میر محمد تقی میر (1723-1810) اکبرآباد آگرہ میں پیدا ہوئےکم عمری میں والد کے انتقال کے بعد دہلی آنا پڑا اور اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو سے استفادہ سخن کیا دہلی پر مستقل بیرونی حملوں کی وجہ سے جہاں دیگر اہل زبان وقلم دہلی چھوڑ کر دوسرے شہروں میں جابسے میر بھی دہلی چھوڑ کر لکھنو چلے گئے اورتا حیات نواب آصف الدولہ بہادر کے دربار سے وابستہ رہے۔ان کی زبان سادہ، سلیس اور شگفتہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایک کسک رکھتی ہے جس کی رعنائی لوگوں کو انہیں خدائے سخن کہنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس مضمون میں میر کے ان اشعار پر گفتگو کی جائے گی جس میں میر نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف تلمیح کرکے انسان کو خطا ونسیان کا پیکر قرار دیتے ہوئے معنی آفرینی کی ہے۔ ذیل میں حضرت آدم سے متعلق ان واقعات قصص کو مختصرطور پیش کیا جاتاہے ہے جن کی طرف میر نے اپنے کلام میں اشارے کئے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت آدم ؑ بنی نوع انسانیت کی وہ سب سے پہلی کڑی ہیں جس کے ذریعہ انسانوں کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا،آپ کو داد اآدم اور بابا آدم علیہ السلام بھی کہا جاتاہے ۔ آسمان و زمین اور اس کے اندر کی ساری چیزوں کو پیدا کرنے کے بعداللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ کہ ان کا سجدہ کریں، ابلیس کے علاوہ سب نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی، اس نے آپ کا سجدہ کرنے سے انکار کردیااور کہنے لگا کہ میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور آدم مٹی سے اس لئےمیں آدم سے بہتر ہوں اس کے اسی استکبار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے دربار سے نکال دیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
“ہم ہی نے تمہیں پیدا کیا ، پھر تمہاری صورتیں بنائیں، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ کریں چنانچہ سوائے ابلیس کے سب نے کیا، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔جناب باری نے فرمایا کہ تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟ جبکہ تھجے میرا حکم ہوچکاتھا، اس نے جواب دیا میں اس میں افضل ہوں ، تونے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے۔اس پر اللہ نے فرمایا، تو جنت سے اتر جا، تیری اتنی ہستی نہیں کہ تو یہاں شیخی خوری کرے، جا نکل، تو بڑے ہی ذلیلوں میں سے ہے۔” [1]
مندرجہ بالا قرآنی آیت کے ترجمہ سے واضح ہوتاہے کہ جب ابلیس نے اللہ کے حکم کے باوجود آدم علیہ السلام کا سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا [حالانکہ اللہ رب العالمین غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے لیکن بطور شہادت] کہ میرا حکم ہونے کے باوجودتم نے آدم کا سجدہ کیوں نہیں کیا؟ جس پر ابلیس اپنے عقلی دلائل دینے لگا ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس جرم کے پاداش میں اسے دربار سے نکال دیاگیا۔ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
“بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تھا۔ حضرت آدم ؑ بطور قبلہ کے تھے جیسے قرآن کریم میں ایک اور جگہ ہے “اقم الصلاۃَ لدلوک الشمش” لیکن اس میں نظر ہے”۔[2]
مذیل شعر میں میر نے حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے اسی واقعہ کی طرف تلمیح کیا ہے۔
پھرنہ شیطاں سجود آدم سے
شاید اس پردے میں خداہووے
