املو ، مبارک پور کی سب سے قدیم اہل حدیث آبادی ہے، جس کی دعوتی وتنظیمی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ حضرت مولانا عبد اللہ جھاؤ الہ آبادی نے اس بستی کوایک مدت تک اپنی دعوتی سرگرمیوں کا محور بنائے رکھا۔ استاذ الاساتذہ حضر ت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ،محدث کبیر حضرت مولانا ابو القاسم سیف بنارسی اور حضرت مولانا اسد اللہ روانوی وغیرہم متعدد بار مختلف دعوتی وتنظیمی ضرورتوں کے تحت قدم رنجہ فرمایا ہے۔[1]
نام ونسب: محمد ادریس بن حاجی عبد العزیز بن محمد صدیق بن حاجی نور محمد بن چندن بن ایمن۔ تخلص آزاد تھا، چار بھائیوں: محمد اسرائیل عرف مؤذن صاحب (وفات: ۱۳ مارچ ۱۹۸۲ء)، محمد بشیر(وفات: ۶ اپریل ۱۹۷۶ء) ، امیر احمد(وفات:۹ اگست ۲۰۰۴ء ) اور دو بہنوں رابعہ (وفات: ۱۹۸۸ء)اور حفیظ النساء (وفات: ۱۷ جنوری ۲۰۱۱ء) میں سب سے بڑے تھے، والدہ کا نام خدیجہ تھا جو بڑی سیدھی اورنیک خاتون تھیں، چھوٹے بچوں کو قرآن پڑھانا، دعائیں یاد کرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
خاندانی پس منظر: حضرت مولانا آزاد رحمانی کے أباء واجداد مہدی پور کے رہنے والے تھے جو املو سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔ چندن صاحب حضرت مولانا عبد اللہ جھاؤ الہ آبادی کی دعوت وتبلیغ سے متأثر ہوکر مسلک سلف کو اختیار کرلیا تھا، جس کی پاداش میں آبائی گاؤں مہدی پور میں انہیں بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک وہ ہجرت پر مجبور ہوئے اور املو چلے آئے[2]۔ آپ کے پر دادا حاجی نور محمد صاحب (وفات تقریبا: ۱۹۱۰ء)متبع سنت، دین دار اور صاحب ثروت انسان تھے، مجدد وقت حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے خاص تعلق رکھتے تھے، ایک خط میں انہیں املوتشریف لانے کی دعوت بھی دی تھی[3]۔ انہوں نے اپنے مکان سے متصل ایک عالی شان مسجد کی تعمیر کروائی، ایک گوشے میں دینی تعلیم کے لئے ایک مکتب بھی جاری کیا جو آج بھی برقرار ہے، والد محترم منشی عبد العزیز (وفات: ۱۹۷۷ء)ایک عرب تاجرمولانا عبد الحق مدنی کے فیض یافتہ تھے،[4] پورا گاؤں خط پڑھانےیا لکھوانے کے لئے آپ ہی سے رجوع کرتا تھا۔ یہ خاندان آج بھی اپنی دینی اور سماجی خدمات کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی اس گھرانے کے ایک نامور اور جلیل القدر عالم دین تھے۔[5]
تعلیم وتربیت: ابتدائی تعلیم خاندانی مکتب‘‘مدرسہ حاجی نور محمدصاحب’’میں ہوئی، پھرمدرسہ دار التعلیم مبارک پور پہونچے، یہاں سے مدرسہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن کا رخ کیا،اس طرح مختلف اساتذہ سے خوشہ چینی کرتے ہوئے اپنے استاذ گرامی حضرت مولانانذیر احمد رحمانی املوی کےساتھ شوال ۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء دہلی آگئے اور دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں تیسری جماعت میں داخلہ لیا ، دہلی کی وسیع فضاء راس آئی اور یہاں انہیں اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا خوب موقع ملا۔ رفقاء درس میں کچھ کے نام معلوم ہوسکے ، جو کچھ اس طرح ہے: ابو الخیر فاروقی پریوائی،عبد الشکور، عبد الجلیل بنگالی ، شمس الحق سلہٹی، عبد الولی آروی، محمد محبوب الرحمن ، محمد حسن گونڈوی وغیرہ۔
آزاد صاحب مدرسہ کی علمی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیتے تھے، چنانچہ پہلے سال میں خوش خطی پر انعام کے مستحق پائے[6] اور درجہ ہفتم میں اردو تحریر وتقریر پر مبلغ آٹھ روپئے انعام سے نوازے گئے[7] ۔
