صغیر  احمد ضامن علی 

  صالحہ ناول کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ وادی میں ٹڈیاں آتی ہیں۔ اس وقت صالحہ بنت احمد اپنی پڑوسن کے ساتھ وہاں پر ہوتی ہے۔ کسان اپنی فصل کی دیکھ بھال، اسکے سینچنے اور فجر کے وقت سےچڑیوں کو بھگانے پر کافی محنت کرتے ہیں مگر جب وہ اپنی فصل کاٹیں گے تو یہ ساری تکلیف بھول جائیں گے۔ اس کے بعد ناول نگار بتاتا ہے کہ صالحہ کی بیٹی سعیدہ ٹڈیوں کو پکڑنے میں مشغول ہو جاتی ہے اور بہت ساری ٹڈیاں پکڑ کر لاتی ہے۔ مگر ایک بلی اس کو اٹھا کر لے جاتی ہے اور کھا لیتی ہے۔ جب لوگ قیلولہ کرنے میں مشغول ہوتے ہیں، اس وقت ٹڈیوں کی فوج کھیت پر حملہ کرکے لوگوں کی فصلوں کو کافی نقصان پہنچاتی ہے۔

   اس طرح سے دن گذرتے جاتے ہیں اور خریف کے موسم میں ٹڈیوں کے حملہ کے نتیجے میں صالحہ بنت احمد کوایک بھی دانا نصیب نہیں ہوتا ہے۔ ایک دن بڑھیا فاطمہ آتی ہے اور صالحہ بنت احمد سے کہتی ہے ’’آپ جیسی عورت کو بغیر مرد کے نہیں رہنا چاہیے۔ آپ کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو آپ کی اور آپ کے بچوں کی دیکھ بھال کرسکے۔اورلالچی لوگوں سےتمہاری زمین ۔۔۔کی حفاظت کرسکے۔‘‘ (ص 532) صالحہ کی بیٹی سعیدہ کویاد آتا ہے کہ کچھ دن پہلے بھی اس بڑھیا فاطمہ نے اس کی ماں سے اسی طرح بات کی تھی اور عامر سے شادی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سعیدہ کو بہت زیادہ غصہ آتا ہے اور وہ سوچتی ہے کہ بڑھیا کو اپنے گھر سے بھگا دے لیکن شرم کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے باز رہتی ہے۔

  صالحہ بنت احمد بڑھیا سے صاف طور پر کہتی ہے کہ وہ شادی کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ ایک دن عامراس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے’’میں آپ کے اشارے کا منتظر ہوں میرے پاس مال ہے اور جائیداد ہے اور ہر وہ چیز ہے جس کی ضرورت وادی میں کسی محتاج کو ہوتی ہے تم مجھ سے طلب کرو اور جو طلب کرو گی اس سے زیادہ پاؤ گی۔۔۔۔۔۔ صالحہ جواب دیتی ہے کے اللہ آپ کے مال میں زیادتی عطا فرمائے ہمارے پاس ہر چیز ہے۔‘‘ (ص 536۔537) صالحہ کے دل میں خیال آتا ہے کہ وہ اس سے ایک بوری گیہوں مانگ لے۔ مگر وہ باز رہتی ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ وہ ایک لالچی آدمی ہے اور یہاں صرف اپنے مقصد کے لئے آیا ہے اور اس کا مقصد ہے کہ وہ اس سے شادی کر لے اور اس کے مال اور جائیداد پر قبضہ کرلے۔

