كلثوم بانو*
مجنوں گورکھپوری ولد محمد فاروق 10 جنوری 1904 میں پیدا ہوئے، خاندانی نام احمد صدیق، قلمی نام مجنوں گورکھپوری اورتخلص دیوانہ تھا۔ آپ علی گڑھ میں ریاضی کے پروفیسر تھے۔ آپ کی شادی 14 اکتوبر 1929 میں ہوئی۔ اولاد میں تین بیٹے اور ایک بیٹی تمیغ ہے۔
مجنوں گورکھپوری نے ابتدائی تعلیم سینٹ اینڈریوز اسکول گورکھپور میں حاصل کی۔ گورکھپور سے 1921 میں میٹرک پاس کیا، 1927 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئی اے، 1929 میں سینٹ اینڈریوز کالج گورکھپور سے بی۔ اے ، 1934 میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے (انگریزی) اور 1935 میں کلکتہ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے (اردو) پاس کیا۔ زندگی کا بیشتر حصہ کالج اور یونیورسٹی کی پروفیسری میں گزرا۔
مجنوں گورکھپوری نے پہلی بار 1925 میں افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی چنانچہ ان کا پہلا مختصر افسانہ ’’گہنا‘‘ 1926 کے ’نگار‘ میں شائع ہوا۔ مجنوں نے اپنی افسانہ نگاری کے آغاز کے بارے میں مئی 1978 کے ’افکار‘ میں تفصیل سے بتایا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانہ ’زیدی کا حشر‘ مہدی افادی کی بڑی لڑکی جمیلہ بیگم کے غصہ دلانے پر نیاز فتح پوری کے مشہور افسانہ ’شہاب کی سرگزشت‘ کے رنگ میں لکھا۔[1] یہ افسانہ جون- جولائی 1925 کے ’نگار‘ میں مسلسل چوالیس صفحات میں شائع ہوا۔ اس میں اردو اکیڈمی ناگپور سے ایک سو چالیس صفحات میں اس ایڈیشن میں شائع ہو جومارچ 1946 میں چھپا تھا اس پر ستمبر 1947 کے ’نگار‘ میں نیاز فتح پوری نے تبصرہ بھی کیا ہے۔ مجنوں نے ’’زیدی کا حشر‘‘ کو ناولٹ ہونے کے باوجود اپنا پہلا افسانہ شمار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجنوں کی افسانہ نگاری 1925-1935 پر محیط ہے ۔ 1935 کے بعد بھی مجنوں نے افسانے تصنیف فرمائے مگر ان کی تعداد نا کے برابر ہے۔ ویسے بھی مجنوں کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا جائے تو ان کے افسانوں کی مجموعی تعداد بہت زیادہ نہیں۔
نیاز فتح پوری، ل۔ احمد کے ساتھ ساتھ مجنوں گورکھپوری کے افسانہ نگاری میں یلدرم کے طرز فکر اور انداز تخئیل کا عکس بالکل واضح نظر آتا ہے۔ رومانی افسانہ نگاری میں یلدرم، نیاز فتح پوری، ل۔ احمد کے بعد مجنوں کے یہاں اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ مجنوں نے اردو کے اچھے افسانے تصنیف فرمائے ہیں۔ انہوں نےمشرقی فضا اور ماحول میں مغربی خیالات کو مدغم کرکے پیش کیا اردو افسانے میں ایک نئی چمک دمک پیدا کی۔ مجنوں نے مغربی ادب کا بغور مطالعہ کیا تھا اس لیے مغربی ادب کے لیے ان کے دل میں ایک خاص وقعت پیدا ہوگئی تھے۔ ان پر شو پنہار، گوئٹے، ہیگل اور خصوصًا ہارڈی کے اثرات زیادہ نظر آتے ہیں۔ رومانی افسانہ نگاری میں ’خواب و خیال‘ اور ’سمن پوش‘ کے افسانے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ افسانے مختلف رسائل میں بکھرے پڑے ہیں اور وہ افسانے کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔[2] ان کا پہلا افسانہ ’گہنا‘ ، ’خواب و خیال‘ اور ’سمن پوش‘ کے افسانےمختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ بعد میں انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ ان کے افسانے کے تین مجموعے جو ہمیں مگ سکے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
خواب و خیال: (1) خواب و خیال (2) مدفن تمنا (3) بیگانہ، (4) شکست بے صدا (5) محبت کی قربانیاں (6) صناع کا راز (7) گوہر محبت (8) ظفر کا باپ۔
اس کی ابتدا میں انتساب نام سے عنوان باندھا گیا ہے جس میں کئی متعدد غزلوں اور اشعار کا مجموعہ اس کے بعد ’تم کو‘ کے عنوان کے تحت مجنوں نے چند صفحات میں محبت اور محبت کی ابدیت کے حوالے سے رومانوی انداز کی نثر کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ناچار مسلماں شو (کچھ اپنے متعلق) عنوان کے تحت اپنی افسانہ نگاری اور اپنی ذاتی زندگی بچپن سے لےکر تحریر کرنے تک (29 دسمبر 1931) کے مختلف مراحل کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ایک طرف انھوں نے افسانہ نگاری کے آغاز کے متعلق ، اپنی ذاتی زندگی خاص طور سے اہل و عیال کے متعلق اور پھر اپنے کثرت مطالعہ کے بارے میں گفتگو فرمائی ہے وہیں دوسری طرف اپنے طبع زاد افسانوں کے علاوہ دیگر افسانوں کے متعلق بھی کلام کیا ہے۔ کچھ افسانوں کے پلاٹ اور کردار کے بارے میں بھی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ افسانے میں جذبات و تاثرات اور تجربات عقائد کے علاوہ قنوطیت کے بارے میں بحث کی ہے۔
’خواب و خیال‘ میں طبع زاد افسانے بھی ہیں اور مغربی افسانہ نگاروں سے ماخوذ افسانے بھی۔ ہر افسانے میں ان کا ذاتی احساس، تجربہ اور مشاہدہ کار فرما ہے۔ یہ افسانے زیادہ تر واحد متکلم میں لکھے گئے ہیں اور ان میں سے کئی افسانے ایسے ہیں جن کو مجنوں گورکھپوری کی خود نوشت کہہ سکتے ہیں۔
سمن پوش : (۱) سمن پوش (۲) سبز پوی (۳) حسن شاہ (۴) محبت کا جوگ (۵) تم میرے ہو
’’سمن پوش‘ میں جتنے افسانے ہیں ان کا تعلق رومانیت سے ہے یہ اس زمانے میں لکھے گئے جب مجنوں تقدیر کے قائل تھے۔ 1922 میں ان کے خیالات میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوا۔ مجنوں سمن پوش کے دیپاچہ میں لکھتے ہیں:
“یہ پانچ افسانے میرے اور افسانوں سے مختلف ہیں۔ مرکزی تصور اور بنیادی میلان میں بھی وہی ہے جو میرے اور افسانوں میں ہے لیکن ان میں فضا اور پس منظر بدلا ہوا ہے۔ ان افسانوں کا تعلق قیاس اور فرض دنیا سے ہے جن کا نام عالم ارواح رکھا گیا ہے۔”[3]
“میرے افسانے رومانی مدرسے کی چیزیں ہیں اور ان کا تعلق نفسیاتی انفرادیت سے ہے میں اب تک جتنے افسانے لکھے ہیں سب کا تعلق بظاہر محبت سے ہے۔ افسانوں میں فکر و تاملی کا ایک میلان ضرور ملے گا جو غالب اور حاوی ہوگا۔”[4]