حضرت مولاناآزاد املوی زمانہ طالب علمی ہی سے بہت بے باک تھے۔ ۱۹۹۹ء کی ایک ملاقات کے دوران حضرت مولانا محمد امین اثری رحمانی مبارک پوری نے راقم الحروف کو بتایا کہ آزادصاحب کانگریسی تھے اور ہفتہ واری تقریری انجمنوں میں بھی مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے والوں کی خوب خبر لیتے تھے۔ ایک دفعہ کسی انجمن میں جس کی صدارت استاذ گرامی مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری کررہے تھے، کہ انجمن میں دفاعی اور جوابی سلسلہ دراز ہوگیا، اغراض و مقاصد کو فوت ہوتے دیکھ کر درمیان ہی میں چلے گئے، سارے طلبہ پریشان کہ اب کیا جائے ، پھر اتفاق رائے سے سارے بچے صدر محترم کے کمرہ میں پہونچ کر معافی مانگی، تب کہیں جاکر انجمن مکمل ہوئی۔
اساتذہ:
۱ ماموں عبدالغفار صاحب (مدرسہ نور محمدمرحوم )۔
۲ مولانا محمد اصغر مبارک پوری۔(مدرسہ دار التعلیم مبارک پور)
۳ حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری(مدرسہ دار التعلیم مبارک پور)۔
۴ حضرت مولانا محمد احمد مئوی۔(مدرسہ فیض عام مئو)۔
۵ حضرت مولانا عبد اللہ شائق مؤی۔(مدرسہ فیض عام مئو)۔
۶ حضرت مولانا عبد الرحمن نحوی ۔(مدرسہ فیض عام مئو)۔
۷ حضرت مولانا احمد اللہ محدث دہلوی پرتاب گڈہی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۸ حضرت مولانا عبید اللہ محدث مبارک پوری۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۹ حضرت مولانا نذیر احمد محدث املوی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۱۰ حضرت مولانا عبد الحلیم ناظم رحمانی پیغمبر پوری (دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۱۱ مولانا سکندر علی ہزاروی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۱۲ حضرت مولانا عبد الغفور بسکوہری (دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۱۳ حضرت مولانا عبد اللہ ندوی۔(دار الحدیث رحمانیہ دہلی)۔
۱۴ حضرت نواب سراج الدین سائل دہلوی نواب آف لوہارو (۱۸۶۴ء۔۱۹۴۵ء)۔اس لحاظ سے حضرت آزاد املو ی استاذ الشعراء حضرت داغ دہلوی کے بیک واسطہ شاگرد اور داغ اسکول کے نمائندہ شاعر ہوئے۔
۱۵ حافظ اسلم جے راج پوری (۱۹۴۲ء)
۱۶ حضرت بے خود دہلوی (۱۸۶۳ء۔۱۹۵۵ء)
۱۷ ڈاکٹر سعید احمد رائے بریلوی۔
ان ناموراساتذہ کے علاوہ دار الحدیث رحمانیہ کی مختلف تقریبات میں تشریف لانے والے اہلعلم، جیسے:حضرت مولانا محمد جونا گڈھی، شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، مفسر قرآن حضرت مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی،محدث کبیر حضرت مولاناابو القاسم سیف بنارسی ،حضرت مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی،علامہ عبد العزیزمیمنی، حضرت مولانا عبد الجبارمحدث کھنڈیلوی، حضرت مولاناابو الکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین، حضرت مولاناابو یحیی خان نوشہروی، حضرت مولانا سید داؤد غزنوی، حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی ،شیخ ابراھیم الجیالی،شیخ محمد حبیب، شیخ محمد صلاح الدین النجار،شیخ عبد الوہاب النجار،شیخ محمد احمد العدوی (وفد جامعۃ الازہر)، علامہ عبد العزیز الثعالبی،مشہور مصلح وامام علامہ عبد اللہ محمد قرعاوی، شیخ عبد اللہ محمد شریف مکی (مدیر مجلہ صوت الحق ومؤلف کتاب: الہند بین الماضی والحاضر،عربی اور اردو دونوں پر قدرت رکھتے تھے) کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے اور سننے کا شرف حاصل رہا ہے۔
