عبدالبصیر۔ٹی جی ٹی(اردو)
گورنمنٹ بوائز سینیئر سیکنڈری اسکول
مدنپور کھادر،نئی دہلی
اردو ادب میں مالک رام کی شناخت بحیثیت محقق اور ماہر غالبیات قائم و دائم ہے۔ مالک رام نے غالب کا اتنا وسیع مطالعہ کیا ہے کہ غالب کی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو ان کی نظر سے پوشیدہ ہو، غالب کی تمام معائب ومحاسن سے وہ بخوبی واقف ہیں جس پر ان کی تحقیقی نگارشات دال ہیں مالک رام نے وقتاً فوقتاً کچھ مضامین بھی لکھے ہیں جو مختلف اصحاب ذوق کی شخصیت سے متعلق ہیں جنہیں بعد میں مجموعے کی شکل میں”وہ صورتیں الٰہی“ کے نام سے مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نے 1974 میں شائع کیا۔ یہ مجموعہ دس خاکوں پر مشتمل ہے جس میں پہلا خاکہ”غالب“ کا ہے اور بقیہ نو خاکوں کا تعلق ان کے معاصرین سے ہے۔
مالک رام کی پیدائش ۲۲دسمبر1906 کو پنجاب کے ضلع گجرات(موجودہ پاکستان) کے قصبہ پھالیہ میں ہوئی۔ آپ12دن کے تھے کہ آپ کے والد لالہ نہال چند کا انتقال ہوگیا اور تعلیم وتربیت کی ذمہ داری والدہ نے بخوبی انجام دی۔1924 میں وکٹوریہ ڈائمنڈ جو بلی ہائی اسکول، وزیر آباد سے دسویں کا امتحان پاس کیا اور 1926 میں گورنمنٹ انٹر کالج سے انٹر میڈیٹ کا امتحان دیا،1928 میں ڈی اے وی کالج لاہور سے بی۔اے ۔کیا اور1930 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے۔(تاریخ) کی ڈگری حاصل کی اور 1931 میں ایل۔ایل۔بی۔ کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے ملازمت کا آغاز صحافت سے کیا۔ ہفت روزہ”آریہ گزٹ“ میں بحیثیت مدیر کام کیا نیز لاہور سے نکلنے والے” نیرنگ خیال “کے بھی ایڈیٹر رہے اسکے علاوہ کئی ہندی اور انگریزی اخباروں کے بھی مدیر رہے۔ 1939 میں ہندوستان میں سرکاری ملازمت اختیار کی اور برطانوی ہند سرکار کی طرف سے عراق، مصر، شام، فلسطین، سوڈان، افغانستان بیلجیم، فرانس، سوئزلینڈ جرمنی ہالینڈ اور انگلینڈ میں رہے تاہم سب سے زیادہ عرصہ مصر میں گزاری۔ آزادی کے بعد انڈین فارن سروس میں شامل ہوئے اور وزارت خارجہ حکومت ہند نئی دہلی سے25 اپریل1965 کو سبکدوش ہوئے۔ ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی کے دس برس تک اردو شعبہ کے چیرمین رہے، انجمن ترقی اردو ہند کے صدر رہے جامعہ اردو علی گڑھ سے وابستہ رہے نیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ ممبر بھی رہے۔ اسلامیات سے بہت گہرا شغف تھا”عورت اور اسلامی تعلیم“ اور ”اسلامیات“ کے نام سے کتاب بھی لکھی۔ بالآخر اردو کا یہ خادم 16 اپریل1993 کو اپنے مالک حقیقی سے جاملا۔
مالک رام نے جن اشخاص کو اپنے خاکوںکا موضوع بنا یا ہے وہ اپنے تہذیبی وثقافتی انسلاک کی بنا پر قابل توجہ ہیں۔ ان میں ایک خاص طرح کی وضع داری اور رکھ رکھاو بھی ملتا ہے۔
