Main Menu

موہن لعل انیسؔ کی فارسی شاعری کا ایک جائزہ

 عرشی بانو

ریسرچ اسکالر، شعبہئ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی

                                    ندانم اے بلا  بالا چہ تا پابلا باشی     کہ بالا تر بہ بالا از بلا ہائے جدا باشی

ہندوستان کا خطئہ اودھ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔سرزمین اودھ پر ایسے ایسےعلماء،ادباء و شعراء پیدا ہوئے جن کی ادبی کاوشوں پر ارباب فضل و دانش نے داد  و تحسین کے گل بوٹے نچھاور کئے۔ ان کے قلم جاد ورقم سے ایسی گراں قدرتصانیف منظرعام پر آئیں جو دامن ادب میں ایک اہم اضافہ تھیں  ان میں بہت سے صاحب علم ایسے تھے کہ جن کی تصانیف اپنی اہمیت اور افادیت کی بنا پر شامل نصاب رہیں ہیں۔

اودھ کا مرکز لکھنؤشمالی ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کا زیبا ترین،حسین ترین اور دلکش ترین نمونہ ہے۔ برہان الملک نواب سعادت علی خان نے اودھ میں اپنی حکومت قائم کی۔جن کے جانشین صفدر جنگ ہوئے۔ان کے بعد شجاع الدولہ(۱۱۲۲ھ تا ۱۱۸۸ھ مطابق  ۱۷۵۳۱ء تا ۱۷۷۵)،آصف الدولہ (۱۱۸۸  تا  ۱۲۲۱ھ  مطابق  ۱۷۷۵  تا  ۱۷۹۷ ء)،اور سعادت علی خان نے (۱٦۱٦  تا  ۱٦٦۹ھ مطابق ۱۷۹۷ تا ۱۸۱۴۱ء)اودھ پر حکومت کی لیکن یہ سب وزیر کہلائے۔۱٦٦۹ ھ میں غازی الدین حیدر وزیر الملک ہوئے۔انہوں نے انگریزوں کے بہکاوے میں آ کر بادشاہ کا لقب اختیار کر لیا۔ان کا عہد حکومت ۳۴۲۱ھ(۱۸٦۷ء)تک تھا۔اسی عہد میں اہل علم و دانش کی ایک کثیر تعداد اودھ میں موجود تھی،انہیں میں سے ایک ہندو شاعر موہن لعل انیسؔ بھی تھے۔انیسؔنے اپنی زندگی میں تین نوابوں یعنی آصف الدولہ،سعادت علی خان اور غازی الدین حیدر کا دور دیکھا تھا۔غازی الدین حیدرؔ کو انہوں نے نواب سے بادشاہ بنتے بھی دیکھا تھا چونکہ اودھ میں خوشحالی اور امن و امان کا دور دورہ تھا۔حکومت کی طرف سے ادباء و شعراء کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کی جاتی تھی اس لئے اس عہد میں ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔گھر گھر مشاعرے ہوتے اور ادبی  محفلیں سجائی جاتی تھیں۔

            انیس بھی اسی سر زمیں میں سریواستو کایستھ گھرانے  میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام کنورسین اور دادا کا نام اودیھراج تھا۔انیسؔ کا تعلق پرگنہ گوپہ مؤ کے قانون گو طولہ رام سے بھی تھا۔اس بات کا ذکر بھگوان داس ہندیؔ نے اپنے تذکرہ  “سفینۂ ہندی” میں کیا ہے: “موہن لعل انیسؔ تخلص ولد کنور سین از فرزندان تولہ رام قانون گوی پرگنہ گوپا مؤ من مضافات خیراباد است(۱)”۔ انیسؔ کسی اونچے گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے تھے چنانچہ وہ اپنے تذکرہ ”انیس الاحباء“  میں لکھتے ہیں:”نہ از مرزایان ایران است،نہ از زیان ہندوستان، ہندوی از متوسطان خطہ لکھنؤ است“(۲)

انیس کے جدبزرگواراودیھراج اوائل عمر سے ہی اپنی ملازمت کی و جہ سے لکھنؤ میں مقیم ہو  گئے تھے اور انیس یہیں پیدا ہوئے۔اس سلسلے میں بھگوان داس ہندیؔ لکھتے ہیں:” خودش در لکھنؤ تولد و نشوونما یافتہ”(۳)۔     پروفیسر نبی ہادیؔ بھی  اپنی کتابDictionary of Indo-Persian Literatureمیں لکھتے ہیں:

Anees lived in Lucknow and remained engaged in literary activities till the advanced age of ninety”.(۴)

            انیسؔ کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں کوئی حتمی اطلاع فراہم نہیں ہوتی لیکن مصحفیؔ نے اپنے تذکرہ “ریاض الفصحا”میں لکھا ہے کہ:”عمرش بہ ہفتاد رسیدہ و مزۂشعرش نہ گردیدہ”(۵)۔مصحفیؔ نے اپنا تذکرہ ۱۲۲۱۔۶۳۲۱ کی مدت میں مکمل کیا  اور انکی اس تحریر سے پتا چلتا ہے کہ جب وہ تذکرہ لکھ رہے تھے اس وقت انیسؔ کی عمر ۰۷ سال کی تھی  ا س لحاظ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انیسؔ کی پیدائش ۱۵۱۱ سے ۶۶۱۱ کے درمیان ہوئی ہوگی۔

            انیسنے اپنی ابتدائی فارسی کی تعلیم کریم داد خاں رونقؔ سے حاصل کی جس کا ذکرانہوں نے اپنے تذکرہ   انیس الاحباء میں کیا ہے۔انیسؔ نے فن شاعری کے ساتھ ہی عروض و قافیہ کی تعلیم بھی مرزا فاخر مکینؔ سے حاصل کی۔انیسؔ مرزافاخر مکینؔ کے سب سے قریب ترین شاگردوں میں سے تھے، انہوں نے اپنے دیوان میں مکینؔ کا تذکرہ کچھ اس طرح کی ہے::

بہ میدان سخنگویان انیسؔاصلاًمترس از کس

بہ شعراوستاد تو چون حضرت مرزا مکینؔ باشی(٦)

            انیسؔ نے اپنی شاعرانہ زندگی کے آغاز میں خستہ ؔ تخلص اختیار کیا  پھر جب وہ شتاب راے کے عشق میں مبتلا ہو ئے تو  بیتاب ؔ تخلص کر لیا۔شتاب رای خود شاعر تھے اور انکا تخلص عزیزؔ تھا۔انیسؔ کی شتاب رای سے محبت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک غزل لکھ ڈالی جس کی پوری ردیف ہی شتاب رای ہے،غزل اس طرح  ہے:’

             سر گشتہ ام چو باد برای شتاب رای

ہر شو شتافتم بہوای شتاب رای

از ہوش رفت ہر کہ بدیدست یک نظر

                         چشمان مست ہوش ربای شتاب رای

گر من شدم ہلاک نمایدند دوستان

گور مرا بہ صحن سرای شتاب رای

ناز و ادا گذاشتہ ناز و ادا چو دید

ناز و ادای،ناز و ادای شتاب رای

از ماہ و مہر کاسہ بدستش بود مدام

بہتر بود ز شاہ و گدای شتاب رای

گرجان دہد و گر بستاند رضای اوس

من راضیم بجان بہ رضای شتاب رای

ہمدم زمن مپرس بشوق کہ جان دہی

جان میدہم بہ شوق لقای شتاب رای

دست شما و گردن معشوق خود بکام

ای عاشقان سر من و پای شتاب رای

دشنام اگر ہزار دہد از سر عتاب

ناید ز ما بغیر دعای شتاب رای

خواہم کہ جان کنم بسر پای او فدا

ہر کس کہ سر نمودہ فدای شتاب رای

گل می کند ز شوق قبا در چمن قبا

تا دیدہ است تنگ قبای شتاب رای

گر صد جفا کند نرود از درش انیسؔ

باشد بہ از وفا چو جفای شتاب را(۷)

فارسی اساتذہ میں انکی ملاقات شیخ علی حزینؔ ،شمس الدین فقیرؔ اور نور العین واقفؔ سے ہوئی تھی۔ شیخ علی حزیںؔ کے کہنے پر انہوں نےاپنا پرانا تخلص بدل کر انیسؔ تخلص اختیار کیا جو انکی زندگی کے آخری وقت تک قائم رہا۔انہوں نے اپنی تمام غزلوں اور اصناف شاعری میں  انیسؔ  ہی تخلص لکھا ہے۔ غلام ہمدانی مصحفیؔ اپنے تذکرہ عقدثریاّ میں لکھتے ہیں:

(۸)””از مرزا فاخر مکینؔ استفادۂ شعر و لوازم آن کردہ،فقیرؔ او را در لکھنئو دیدہ بسیار بدل گرمی پیش آمدہ

            مصحفیؔ نے انیسؔ کے کچھ اشعاربھی “عقد ثریا” میں درج کیے ہیں۔مصحفیؔ نے “ریاض الفصحا”میں انیسؔسے اپنی ملاقاتوں کا ذکرکیاہے۔انہوں نے انیسؔ کے ۱۲ اشعاروں کو اپنے تذکرہ میں درج کیا ہے۔

غنچہ دہنا سر و قدا تازہ بہارا

کن خندہ بخنداں دل چوں غنچہئ مارا

گویند بدین دیدہ خدا را نتوان دید ید

 آن کہ ترا دید بدین دیدہ خدا را(۹)

بھگوان داس ہندیؔ نے اپنے تذکرہ”سفینۂ ہندی”میں انیسؔ کے بارے میں لکھاہے:

“تحصیل کتب فارسی از رونق ؔ تخلص نمودہ،زبان بگفتن شعر کشود۔اول خستہ تخلص شتاب رای ہندو پسری عاشق گشت بیتابؔ تخلص اختیارکرد،بعد از آن  انیسؔ تخلص نمود،اصلاح شعر از جناب ارشاد مآب گرفتہ و علم ضروري شعر و شاعری و عروض و قافیہ از ان جناب درس نمودہ“۔(۱۰))

            انیسؔ کی وفات کے بارے میں بھی کوئی اطلاع فراہم نہیں ہے لیکن نیشنل لائبریری کلکتہ میں محفو ظ انکے دیوان انیسؔ کے ورق ۴۴۱ پر ۹۳۲۱ھ میں کہا ہوا انکا ایک قطعہ ملتا ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انیسؔ کی وفات ۹۳۲۱ھ کے بعد ہی ہوئی ہوگی۔ وہ قطعہ یہ ہے:

ساخت بر ساحل دریا ملک حیدر دل

طرفہ منزل کہ برورشک کند چین چہ گل

روح روح القدس از بام فلک سالش گفت

روح افزااست چہ زیبندہ  مبارک منزل

            فارسی ادب میں انیسؔ کی دو گران مایہ تصنیفات ہیں انکی پہلی تخلیق ان کا فارسی دیوان ہے۔اور دوسری اہم تصنیف   “تذکرہ انیس الاحباّء” ہے۔ انیسؔزبان کی سلاست اور طرز ادا کی سہولت کے اعتبار سے اپنے بہت سے ہم عصروں سے بہتر ہیں۔نواب صدیق حسن خان اپنے تذکرہ ”صبح گلشن“میں لکھتے ہیں کہ “انیسؔ نیک لب و لہجہ و شریں کلام بود”۔ بھگوان داس اپنے تذکرہ “سفینہ ئ ہندی”میں لکھتے ہیں “دیوان ہم می دارد و اکثر درشعر مضامین تازہ می جوید و کلام مربوط می گوید”۔

            انیسؔ کی شاعری کا اصل مرکز عشق حقیقی ہے۔ جس بات کو انیسؔ نے پر تاثیر انداز میں بیان کیا ہے۔وہ معشوق حقیقی کے عشق میں ڈوب جانا چاہتے ہیں اور اس عشق میں اس شدت سے محو ہو جانا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا اور اس کے لوازمات سے لا تعلق ہو جائیں۔ دیوان انیس کی پہلی غزل کا پہلا شعر ملاحظہ ہو:

خداوندا چنان کن بی خبر در عشق خود مارا

کہ نشاسد دل بیتاب ہرگز دین و دنیا را(۱۱)

انیس ؔنے اپنی غزل میں تصوف کے نکات بھی پیش کیے ہیں لکھتے ہیں:

من از نا دیدنت سر گشتہ ام ہر جا چہ ناز است این

کی در ہر جای و پوشیدہ می سازی ز من جارا(۱۲)

            انیسؔ نے اپنے اشعار میں اپنی پختگی اور چابک دستی کا ثبوت دیا ہے۔ان اشعار میں انیسؔ کی زبان نہایت سلیس سہل ہے تاہم نہایت موثر بھی ہے،انیسؔ نے  یہ غزل حافظ کی تقلید میں لکھی تھی:

عکس رویت شب مہتاب چون در آب افتاد

تب و تابی عجبی در دل بیتاب افتاد

صبح بر خاستی ای ماہ نشستی لب بام

لرزہ از بیم بخورشید جہاں تاب افتاد(۱۳)

            اس زمانہ میں فارسی شاعری کی روبہ انحطاط صورت حال کو دیکھتے ہوے ئ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انیسؔکی شاعری قابل ستائش ہے۔انیسؔ لکھنؤ کے شاعر تھے اگرچہ انہوں نے ریختہ گوئی سے پرہیز کیا ہے لیکن پھر بھی ریختہ گوئی کے نشانات انیسؔ کے فارسی کلام میں ملتے ہیں۔انیسؔ کہتے ہیں:

دیدہئ افگند چو بر ناف تو اے بحر جمال

کشتیئ صبر دل خستہ بہ گردابافتاد

دید تا جلوہئ سیمابیئ ساقین ترا

اضطرابی بہ دل سیم چوں سیماب افتاب(۱۴)

            قادرالکلام شاعر ہونے کے با وجود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر میں اس ذات باری کے جمال کو لفظوں کے پیکر میں ڈھالنا چاہوں تو میرے پاس الفاظ کا وہ سرمایہ نہیں ہے جس سے اس کے اوصاف جمال کو اس طرح بیان کروں کہ انسان کے فہم سے قریب تر ہو جائے  اور انسان اس کے جمال جہاں آرا کا ادراک کر سکے کیونکہ اس کے اوصاف اتنے عالی ہیں کہ لفظوں کا دامن ان کے سامنے شکوہ کرنے لگتا ہے:

اگر خواہم ز اوصاف جمالت شمۂ گویم

شوم حیران،چہ گویم فہم انسان را کجا یارا(۱۵)

            انیسؔ راہ عشق میں پیش آنے والی مشکلات سے بھی آشنا ہیں۔ان کو معلوم ہے کہ یہ راہ پرخار وادیوں سے بھری ہے اور اس عشق کے دریا کی گہرائی اتنی ہے کہ اس میں غوطہ زن ہونے کے بعد انسان اپنے ہاتھ پیروں کو جتنا بھی حرکت دے ساحل پر پہونچنا  اس کے لئے نا ممکن ہے۔انیسؔ اس بات کو  شعری پیرایہ میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

بود  در  بحر عشقت ہر قدم  گرداب مشکلہا

چہ دست و  پا زنم  در وی کہ آن  را نیست ساحلہا(۱٦)

            انسان عشق کے بعد صبر و شکیبائی کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔اسے کسی بھی وقت قرار و سکون نہیں آتا،وہ ہر دم اضطراب و بے چینی کے عالم میں کھویا رہتا ہے اور پھر اس کا مسکن کوچۂ رسوائی  بن جاتا ہے۔انیسؔ اس کیفیت کو یوں رقم کرتے ہیں:

تا ربودی زدلم صبر و شکیبائی را

ساختی مسکن من کوچہ رسوائی را(۱۷)

            انیسؔ نے اپنی شاعری میں خدا کے صفات کو بھی بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ خدا اول بھی ہے ا ٓخر بھی، وہی ظاہر اور وہی باطن بھی ہے  اور ہر دم یہ نعرۂ مستانہ بلند ہوتا رہتا ہے کہ وہی حق ہے:

ہوالاول ہوالآخر ہوالظاہر ہوالباطن

انیسؔ از دل کشم زان چار سو صد نعرۂ ہوا(۱۸)

            مزید وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کو اپنے حسن پر ناز ہے تو یہ ناز اس کوزیب دیتا ہے اس لئے کہ دوسروں کا حسن اس کے حسن کا پرتو ہے اور اسی کے حسن کی روشنی سے دوسروں کو حسن ملا ہے:

گربزیبائی تو ناز کند می زیبد

ہست زیبائی دیگر ز تو زیبائی را (۱۹)

            غم عشق میں صبر و قرار رخصت ہو جاتا ہے لیکن دھیرے دھیرے یہی بے قراری  قرار اور بے چینی  سکون میں بدل جاتی ہے:

قرار و صبرِ دل گم کردہ ای جان در غمِ عشقت

بدست بیقراری ھا  قراری کردہ ام  پیدا(۲۰)

            وہ کہتے ہیں کہ اے دل عشق کی درس گاہ میں زانوے ادب کو  تہ کر! کیونکہ جو اس در کا  مرید ہو جاتا ہے وہ بڑے بڑے پیروں کو درس دیتا ہے۔

دلا در درس گاہ عشق زانوے ادب تہ کن

بہ پیراں درس گوید ہر کہ شد آخر مرید این جا(۲۱)

                        انیسؔ نے رباعیاں بھی لکھی ہیں جن سے انکی شاعرانہ ہنرمندی کا پتہ ملتا ہے:

اے عمر رواں من شتابان رفتی

وے راحت جان من خرمان رفتی

وقت رفتن ترا گر فتم دامان

 اؔخر ز کفم کشیدہ دامان رفتی(22)

انیسؔ نے مخمسات بھی لکھے ہیں ان مخمسات میں انیسؔ نے اپنی مہارت شعری کا مظاہرہ کیا ہے۔ایک مخمس کا پہلا بند ملاحظہ ہو:

ہمہ دلبران رعنا سر خود نہاد ہ برکف

ہمہ عاشقان شیدا سر خود نہادہ بر کف

ہمہ ماہیان دریا سر خود نہادہ برکف

ہمہ آہو ان صحرا سر خود نہادہ برکف(23)

                                                با امید آنکہ روزی بہ شکار خواہی آمد

            دوسرے خمسے:

مہر تو ازدلم نہ رود مہربان من

گر جان ز دل جدا افتد ودل ز جان من

گرد و چون خاک راہ تن ناتوان من

روزی کہ ذرہ ذرہ شود استخوان من(24)

                                                            باشد ہنوز در دل ریشم ہوای ئتو

            انیسؔنے دوسرے خمسے میں ایسی فضا بندی کی ہے جو ان کی شعری مزاج کی نشاندہی کرتی ہے۔یہاں معشوق کرشن کی صورت میں جلوہ گر نظر آتا ہے،جو دریا کے کنارے بانسری بجا رہا ہے۔

            انیسؔ نے ایک طویل ترجیع بند لکھا ہے۔جو کہ پانچ سو بیس ابیات  پر مشتمل ہے جس میں سے

بہ نسیم و آن جمال بنیم

گل از چمن وصال چینم

کی ہر بند میں تکرار ہوتی ہے۔اس ترجیع بند کا پہلا شعر اس طرح ہے:

اے قادر ذوالجلال بیچون

وزچون در چون و چند بیرون

انیسؔ نے اس ترجیع بند میں باری تعالیٰ کی قدرت کو متصوفانہ اندازمیں بیان کیا ہے۔اس ترجیع بند کا ایک بند انیسؔ نے اپنے استاد مرزا فاخر مکینؔکی ستائش کے لئے مخصوص کیا ہے۔

            انیس کے دیوان میں قطعات بھی ہیں۔اپنے کچھ قطعات میں انیسؔ نے شری رام اور کرشن سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔انیسؔ نے اپنے قطعات میں  ہندوستان کے مشہور تہواروں اور رسموں کا  بڑے موثر انداز میں ذکر کیا ہے۔ذیل میں انیسؔ کے ایک قطعہ کا پہلا شعر درج ہے  جو دسہرہ کے موضوع پر ہے:

باز دسہرہ رسید باہمہ فرخندگی

گشت دو بالا  نشاط عیش یکی شد ہزار

می رسد از چار سو نغمہئ شادی بگوش

گلشن عشرت شگفت ہر طرف و ہر کنار(25)

حواشی:

ہندیؔ،بھگوان داس :تذکرہ ”سفینۂ ہندی“مرتب،سید شاہ عطاء الرحمٰن کاکوی،ص1۶۔۱7،لیبل لیتھو پریس،رمنہ روڈ پٹنہ۔(۱)

انیسؔ،موہن لعل، تذکرہ”انیس الاحباّء“ ص۲۰۸ مطبع(۲)

                                                                                                                        تذکرہ”سفینۂ ہندی“ ص ۱۷(۳)

  ڈکشنری آف انڈوپرشین  لٹریچر  ا ز نبی ہادیؔ، ص۲۸، مطبع اندرا گاندھی نیشنل سینٹر فار دی آرٹس،۱۹۹۵ء(۴)

مصحفیؔ، غلام ہمدانی تذکرہ ”ریاض الفصحا“ ص۳۰،مطبع اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ،۱۹۸۵ء(۵)

انیسؔ،موہن لعل،دیوان موہن لعل انیس ؔ مصححہ ڈاکٹر فرحینہؔص ۳٦:مطبع  نیو پرنٹ سینٹر،دریا گنج،نئی دہلی۲۰۱۴ء(۶)

ایضاً   ص ۲۰۵۔۲۰٦       (۷)

مصحفیؔ،غلام ہمدانی،تذکرہ ”عقد ثریا“۔مرتبہ مولوی عبدالحق،ص ۱۲، مطبع انجمن ترقی اردو،اورنگ آباد(دکن)۱۹۳۴ء(۸)

دیوان انیسؔص ۲۳(۹)

سفینہ ہندی،ص۱۷(۱۰)

دیوان انیسؔ ص۳٦((۱۱

ایضاً  ص  کلہ((۱۲

(۱۳)  ایضاً      ،ص  ۱۲۱

(۱۴)انیس الاحبأ ص ۱۴

(۱۵)دیوان انیسؔ ص۳٦

(۱٦)ایضاً  ص ۳٦

(۱۷)ایضاً  ص۴۵

(۱۸)ایضاً کلہ

(۱۹)ایضاً کلہ

(۲۰)ایضا  ص  ۳۹

(۲۱)ایضاً  ص۴۰

(۲۲)ایضاً  ص۱۵۰

 (۲۳)ایضاً  ص۲۷۴

۲٦۳(۲۴)ایضاً  ص

(۲۵)ایضاً  ص۲۶۲

 (۲٦)دیوان انیس،ص  ۲۷٦