درس وتدریس: فراغت کے بعد دو سال تک تجارت میں مشغول رہے، پھر اپنےاستاذ حضرت مولانا نذیر احمد رحمانی کے کہنے پر ۱۹۴۲ء میں انوار العلوم کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا، جس کی انتظامی امور کی دیکھ ریکھ کے ساتھ درس کے فرائض انجام بھی دیتے رہے۔ یہ مدرسہ اتنا کامیاب ہوا کہ چند دنوں میں بچوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ایک دوسرے مدرس کا اضافہ کرناپڑا، تعلیم بھی نحو میر اور پنج گنج تک ہونے لگی ۔ امتحانات حضرت مولانا نذیر احمدرحمانی بہ ذات خودلیتے تھے ، بعض نامعلوم اسباب کے تحت غالبا ۱۹۵۰ء میں مدرسہ دار التعلیم منتقل ہوگئے۔ اگست ۱۹۵۲ء میں ڈاکٹر سید عبد الحفیظ سلفی کی دعوت پر مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ تشریف لئے گئے، یہاں پر آپ کودیگر ذمہ داریوں کے ساتھ پندرہ روزہ‘‘الہدی’’ کی ادارت بھی سونپی گئی، اسے خوب سے خوب تربنانے میں جی جان سے لگ گئے، دیکھتے ہی دیکھتے یہ مجلہ ملک کے مقبول مجلات میں شمار ہونے لگا۔ ۱۹۵۵ء میں ‘‘دار العلوم احمدیہ سلفیہ’’اور ۱۹۵۶ء میں ‘‘امام بخاری’’ پر خاص نمبرنکالے، جسے ملک اوربیرون ملک میں کافی پذیرائی ہوئی اور اپنے موضوع پر نہایت وقیع پیش کش قرار پایا۔ اپریل ۱۹۶۳ء میں حضرت مولانانذیر احمد رحمانی املوی کے حکم پر جامعہ رحمانیہ بنارس چلے آئے ، پھر جب جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم قائم ہوا تو یہاںمنتقل کردئے گئے، یہاں پر بھی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ صوت الجامعہ کے مدیر رہے، حضرت آزاد رحمانی جہاں طلباء میں نہایت محبوب رہے، وہیں انہیں ارباب انتظام کا تعاون اور اعتماد بھی برابر حاصل رہا، جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
تلامذہ: آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد کافی ہے، نمونے کے طور پر چند نام ذکر کر رہے ہیں: ڈاکٹر عبد الوہاب خلیل الرحمن صدیقی مرحوم، ڈاکٹر فضل الرحمن دین محمد مدنی، ڈاکٹر جاوید اعظم بنارسی، شیخ ابوالقاسم ابو الخیر فاروقی، ڈاکٹر عبد الرحمن عبد الجبار الفریوائی،ڈاکٹر محمد ابرھیم محمد ہارون مدنی،شیخ عبید اللہ طیب بنارسی، شیخ رفیع احمد محمد عاقل مدنی ، شیخ محمد عزیر شمس، شیخ صلاح الدین محمد مقبول، شیخ عبد الجلیل مکی وغیرہم ہیں۔
مقامی شاگردوں میں حضرت مولانا قرۃ العین املوی (۱۹۳۸ء۔۲۰۱۴ء)،مولانا قاری محمد زبیر مبارک پوری( )، والد محترم ڈاکٹر حافظ عبد العزیزمبارک پوری، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری (۱۹ء۔۲۰۰۳ء)، حضرت مولانا عبد الکبیر مبارک پوری، مولاناحفظ الرحمن مدنی ، مولانا مظہر الحق املوی وغیرہم سر فہرست ہیں۔
تصنیف وتألیف: حضرت مولانا آزاد رحمانی املوی کو تصنیف وتألیف اور تحقیق وتنقید سے بھر پور مناسبت تھی، طالب علمی ہی سےبرابراور بڑی روانی سے لکھتے تھے، سادگی، سلاست وبےساختگی اورالفاظ کا برمحل استعمال آپ کی تحریروں کا امتیاز ہیں۔ محدث اور اخبار محمدی میں متعدد مضامین اور نظمیں مطبوع ہیں، محدث میں روح اخبار کے نام سے مستقل ایک کالم پیش کرتے تھے، جو پورے مہینہ کی نہایت اہم خبروں کا خلاصہ ہوتا تھا، اور آپ کی اردو زبان وبیان پر دسترس کا بہترین مرقع ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں غواص آفاقی کے مستعار نام سے سیاسی افسانے بھی لکھتے تھے، جو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے گئے، حضرت آزاد رحمانی کی تابناک زندگی کا یہ اوجھل گوشہ ریسرچ اسکالرز کی توجہ چاھتا ہے، میرے فاضل دوست محٹرم ڈاکٹر جاویدرحمانی اسٹنٹ پروفیسر اردو آسام یونیورسٹی، سلچر[8]کے بیان کے مطابق علماء کے طبقہ میں مولانا آزاد رحمانی جیسی عمدہ نثر لکھنے والا میں نے نہیں دیکھا ہے، ان کے خیال کے مطابق ان کے مضامین کو یکجا کرکے شائع کیا جاناچاہئے۔ افسوس کہ تدریس اور دیگر مصروفیتوں نے اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کا موقع نہیں دیا، پھر بھی متعدد تصنیفات موجود ہیں:
1-نبی ﷺ کی نماز: غالبا آپ کی پہلی تصنیف ہے،۵۶ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار مطبع حمیدیہ دربھنگہ سے ۱۹۶۷ء میں چھپی تھی، اہمیت کے پیش نظر دوبارہ تحقیق کے ساتھ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
۲۔عصمۃ الانبیاء: امام ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب الملل والنحل میں عصمت انبیاء پر مبسوط بحث کی ہے، اسی بحث کو مولاناآزاد رحمانی نے اردو کا جامہ پہنایا ہے، الہدی میں قسط وار چھپ چکا ہے، اگر کتابی شکل میں طبع کیا جائے تو اردو دنیا میں ایک قابل قدر اور مستند اضافہ ہوگا۔
۳- الآیات البینات فی رد الشرک والبدعات: اس کتاب میں مولانا خالد عمری نے شرک وبدعت سے متعلق آپ کے دو مفصل فتاوی کو جمع کردیا ہے ۔
۴-الموازنۃ بین ابی بکر وعلی رضی اللہ عنہما: امام ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب الملل والنحل میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان علمی موازنہ کیا ہے، اسی مضمون کو آپ نے اردو کا قالب دیا ہے، الہدی دربھنگہ میں متعدد قسطوں شائع ہوچکا ہے، بر صغیر کے مخصوص ماحول (افراط وتفریط)کے پیش نظر دوبارہ کتابی شکل میں شائع کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
۵- تیسیرالعزیزالحمید شرح کتاب التوحید (اردو ترجمہ): حضرت شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی معروف ‘‘ کتاب التوحید’’ کی مفصل شرح ہے۔ مصنف کا نام سلیمان بن عبد اللہ بن شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب آل الشیخ (۱۲۰۰ھ/1233ھ) ہے۔ اصل متن اور شرح دونوں صحیح عقیدہ پر نہایت مدلل کتاب ہے، ان کا شمار سلفی دعوت ومنہج کی بنیادی کتابوں میں ہوتا ہے۔ اردو زبان میں منتقل کرنے کی سخت ضرورت تھی۔ اسی جذبے سے سرشار ہوکر حضرت مولانا آزاد رحمانی نے کتاب کا ترجمہ کرنا شروع کیا تھا، نصف سے کچھ زیادہ ترجمہ کر ہی پائے تھے کہ بلاوا آگیا، اس کی تکمیل اور طباعت کی بڑی آرزو تھی، بہ ظاہر تکمیل کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی کہ مولانا کے داماد مولانا سعید سالم املوی/حفظہ اللہ اورحضرت مولانا صفی الرحمن مبارک پوری (۲۰۰۶ء)کی کوششوں سے طبع ہوچکی ہے۔ اپنے مشمولات کے لحاظ سے اس کتاب کو بار بار چھاپ کر عوام تک پہونچانا چاہئے تھا، سعودی عرب میں اس کتاب کا محقق ایڈیشن طبع ہوچکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے مراجعہ اور نظر ثانی کے بعد دوبارہ منظر عام پر لایا جائے۔
۶-تاریخ مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس(نامکمل): آپ کی شدید خواہش تھی کہ مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس کی مفصل تاریخ مرتب ہو، اسی داعیہ کے تحت کام کرنا بھی شروع کردیا تھا کہ زندگی کا چراغ ہی گل ہوگیا۔ خوشی کی بات ہے کہ استاذ گرامی حضرت مولانا محمد مستقیم سلفی نے اس سلسلہ کی تکمیل فرمائی ہے۔
۷- شرح القرأۃ الرشیدہ: غالبا اس کا مسودہ غائب ہوچکا ہے[9] ۔
۸- فتاوی آزاد رحمانی: تحریر کی یہ صنف انتہائی نازک اور بے حد صبر آزما ہوتی ہے، اس باب میں بھی آپ کا راہوار قلم میانہ روی کے ساتھ دوڑتا ہوا نظر آتا ہے، طرز استدلال، اسلوب تحقیق اور تنقیح مسائل واستدراک میں اپنے پیش رو اساتذہ حضرت مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی، حضرت مولانا عبید اللہ رحمانی شیخ الحدیث مبارک پوری اور حضرت مولانانذیر احمد رحمانی کے شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدرسہ احمدیہ دربھنگہ اور جامعہ سلفیہ بنارس کے رجسٹر سے ان کے فتاوی کو مرتب کیا جائے تو مشفق گرامی مولانا رفیع احمد عاقل مدنی کےبیان کےمطابق چار ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں، افسوس کہ یہ جواہر پارے تحقیق وترتیب اور اشاعت کے منتظر ہیں۔
۹- مجموعہ مقالات آزاد رحمانی: ہند وپاک کے مختلف مجلات وجرائد میں بکھرے آپ کے مضامین کو جمع کیا جائے تو کم ازکم تین جلدیں تیار ہوجائیں گی، خوشی کی بات یہ ہے عزیزم مولوی راشد حسن فضل حق مبارک پوری اس پر کام شروع کرچکے ہیں۔
۱۰- شعری مجموعہ: افسوس کہ آپ کی شعری بیاض مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا کوئی طالب علم جو نظموں کو جلسوں میں پیش کرتا تھا لے اڑا، غائب ہوجانے کا بڑا قلق تھا،[10] پھر بھی مختلف جرائد ومجلات میں چھپنے والی نظموں اور غزلوں کو جمع کیا جائے تو ایک مفید شعری مجموعہ تیار ہوسکتا ہے جو منہج سلف کی پابند اور نمائندہ شاعری ہوگی۔
یہاں پر حضرت آزاد املوی کی شاعری پر مولانا قمر الزمان مبارک پوری کا جامع تبصرہ نقل کر رہے ہیں: ‘‘انہوں نے اپنی شاعری میں اسلامی جذبات اور مذہبی خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، غزل ونظم دونوں پر قدرت حاصل تھی، غزلوں میں تغزل کے ساتھ عصری مسائل اور قومی وملی درد کا بھی اظہار ہوا ہے، انہوں نے لفظوں کے استعمال میں سیاق وسباق کا خاص خیال رکھا ہے اور اس باب میں اپنی شعوری بیداری اور ادبی صلاحیت کا ثبوت فراہم کیاہے۔ ان کا کلام مختلف اخبار ورسائل کی زینت ہوا کرتا تھا، بڑے زود گو شاعر تھے، طنزیہ ومزاحیہ رنگ میں بھی کہہ لیتے تھے۔ مذہبی سرگرمیوں کو نظم کا لباس پہنایا کرتے تھے، ان کے یہاں ماضی کو یاد کرکےحال کو سنوارنے کے ساتھ عصری زندگی کا مرثیہ بھی ملتا ہے۔ یہ سلف صالحین کے زمانے سے اپنے دور کاتقابل کرکے مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ وماتم بڑے درد بھرے انداز میں کرتے ہیں۔ انہوں اپنی شاعری میں اسلاف کے کارناموں پر روشنی ڈال کر، ان کی اتباع پر مسلمانوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے، ان کے یہاں لفظوں کے بر محل استعمال کی پختہ شعوری کے ثبوت اور اسلامی حوالے کثرت سے ملتے ہیں۔ ان کے دور میں ان کی شاعری کا اہل علم کی مجلسوں میں بڑا چرچا اور شعر وشاعری سے تعلق رکھنے والوں میں خاص اثر تھا۔ مولانا آزاد کی شاعری کو ان تمام مقامات پر حسن قبول حاصل تھا، جہان مساجد ومدارس کی تعمیر کے سلسلے میں چندے ہوا کرتے تھے، اور چندوں کی فراہمی کے لئے خوش الحان نظم خوانوں کی ٹولیاں چندے کی نظمیں پڑھا کرتی تھیں۔ ان چندوں میں آزاد رحمانی کی نظمیں بڑے زوق وشوق اور خاص توجہ سے سنی اور پسند کی جاتی تھیں۔ مولانا اس موضوع کی نظموں میں عہد صحابہ (رضی اللہ عنہم) اور سلف صالحین کے تاریخی واقعات اور چندہ دینے کے سلسلے میں ان کے کردار وایثار کی ایسی مرقع کشی کرتے تھےکہ جذبہ داد ودہش دیوانگی کی حد تک پہونچ جاتا تھا۔ مولانا اپنی نظموں میں صدقات وخیرات کے تعلق سے قرآن واحادیث اور تذکرہ وسیر کی کتابوں میں مذکور سخاوت وفیاضی کی سچی داستانوں کے حوالے شامل کرکے، ان کو خاصے کی چیز بنادیا کرتے تھے۔ ان میں اللہ نے برجستگی، زود گوئی اور خوش گوئی کی بڑی صلاحیت رکھی تھی، اس لئے ان کے موضوعاتی اور وقتی کلام بھی دلچسپ اور لائق توجہ ہوا کرتے تھے’’[11]
وفات: آپ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں غرق رہتے تھے، جس سے صحت نہایت متأثر ہوئی اور شوگر کا مرض لاحق ہوگیا، جس کے میں نتیجے دیگر عوارض بھی پریشان کرنے لگے، والد صاحب کے بیان کے مطابق لکھتے لکھتے جب تھک جاتے تو لیٹے لیٹے لکھنا شروع کردیتے تھے، صحت بہ ظاہر ٹھیک تھی، اپنے ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھا رہے تھے کہ اچانک۲۹ جمادی الاول ۱۳۹۸ھ مطابق ۶ مئی ۱۹۷۸ء بہ روز سنیچر بہ وقت صبح طبیعت بگڑی اور آنا فانااپنے رب سے جا ملے۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا، میت کو وطن ‘‘املو’’ لایا گیا، بعد نماز عشاء دادا حضرت مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی، اور آبائی قبرستان میں تدفین ہوئی۔ رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ.
مولانا آزاد صاحب کی شادی خاندان ہی میں ھاجرہ خاتون سے ہوئی تھی، جو بڑی پرہیز گار اور پابند سنت خاتون تھیں(وفات کی تاریخ نہیں معلوم ہوسکی)، کے دو بیٹے: عبد الاحد اور عبد الواحد اور دو بیٹیاں ہیں: بلقیس اور بشیرہ۔ بشیرہ (وفات۵ ستمبر ۲۰۱۴ء) کے علاوہ سب با حیات اور خوش وخرم ہیں، چھوٹے بیٹےعبد الواحد صاحب ایک مدت تک مدرسہ انوارالعلوم میں مدرس رہے ہیں، میرے ہم سبق اور دوست مولانا عبد الحسیب عبد الواحد املوی جا معہ سلفیہ بنارس اور فیض عام مئو ناتھ بھنجن سے تحصیل علم کے بعد ریاض میں بر سر روز گار ہیں اور مولانا مرحوم کے جانشین ہیں۔
۱ مقدمہ اہل حدیث اور سیاست ص:۱۲-۱۳-۱۴-۱۵۔
۲ الشیخ آزاد الرحمانی ص: ۹۷ مجلۃ الجامعہ السلفیہ (عربی) رفیع احمد عاقل مدنی۔
۴ الشیخ آزاد الرحمانی ص: ۹۸ مجلۃ الجامعہ السلفیہ (عربی) رفیع احمد عاقل مدنی۔
۵ قیمتی پتھروں اور موتیوں کی تجارت کرتے تھے،کسی مناسبت سے املو آئے ایک مدت تک املو میں قیام پذیر رہے۔ مقدمہ اہل حدیث اور سیاست ص: ۱۷۔
5 اس مضمون میں خاندانی پس منظر اور بزرگوں کی تاریخ وفات مولانا آزاد صاحب کے برادر زادے اور میرے خالو محترم حاجی محمد مصطفی بن محمد بشیر صاحب نے فراہم کیا ہے۔
۶ محدث جلد نمبر: ۲ شمارہ نمبر: ۸شعبان ۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء۔
۷ محدث جلد:۶، شمارہ نمبر: ۵رجب ۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء۔
۷ آپ صوفی عبد الرحمن سلفی صاحب کے پوتے ہیں جو مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے سابق مدرس اور الہدی کے مدیر رہ چکے ہیں۔
۸ مجلۃ الجامعہ السلفیہ (عربی) ص: ۷۰ الشیخ آزاد الرحمانی رفیع احمد عاقل مدنی، سخنوران اعظم گڈھ ص: ۱۲۵-۱۲۶-۱۲۷-۱۲۸ قمر الزمان مبارک پوری، طبع اول ۲۰۱۵ء۔
۹ مجلۃ الجامعہ السلفیہ (عربی) ص: ۷۰ الشیخ آزاد الرحمانی رفیع احمد عاقل مدنی۔