شعر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان حضرت آدم کے سجدہ نہ کرنے سے راندہ درگاہ ہوا تھا اس لئے عاشق کو معشوق کا سجدہ کرنا چاہئے تاکہ ایسانہ ہو کہ شیطان کی طرح عاشق بھی معشوق کے دربار سے بھگا دیا جائے اورعین ممکن ہے کہ اس کی ذات میں خدا کی ذات موجود ہو۔چونکہ صوفیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی ہر ذات میں حلول کئے ہوئے ہے۔جسیا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے قول ‘سجدہ اللہ تعالیٰ کے لئے تھا’ سے بھی واضح ہوتاہے۔
جب ابلیس دربار سے نکال دیاگیا تو اس نے اللہ سے بنی آدم کو سیدھے راستے سے بھٹکانے کی مہلت مانگی جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے۔
]ابلیس]کہنے لگا مجھے دوبارہ کھڑا کئے[اٹھائے ] جانے کے دن تک کی مہلت عطافرما۔ جواب ملا کہ ہاں ہاں تو مہلت دیئے گئے ہووں میں سے ہے۔شیطان کہنے لگا چونکہ تونے مجھے بے راہ کردیا ہے، اب میں تیری سیدھی راہ پر انہیں بہکانے کے لئے بیٹھ جاؤں گا۔ اور ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آتا رہوں گا، تو ان میں سے اکثروں کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔فرمایا [اللہ نے فرمایا] جہاں سے نکل باہرہو، تو ذلیل وخوار اوررادندۂ درگاہ ہوکر، ان انسانوں میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا میں تم سب سے جہنم کو پرکردوں گا۔[3]
مذکورہ بالا قرآنی آیت کے ترجمہ سے واضح ہے کہ اللہ تعالی نے ابلیس کے استکبار اور حکم عدولی وجہ سے دربار سے نکالاتھا[بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جنت سے نکال دیا]۔ اس کے بعد حضرت آدم کی تسکین کے لئے ان کی بائیں پسلی سے حضرت حواؑ کو پیدا کیا اور جنت میں رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ابلیس تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے اس سے ہوشیار رہنا اورساتھ ہی ساتھا اس بات کی تاکیدبھی کردی کہ فلاں درخت کے قریب مت جاناورنہ ظالموں میں سے ہوجاؤگے۔ اللہ کے حکم کے مطابق آدم وحواؑ جنت میں رہنے لگے، چونکہ شیطان نے قیامت تک بنی آدم کو گمراہ کرنے اور سیدھے راستے سے بھٹکانے کی مہلت مانگی تھی اس لئے وہ ان دونوں کی ٹوہ میں لگ گیااور طرح طرح سے انہیں بہکانے کی کوشش کرنے لگا۔سورۂ طٰحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
’شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا، کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا ردخت اور وہ بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو[4] ‘
مذکورہ بالا قرآنی ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس ان دونوں کے پیچھے پڑ گیا اور طرح طرح سے انہیں بہکانے لگا اور ان پر اپنا اعتبار مسلم کرنے کے لئے طرح طرح کی قسمیں کھانے لگاجیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ سورۃ الاعراف ، آیت نمبر ۱۹۔ ۲۱ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’پھر اپنا اعتبار جمانے کے لئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں ، تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں، ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھالو بس پھریہیں رہوگے، بلکہ فرشتہ بن جاؤ گے۔ “[5]
چنانچہ حضرت آدمؑ اللہ کا عہد بھول گئے اور ابلیس کے بہکاوے میں آکر ممنوعہ درخت کو جوں ہی چکھا ان کے بدن سے جنتی پیرہن گرگیا، وہ شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنا جسم چھپانے لگے اورادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ایک درخت کی ٹہنی میں ان کا بال پھنس گیا ۔جلدی جلدی چھڑانے کی کوشش کرنے لگے ،کہ آوازآئی ’آدم مجھ سے بھاگ رہے ہو! حضرت آدم نے ادب واحترام سے عرض کیا شرم کے مارے سرچھپانا چاہتا ہوں۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدم! جو کچھ میں نے تمہیں دے رکھا تھا کافی نہ تھا، حضرت آدم نے جواب دیا بیشک کافی تھا، لیکن مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا، اب میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانی ہوں گی ۔چنانچہ آدم حوا کو جنت سے نکال دیا گیا۔ ذیل کے شعر میں میر نے اسی واقعہ کی طرف تلمیح کیا ہے۔
