ثنا ناز
ریسرچ اسکالر شعبۂ سنّی دینیات
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ )
سر سیّد احمد خاں انیسویں صدی کے افق پر نمودار ہوئے اور بدر کامل کی شکل اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے شب و روز پر چھاگئے سر سید ایسی شخصیت اور مدبر و مفکر کا نام ہے جس نے زندگی کے ہر شعبہ میںہماری رہبری اور رہنمائی کی اور قوم و ملت کی ترقی اور معاشرہ میں اصلاح کی جدو جہد کیں،ہندوستانی مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں سرسید جیسا مصلح،مفکر اور رہنما ملا۔
انسان مدنی الطبع ہے وہ معاشرہ میں رہ کر پر سکون اور خوش و خرم زندگی بسر کرسکتا ہے اور اپنی ہر ضروریات پوری کرسکتا ہے، اسی لئے ارسطو نے انسان کو سماجی جانورMan is a social Animal قرار دیا ہے ،اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسانی زندگی کا ہر ہر پہلو سماجی زندگی سے تعلق رکھتا ہے انسان اپنی زندگی میں جو کام انجام دیتا ہے وہ معاشرہ میں رہ کر ہی دیتا ہے۔ مثلاً مذہب ،تعلیم وتدریس،تہذیب و تمدن ،رسم و رواج ،معاشرتی معاملات ،رہن سہن تصنیف و تالیف معاشرہ میں رہ کر ہی انجام پاتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک عرصہ کے بعد ترقی یافتہ اور مثالی معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے نظم و ضبط کی کمی ،وہم و گمان ،غلط رسم و رواج وغیرہ برائیاں معاشرہ کو جکڑ لیتی ہیں،اور انھیں خامیوں کی وجہ سے معاشرہ زوال و انحطاط اور بد حالی و بربادی کا شکار ہو جاتا ہے اس کے افراد میں خود غرضی،کینہ ،حسد ،لاپرواہی اور فضول گوئی ،عزت نفس اور غیرت کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو معاشرہ کو بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔
اس وقت سب سے بڑی اہمیت و ضرورت فکر معاشرہ ہے اگر معاشرہ صحیح نہج پر آجائے تو خود بخود ایک مثالی معاشرہ قائم ہوجائیگا اور جو تمام برائیاں ،خرابیاں اور کمزوریاں ہیں،سب رفتہ رفتہ دور ہو جائے گی اس لئے کسی بھی قوم و ملت کے مصلح کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے معاشرہ کو ان سب خامیوں اور کمزوریوں کا احساس نہیں ہوتا ہے، وہ اپنے حال میں خوش و خرم اور مستقبل کے تقاضوں سے بے خبر ہوتا ہے۔
سر سیّد احمد خاں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا،کہ وہ معاشرہ کی اصلا ح کس طرح کریں ،کہ قوم کو کس طرح بیدا ر کریں ،انہوں نے تہذیب الاخلاق کے مضامین کے ذریعے سے اس کام کو شروع کیا، او رمسلمانان ہند کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے خدوخال کی خامیوں کو دیکھ کر انھیں دور کرنے پر آمادہ ہو،لیکن عموما ً معاشرہ میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی خامیوں کو دور کرنے کے بجائے خود آئینے کو توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے سر سید کی بھی سخت ترین مخالفت ہوئی لیکن سر سید نے فکرمعاشرہ کو جاری رکھا اور اپنے مشن میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔
ہندوستا ن کی فلاکت ذدہ معاشرہ میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی پر سر سید کا حساس دل مضطرب و بے قرار ہو اٹھتا ہے سر سید مسلمانوں کی بیتی اور زبوں حالی کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جس حساب سے یہ تنزل شروع ہوا اگر اسی واسطے سے اس کا اندازہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے،کہ چند برس اس بات کو باقی ہیں کہ مسلمان سائسی،خانسامانی،خدمت گاری اور گھس کھودنے کو سوا اور کسی درجے میں نہیں رہیں گے اور کوئی گروہ جس کو دنیا میں کچھ بھی عزت حاصل ہو مسلمانوں کے نام سے پکارا جائے گا‘‘ 1 ؎
البتہ سر سیّد کا دور وہ دورتھا جب مسلمانان ہند کو دو طرح کے دور سے گزر نا پڑ رہا تھا ایک وہ وقت تھا ،جب اسلام اور مسلمانوں پر حملوں کی شکل میں ہو رہے تھے ،اسلام کو عقلی استدلال کی کسوٹی پر پرکھے جانے کا مطالبہ ہو رہا تھا۔
دوسری طرف بے جارسوم و روایات کی پابندی،دوسری اقوام کے علم و حکمت کے خزانوں سے گریز ،آزادی رائے کا فقدان ،سستی و کاہلی ،حقوق و فرائض سے غفلت ،بغض و حسد ،تہذیب و شائستگی اور قوم و ملت کی بقا میں لا پرواہی کا کام انجام دے رہی تھی،لہذا سر سید بھی معاشرہ کی اس فکر سے اپنے آپ کو دور نہیںکر سکتے تھے،سر سید کی اس فکر جہت کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
سر سیّد کے اس فکری کوشش میں سے ایک کوشش یکم اپریل ۱۸۶۹ء کے سفر انگلینڈ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
’’انگلستان جانے سے سر سید کے اصلاحی خیالات میں اور زیادہ وسعت و پختگی پیدا ہوئی اور وہاں سے واپسی کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے سامنے جو پروگرام پیش کیا، وہ مذہب معاشرت اور تعلیم الفرض ہر شعبہ زندگی میں تجدید چاہتا ہے ‘‘ 2 ؎
انگلستان کاسفر کرنے کے بعدسر سید کے اصلاحی خیالات میں اور زیادہ وسعت اور پختگی پیدا ہو گئی تھی ،واپس آنے کے بعد مسلمانوں کے سامنے جو اصلاحی مشن پیش کیا جوتعلیمی اورمعاشرتی ترقی کی شکل میں موجودہے۔
سر سید نے اخلاق و کردار کی دینی عظمت اور طریقہ حیات اس مثبت خوش آئندہ اور دور رس نتائج زندگی سے پوری طرح واقف تھے، اسلام کے فروغ اشاعت میں اسلام کے علمبرداروں کے اخلاق و کردار کا جو سب سے اہم رول تھا، سر سید بھی اس سے بخوبی واقف تھے۔
اخلاق کی عظمت پر تہذیب الاخلاق کے ایک شمارے میں لکھتے ہیں:
’’اخلاق انسان کی فطرت کو زیادہ کمال بخشتا ہے کیونکہ اس سے دل کو قرار و آسودگی ہوتی ہے،دل کے جذبات اعتدال پر رہتے ہیں اور ہر انسان کی خوشی کو ترقی حاصل ہوتی ہے۔ 3 ؎
سر سید اسلام کے سچے اور مخلص پیرو ہونے کی حیثیت سے اعمال حسنہ اور اخلاق فاضلہ کو لازمی قرار دیتے ہیں،یہ اعمال و اخلاق سب ایک طرف حقوق العباد کے فریضہ کی ادائیگی میں اہم رول ادا کرتے ہیں ،دوسری طرف طریقہ زندگی سیکھاتے ہیں، ان کے علمبردار خود بھی آرام و راحت ،خوش و شادمانی محسوس کرتے ہیں،او ر اس کے شریں نتائج سے انسانی معاشرہ کو سکون و راحت کی نعمت میسر آتی ہے، اورصاف حمیدہ کے خوشگوار اثرات و نتائج سامنے آتے ہیں۔
’’تہذیب و شائستگی کا عمدہ اور اعلیٰ منشا یہ ہے کہ انسان اس طرح سے اپنی زندگی بسر کرے جس سے اپنی ذات سے بھی ہمیشہ آرام و خوشی اور تندرستی کے ساتھ رہے، جس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے اور ایسے وسیلے باہم پہنچائے جائے جن سے ہر قسم کی مشکلات پر غالب آنا سہل اور ہر قسم کی خوشی اور راحت حاصل ہونا آسان ہوجائے۔ ۔۔۔۔ مسلمانوں کو لازم ہے کہ سب سے پہلے ایسے خیالات کو فروغ دیں اگر ان کے خیالات عمدہ ہوں گے تو سب قسم کی ترقیاں خود بخود ان میں ہو جائیں گی ورنہ تقلیدی شائستگی سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ 4 ؎