مجنوں کے افسانے: (1) ہتیا (2) گہنا (3) حسنین کا انجام (4) مراد (5) جشنِ عروسی (6) بڑھاپا (7) کلثوم (8) محبت کا دمِ واپسیں
مجنوں کے تقریبًا سارے افسانے عشقیہ ہیں اس لیے پلاٹ کے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ ان کا انداز عمومًا ایک سا ہے۔ یلدرم، نیاز فتح پوری اور ل۔احمد کی طرح مجنوں نے بھی محبت کے موضوع کو اپنایا لیکن انہوں نے اسے ایک فلسفی کی نظر سے دیکھا۔ اسی نظر سے زندگی کا مطالعہ بھی کیا۔ سماج کو وہ محبت کا دشمن سمجھتے ہیں۔ مجنوں کی رومانیت میں الم کا دخل زیادہ ہے۔ ان کے افسانے اکثر درد انگیز انجام پر ختم ہوتے ہیں۔ ان کی محبت کامرانی سے آشنا نہیں۔ سماج کے قید و بند محبت کے راستے میں حائل ہیں۔ ان کے کرداروں نے تہذیب و ملت اور طبقاتی اونچ نیچ کے فرق اور اختلاف یا سماجی رشتوں کی نزاکت کی پرواہ کیے بغیر محبت کی ہے لیکن سماجی قانون ہمیشہ ان کی راہ میں حائل ہوئے ہیں۔ انہوں نے انسانی زندگی کو فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔
مجنوں کے اکثر کردار پڑھے لکھے اور ذہین ہوتے ہیں ہوتے ہیں۔ جو شاعر، ادیب، فلسفی، رائٹر، پروفیسر یا کسی اخبار کے ایڈیٹر ہوتےہیں۔ ان کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس میں ادبیت اور شعریت ہوتی ہے۔ کردار حرکت و عمل سے زیادہ غور فکر سے کام لیتے ہیں۔ ان کے کردار بات بات پر بر محل اشعارپیش کرتے ہیں جن سے لطافت میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کے مکالمے فلسفے کی ٹھوس بحثوں سے پر ہیں لیکن جہاں یہ ٹھوس بحثوں سے خالی ہیں وہیں بے حد دلچسپ ہیں۔
مجنوں قصے کو بیانیہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب منفرد ہے۔ مجنوں کی زبان مصرب و مغرس نہیں جو نیاز فتح پوری اور ل۔ احمد کے وہاں ہے۔ تشبیہات و اشتعارات اور تراکیب بھی نہیں ہیں جو جملوں کو معمہ بنادے۔ ان کی زبان سادہ وسلیس ہے لیکن تحریر شعریت میں ڈوبی ہوئی ہے جس میں ادبیت اور لطافت ہے۔ ان کی زبان عربی و فارسی سے بوجھل نہیں۔ جملے صاف ستھرے اور رواں ہوتے ہیں۔ مجنوں، نیاز فتح پوری سے متاثر ہوئے اور ان کے طرز تحریر کے مداح بھی ہیں لیکن مقلد نہیں۔ مجنوں نے لطافت تحریر پر توجہ صرف کی لیکن ان کی لطافت کا معیار دوسروں سے مختلف ہے۔ ان کے یہاں لمس لذتیت نہیں ہے نہ ہیجان انگیزی ہی ہے۔
گہنا: گہنا مجنوں کا مختصر افسانہ ہے اور یہ ہمارے پاس موجود تیسرے مجموعہ ’مجنوں کے افسانے‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعے کو کتابی شکل میں عالمی میڈیا پرائیویٹ لمیٹیڈ، دہلی نے شائع کیا ہے اور ہمارے پاس اس کا پاکٹ بکس سائز میں 2014 میں شائع ہونے والا دوسرا ایڈیشن موجودہے۔ افسانہ ’گہنا‘ جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ جون 1926 میں ’نگار‘ میں شائع ہوا تھا۔ مجنون اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
“گہنا میرا دوسرا افسانہ ہے لیکن پڑھنے والا محسوس کرے گا کہ خیالات اور زبان و اسلوب بیان کے لحاظ سے ’زیدی کا حشر‘ اور ’گہنا‘ میں کوئی قرابت نہیں ہے حالانکہ دونوں کے درمیان صرف ایک فاصلہ ہے۔”[5]
اس افسانہ کا ہیرو ہریش چندر ایک سربر آوردہ اور ممتاز رئیس ہے۔ اس کے والد رام چندر اپنی سخاوت، ہمدردی اور خلق دوستی کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے اپنے اکلوتے لڑکے کو تعلیم دلائی اور جس سال ہریش چندر کو بی۔اے کی ڈگری حاصل ہوئی اسی سال اس کے والد کا فالج کی وجہ سے انتقال ہوجاتا ہے۔ بی۔ اے کرلینے کے بعد ان کے والد کی خواہش انہیں بیرسٹری کے لیے انگلستان بھیجنے کی تھی۔ اسی لیے مرنے والے کی آخری خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہریش چندر مزید حصول تعلیم کی غرض سے انگلستان جاتا ہے لیکن جانے سے پہلے اس کی شادی ایک علاقہ دار کی اسی لڑکی سے طےکردی جاتی ہے، جسے اس کے والد رام چندر اپنی زندگی میں ہی منتخب کرگئے تھے۔ جس روز شادی کی رسم ادا ہونے والی تھی اسی روز جم غفیر کے ساتھ رادھا جس کی عمر اس وقت سولہ سترہ سال سے زیادہ نہ تھی ، ہریش بھون میں آتی ہے جو پہلے سے شادی شدہ اور اسی گاؤں کے ایک گوالہ کی بیٹی ہے۔ اس کی خوبصورتی کو یوں بیان کیا گیا ہے:
“……اس کی صورت دلکش تھی، اس کا رنگ کافوری تھا، جو آنکھوں میں خیرگی نہیں بلکہ ٹھنڈک پیدا کرتا تھا۔ آنکھیں ہرنوں کی سی تھیں جو بڑے بڑے بے حس کو چند لمحوں کے لیے جذبات سے معمور کرسکتی تھیں۔ رادھا کو دیکھ کر یونانیوں کی ہیبیؔ یاد آجاتی تھی۔ ’’سرخ کہکشاں‘‘ اِس بات کی گواہ تھی کہ وہ کسی کی مخصوص ملکیت ہے۔”[6]
مگر وہاں پر موجود عورتیں جب رادھا کی خوبصورتی کو دیکھتی ہیں تو اپنی بے مائگی سے آگاہ ہوجاتی ہیں۔ مگر اپنی بے بنیاد فوقیت کو برقرار رکھنے کی بھی کوشش کرتے ہوئے طرح طرح کی باتیں کہنے لگتی ہیں۔ ہریش چندر کی ماں رادھا کی ماں سے کہتی ہے “اس چاند کے ٹکڑے کو تو زیور وں میں تلا ہونا چاہیے۔ کیسی پیاری صورت پائی ہے مگر افلاس بھی بری چیز ہے۔” تو ایک اور عورت کہتی ہے کہ “اس کو تو کسی راجہ کے گھر جنم لینا چاہیے تھا۔” ان سب باتوں کو سننے کے بعد رادھا دلبرداشتہ ہوجاتی ہے۔اور اس کے چہرے پر اداسی چھا جاتی ہے۔
رادھا ہریش بھون سے دلگیر لوٹتی ہے کیوں کہ وہاں پر موجود عورتوں نے جہاں اس کی خوبصورتی کو سراہا تھا وہیں رادھا کو اس کی مفلسی کا احساس بھی دلا دیا تھا۔ اس کا شوہر رام لال جب اپنی بیوی کو افسردہ اور مضمحل پاتا ہے تو بے چین ہو اٹھتا ہے اور رادھا کی پریشانی جاننے کے بعد اس کے سر پر ہاتھ پھیرتےہوئے تسلی دیتا ہے:
“لیکن ایشور نے تم کو ایسی پونجی دی ہے جو ہر آدمی کو نصیب نہیں ہوتی۔ تمہارا پھول سا رنگ روپ گہنوں کا محتاج نہیں۔ تم اس کے لیے اپنا جی نہ کڑھاؤ‘‘ رام لال نے اپنی زبان میں وہ سارا فلسفہ بیان کردیا جو شاعر نے اتنی کاوش کے بعد اس شعر میں بیان کیا ہے ؎
تکلف سے بری ہے حسنِ ذاتی!