کھا کے دانہ یہ دام بچھوایا
ہوئے آدم کو بھی بہشت نصیب
اس شعر میں دانہ کھا کر پھندہ بچھوانے کا مطلب ہے کہ نہ حضرت آدم علیہ السلام ممنوعہ درخت کا پھل کھاتے نہ جنت سے نکالے جاتے اور نہ انسانوں پر اتنی آزمائیش ڈالیں جاتی لیکن اس ایک نافرمانی کے عوض اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جنت سے نکال کر زمین پر ڈال دیا جہاں مدتوں ایک دوسرے سے الگ بھٹکتے رہے اور اپنی غلطی سے استغفار کرتے رہے پھر اللہ نے انہیں اپنی طرف سے کچھ کلمات سکھائے، جس کا آدم وحوا ’ورد‘ کرتے رہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
پھر اسے اس کے رب نے نوازا اس کی طرف توجہ فرمائی اور اس کی رہنمائی کی۔[6]
دونوں دعائیں کرنے لگے کہ پروردگار بیشک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اب اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ فرمائے گا تو ہم نامراد اور برباد ہوجائیں گے۔ [7]
اس کے بعد اللہ رب العالمین نے ان کی دعا قبول فرماکر ان کے قصور معاف فرمادیے جیسا کہ مذکورہ بالا قرآنی ترجمہ سے واضح ہے۔ذیل کے شعر میں میرؔ نے آدم علیہ السلام کی اسی غلطی اور اللہ کی مغفرت کی طرف تلمیح کے ذریعہ اپنے کلام میں معنیٰ آفرینی کی ہے۔ شعر ملاحظہ ہو :
یکایک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو
کبھو آدم ہی سے ہوجاتی ہے تقصیر بھی آخر
مندرجہ بالا شعر میں آدم کی مناسبت سے تقصیر لا کر حضرت آدم علیہ السلام کی اسی خطا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا تفصیلی ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی دعائے مغفرت کے بعد انہیں بخش دیا تھا اس لئے میر اسی واقعہ کی طرف تلمیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان تو خطا اور نسیان کا مرکب ہے ہی اس لئے اگر کسی سے غلطی سرزد ہوجائے تو اس کایہ مطلب نہیں کہ اسے قتل ہی کردیا جائے، خطا ونسیان تو انسان کا خاصہ حقیقی ہے اس لئے اسے معاف کردینا چاہئے۔ایک اور شعر دیکھیں جس میں اسی واقع کی طرف تلمیح کیا گیاہے۔
درپئے خون میر کے نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
’’جرم آدم “سے حضرت آدم کی اسی غلطی کی طرف اشارہ کیاگیاہے جس کے پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت سے نکال دیا تھا، لیکن دعا اور استغفار کے بعد اللہ نے انہیں معاف کردیا تھا اس لئے میر کہتے ہیں کہ اگر مجھ سے غلطی ہوگئی تو اس میں کیا بڑی بات ہے میں بھی تو بنی آدم ،بھول چوک اور خطاؤں کا پیکر ہوں اس لئے جس طرح اللہ نے آدم علیہ کے کی خطا کو درگذر کردیا تھا اسی طرح میری خطا کو بھی معاف کیا جاسکتاہے۔
ABDUR RAHMAN JAMALUDDIN
Research Scholar Department of Urdu
Jamia Millia Islamia New Delhi.110025
[1] سورۃ الاعراف، آیت نمبر ۱۱۔۱۳
[2] تفسیر ابن کثیر ،[اردو، مترجم نامعلوم]،مطبع زاہد، بشیر پرنٹرز لاہور ، جلداول، صفحہ ۱۱۳
[3] سورۃ الاعراف، آیت نمبر ۱۴۔۱۸
[4] تفسیر تیسرالرحمن، لبیان القران، محمد لقمان سلفی ،علامہ ابن باز اسلامک سنٹر ہند،سن ۲۰۰۱، سورۂ طٰحہ، آیت نمبر 120 صفحہ، 912
[5] تفسیر ابن کثیر ،[اردو، مترجم ،مولانا محمد جوناگڑھی]،مکتبہ قدوسیہ ، رحمان مارکیٹ ، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور پاکستان۔جلدسوم، صفحہ ۱۱۳
[6] سورہ طحہ آیت نمبر 123
[7] سورۂاعراف آیت نمبر23