   اس کے بعد ناول نگار عامر کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ بظاہر بہت ہی دیندار اور نیک آدمی ہے۔ نماز میں آگے رہتا ہے۔ ذکر کی محفل ہوتی ہے تو اس میں شامل ہوتا ہے اور جس کسی سے ملتا ہے اس سے ورد کرتے ہوئے ملتا ہے۔ ہمیشہ تسبیح وتہلیل کرتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ بہت نیک آدمی ہے، لیکن سب سے کم کھیتی ہونے کے باوجود بھی گاؤں میں سب سے زیادہ امیر کس طرح بن گیا ہے۔ دن بدن اس کے مال میں اضافہ کیسے ہوتا جا رہا ہے، یہ ایک معمہ ہے۔ اس کے بعد ناول نگار ایک اور واقعہ ذکر کرتا ہے۔ سعیدہ اپنی ماں کے ساتھ پانی بھرنے کے لیے جا رہی تھی۔ وہ جس گدھی پر سوار تھی اس نے سعیدہ کو گرا دیا، جس کی وجہ سےاس کے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا۔ سعیدہ کو اس کی ماں مرزوق تومی کے پاس لے گئی، جنہوں نے صالحہ سے کہا کہ وہ ہر دن اس کو دو انڈے کھلائے جس پر صالحہ نے جواب دیا کہ میرے پاس مرغی نہیں ہے۔ پھرانہوں نے کہا کہ اس کو بکری کا دودھ پلائے۔ اس کے بعد ناول نگار نے بتایا ہے کہ کس طرح سے مرزوق تومی نےسعیدہ کا علاج کیا اور جب صالحہ نے ان کو کچھ رقم دینے کی کوشش کی تو سختی سے منع کردیا۔

  دن گذرتے رہے اور آنے والے موسم میں جس طرح سے تمام لوگوں نے اچھی فصل کاٹی اسی طرح صالحہ نے بھی اچھی فصل کاٹی۔ اس کے بعد فقیہ کے پاس حکومت کی جانب سے کچھ لوگ زکوۃ وصول کرنے کے لئے آتے ہیں۔ فقیہ ان کے لئے اچھا کھانا تیار کراتا ہے۔ فقیہ اپنے لڑکے کو صالحہ کے گھر بھیجتا ہے کہ وہ جا کر کے بتا دے کہ تمام لوگوں کی طرح وہ بھی زکوۃ فقیہ کے گھر پہنچا دے۔ اس کے بعد صالحہ اپنے سر پر اناج لے کر فقیہ کے گھر جاتی ہے۔ صالحہ اناج رکھتی ہے، اس کے بعد فقیہ کی بیٹی آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ شام کا کھانا آپ لیتی جائیں جو مہمانوں کے کھانے کے بعد بچ گیا ہے۔ صالحہ کھانا لیتی ہے اور اپنے گھر آجاتی ہے۔

 2

   اس پارٹ میں ناول نگار بتاتا ہے کہ بڑھیا فاطمہ ایک بار پھر صالحہ کے گھر جاتی ہے۔ صالحہ اس کو قہوہ پیش کرتی ہے اور روٹی دیتی ہے۔

  فاطمہ روٹی کی تعریف کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ اس گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہے اسی لیے وہ کھانا کھا رہی ہے۔ اس کے بعد وہ اصل بات پر آتی ہے اور کہتی ہے کہ اے بنت احمد، تم کو تو ساری بات معلوم ہے۔ صالحہ کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ بڑھیا دوبارہ اسی غرض سے آئے گی۔ اس نے جواب دیا ’’اے چچی، اگر مجھے پتہ ہوتا کہ آپ اس کام کے لیے آئی ہیں تو میں گھر کا دروازہ نہ کھولتی۔ اس پر بڑھیا جواب دیتی ہے۔ ’’شادی حرام نہیں ہے اور تم ابھی اول عمر میں ہو‘‘ (ص555) بڑھیا کو احساس ہو گیا کہ صالحہ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس نے نکلتے ہوئے کہا کہ اگر دوبارہ میں اس گھر میں داخل ہوجاؤں تو میرا پیر کاٹ دینا۔