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے؟‘‘
مگر رادھا کو یہ تسلی زیادہ دنوں تک خوش نہیں رکھ پاتی اور وہ پھر سے اداس رہنے لگتی ہے جسے دیکھ کر رام لال اپنے جذبات کی غیرت سے مجبور ہوکر اس بات آمادہ ہوجاتا ہے کہ کسی طرح رادھا کے لیے کپڑے اور گہنے مہیا کرے گا ۔ رام لال کہتا ہے:
“……میں جارہا ہوں تا وقتیکہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں گا اِس گھر میں قدم نہ رکھوں گا۔ پورے چار برس میرا انتظار کرنا۔ اگر اس درمیان میں نہ لوٹوں تو سمجھنا کہ زندہ نہیں ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس مدت سے بہت پہلے واپس آؤں گا۔”[7]
تین سال بعد ہریش چندر بیوی کی بیماری کی اطلاع سن کر ہندوستان آتا ہے۔ بیوی کچھ دن بیمار رہکر مرجاتی ہے۔ ہریش چندر رادھا سے محبت کرنے لگتا ہے اس دوران رادھا بھی ہریش چندر کی واردات قلب کا اثر قبول کرلیتی ہے۔ اور پھر ایک دن ہریش چندر اس سے اپنی محبت کا اظہار بھی کردیتا ہے۔ رادھا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے:
“میں بیاہی ہوں‘‘ رادھا نے نظریں نیچی کرکے جواب دیا۔ وہ جانتی تھی کہ بیاہی عورت چیز نہیں، اور اس جواب سے اس کو امید تھی کہ ہریش چندر خاموش ہوجائیں گے۔ ’’مجھے معلوم تھا میں نے دیدہ و دانستہ یہ حماقت کی ہے۔ میں تم کو چاہتا ہوں، اور چاہتا رہوں گا خواہ تم کو پاسکوں یا نہ پاسکوں۔”[8]
یہی نہیں رادھا رام لال کے غائب ہونے پر ہریش چندر سے شادی بھی کرلیتی ہے کہ اچانک ایک دن رام لال کپڑے زیور اور روپئے لے کر واپس آتا هے۔ رادھا کے پاس جاتا ہے رادھا کہتی ہے:”
یہ تم ہو یا تمہارا بھوت؟بڑا دھوکہ ہو! اب معاملہ کو زیادہ طول نہ دینا ورنہ حیرانی اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ مجھے صبر کرو۔ میں آج دوسرے کی ہوں۔ سمجھو کہ میں مرگئی۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ صدمہ تم برداشت نہیں کرسکوگے۔ لیکن تقدیر سے کون لڑسکتا ہے۔ اس جھگڑے کو یہیں چھوڑ دو میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔
رام لال ایک حرف بھی نہیں بولا وہ ایک بے معنی نگاہ سے رادھا کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے سکون کو اضطراب سے بدل کر جس طرف سے آیا تھا اس طرف چلا گیا۔”[9]
ہریش چندر کو جب معلوم ہوتا ہے کہ رام لال واپس آگیا ہے تو وہ رادھا سے کہتا ہے:
“تم رام لال کی گہنگار ہو، میری نہیں۔ اس کے حقوق مقدم ہیں۔ تمہارا پہلا فرض یہ ہے کہ تم اس کے پاس چلی جاؤ۔”[10]
رادھا نے ہریش چندر سے بہت منتیں کرتی ہے کہ وہ اسے اپنے پہلو میں رکھ لے اپنی محبت کا بھی واسطہ دیتی ہے لیکن ہریش چند انکار کردیتا ہے۔ اور وہ رادھا کو بار بار اصرار کرکےہریش بھون سے نکلنے پر مجبور کردیتا ہے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ گاؤں کا کونا کونا چھان مارتی ہے مگر رام لال کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ اسی عالم میں وہ اسٹیشن کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اس کو اطلاع ملتی ہے کہ آج دوپہر کے وقت ایک آدمی گاڑی سے کٹ کر ہلاک ہوگیا ہے۔ رادھا موقعہ واردات پر جاتی ہے تو اس کو رام لال کا مردہ جسم ملتا ہے ۔اور اس طرح رادھا رام لال کے پاس پہنچنے سے پہلے اس کو کھودیتی ہے۔ اسٹیشن ماسٹر لوگوں کی موجودگی میں رادھا کو ایک گٹھری دیتے ہوئے کہتا ہے:
“اس میں کچھ کپڑے، زیورات اور تین سو روپئے ہیں جو مرنے والے کے ساتھ پاگئے ہیں۔”[11]
رام لال جو جو سرمایہ رادھا کو آراستہ دیکھنے کے لیے جمع کرتا ہے وہی آج اس کو جلانے اور برہمنوں کو کھلانے پلانے میں صرف ہوتا ہے۔
ہریش چندر کی زندگی میں اچانک سے تبدیل ہوجاتی ہے اوروہ خود کو رام لال کا قاتل سمجھنے لگتا ہے۔ لہذا وہ اب ہریش بھون کو چھوڑ دیتا ہے اور رام لال کے گھر میں جاکر رہنے لگے۔ ذریعہ معاش کے طور پر کھیتی باڑی کو اپنا لیتا ہے۔رادھا خون کے آنسو روتی رہتی ہے اور وہ ہریش بھون میں ہریش چندر کی ماں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ دن تو کسی مصروفیت میں گذر جاتا ہے مگر رات کو اسے نیند نصیب نہیں ہوپاتی۔
مجنوں کے کردار خود اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جلتے ہیں۔ وہ مروجہ اخلاقی ، مذہبی اور سماجی پابندیوں کو ملحوظ نہیں رکھتے بلکہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود بھی زندگی سے حد درجہ غیر مطمئن رہتے ہیں۔ زندگی سے بیزاری اور ناآسودگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لیے وہ زندگی کو خون میں لتھڑا ہوا دیکھتے ہیں:
“وہ (ہریش چندر) اپنے کو اس قابل سمجھنے لگے تھے۔ رام لال کی خیالی تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے رہنے لگی جو ان سے خون بہا طلب کررہی تھی۔ آٹھ روز تک ہریش چندر اپنے کمرے سے باہر نہیں آئے، نیند حرام تھی اور کھانا پینا برائے نام۔ درد دیوار سے ان کو وحشت ہورہی تھی۔ گوشہ میں ان کو خون کی چھینٹیں نظر آرہی تھی۔ شبیدہ کو ایک نہایت مہیب اور ڈر اونی ہیبت میں پیش کررہا تھا۔”