انسان کی زندگی کا مقصد اول یہی ہونا چاہئے کہ وہ صحیح نہج پر اپنی زندگی بسر کرے جس سے اپنی ذات کو بھی فائدہ ہو اور زندگی آرام و سکون کے ساتھ گزر بسر ہو ،اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ حاصل ہو، تاکہ انسان ہر قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کر سکے اور سکون و راحت میسر ہو سکے لہذا مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ سب سے پہلے ایسے خیالات کو فرغ دیں جن کی فکر اسلامی ہو ، ان کے اندر معاشرہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا جزبہ موجود ہو تا ہے ایسے وقت میں برائیاں خود بخود کم ہو جائے گی اور آپسی تعلقات خوشگوار ہونگے۔
سر سید کے ایک مخلص رفیق نے وطن سے سلوک و برتاؤ کی بابت یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
’’یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک مسلمان صفائی قلب سے کسی قوم سے نہ ملیں گے تب تک ہرگز وہ قوم ہمارے شریک حال نہیں ہوسکتی ،نہ وہ ہمارے کسی کام میں مدد کر سکتی ہے اور نہ ہم سے صفائی کے ساتھ مل سکتی ہے‘‘ 5 ؎
یہی وجہ ہے کہ ہمدردی و محبت،ایثار و جذبہ،عمل صالح ،فرض شناسی سے عاری معاشرہ طرح طرح کی اخلاقی برائیوں کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے چنانچہ خلوص و بے لوثی ہی دراصل افراد اور معاشرہ میںمحبت و انسانیت نوازی کے جذبات کو تقویت پہنچاتی ہے اور روز جزا میں اس کی سعی و عمل کے باور ہونے کا دار و مدار بھی اس بے لوث جذبہ و عمل پر ہوتا ہے۔
جو لوگ فکر معاشرہ اور تہذیب و شائستگی پر بحث کرتے ہیں ان کے لئے کسی قوم کے رسم و رواج کو اچھا اور کسی کو برا ٹھہرانا نہایت مشکل کام ہے۔اسکو اس طرح واضح کیا گیا ہے:
’’طریق تمدن معاشرت روز بروز انسانوں میںترقی پاتا جاتا ہے اور اس لئے ضرور ی ہے کہ ہماری رسمیں و عادتیں جو بہ ضرورت تمدن معاشرت مروج ہوئی تھیں ان میں بھی روز بروز ترقی ہو جاوے اور اگر ہم اپنی ان پہلی ہی رسموں اور عادتوں کے پابند رہیں اور کچھ ترقی نہ کریں ،تو بلا شبہ بمقابل ان قوموں کے جنھوں نے ترقی کی ہے ہم ذلیل اور خوار ہوں گے مثل جانوروں کے خیال کئے جاویں گے پھر خواہ اس نام سے ہم برا مانیں یا نہ مانیں ،انصاف کا مقام ہے کہ جب ہم اپنے سے کمتر اور نا تربیت یافتہ قوموں کے ذلیل و حقیر مثل جانوروں کے خیال کرتے ہیں، تو جو قومیں کہ ہم سے زیادہ شائستہ و تربیت یافتہ ہیں، اگر وہ بھی ہم کو اس طرح حقیر اور ذلیل مثل جانوروں کے سمجھیں تو ہم کو کیا مقام شکایت ہے ہاں اگر ہم کو غیرت ہے تو ہم کو اس حالت سے نکلنااور اپنی قوم کو نکالنا چاہئے‘‘ 6؎
بہر حال سر سید نے ا سی معاشرہ کو دیکھا اور برتا تھا، جب کام کرنے کا وقت آیا تو سب سے پہلے انہوں نے معاشرتی خرابیوں پر توجہ دی صرف ان پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے مخصوص مزاج گرامی کے مطابق ان خرابیوں کی وجہ بیان کی اور ازالے کی تدبیر پیش کیں اس مرد دانا کا قابل توصیف پہلو یہ ہے کہ انھوں نے معاشرتی خرابیوں کے بیرونی عوامل کو تفصیل سے بیان کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا بلکہ ان امور کی جانب توجہ مبذول کرائی جن کے ترک و اختیار پر عوام قادر تھی انہوں نے کہا کہ ادب کے نام پر ہم اپنے بچوں کو جن امور کی دعوت دیں رہیں ہیں ان سے کم حوصلگی کا پیدا ہونا لازمی ہے،یا پھر ہم کو مغرور بنا دیتے ہیں مخصوص اسلوب میں لکھتے ہیں:
’’ان لڑکوں کو حرکات مؤدبانہ صرف ایسے بند رکی سی حرکات ہوتی ہیں جس کو سلام کہنا اور ادب سے بیٹھنا اور کھڑے رہنا سکھایا ہو بلکہ انسان میں جو ایک مہذب دلیری اور مؤدب بہادری اور ممدوح خوداری ہونی چایئے جس کو غیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے ایسے سکھانے سے باقی نہیں رہتی ہے اس کی طبیعت بعوض اس کے بلند ہونے پر مائل ہو پست ہونے پر رجوع کرتی ہے‘‘ 7 ؎
اس خوبی کو بیان کرتے ہیں جس کو وہ معاشرہ کے ہر فرد میں دیکھنے کے خواہش مند تھے،سرسید کی فکر میں اخلاق کے ساتھ ساتھ کردار سازی لئے تعلیم ہی کافی نہیں ہے انہوں نے افراد پر سخت تنقید کی ہے جو تعلیم و تربیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تعلیم انسان کے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو باہر لانے کا ذریعہ ہے لیکن صلاحیتوں کو کسی کام کے لائق بنانا تربیت کے ذریعے ہی ممکن ہے معاشرہ میں تعلیم کے بہتر نتائج اسلئے برآمد ہوئے کہ نیک اور صالح معاشرہ موجود تھا اور وہ اپنا اخلاقی اثر ڈال کر ہر قسم کی تعلیم کو اپنے لائق کر لیتا تھا ،زمانے کے انقلاب سے وہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکا جو بلحاظ اخلاق و حسن معاشرت کے نہایت عمدہ تھا،ان حالات میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے۔
سر سید کی ہمہ جہت شخصیت کی تعمیر میں یہی وہ عناصر تھے ،جنہوں نے قوم کے اس خادم کو ماہر تعلیم بھی بنایا اور مبلغ اسلام بھی اور اصلاح معاشرہ کا علمبردار بھی بنایا،گویا سر سید ایک شخص نہیں ایک کارواں تھے جو اپنے مشن کی راہ میں پر خوار وادیوں سے گزرتے اور مخالفتوں کے طوفانی کشمکش کا مقابلہ کرتے ہوئے قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو ساحل پر کھڑا کرنے کا عزم مصمّم کر لیتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے سرسید نے جو شمع روشن کی تھی اسے مشعل بناکر اس تابنا کی کو معاشرہ میں پہنچایا جائے اور سرسید کے اس فکر معاشرہ کو ازسرنو زندہ کیا جائے۔
حوالہ جات و حواشی
1 ؎ تقریر بمقام مظفر نگر فروری ۱۸۸۴ء بحوالہ خلیق احمد نظامی: ارمغان علی گڑھ ص ۱۱ طبع اول ۱۹۷۴ء
2 ؎ عابد حسین : ہندوستانی قومیت اور قومی تہذیب ،ج ۳،ص ۷۸ مکتبہ جامعہ دہلی
3؎ تہذیب الاخلاق :ج۳،شمارہ ۱۸،ص ۱۷۸ ،۱۵ شوال ۱۲۸۹ھ
4؎ تہذیب الاخلاق ج ۵ شمارہ ۱۸ ص۱۰ یکم محرم االحرام ۱۲۹۱ھ
5؎ تہذیب الاخلاق ج ۳،شمارہ ۱۷،ص۱۶۹ یکم شوال
6 ؎ سرسید نمبر،مرتب فاروق ارگلی،مضمون رسوم و عادات، ص۷۶۹،ناشر فرید بک ڈپو ۲۰۱۶
7؎ مقالات سرسید :جلد ۳،بحوالہ سرسید نمبر،مرتب فاروق ارگلی،از ڈاکٹر حکیم عبد المتین،سر سید کی تحریروں میں اخلاقی اقدار اور کردار سازی،ص ۴۹۸،ناشر فرید بک ڈپو ۲۰۱۶