  اس کے بعد وہ گھر سے چلی جاتی ہے۔ باہر عامر بڑھیا کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور جب اس کو یہ خبر ملتی ہے تو وہ کسی قدر مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ مگر عامر ایک دوسری چال چلتا ہے وہ گاؤں کے فقیہ سے ملتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ وہ جائے اور صالحہ کی گائے کو خرید لے۔ اس کے لیے وہ بھاری بھرکم رقم دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ فقیہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ گائے خریدنا چاہتا ہے اور اس کے لیے زیادہ رقم دے گا۔ صالحہ گائے بیچنے سے انکار کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ میں گائے بیچنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہوں اور کب سے فقیہ گائے کی تجارت کرنے لگا ہے؟ اس طرح فقیہ خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہے۔

صالحہ اپنی پڑوسن سے اس واقعہ کا ذکر کرتی ہے۔ اس کی پڑوسن کہتی ہے کہ فقیہ کب سے گائے کی تجارت کرنے لگا۔ عامر نے اس کو بھیجا ہوگا۔ اس بات پر ایک عرصہ گذر گیا۔ ایک دن جب صالحہ کی بیٹی سعیدہ گائے کو لے کر چرانے گئی تو پانی پلانے کے بعد گائے تڑپنے لگی اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور کیچڑ میں پھنس گئی۔ گاؤں میں یہ بات مشہور ہوگئی۔ لوگ دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے۔ اسی درمیان ایک شخص ایک لمبی چھری لے کر پہنچا۔ اس نے گائے کو ذبح کر دیا۔ اس کے بعد صالحہ وہاں پہنچی اور اس نے اعلان کر دیا کہ گائے کا گوشت تمام گاؤں والوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔  لوگ کہنے لگے کہ اگر صالحہ نے فقیہ سے گائے کو بیچ دیا ہوتا کیا ہی بہتر ہوتا۔ فقیہ نے کہا میں نے اچھے دام کی پیشکش کی تھی لیکن صالحہ نے منع کردیا تھا۔

   اس وقت عامر اپنی بیٹی عزہ کے گھر پڑوس کے گاؤں میں آرام کر رہا ہوتا ہے۔ صالحہ نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ کیا اس نے کسی شخص کو تالاب کے آس پاس دیکھا تھا؟ اس کی بیٹی نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ صالحہ کو اور اسی طرح سے گاؤں والوں کو عامر پر شک ہوتا ہے مگر دلیل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کچھ کہنے سے بچتا ہے۔ صالحہ کی پڑوسن اس کی مدد کرتی ہے اور اس کو دودھ پہنچاتی رہتی ہے۔ اس طرح سے دن گذرتے رہتے ہیں اور دھیرے دھیرے صالحہ کا غم ہلکا ہوتا ہے۔ مگر اسی درمیان ایک دوسرا واقعہ پیش آتا ہے ایک دن صالحہ کے گھر کے باہر رکھی ہوئی لکڑی میں آگ لگ جاتی ہے۔ جس سے اس کی پوری لکڑی جل کر خاک ہو جاتی ہے۔ جمعہ کے دن صالحہ فقیہ کے گھر جاتی ہے اور تمام لوگ وہاں پر موجود ہوتے ہیں۔ صالحہ اپنی بات لوگوں کے سامنے رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ آپ سبھی لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ کون ہو سکتا ہے جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔ آپ لوگوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ کون میرا دشمن ہے کون میرا دوست ہے۔

  فقیہ جو عامر سے دوستی کا حق ادا کرنا چاہتا تھا اس نے کہا کہ جو دعویٰ کرتا ہے اس کو گواہ پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ جس پر دعویٰ کیا جاتا ہے اس کو قسم کھانی ہوتی ہے۔  فقیہ کی اس بات سے حاضرین میں سے ایک شخص ناراض ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ کیا آپ اس بات کی گواہی پیش کر سکتے ہیں کہ آپ نے نماز سے پہلے وضو کیا تھا۔ میرا خیال ہے آپ ایسا نہیں کر سکیں گے، لیکن پھر بھی کوئی یہ نہیں کہے گا کہ آپ نے وضو کے بغیر نماز پڑھا دی ہے۔ حاضرین میں سے دوسرے شخص نے کہا کہ عامر کا اس محفل میں نہ ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس میں شامل ہے اور اگر تم لوگوں کو کسی دوسرے شخص پر شک ہے تو اس کا نام لو۔ مجلس میں یہ طے پاتا ہے کہ عامر کو بلایا جائے اور اس کا موقف جانا جائے۔ فقیہ کا بیٹا عامر کو بلانے جاتا ہے۔ عامر محفل میں حاضر ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ تمام لوگ وہاں پر پہلے سے موجود ہیں۔ فقیہ تمام باتوں سے عامر کو آگاہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اپنی رائے رکھے۔

   اس بیچ ناول نگار ایک واقعہ ذکر کرتا ہے کہ اسی درمیان مجلس میں ایک مرغا مرغی کا پیچھا کرتے ہوئے داخل ہو جاتا ہے اور وہ جبریہ طور پر مرغی کو اپناغلام بنانا چاہتا ہے۔ مرغی ادھر ادھر بھاگتی ہے مرغا اس کا پیچھا کرتا ہے۔ بعد میں فقیہ ان دونوں کو اس محفل سے بھگاتا ہے۔ اس کے بعد عامر لوگوں کے سامنے اپنے احسانات گناتا ہے اور کہتا ہے کہ قوم کے لوگ مجھ کو بھول گئے ہیں۔ میں نے فلاں کو قرض دیا تھا، فلاں کی مدد کی تھی اور فلاں کے ساتھ حسن سلوک کیا تھا۔  اس پر حاضرین میں سے ایک کہتا ہے کہ عامر سنو یہ حق کی محفل ہے اس میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے اور نہ کوئی مرد اور عورت ہے۔ اگر تم نیکی کرو گے تو تمہارے ساتھ ہوگی اور برائی کروگے تو تم کو ہی اس کا انجام بھگتنا ہوگا۔ صالحہ سوچتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کے سامنے عامر کی کرتوتوں کو بیان کر دے اور بتا دے کہ کس طرح اس نے اس سے شادی کا پیغام بھیجا تھا اور بڑھیا فاطمہ کو اس کے پاس بھیج کر پیغام بھجوایا تھا۔

  اس کے علاوہ گائے کے حادثہ کا زخم بھی مندمل نہیں ہوا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ لوگوں کے درمیان اعلان کردے کہ عامر ایک مکار آدمی ہے اور وہ کمزور لوگوں کو اپنا شکار بناتا ہے۔ حالانکہ میں نا تو کمزور ہوں اور نہ ہی اس کا شکار بننے کو تیار ہوں مگر وہ خاموش رہتی ہے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ ’’میں کہتا ہوں کہ اے عامر تم شروع ہی سے صالحہ کو لالچی نگاہوں سے دیکھتے ہو، تم پردہ پوشی کی غرض سے اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے ہو بلکہ تم اس کے کھیت، گھر اور مال پر نظر جمائے ہوئے ہو، تم ہی ہو جس نے اس کی گائے کو زہر دیا اور اس کی لکڑی کو جلا دیا۔ اور تمہارے دل میں اور کیا کچھ ہے اس کو صرف اللہ ہی جانتا ہے‘‘ (ص 577-578) یہ حاضرین میں سے اکثریت کے دل کی بات تھی۔

  عامر نے کہا کہ میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں لیکن  حاضرین نے کہا کہ تمہاری قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آج کے بعد تم صالحہ سے دور رہنا۔ عامر کو پتہ تھا کہ وہ جماعت کے فیصلے سے انحراف نہیں کر سکتا تھا۔ اسی لیے اس نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ صالحہ سے کہیے کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ صالحہ نے جواب دیا کہ وہ مرحوم کی موت کے بعد شادی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اب تم نے صالحہ کا جواب سن لیا ہے۔ پھر فقیہ کے گھر چائے کا دور چلتاہے۔