فن کے لحاظ سے اس افسانہ کو کامیاب افسانہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا پلاٹ فراق گورکھپوری کا تیار کیا ہوا ہے اور ہارڈی کے افسانہ ’’Tess‘‘ کے مبہم تاثرات بھی اس میں نمایاں ہیں۔ جس کا ذکر خود مجنوں نے کئی بار کیا ہے۔ اس افسانہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مشرقی ہندوستان کے ماحول و معاشرت کی مکمل عکاسی کرتا ہے اور اس کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ ہندوستانی عورتوں کی زیورات سے والہانہ محبت اور اس کی خواہش۔اور مجنوں نے اسی کو بنیاد بناکر اپنے افسانے کی عمارت تیار کی ہے اور پھر افسانہ موافق اور ناموافق حالات سے گذرتا ہے اور یکے بعد دیگرے واقعات رونما ہوتے ہیں حتی کہ یہ واقعات المیہ کی صورت اختیار کرجاتے ہیں اور افسانہ المیہ کی منزل پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر اس افسانہ کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افسانہ کا پلاٹ ہی واقعہ کا پلاٹ ہے۔
اس کے پلاٹ کے بارے میں مجنوں نے کئی جگہوں پر خامہ فرسائی کی ہے وہ لکھتے ہیں:
“پریم چند، میں اور فراق ایک ہی فلیٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ گرمیوں کا زمانہ تھا…… ہم صحن میں لیٹے ہوئے تھے تو فراق نے کہا کہ بھائی ٹامس ہارڈی کے رنگ میں ایک افسانہ لکھا جائے لیکن افسانہ ٹامس ہارڈی کا نہ معلوم ہو، ہندوستانیت اس میں ہو۔ پھر انھوں نے ایک رف خاکہ تیار کرکے بتایا۔ بات ختم ہوگئی۔اس کے بعد میں چلا آیا اپنے، گاؤں۔ پریم چند بنارس چلے گئے۔ پھر میں الہ آباد آگیا مگر بھول گیا۔ پھر میں نے ایک ہی نشست میں یہ افسانہ ’گہنا‘ کے عنوان سے لکھ دیا اور نیازؔ کو کو بھجوادیا۔”[12]
ناچار مسلماں شو میں ایک جگہ ’گہنا‘ کی ہی پلاٹ نگاری سے متعلق لکھتے ہیں:
“… جب میرا فسانہ ’’گہنا‘‘ نگار میں شائع ہوا تو ایک تبصرہ نگار نے لکھا کہ یہ فسانہ منشی پریم چند کے ہندی فسانہ ’بھوشن‘[13]سے بلا حوالہ دیے ہوئے لے لیا گیا ہے۔ مجھے بڑی ہنسی آئی۔ خدا جانے میرے دوست پریم چند کو کچھ لطف آیا یا نہیں۔ ’گہنا‘ کا پلاٹ در اصل میرے عزیز دوست پروفیسر رگھوپتی سہائے فراقؔ ایم، اے کا تیار کیا ہوا ہے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ان کے ذہن میں یہ پلاٹ آگیا۔ انھوں نے مجھ سے بھی اس کا ذکر کیا ور پریم چند سے بھی۔ اور دونوں سے کہا کہ اس قسم کا ایک فسانہ لکھنا چاہیے۔ پریم چند کو فرصت تھی، انھوں نے مجھ سے کھ پہلے ہندی میں لکھ ڈالا لیکن آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میرے فسانہ اور ان کے فسانہ کے ڈھانچ کہاں تک مشابہ ہیں اور وہ مجھ سے کس حد تک زیادہ کامیاب رہے۔”[14]
اسلوب کے لحاظ سے ان کا یہ افسانہ بہترین ہے۔ اس میں نہ فلسفیانہ بحثیں ہیں اور نہ عربی و فارسی کے الفاظ کی کثرت ہے۔ زبان رواں دواں ہے جو نہایت سادہ اور سلیس ہے ۔ اور مجنوں کی ایک اور خصوصیت جو ہمیں ان کے ہر افسانے میں نظر آتی ہے وہ بھی اس افسانے میں نہیں ہے یعنی اردو اور فارسی کے اشعار کا استعمال۔
یہ افسانہ ٹامس ہارڈی کے رنگ میں لکھا گیا ہے لیکن اس طرح ٹامس ہارڈی کا معلوم نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں نہ تو حقیقی ٹریجڈی کے عنصر پائے جاتے ہیں نہ ان کا غم ’تخلیقی غم‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بظاہر یاسیت کے افسانوں میں تصنع کوشش اور آورد کی صریح موجودگی کسی حقیقی حزنیہ تاثر کے پیدا کرنے میں مانع ہوتی ہے۔ اس لیے افسانے کے حزنیہ تاثر میں کمی ہے۔ جہاں تک دلچسپی کا تعلق ہے قاری افسانہ کو ختم کیے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔ کہانی کا انجام المیہ ہے۔ رام لال مجبور بیوی کی افسردگی دور کرنے باہر جاتے ہے۔ ادھر رادھا ہریش چندر سے شادی کرلیتی ہے، رام لال خود کشی کرلیتا ہے۔ ہریش چندر کی زندگی بھی المیہ موڑ اختیار کرلیتی ہے۔ وہ بالکل تارک الدنیا ہوجاتا ہے۔ رادھا ہمیشہ کے لیے محبت کی آگ میں جھلستی رہتی ہے۔ کردار ہمیشہ نا آسودہ رہتے ہیں۔ اب ذرا مجنوں صاحب سے اس افسانہ کے بارے میں سنیے:
“میرے حساب سے ’گہنا‘ کو بہت پسند کیا گیا مجھے بھی یہ افسانہ پسند تھا لیکن میں نا آسودہ بھی تھا۔ ’گہنا‘ میں ’ٹیس آف ڈائیورس‘ کے کچھ آثار تو آگئے تھے مگر ٹیس۔۔۔۔۔۔ کی باتیں کچھ اور تھی۔”[15]
خواب و خیال: مجنوں کا نظریۂ محبت ان کے ہر افسانے میں سامنے آتا ہے۔ ان کا ماننا ہے محبت کو شادی کے ساتھ ضم نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ محبت اور شادی کو الگ الگ خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک محبت ایک جذبہ ہے اور شادی ایک کاروبار۔ مجنوں کا خیال ہے کہ محبت شادی کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ ثریا، رادھا شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی ہیرو سے محبت کرتی ہیں جو اخلاقی، مذہبی اور سماجی نقطۂ نظر سے اچھا نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس میں رومانی اور دلکشی ضرور ہے۔ رمانی اور دلکشی میں مجنوں کے طرز بیان نے اور بھی اضافہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مجنوں نے اس قسم کی محبت دکھانے کے لیے اپنے کرداروں کو عمومًا پڑھا لکھا رکھا ہے۔ جنھیں سماجی، مذہبی اور ماحول کی پابندیاں بے معنی لگتی ہیں۔
یہ افسانہ واحد متکلم میں لکھا گیا ہے۔ افسانے کا ہیرو نسیم جس کی عمر پندرہ سال ہے اس کا خیال ہے اس عمر میں اس کو اس قدر زیادتی کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے کہ غور و فکر کی پوری صلاحیت پیدا ہوگئی ہے۔ اور اس کو زندگی میں صرف تاریک پہلو ہی نظر آتا ہے اور اس کو ہر طرف موت کھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہ اسی دوران اس کی پھوپھی جن کی شادی چالیس کوس دور گونڈہ ضلع ہوئی تھی اپنی بیٹی ریحانہ کے ساتھ اس کے گھر تشریف لاتی ہیں۔ ریحانہ کی خوبصورتی دیکھتے ہی نسیم اس میں کھوجاتا ہے۔ اور اس کو یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ریحانہ کی نگاہیں بھی اس کا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔ اس سے پہلے اس کا مشغلہ کتابوں کا مطالعہ کرنا اور اسی سے دل بہلانا تھا۔ مگر ریحانہ جب اس کو محبت کا احساس دلاتی ہے اور کہتی کہ دنیا میں محبت بھی کوئی چیز ہے اور اس کے تجربہ میں بڑی راحت ہے۔ تو اس کو کتابوں سے زیادہ محبت میں سکون ملتا ہے اور اس طرح دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر ریحانہ کی شادی لکھنؤ کے کسی متمول اور تعلیم یافتہ خاندان میں ہوجاتی ہے۔ ریحانہ کی شادی کے بعد نسیم اپنے غم غلط کرنے کے لیے پھر سے کتابوں میں کھو جاتا ہے۔ اور کچھ بری صحبت میں پڑ کر اس کا معدہ خراب ہوجاتا ہے۔ والدین ہر طرح کا علاج کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ لکھنؤ کا رخ کیا جائے۔ اور لکھنؤ میں اس کے رشتہ کے چچا ابو طاہرجوایک کالج میں فارسی کے پروفیسر ہیں ان کے وہاں قیام کرے۔ یہیں ثریا اس کی زندگی میں داخل ہوتی ہے جو شادی شدہ ہے اور ہیرو کے رشتہ کی چچی بھی ہے۔ ثریا نسیم کی تیمار داری میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی اوروہ بہت جلد صحت یاب ہونے لگتا ہے۔ نسیم ثریا اور ریحانہ کا مقابلہ کرنے لگتا ہےگرچہ ثریاریحانہ سے خوبصورتی میں مار کھاجاتی ہے مگر خوب سیرتی کے معاملہ میں ثریا ہی غالب رہتی ہے۔مکمل صحت یابی کے بعد یہ طے پاتا ہے کہ نسیم یہیں رہ کر بی۔ اے کسی کالج میں پڑہے اور اس کے بعد نسیم ثریا کے گھر رہ کر اپنی آگے کی پڑھائی جاری رکھتا ہے۔ دن گذرنے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ نسیم ثریاکا گرویدہ ہوتا جاتاہے اور بالآخر ایک دن موقع پاکر اپنی محبت کا اظہار بھی کردیتا ہے اور ساتھ ہی ریحانہ کا واقعہ بھی بیان کردیتا ہے۔ اس کے بعد ثریا اس سے ہم کلام ہوتی ہے اور محبت کے تاثرات کو یوں بیان کرتی ہے:
“تو تم کو محبت کا تجربہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ میں ریحانہ سے واقف تو نہیں ہوں مگر اتنا جان گئی کہ …… وہ محبت نہیں کرسکتی ورنہ وہ دوسرے کی بیوی ہوکر بھی تمہاری محبت کرسکتی تھی۔ محبت ایک لطیف اور پاکیزہ جذبہ ہے۔ جس کو دنیا کی کثافتوں سے کوئی سروکار نہیں خیر یہ جان کر مجھے بڑی راحت ملی کہ تم محبت کرسکتے ہو اور میری محبت کرتے ہو۔ …… میں خود تمہاری جیسی محبت کرتی ہوں اس کو میرا دل جانتا ہے۔…… اگر تم جیسا کہتے ہو دنیا واقعی دل جلوں کی ایک انجمن ہے تو اس میں محبت ہی ایسی چیز ہے جو ہماری سوزش کو کم کیے ہوئے ہے۔ اس درد کو تم یا جانو۔”
اظہار و اقرار کے بعد یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ نسیم اپنی پڑھائی بھی جاری رکھتا ہے۔ بی۔اے کا دوسرا سال چل رہا ہوتا ہے کہ نسیم کی شادی طے ہوجاتی ہے۔ اور یہ خبر اس کو عجیب خلفشار میں مبتلا کردیتی ہے۔ جس کا ذکر وہ ثریا سے بھی کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ دل میں تمہارا خیال لیے میں دوسری عورت کے ساتھ پیمان وفا باندہ کر خوش گوار زندگی بسر کروں میرے لیے یہ ممکن نہیں۔ میں ایسی شادی سے انکار کرتا ہوں۔ مگر ثریا پھر سے اس کو اپنے تحکمانہ انداز میں سمجھاتی ہے:
“تم دیکھتے نہیں میری بھی تو شادی ہوچکی ہے۔ لیکن کیا میں تمہاری محبت نہیں کرتی۔ شادی تو دنیا کا کاروبار ہے، اس سے اور محبت سے کیا سروکار ہے؟”
اور ایک دن وہ بھی آتا ہے جب نسیم کا نکاح ہوجاتا ہے اور ثریا بھی اس میں شریک ہوتی ہے، پھر دوسال کے بعد رخصتی ہوتی ہے تو نسیم اپنی بیوی کو لے کر حیدرآباد منتقل ہوجاتا ہے۔ نسیم اور ثریا کے درمیان خط و کتابت کا سلسلسہ جاری رہتا ہے مگر رفتہ رفتہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ثریا سے بے خبر ہوجاتا ہے۔مگرثریا پر عزم اصولوں والی عورت ہے جو آخری وقت تک نسیم کی محبت کا دم بھرتی رہتی ہے یہاں تک کہ دق کا شکار ہوجاتی ہے۔ اپنے آخری خط میں لکھتی ہے جو جذبات نگاری اور کردار نگاری کی عمدہ مثال ہے:
“میری زندگی کی آخری تمنا یہ ہے کہ تم کو مرنے سے پہلے ایک بار جی بھر کر دیکھ لوں شاید تم کو یہ بھی گوارا نہیں۔ ؎
گرچہ الطاف کے قابل یہ دل زار نہ تھا
لیکن اس جور و جفا کا بھی سزاوار نہ تھا
مجھے معلوم ہے کہ تم آؤگے او ر روتے سر پیٹتے آؤگے مگر اس وقت جب کہ نہ تم مجھے دیکھ سکوگے اور نہ میں تم کو۔ نسیم کیا یہ ممکن نہیں کہ دو دن کے لیے مجھے آکر دیکھ جاؤ اور اپنی صورت مجھے دکھا جاؤ۔ اگر بیوی کی تنہائی کا خیال دامن گیر ہے تو انہیں بھی ساتھ لیتے آؤ۔ میں اس حالت میں بھی ان کے آرام کا کافی خیال رکھ سکتی ہوں۔
تمہاری خستہ ورنجور ثریا۔”
نسیم کو جیسے ہی یہ خط ملتا ہے وہ ثریا سے ملنے کے لیے بے چین ہوجاتا ہےاور فورًا لکھنؤ کے لیے روانہ ہوجاتا ہے۔ ثریا بستر مرگ پر پڑی چمڑا اور ہڈی ،اور موت اور تاریکی کا مجسمہ ہوکر رہ گئی ہے ۔ ثریا نسیم کو دیکھتے ہی رودیتی ہے اور اس کی زبان سے یہ شعر جاری ہوتا ہے:
نہ سمجھا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
اور چند دن کے بعد ہی ثریا دنیا کو الوداع کہہ دیتی ہے۔ نسیم اپنی محبت کو سینے میں دبائے دنیا کے کاروبار میں دوبارہ مشغول ہوجاتا ہے اور اپنی اس روداد محبت کو قلم کے حوالے کرکے کہتا ہے:
جو دل سے نکل گئی وہ چاہت کیا تھی!