حالانکہ آج کے معاشرے میں جب ثقافتی اقدار کی جگہ مادی اثرات غالب آچکے ہیں، محبت، خلوص، اور مہرو وفا جیسے الفاظ اپنے اصل معنوی سیاق سے یکسر عاری ہوگئے ہیں۔ عملی زندگی میں اخلاقیات سے پہلو تہی کی جارہی ہے۔ ایسے دور میں ان شخصیات کو نشان منزل نہ سہی چراغ منزل قرار دینا بے جانہ ہوگا۔غالب ،دتا تریہ کیفی، نواب صدر یار جنگ اور نواب سائل کے خاکے صرف کسی شخصیت کی تصویر نہیں بلکہ ان میں ایک خاص تہذیب وثقافت کے نقوش کو سمویا گیا ہے۔ مالک رام نے جن افراد کو اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے ایک عرصے تک ان سے شنا سائی رہی ہے اور ان سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ لیکن اس مجلس میں غالب کی شمولیت کا کیا جواز ہے؟ مالک رام نے خود اس حوالے سے پیش لفظ میں وضاحت کردی ہے لکھتے ہیں۔
“میں آپ کو کیونکر یقین دلاوں کہ غالب سے میری اکثر ملاقات رہی ہے اور میں انہیں بھی اتنے قریب سے دیکھا ہے، جتنا ان دوسرے بزرگوں کو جن کے حالات آپ اس کتاب میں پائیں گے۔ بلکہ جسارت کروں تو کہہ سکتا ہو ں کہ دوسروں کی موت کے بعد ان سے ملاقات واقعی منقطع ہوگئی۔ غالب سے تو آج تک جاری ہے حالانکہ وہ جسدی لحاظ سے ان سب سے کہیں پہلے راہی ملک بقا ہوئے تھے۔”{۱}
مرزا غالب جو پہلے پہل “احوال غالب” (مرتبہ مختار الدین احمد،1953 ) میں اور علی گڑھ میگزین کے”غالب نمبر” میں شائع ہوا تھا۔ اس میں انہوں نے غالب کی نگارشات اور غالب پر لکھی گئی تحریروں کا کافی عمیق مطالعہ کیا ہے اور تہذیبی بصیرت اور نفسیاتی ادراک کو اس کے ساتھ آمیز کرکے غالب کی شخصیت کا ایسا مرقع پیش کیا ہے کہ ان کی شخصیت کے ساتھ شب وروز کا حال آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ اس خاکے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ غالب کا روز مرّہ کا معمول بیان کیا گیا ہے۔ غالب کے عادات واطوار اور ان کے اقتصادی وسماجی مسائل بیان کیے گئے ہیں،شاگردوں اور دوستوں سے ان کے تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
خاکے میں بہت کامیاب اور دلچسپ ٹیکنیک استعمال کی گئی ہے۔ خاکہ نگار پہلی بار1850 میں آگرے سے دہلی آتا ہے اور غالب کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔پھر دو، دو،تین،تین سال بعد دہلی آتا ہے اور ہر بار غالب کی گرتی ہوئی صحت میں ہونے والی تبدیلی اور نئے حالات کا ذکر کرتا ہے۔ اس طرح یہ خاکہ غالب کی وفات تک کے حالات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خاکے کو تخیل اور حقیقت کی آمیزش سے ترتیب دیا ہوا بہترین خاکہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ غالب نے خطوط میں کہیں کہیں اپنے بارے میں بہت مختصر الفاظ میں کچھ لکھا ہے، کچھ ان کے معاصرین نے اشارے کیے ہیں، کچھ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے اور کچھ تفصیلات غالب کی تصویروں سے ملتی ہیں۔ ان تمام منتشر اور بکھری ہوئی معلومات کو یکجا کرکے مالک رام نے غالب کی کیسی مکمل تصویر پیش کی ہے ملاحظہ کریں۔
“مرزا صاحب کا سن پچاس سے اوپر تھا۔ چوڑا چکالا ہاڑ، ڈاڑھی صفاچٹ، نازک باریک مونچھیں جنھیں تاودے رکھا تھا، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، سرخ وسپید رنگ، جس میں چمپئی دمک تھی، سر پر لمبے لمبے پٹھے، قلموں پر لٹکتے ہوئے بال، سر پر ایک پلے کی ہلکی ٹوپی جس پر کشیدے کا کام تھا، بدن پر تن زیب کا انگر کھا اور نیچے ایک برکا سپید پاجاما، پاوں میں گتھیلی جوتی، ہاتھ میں پیچوان کی سٹک تھی اور کش لگارہے تھے۔” {۲}
غالب کی شخصیت کی تشکیل میں مالک رام نے سیاسی اور ثقافتی صورت حال کو بھی مد نظر رکھا ہے اور غدر کے بعد کے حالات کو بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ موضوع بحث تو صرف غالب ہے لیکن واقعاتی اسلوب کی بنا پر پورے شہر دہلی کا منظرنامہ ہمارے ذہن میں مرتسم ہوجاتا ہے غالب کا دیوان خانہ کبھی خالی نہیں رہتا تھا۔ دو چار دوست ہمیشہ موجود ہوتے تھے دیوان خانے کی ایک تصویر ملا حظہ فرمائیں۔
“نواب شیفتہ چالیس سے اوپر تھے، ان کے چہرے سے متانت اور سنجیدگی ٹپکتی تھی، بات بہت ٹھہر ٹھہر کر کرتے تھے۔ نواب ضیاءالدین خان ان دنوں جوان تھے، تیس کے لگ بھگ ہوں گے ، بارعب کتابی چہرہ، بھری بھری داڑی، شربتی آنکھیں۔ حکیم احسان اللہ خاں اور مولانا نصر الدین دونوں بزرگ بڑی نورانی شکلوں کے مالک تھے، حالانکہ حاضرین میں سب کے سب وجیہہ اور باوقار لوگ موجود تھے، پھر بھی اس سارے مجمع میں مرزا صاحب کی شخصیت خاص طور پر نمایاں تھی۔ دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ کچھ شعر وشاعری، کچھ تصوف، کچھ قلعے کے لطیفے۔ غرض کہ دوگھڑی بڑے لطف کی صحبت رہی اس کے بعد احباب رخصت ہونے لگے۔” {۳}
غدر کی تباہی اور قتل وغارت گری کی وجہ سے دلی سُنسان ہوگئی تھی، کوئی شناسا دکھائی نہیں پڑتا تھا،غالب جیسا کثیر الاحباب شخص کا دیوان خانہ جو اُن کی عدم موجودگی میں بھی خالی نہ ہوتا تھا اس ہنگامے کے بعد خالی ہوگیا تھا لکھتے ہیں۔
“شہر میرے ملنے والوں سے خالی ہوگیا، نہ کوئی میرے پاس آنے والا یہاں موجود ،نہ میں کسی کے پاس جا سکوں۔ زندہ ہوں مگر زندگی دو بھر ہوگئی۔” {۴}
غرض یہ ہے کہ غالب پر مالک رام صاحب کا لکھا ہوا خاکہ اتنا مکمل اور دلچسپ ہے کہ اردو میں اس کی مثال نایاب ہے بقول اسلوب احمد انصاری”یہ خاکہ تخیلی تشکیل کا ایک منفرد اور نادر نمونہ بن گیا ہے۔” جو خاکہ نگاری کے باب میں کامیاب تجربہ ہے۔
اس کے علاوہ نواب صدیار جنگ، دتا تریہ کیفی، یگانہ چنگیزی، نیاز فتح پوری اور مولانا سلیمان ندوی وغیرہ کے خاکے بھی اپنے علمی اور تخلیقی اسلوب کی بنا پر قابل قدر ہیں۔خصوصاً حبیب الرحمان خاں شیروانی صد یار جنگ کا مرقع دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کیمرے سے تصویر لی گئی ہے بہت کامیاب حلیہ نگاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
” خاصالانباقد، کوئی پونے چھ فٹ کے قریب ،کسرتی جسم،سُرخ وسپید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں لمبی سوتواں ناک، خضاب لگی ہوئی بھرواں ڈاڑھی خضاب لگے کچھ دن ہوچکے تھے کیوں کہ جڑوں سے سپیدی جھانکنے لگی تھی، چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی جس سے سامنے کے دانت نمایاں ہوگئے تھے اور ان کے پان کے شوق کے غماز تھے۔ جسم پر بند گلے کا شیروانی نما گرم کوٹ اور نیچے غالباً اسی کپڑے کا پاجامہ تھا۔ سر پر ٹوپی تھی، اور اس کے اوپر منڈا سے کی شکل میں سپید شال اوڑھے تھے۔ ایسے خوبصورت اور جامہ زیب آدمی میں نے بہت کم دیکھے تھے۔” {۵}
مالک رام نے اقدار وروایات کی جانب بھی توجہ دی ہے اور شخصیات کی وضعداری اور وسعت اخلاق کو اپنے تاثرات سے آمیز کرکے ہمارے سامنے پیش کیا ہے حالانکہ اس وضاحت میں اُنھوں نے کمزوریوں کو بھی نشان زد کیا ہے اُن کا تصور شخصیت ان روایات کا امین ہے جس میں فن کار یا تخلیق کار شخصیات کی محبت وخلوص میں دبا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا، اصلاح کرنا نہ صرف بشری تقاضا ہے بلکہ ہماری تہذیب وثقافت کا حصہ بھی ہے مالک رام نے پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی کے علمی مشاغل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
“وہ جہاں بھی رہے ان کا درد فیض ہر ایک کے لیے کھلا رہا۔ شاگرد کالم پر اصلاح لینے کو آتے، کوئی طالب علم مقالہ یا کتاب لکھنا چاہتا تو اس کے لیے مسالہ جمع کرتے، کوئی مشورہ کرنے کو آجاتا، کسی کو روز مرّے یا محاورے میں شبہ ہوا تو اس کی تخلیق کے لیے رجوع کرنا، مصنف اور شاعر حضرات اپنی تصنیفات پر مقدمے اور دیباچے لکھوا کر لے جاتے۔ غرض کہ کوئی اس دروازے سے محروم اور خالی ہاتھ نہ جاتا۔” {۶}
بعض لوگوں نے “تذکرہ معاصرین” کو بھی خاکے کے ضمن میں شمار کیا ہے اور یہ غلط فہمی خاکے کے مابین فرق کو محلوظ خاطر نہ رکھنے کی بنا پر ہوئی ہے۔ عام طور پر کسی سوانحی مضمون کو سوانحی خاکہ سے بھی تعبیر کر دیا جاتا ہے۔ جس میں کسی شخص کی پیدائش سے لے کر موت تک کے حالات وکوائف کو مختصر انداز میں قلم بند کردیا جاتا ہے جسے عربی زبان میں ” ترجمہ” کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فنی طور پر خاکے کی تعریف سے باہر ہے اور بقول نثار احمد فاروقی اسے ” تذکرہ” سے تعبیر کرنا مناسب ہوگا۔
مالک رام نے اظہار کے لیے سادہ سلیس اور بامحاورہ زبان کا انتخاب کیا ہے جس میں سادگی کے باوجود سپاٹ پن نہیں جھلکتا بلکہ طرح داری ہر مقام پر برقرار رہتی ہے۔ یہی متانت و سنجیدگی ان کے متن کی ایسی خوبی ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ان کا اسلوب طنزو مزاح سے بھی عبارت ہے مگر ان کے یہاں ایک خاص طرح کا رکھ رکھاو ہے۔ جس کا وہ پاس ولحاظ رکھتے ہیں ساتھ ہی مزاح اور پھکٹر پن کے مابین فرق کو نمایاں رکھتے ہیں۔
حواشی
۱۔ وہ صورتیں الٰہی، مالک رام، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۷۴
۲۔ وہ صورتیں الٰہی، مالک رام، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۷۴
۳۔ وہ صورتیں الٰہی، مالک رام، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۷۴
۴۔ وہ صورتیں الٰہی، مالک رام، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۷۴
۵۔ وہ صورتیں الٰہی، مالک رام، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۷۴
۶۔ وہ صورتیں الٰہی، مالک رام، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی ۱۹۷۴