 3

 اس پارٹ میں ناول نگار، ابن رابح کا ذکر کرتا ہے جو گاؤں میں ایک گاڑی سے آتا ہے اور بچوں کے درمیان مٹھائی تقسیم کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ فقیہ کے گھر جاتا ہے، فقیہ اپنے بیٹے کو بھیج کر عامر کو بلاتا ہے۔ عامر فقیہ کے گھر آتا ہے اور مہمان عامر اور گاڑی کا ڈرائیور سبھی لوگ فقیہ کے گھر کھجور کھاتے ہیں۔ پورے گاؤں والوں کا اناج ابن رابح ہی خریدتا ہے۔ لوگوں کو جب پیسے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ابن رابح سے ادھار لیتے ہیں اور جب فصل کٹ جاتی ہے تو اناج دے کر قرض چکاتے ہیں۔ عامر کے ساتھ ابن رابح گاؤں میں گھومتا ہے اور لوگوں کو اناج بیچنے پر ابھارتا ہے۔ بہت سارے لوگ اناج بیچنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔

  گاؤں کے بہت سارے لوگ شہر جا چکے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ خوشحال ہو گئے ہیں اور نئی نئی چیزیں خریدنے لگے ہیں۔ صالحہ کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اور وہ نئی چیزیں خریدنے پر قادر نہیں ہوتی ہے۔ اسی محرومی اور مایوسی کی حالت میں صالحہ اپنی بیٹی کو ایک کہانی سناتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے زمانے میں ایک بلی تھی جو نہایت صاف ستھری اور امانت دار تھی۔ گھر والے جب تک اس کو کھانا نہیں دیتے تھے وہ نہیں کھاتی تھی اور گھر میں جب کوئی چوہا، سانپ یا بچھو دیکھتی تھی تو اس پر حملہ کر کے اس کو مار ڈالتی تھی۔

   ایک دن اس نے تین بچوں کو جنم دیا مگر قحط سالی کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں چوہے نایاب ہو جاتے ہیں۔ بلی کھانا کی تلاش میں باہر نکلی اور اس نے بہت زیادہ کوشش کی مگر وہ کھانا نہ پا سکی۔ لوٹ کر جب گھر پہنچی تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بے تاب ہو گئی اور اس نے ان پر رحم کھاتے ہوئے ایک ایک کر کے سب کو کھا لیا۔ جس کی وجہ سے اس کا پیٹ پھول گیا اور وہ مر گئی۔ صالحہ کی بیٹی نے کہا ماں یہ تو حرام ہے۔ اس کی ماں نے جواب دیا بیٹی یہاں معاملہ حرام اور حلال کا نہیں ہے بلکہ وہ بلی اس بات پر قدرت نہیں رکھتی تھی کہ اپنے بچوں کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھے۔ سعیدہ اپنی امی سے کہتی ہے کہ میرے پاس سر میں تیل لگانے کے لئے نہیں ہے۔ یہ سن کر صالحہ  پڑوسن کے پاس جاتی ہے اور اس سے کہتی ہے کہ جب ابن رابح آئے تو اس کے ہاتھ ایک بوری گیہوں بیچ دے۔ اس کی پڑوسن کہتی ہے کہ تم تو اناج نہیں بیچنا چاہتی تھی۔ اس کا جواب دیتے ہوئے صالحہ کہتی ہے کہ اگر میری رائے ہوتی تو میں نہیں بیچتی۔

 اس کے بعد ناول نگار ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہے صالحہ کا بیٹا بیمار ہے اور گھریلو علاج سے جب اس کو افاقہ نہیں ہوتا ہے تو اس کی پڑوسن رائے دیتی ہے کہ وہ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے۔ مگر ڈاکٹر گاؤں سے کافی دور رہتا ہے اور اگر گدھے کی سواری سے جایا جائے تو وہاں تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جائیں گے اگر صبح کو نکلیں گے تو دوپہر میں پہنچیں گے۔ بہرحال صالحہ اپنے بیٹے کو لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچتی ہے۔ ڈاکٹر غیر ملکی ہے اور وہ اپنے معاون کی مدد سے صالحہ سے بات چیت کرتا ہے، اس کے بعد دوا دیتا ہے۔ سعیدہ اپنی ماں سے پوچھتی ہے کہ لوٹتے وقت راستے میں تین بچوں کے ساتھ جو عورت ملی تھی وہ کون تھی۔ اس کی ماں جواب دیتی ہے کہ وہ عزہ بنت عامر تھی۔ سعیدہ کہتی ہے وہی جس نے ہماری گائے کو مار ڈالا تھا، صالحہ اس کی بات بیچ میں کاٹ دیتی ہے۔

  لوگوں نے اپنی فصل کاٹی اور اسی طرح صالحہ بنت احمد نے بھی اپنی فصل کاٹی۔ اس سال فصل بہتر ہوئی تھی اور تمام لوگوں کو راحت و سکون نصیب ہوا  تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ابن رابح اپنے ڈرائیور اور عامر کے ساتھ ایک رجسٹر اور بوریاں لے کر لوگوں کے دروازے پر جا رہا تھا اور ان سے اناج خرید رہا تھا۔ صالحہ نے بھی اناج بیچا تھا مگر جس دن ابن رابح لوگوں کو پیسہ دینے آیا۔ اس دن صالحہ کا نام رجسٹر میں نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اگر میں نے صالحہ سے خریدا ہوتا تو اس کا نام اس رجسٹر میں ہوتا۔ صالحہ غصے سے چیختی ہے اور وہ سمجھ جاتی ہے کہ اس میں عامر کی چال ہے۔ فقیہ نے بھی یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیا کہ رجسٹر میں صالحہ کا نام نہیں ہے۔

   حالانکہ صالحہ کی پڑوسن نے گواہی دی کہ میں نے ابن رابح کے ڈرائیور اور عامر کو صالحہ کے گھر سے اناج کی بوری اٹھا کر لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر فقیہ نے یہ کہہ کر اس بات کو ٹال دیا کہ عورت کی گواہی قیامت کے دن تک ناقص ہے۔ لوگوں کو جب یہ پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ صالحہ ایسی عورت نہیں ہے جو جھوٹ بولے۔ تاجراور فقیہ ہی قابل ملامت ہیں۔

  جمعہ کی نماز کے بعد محفل میں وہی شخص کھڑا ہوا جس نے پہلے بھی صالحہ کی تائید کی تھی۔ اس نے کہا ’’بھلے لوگو سنو! کمینہ زندگی بھر کمینہ رہتا ہے۔ ہم تمام لوگ جانتے ہیں کہ ایک شخص بنت احمد کا حق مارنا چاہتا ہے۔ ضروری ہے کہ آج ہم اس کے خلاف گواہی دیں۔۔۔ ضروری ہے کہ صاحب حق اپنا حق لے اور کسی عورت پر صرف وہی شخص ظلم کر سکتا ہے جو اللہ سے  خوف نہ کھاتا ہو اور جس کو نہ خود سے، نہ اللہ سے اور نہ ہی اس کی مخلوق سے شرم آتی ہو۔‘‘ (ص609-610) ایک دوسرے شخص نے کہا کہ ہم کو اس کے خلاف راتب پڑھنا چاہیے۔ پھر جس نے پہلے بات کی تھی، اس نے کہا کہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم سب مل کر صالحہ کو وہ قیمت ادا کر دیں جس کا انکار ابن رابح نے کیا ہے۔ اس طرح تمام لوگ پیسہ جمع کرتے ہیں اور وہی شخص پیسہ لے جاکر صالحہ کو دیتا ہے۔ جب صالحہ پوچھتی ہے کہ کیا ابن رابح نے اعتراف کرلیا ہے تو وہ جواب دیتا ہے: نہیں، اس رقم کو لوگوں نے جمع کیا ہے۔

جاری

(کتاب عبد العزیز مشری کے ناولوں میں سماجی مسائل سے ماخوذ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *