کی نہیں ہے ۔ اس کی نوعیت ایک وسیع خاندان کی بھی ہے۔ ایسا خاندان جو ہر طبقے اور مزاج کے ’’خوردو کلاں‘‘ پر مشتمل ہو ۔‘‘  ۷؎

                اس خود نوشت کے مطالعہ سے ہمیں اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کے زمانے میں ایم ۔اے ۔او ۔ کالج علی گڑھ کے کیا ٹریڈیشنز(Traditions)تھے؟ کیا کلچر ز تھے؟ ___تعلیم و تربیت اور یہاں کے طلبا کا کیا معیار تھا ؟ ادبی محفلوں، شعری نشستوں کا اہتمام کس طرح ہوا کرتا تھا ؟ یونین کے الیکشن اور تقاریر کا طلبا کی زندگی میں کیا رول تھا ؟اساتذہ کے ذریعے طلبا کس طرح تعلیم و تربیت پاتے تھے ؟ لوگوں کی نظر میں علی گڑھ اور یہاں کے طلباء کا کیا مقام و مرتبہ ہوا کرتا تھا ؟ ان سب پر رشید احمد صدیقی کے ذریعے نہ صرف کافی تفصیلی گفتگو کی گئی ہے بلکہ بہت دلکش انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ رشید احمد صدیقی اپنے دور میں علی گڑھ کی اہمیت ،تہذیب و روایت کی قدر و قیمت اور ہر طرف اس کا بول بالا ہونے سے متعلق لکھتے ہیں:

                                ’’اس زمانے میں کالج کی شوکت وشہرت پورے عروج پر تھی ۔ کھیل میں، لکھنے پڑھنے میں، یونین کی سرگرمیوں میں، یورپین وضع قطع ، رئیسانہ طور طریقوں اور شریفانہ رکھ رکھا ؤ میں ، چھوٹے بڑوں کے آپس کے سلوک میں غرض اس وقت کے معیار سے زندگی کا ہر پہلو با برکت اور بارونق نظر آتاتھا اور ایک طرح کی آسودگی ، احترام اور آرزو مندی کی فضا چپّے چپّے پر چھائی ہوئی تھی۔‘‘   ۸؎

                یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کے یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی بھی حیثیت رکھتی ہے ۔ جیسے اس زمانے میں علی گڑھ کے مشاعروں میں کون کون سے شعرا شریک ہوا کرتے تھے ۔ مثلاً: حسرتؔ موہانی، فانی ؔ بدایونی، جگرؔ مرادآبادی، اصغرؔ گونڈوی، حفیظؔ جالندھری، وغیرہ کا ذکر ملتا ہے ۔اسی طرح سے علی گڑھ کا پورا بیان ہی دستاویزی اہمیت کا حامل ہے ۔مثلاً: کچی بارک ( سید محمود حسن کورٹ)، پکی بارک، اسٹریچی ہال، جامع مسجد وغیرہ ۔ اس دور کے اساتذہ اور کالج کے پرنسپل ٹول صاحب کا بھی پتا چلتاہے ۔ تاریخی شخصیتوں امیرخسرو ،سرسید احمد خان ، اور ان کے رفقا حالیؔ ، شبلی ؔ، محسن الملک وغیرہ سے متعلق بھی کافی معلومات حاصل ہوتی ہے ۔ بقول پروفیسر مجنوںؔ گورکھپوری :

                                ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ میں سرسید کے زمانے سے لے کر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور تک بہت سی چھوٹی بڑی شخصیتوں کی یاد کو زندہ کیا گیا ہے جن کو علی گڑھ نے اور جنھوں نے علی گڑھ کو کچھ نہ کچھ دیا ہے اور جو کسی نہ کسی اعتبار سے یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔ اس میں بیرے اور ڈاکیے سے لے کر مولانا محمد علی ، اقبال سہیل، آغا حیدر حسن اور پروفیسرایف۔ رحمن تک مختلف مراتب کی ہستیاں نظر آتی ہیں۔‘‘۹؎

                زبان و بیان میں دلکشی اور روانی اس کتاب کی خاص وصف ہے ۔ پُر کشش اسلوب بیان ، واقعات کی پیکر تراشی بھی اس میںموجود ہے۔ عربی، فارسی کے الفاظ کے ساتھ ساتھ انگریزی الفاظ کا بھی استعمال دیکھنے کو ملتا ہے ۔ موقع و محل کے تحت اشعار سے کام لے کر تحریر میں جان پیدا کی گئی ہے ۔

                 اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں اس بات کا بھی انداز ہ ہوجاتا ہے کہ اردو شعر و ادب کے فروغ میں علی گڑھ کا بہت اہم رول رہا ہے۔ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اگر علی گڑھ نہ ہوتا اور اس نے اردو کو اپنی طرف سے نئی توانائی ، نئی راہیں اور رفتار نہ دی ہوتیں تو اردو کو اتنا جلد وہ فروغ نصیب نہ ہوتا جو ہوا ۔ مزید کہتے ہیں کہ اردو کا نام علی گڑھ بھی ہے !۔

                مختصر یہ کہ ’’آشفتہ بیانی میری‘‘ علی گڑھ کی عکاس، علیگ کے دل کی ترجمان ، رشید احمد صدیقی کی یادوں کا حسین خواب، پُرکشش و پُرلطف انداز بیا ن کا مجموعہ ، مزاح و ظرافت کا خوبصورت امتزاج اور علی گڑھ کی تہذیبی روایات کی زندہ مثال ہے ۔

                بقول پروفیسر مجنوں ؔ گورکھپوری :

                                ’’آشفتہ بیانی میری ‘‘ایک سنجیدہ روداد ہے جس میں جا بجا مزاح اور ظرافت کی بڑی لطیف اور رچی ہوئی لہریں ہمارے احساس و تامل کو چھیڑتی ہوئی ملتی ہیں ۔ سنجیدگی اور مزاح کو باہم گھلا ملا کر ایک مزاج بنادینا رشید احمد صدیقی کا ایک خاص فن ہے جس کا کامیاب نمونہ یہ رسالہ ہے ۔‘‘   ۱۰؎

٭٭٭

حواشی:

                ۱۔            آشفتہ بیانی میری ۔رشید احمد صدیقی ، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ، اگست ۲۰۰۲،ص ۱۸

                ۲۔            محولہ بالا ، ص :۳۷،۳۸

                ۳۔            محولہ بالا، ص :۳۸

                ۴۔            محولہ بالا ،ص:۳۹

                ۵۔            محولہ بالا، ص : ایضاً

                ۶۔            محولہ بالا،ص:۱۰۶،۱۰۷

                ۷۔            محولہ بالا ،ص: ۱۰۸،۱۰۹

                ۸۔            محولہ بالا،ص :۵۰

                ۹۔            رشید احمد صدیقی آثار و اقدار ، اصغر عباس ، برٹی آرٹ پریس ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج ، نئی دہلی ، ۱۹۸۴،

                                ص:۳۲۲

                ۱۰۔          محولہ بالا ، ص : ایضاً

*ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ

موبائل نمبر:9358668342

ای ،میل:maroofjs@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *