ڈاکٹر صغیر احمد
قاضی عدیل عباسی کی خدمات ہمہ جہت ہیں۔ جہاں وہ ایک کامیاب صحافی تھے وہیں ایک کامیاب مترجم بھی۔ اگر ان کو تصنیف وتالیف میں ملکہ حاصل تھا تو دوسری طرف ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا لوہا ہر کوئی مانتا تھا۔ وہ بیک وقت بلند پایہ ادیب اور مایہ ناز خطیب تھے۔ جہاں وہ اردو کی ترویج واشاعت کے لئے وہ مختلف تنظیموں میں اپنی خدمات پیش کر رہے تھے وہیں کچھہ تنظیموں کی مالی انتظام کی ذمہ داری بھی انجام دیتے تھے۔
قاضی محمد عدیل عباسی نے بستی میں انجمن ترقی اردو کی نہ صرف شاخ قائم کی بلکہ اپنے دم پر اس کو فعال اور سرگرم بھی رکھا۔ قاضی محمد عدیل عباسی اردو اکیڈمی اترپردیش کے ممبر رہے اور ایسے فعال اور سرگرم ممبر جنہوں نے اردو کی ترقی کی خاطر درجہ چھہ، سات اور آٹھ کے بچوں کے لئے تعلیمی وظائف جاری کرایا۔ وہ اس ضمن میں خود لکھتے ہیں’’اردو اکاڈمی میں گیا تو غیر ہر دلعزیزی مول لے کر اس کا رخ موڑ دیا۔ درجہ ۶،۷،۸ کو وظیفے دلوائے اور دو رابطہ آفیسر تعلیم کے جائزے کے لئے مقرر کرایا یعنی اردو کو کلاسیکی زبان بننے سے روکا اور اس کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دیا۔ 1
قاضی محمد عدیل عباسی نے مکاتب کا جال بچھا دیا۔ دینی تعلیمی تحریک سے انہوں نے مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی وہ لکھتے ہیں ’’جب تمام یوپی تھک چکا تھا اور ایک بچہ بھی اردو نہیں پڑھتا تھا میں نے تین ہزار بچے اردو کے بڑی محنت اور جانفشانی، دلیری اور خود اعتمادی کی بنا پر( پرائمری اسکولوں) میں داخل کیے جس سے اکابرین حیران ہوگئےاور تب میں نے ایک عظیم الشان صوبائی اردو کانفرنس ۱۹۵۵ ع میں بستی میں کی اور اسی بستی میں انجمن ترقی اردو اتر پردیش کی بنیاد ڈالی گئی۔ اور ایک سال کے اندر پانچ لاکھ بچے صوبہ میں اردو کے ذریعے تعلیم پانے کے لیے داخل ہوئے اور اردو کا رواں رواں ہے۔
آگے لکھتے ہیں کہ ’’جب گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سرکاری اسکولوں میں دیو مالا کی تعلیم ہونے لگی تو میں نے آزاد خود کفیل مکاتب کی بنیاد بستی میں ڈالی اور جب سب اکابرین مایوس ہوچکے تھے، ۱۵۰ مکاتب قائم کر دئے۔ یہ خبر جب رہبران ملت کو ملی تو وہ بھوچکے رہ گئے اور ان کے اصرار پر ایک عظیم الشان صوبائی دینی تعلیمی کانفرنس۳۰/۳۱ دسمبر ۱۹۵۹ کو بستی میں کی گئی۔ یہ تحریک پورے صوبے میں چلی۔ آج ۹ ہزار مکاتب قائم ہو چکے ہیں اور ان میں چھ لاکھ بچے پڑھتے ہیں۔ دین سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستگی حاصل کرتے ہیں۔ مولانا عبدالرؤف جھنڈا نگری نے نو گڑھ میں بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ اپنا خطبہ دیتے ہوئے مجھے اس تحریک کا بانی قرار دیا اور حافظ کا یہ شعر میرے اوپر موزوں کیا ؎
سر خدا کہ عارف و سالک بہ کس نگفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
(ترجمہ: خدا کا راز جو عارف سالک نے کسی سے نہیں کہامجھے تعجب ہے کہ مے فروش نے کہاں سے سنا)‘‘2
قاضی محمد عدیل عباسی نے صحافتی میدان میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مدینہ اخبار سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد اس وقت کے سب سے اہم اخبارات میں سے ایک اخبار زمیندار سے آپ وابستہ ہوئے اور اپنی صحافتی بے باکی کے پاداش میں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ قاضی صاحب نے اردو اخبارات میں مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ انگلش اخبارات میں بھی مضامین لکھے۔
اگر ہم قاضی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریری خدمات کا ذکر کریں تو اس کو ہم تین زمروں میں رکھہ سکتے ہیں۔ تصنیفی، تالیفی اور ترجمہ کا میدان
ان کی تالیفی خدمات کے ضمن میں ہم مندرجہ ذیل کتابوں کو ذکر کرسکتے ہیں۔
1 ارکان خمسہ وضروریات عشرہ
2 نماز
3 حقیقت محمدی
یہ تینوں کتابچے مولانا آزاد سبحانی کی تقریروں پر مشتمل ہیں۔ ان کو قاضی صاحب نے خود قلم بند کیا تھا اور اپنے دیباچوں کے ساتھ شائع کیا
ان کی تصنیفی خدمات مندرجہ ذیل ہیں
1 جمیعۃ المسلمین
2 علامہ اقبال کا پیغام طلبائے عصر کے نام
3 اقبال اور وطنیت
4 اردو کا استغاثہ
5 اردو کا جنازہ
6 سفر حج
7 اقبال کا فلسفہ حیات اور شاعری
8 تحریک خلافت
9 آئینہ شب وروز (ذاتی ڈائری)
9 Aspects of Politics and Society …Memoirs of a Veteran Congress Man
ان کی ترجمہ کی ہوئی کتابیں یہ ہیں
1 تاریخ تحریک آزادی ہند جلد اول
2 تاریخ تحریک آزادی ہند جلد سوم
3 بم کا نسخہ
سیاست کے میدان میں بھی قاضی محمد عدیل عباسی کی بے نیازی اور استغنا اپنی مثال آپ ہے۔ کبھی بھی قاضی صاحب نے سیاست کو حصول زر یا جاہ وحشمت کا ذریعہ نہیں بنایا۔
دینی تعلیمی کے سلسلے میں قاضی صاحب کو متعدد پریشانیاں برداشت کرنی پڑیں ۔ وہ لکھتے ہیں ؛
’’بات یہ ہے کہ جماعتوں کو اپنے کام اور فراہمی سرمایہ سے فرصت نہیں ہے۔ بیچاری دینی تعلیم تحریک دسترخوان ریزہ چیں ہے۔ اس کے لیے نہ کوئی وقت دیتا ہے اور نہ پیسہ فراہم کرتا ہے۔ اللہ اللہ! کیا ہونے والا ہے۔ پچیس لاکھ بچے جو آئندہ کی نسلیں ہیں کفر و شرک کی آغوش میں جا رہے ہیں اور علماء صاحبان کو احساس تک نہیں۔ دس بیس ہزار کے لیے نہیں اپنے وقار کے لیے البتہ جان کھوتے ہیں۔ ندوہ رہے، دیوبند رہے، اہل حدیث بنارس رہے۔ بھاڑ میں جائے قوم۔ ہائے قوم! وائے قوم‘‘ 3
دینی تعلیمی تحریک کے فروغ کے لئے چٹکی اور کھلیانی کی فکر اور عملی نمونہ پیش کرکے قاضی صاحب نےزمینی سطح پر وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کو دوہرانے میں کروڑوں روپیے خرچ کرنے کے بعد بھی مختلف سرکاری ادارے آج ناکام ہیں۔ یہ تحریک ان شاء اللہ ان کے لئے صدقہ جاریہ رہے گی۔
زندگی کے اخیر تک قاضی محمد عدیل صاحب اردو کے فروغ واشاعت کے لئے کوشاں رہے۔اختر بستوی لکھتے ہیں؛
” قاضی صاحب نے وفات سے چند روز قبل مجھ سے اپنی دو خواہشوں کا ذکر کیا تھا. اول یہ کہ وہ دینی تعلیم تحریک کو یوپی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے دوسرے تمام صوبوں میں پھیلانا چاہتے تھے اور اس کے لیے اس طرح کی کانفرنس منعقد کرنے کے متمنی تھے جس میں ہر صوبے سے نمائندے بلائے جائیں اور مختلف صوبوں کے حالات پر غور و خوض کے بعد وہاں اس تحریک کو فروغ دینے کے عملی خاکے تیار کیے جائیں۔ دوئم یہ کہ موصوف اردو کی ایک ایسی آل انڈیا کانفرنس کرنے کے خواہشمند تھے جس کی تجویزوں میں حکومت سے کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہ کیا جائےبلکہ سارےمطالبات اردو والوں سے کیے جائیں اور اپنی زبان کے تحفظ اور بقا کے لئے ان کے جو فرائض ہیں ان کا انہیں احساس دلایا جائے۔‘‘4
حواشی
1 ص 212-213 آئینہ شب وروز (ذاتی ڈائری) مرتب محمد ارشد عباسی،محمد ارشد عباسی محلہ دریا خاں، گاندھی نگر، بستی، یوپی، 2009
2 ص 311 حوالہ مذکورہ بالا
3 ص 152 حوالہ مذکورہ بالا
4 ص 38-37 حوالہ مذکورہ بالا
مراجع ومصادر
- آئینہ شب وروز (ذاتی ڈائری) مرتب محمد ارشد عباسی،محمد ارشد عباسی محلہ دریا خاں، گاندھی نگر، بستی، یوپی، 2009
- کردار کے غازی قاضی محمد عدیل عباسی، مرتب اختر بستوی، اختر بستوی، شعبہ اردو، گورکھپور یونیورسٹی، گورکھپور، یوپی 1984
- قاضی عدیل عباسی حیات وخدمات یادگار مجلہ، مرتب س ا خان، یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا، جامعہ نگر نئی دہلی،1999
- قاضی محمد عدیل عباسی، اختر بستوی، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، 1997