بن کر جو بگڑ گئی وہ صورت کیا تھی!
اللہ رے یہ دن مجھے بھی کہنا ہی پڑا!
اک خواب و خیال تھا محبت کیا تھی
’خواب و خیال‘ مجنوں کے خالص طبعزاد افسانوں میں ہے۔ مجنوں نے خود فرمایا ہے کہ:
“خواب و خیال نے مجھے خاصا رسوا کیا لوگ اس کو یقین کے ساتھ میری اپنی سرگذشت سمجھنے لگے اور مجھے اس پر اپنے آپ میں دھوکا ہونے لگا۔”
افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ محبت اور رشتہ میں کوئی تعلق نہیں۔ افسانے میں رومانی اور ازدواجی تعلق دو حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نسیم اور ثریا اپنی ازدواجی زندگی میں مشغول رہتے ہوئے ایک دوسرے سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ ثریا کے کردار کے بارے میں مجنوں لکھتے ہیں:
“اپنے افسانوں میں میں نے ثریا نام کی دو عورتیں پیدا کی اور دونوں پر مجھے فخر ہے ایک ’’حسن کا انجام‘‘ والی ثریا اور دوسری ’’خواب و خیال ‘‘والی ثریا جس نے مرتے دم تک اپنے پندار، نسوانیت اور وقار، معصومیت دونوں کو قائم رکھا۔ میں نے خود ثریا کو ٹالسٹائے کے ’ایننا کربنتا‘ سے زیادہ جلیل اور جید کرتا پاتا ہوں۔”[16]
افسانےکے مکالموں میں برجستگی، سادگی و سلاست کے ساتھ فارسی و اردو اشعار کا استعمال کثرت سے ہوا ہے مگر ان کے برمحل استعمال سے ان مکالموں کی دل آویزی اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ افسانے کے کردار کبھی اشعار میں جواب دیتے ہیں، تو کبھی مثال کے طور پر شعر پیش کردیتے ہیں۔ دورانِ مکالمہ شعر کا استعمال اس طرح ہوا کہ وہ مکالموں کا جزو لا ینفک بن جاتا ہے کہ اسے کسی صورت ہٹایا بھی نہیں جاسکتا۔ چنانچہ نسیم کا افسانہ پڑھنے کے بعد ثریا کہتی ہے:
“میں نے رات کو اپنے دماغ پر بڑا زور دیا اور ساری رات جاگنے کے بعد تمہارے افسانے کے جواب میں یہ شعر کہہ پائی:
اپنی تاثیر کھو نہیں سکتی
ہاں وفا خاک ہو نہیں سکتی‘‘
جس کی وجہ یہ دکھائی ہے کہ ثریا تعلیم یافتہ مہذب شعر و شاعری کا شوق رکھتی ہے جس کو موسیقی سے بھی دلچسپی ہے۔
اس طرح کی متعدد مثالیں ہیں جن سے ثریا کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ملتا ہے، چنانچہ نسیم کی جب شادی طے ہوجاتی ہے تو وہ بیقرار ہوجاتا ہے اور ثریا سے ملاقات پر کہتا ہے:
“ثریا میرا دل دھڑکتا ہے کہ دیکھو ہماری محبت کا انجام کیا ہوتا ہے؟ میں تمہارا نقش دل سے کبھی مٹا نہیں سکتا۔ یہ شاید ہم دونوں کے لیے برا ہو۔”
ثریا نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:
لطف دنیا کا جب اٹھاؤگے
دو ہی دن میں وہ بھول جاؤگے
سوال کے جواب میں ثریا کا ایک شعر اس وقت کس قدر معنویت رکھتا ہے جو طویل مکالموں میں بھی پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح جب نسیم اپنی بیوی کے ساتھ حیدرآباد کے لیے روانہ ہوتا ہے تو دوروز ثریا کے یہاں ٹھہرجاتا ہے اور ثریا جب نم آنکھوں سے گذشتہ صحبتوں کے متعلق سوال کرتی ہے نسیم کہتا ہے:
“ثریا تم شاید یہ سمجھ رہی ہو کہ میں تم کو بھول گیا ہوں اور تم سے بے وفائی کررہا ہوں۔ کیا اس کے کہنے کی ضرورت ہے کہ میں تم کو اب بھی چاہتا ہوں اور اسی طرح چاہتا ہوں۔ ہاں صورت حال ضرور بدلی ہوئی ہے۔”
ثریا نے بات کاٹ کر کہا:
نہ کرو اب نباہ کی باتیں
تم کو اے مہربان دیکھ لیا‘‘
اس شعرکو ثریا نے اس طرح برمحل اور برجستہ کہا ہے کہ پڑھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس نے اسی دن کے لیے اس شعر کو یاد کیا تھا اور جیسے ہی اس کو موقع ملا اس کو کہہ دیا۔
افسانے میں اکثر اشعار ثریا کی زبان سے ہی ادا کیے گئے ہیں۔ ایسا خیال گذرتا ہے کہ ثریا کی یہ عادت ہے کہ وہ اکثر نسیم کے سوال کا جواب شعر پڑھ کر ہی دیا کرتی ہے ،اقتباس ملاحظہ ہو:
” ………میں نے پوچھا۔ ’’کیوں ثریا یہ کیا حال ہے؟ اور تم نے یہ کیا کیا؟ اس نے جواب دیا: میں فرمایا:
صرفِ غم ہم نے نوجوانی کی
واہ کیا خوب زندگانی کی‘‘
افسانے کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شکوہ شکایت کے لیے بھی شعر پڑھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب نسیم ثریا سے ملنے اس کے گھر پہنچتا ہےتو ثریا یہ شعر پڑھتی ہے:
نہ سمجھنا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
محبت سے متعلق نسیم اور ثریا دونوں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ ثریا کا خیال ہے کہ :
“محبت ایک لطیف اور پاکیزہ جذبہ ہے۔ جس کو دنیا کی کثافتوں سے کوئی سروکار نہیں‘‘[17]
“محبت انسان کے دکھ میں بھی ایک خاص لذت پیدا کردیتی ہے۔ اور دل و جگر کی جراحتیں اس کے لیے سرمایۂ راحت بن جاتی ہیں۔”[18]
نسیم کا خیال ہے:
“محبت کو میں ہمیشہ دنیا کے سبب سے واقعات کی طرح ایک آنی و فانی سمجھتا رہا اور اب میرا عقیدہ اور بھی پختہ ہوگیا ہے ثریا کے ساتھ محبت کرکے رہا سہا بہم بھی خاک میں مل گیا۔”
آہ سارا جہاں غلط
دوستی کا ہے ہاں گماں غلط
کم از کم دنیا میں محبت کی اصلیت بس اتنی ہے۔”[19]
افسانے میں زندگی کے سنگین حقائق سے سمجھوتہ کرنے کا بھی خیال موجود ہے، نسیم کہتا ہے:
“……دنیا کے ہنگامے میں یوں کیا کم دم گھٹانے والے ہیں جو محبت کی شورشوں کا ان میں اضافہ کیا جائے۔ کم از کم میرے کلیجے میں اتنا خون نہ تھا میں ایک نہ ملنے والی چیز کی تمنا کو زیادہ عرصے تک اپنے دل میں پرورش کرتا۔”
’خواب و خیال‘ ایک طبع زاد افسانہ ہے جس میں مجنوں نے نسیم اور ثریا کی محبت کی جو کیفیت بیان کی ہے اس میں اضطراب کے ساتھ محبت کو اس نقطہ پر پہنچادیاہے جس پر پہنچنے کے بعد اس کا علاج وصل کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ اور یہ کیفیت نسیم سے زیادہ ثریا کے یہںموجود ہوتی ہے۔ خواب و خیال پر وقار عظیم کا گراں قدر تبصرہ ملاحظہ ہو:
“خواب و خیال میں نسیم کی محبت کا جو انداز دکھایا گیا ہے اس میں اضطراب کو بہت زیادہ دخل ہے دونوں ایک دوسرے کو جان سے زیادہ چاہتے ہیں، خصوصًا ثریا کی محبت ایسے نقطہ پر پہنچ گئی ہے جس کا علاج سوائے وصل کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ لیکن حالات کی صورت ایسی ہے کہ ثریا اور نسیم میں جدائی ہونی ناگزیر ہے چنانچہ یہی ہوتا ہے۔ ثریا زبان سے نہ کہے لیکن دن میں مختلف قسم کے جذبات کا ہیجان اور اضطراب ہے آخر میں وہ انتہائی کشمکش کے بعد جس نتیجہ پر پہونچتی ہے وہ اس کی جان لے کر رہتا ہے اور افسانہ حزن و یاس کا مرقع بن جاتا ہے۔”[20]
’خواب و خیال ‘میں اضطراب و المیہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ مجنوں کے نزدیک وصل کی کوئی اہمیت نہیں ۔ مجنوں کے افسانوں میں اگر وصل ہوبھی جاتا ہے تو یہ وصل محبت کے المیے کو کم نہیں کرسکتاہے۔ مجنوں محبت میں وصل پرجدائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ محبت کی تکمیل صرف موت سے ہوتی ۔ چنانچہ مجنوں کے اکثر افسانوں میں ہم اس تجربہ سے گزرتے ہیں۔ ’خواب و خیال‘ میں بھی ہم کو اس تجربہ کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ثریا اپنے دل میں محبت کو بسائے اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے۔ اور اس افسانے کا اختتام بھی المیہ پر ہی ہوتا ہے۔
شکست بے صدا: یہ افسانہ بھی واحد متکلم میں لکھا گیا ہے۔ مگر مجنوں کے دوسرے افسانوں کی طرح اس افسانے کے دوران بھی کئی جگہ واحد متکلم کا نام سامنے آتا ہے اوروہ نام ہے پروفیسر ظہیر کا ۔ مجنوں نے دوسرے افسانوں کی طرح اس افسانے میں بھی تمہید سے کام لیا ہے مگر یہ تمہید بڑی لمبی ہے۔ ’شکست بے صدا‘ کا ہیرو ناصری ہے جو ایک مالی حیثیت سے ایک خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر وہ ہر وقت بے چین رہتا ہے اور ہر وقت ایک نامعلوم چیز کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ خدا اس کو اس نازو نعمت سے محروم کرکے افلاس و گداگری میں مبتلا کردے۔ ناصری ان سب خیالات کی وجہ سے اپنے آپ کو کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رکھتا ہے ۔ جب کہ اس وقت اس کی عمر محض بارہ سال ہوتی ہے۔ تبھی اس کے اندر اس کی پھوپھی زاد بہن زبیدہ کی محبت سوزش پیدا کرتی ہے اورپھر ناصری زبیدہ کی محبت کا اسیر ہوجاتا ہے اور اس کے اشاروں پر چلنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی ذات سے بھی بالکل بے خبر ہوجاتا ہے ۔ اسی مدہوشی میں پانچ سال گذر جاتے ہیں۔ زبیدہ اس سے کہتی ہے:
“جب تک کہ مقلب القلوب میرے سینے میں اس دل کی جگہ کوئی دوسرا دل نہ رکھ دے گا میں تم کو اسی جوش کے ساتھ چاہتی رہوں گی۔ میری زندگی اگر کسی اور کے سپرد کی گئی تو میں مٹ کر رہ جاؤں گی۔”
ناصری زبیدہ کی ان پیار بھری باتوں اور پیمان وفا میں آکر دین و دنیا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ مگر ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب مقلب القلوب زبیدہ کے سینے میں دوسرا دل رکھ ہی دیتا ہے۔ اور زبیدہ کی شادی طے ہوجاتی ہے۔ زبیدہ پر اس کا تو کوئی خاص اثر نہیں پڑتا مگر یہ صدمہ ناصری پر پہاڑ بن کر ٹوٹتا ہے اور اس کی رگ رگ کو ہلادیتا ہے۔ آخر ایک دن زبیدہ کی شادی ہوجاتی ہے۔ ناصری کا شکستہ دل کے ساتھ مضمحل اور غمگین رہنے لگتا ہے ۔ ناصری کے والد اس کی مرضی کے خلاف زبردستی شادی کرادیتے ہیں۔ وہ بچپن سے ہی اپنے والد کے فیصلے کے مخالفت کرتا ہے اور اس بار بھی وہ اپنے باپ کے فیصلے کی خلاف ورزی تو نہیں کرپاتا مگر اپنی بیوی سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اور پھر سے اپنی کتب بینی اور فلسفیانہ غور و فکر میں مشغول رہنے لگتا ہے اور شاعری بھی کرنے لگتا ہے ۔ ایف۔ اے پاس کرنے کے بعد صحت کی خرابی کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔
ایک روز والد سے ان بن ہوجاتی ہے اور ناصری وطن چھوڑ کر شاہجہان پور میں ایک اسکول میں ملازمت کرلیتا ہے ۔ یہاں منتقل ہونے کے بعد ناصری کو افسانہ نویسی کا شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ افسانہ لکھنے لگتا ہے یہاں تک کہ افسانہ نگاری میں اپنا الگ مقام پیدا کرلیتا ہے۔ پھر اس کے مذاق میں تغیر ہوتا ہے اور افسانہ نگاری سے ہٹ کر اس کا رجحان فلسفہ اور تنقید کی طرف ہوجاتا ہے۔ فلسفیانہ اور تنقیدی مضامین اس کثرت سے لکھتا ہے کہ پروفیسر اور طلبہ بھی اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اسی دوران ناصری لکھنؤ جاتا ہے اور اس کی ملاقات والد کے دوست مرزا رفیع سے ہوجاتی ہے جو ناصری کو اپنے گھر پر رہنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔ ناصری ان کے مکان میں منتقل ہوجاتا ہے اور یہیں پر ناصری کی ملاقات پہلی مرتبہ ’شکست بے صدا‘ کی ہیروئن طلعت سے ہوتی ہے۔ طلعت کو دیکھتے ہی اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور جسم میں ایک نئی روح دوڑ جاتی ہے۔ اور سب سے خاص بات یہ ہوتی ہے کہ دونوں کی دلچسپیاں بھی مشترک ہوتی ہیں۔ ناصری طلعت سے محبت کرنے لگتا ہے۔ چونکہ ناصری اس محبت میں ایک بار دھوکہ کھاچکا ہے اس لیے وہ اظہار محبت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا :
“……میں نے قسم کھالی کہ اپنے دل کے راز کا اظہار کبھی نہیں کروں گا اور نہ اظہار کی کوئی ضرورت محسوس کرتا تھا۔ میرا اعتقاد تھا کہ اگر اپنے جذبات کو دل ہی میں پوشیدہ رکھ لیا جائے تو ان کی الوہیت بڑھ جاتی ہے۔”[21]
ایک دوسری جگہ لکھتا ہے:
“اظہار محبت تو میں غیر ضروری بھی سمجھتا تھا۔ کیوں کہ اگرچہ میں بھی عشق کو شیفتہ کی طرح انسان کی ’تہذیب نفسی‘ کے لیے ضروری سمجھتا ہوں لیکن بقائے عشق کے لیے یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ مناکحت یا کسی دوسری رسمی زنجیر میں جکڑ کر فوراً محبوب کو اپنی ملکیت بنالیا جائے۔”
طلعت نے اس جوش کو غلط سمجھا اس کے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ ناصری محبت کی پذیرائی کے لیے تیار نہیں ہے۔ دوسرے جب اس کو یہ پتہ چلتا ہے تو وہ دل برداشتہ ہوکر خورشید سے شادی کرلیتی ہے ناصری طلعت کے خیالی پیکر سے اپنا دل بہلاتا ہے۔ تین سال بعد خبر ملتی ہے کہ خورشید نے اپنی ہوس پوری کرکے طلعت کو بے یار و مددگار چھوڑدیا۔ ناصری طلعت سے ملتا ہے اسے اپنانا چاہتا ہے۔ لیکن طلعت طنز بھرے لہجے میں ناصری سے مخاطب ہوتی ہے:۔
“آپ نے اس وقت مجھے پناہ میں لینے کا ارادہ کیا ہے جب کہ در اصل نہ مجھ کو پناہ کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی پناہ کی مستحق ہوں۔ کیوں ناصری صاحب آخر آپ نے اس وقت اس سادگی اور خلوص کے اپنے جذبات کا اظہار کیوں نہ کردیا جب کہ میں آپ کی زبان سے ایک حرف قسم سننے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ مجھے تو اس کا پورا علم ہے مگر آج آپ کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں فی الحقیقت خورشید کی نہیں بلکہ آپ کی ستائی ہوئی ہوں۔”
طلعت ناصری سے وعدہ لے کر کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ رفیقانہ زندگی بسر کرے گا ،دوسرے دن وہ خود کشی کرلیتی ہے۔ ناصری طلعت کی وصیت کو یاد کرکے اپنی بیوی کو لے آتا ہے۔ تین سال بعد بیوی بیمار ہوکر مرجاتی ہے۔ اس طرح اس افسانے کا اختتام بھی ٹریجڈی ہی پر ہوتا ہے۔ ناصری اپنے دوست سے کہتا ہے، جو رومانیت کی ایک بہترین مثال ہے:
“میں نے محبت کی اور اس کو کھو بھی چکا ہوں مگر محبت کی لذت اب تک مجھ کو مل رہی ہے۔ ظہیر کیا تم یقین کروگے اگر میں کہوں کہ میں ستاروں کی چمک میں آفتاب کی تابش، چاند کی صباحت میں، صبح کے کافوری نور میں، شام کی شفق میں غرض کہ ساری کائنات میں، طلعت ہی کے جلوے دیکھتا ہوں۔ میں ہر لمحہ اسی کو اپنے سے قریب پاتا ہوں تم اسی کو طلعت کی یاد کہوگے میں اس کو طلعت سمجھتا ہوں۔”
محبوب کے خیالی پیکر سے محبت کرنا اور ان کو پوجنا رومانی ادیبوں کی ایک خصوصیت ہے جن کو ہر چیز میں محبوب کی تصویر نظر آتی ہے۔ حسن کی پرستش کا یہ انداز اپنی دلکش اور لطافت سے پر ہے۔
مجنوں کا نقطۂ نظر کہ محبت بلا ازدواج کے قائم رہ سکتی ہے ان کے افسانے میں آتا ہے۔ ناصری بھی طلعت سے پوچھتا ہے:
“تو کیا ہماری محبت بلا ازدواج بلا کسی قسم کی آلودگی کے قائم نہ رہ سکتی تھی۔ محبت کا تعلق روح سے ہے اس کو مادی علائق سے کیا نسبت؟”
مجنوں نے محبت کو ہمیشہ ہر افسانہ میں حیرت و غم یا مرگ بے بس پر ختم کیا۔ ناصری بھی طلعت سے جاملتا ہے اور ان کی محبت کامرانی سے آشنا نہیں۔ انہوں نے محبت کو ایک فلسفی کی نظر سے دیکھا ہے جو زندگی کے حقائق کا مشاہدہ کرکے انسان کی بے بسی اور اس کے درد و غم کی فلسفیانہ تاویلیں کرتی ہے۔
ناصری (شکست بے صدا کا ہیرو) نسیم (خواب و خیال کا ہیرو) وقت سے پہلے جوان ہوجاتے ہیں۔ نسیم پندرہ سال کی عمر میں ریحانہ سے محبت کرنے لگتا ہے۔ ریحانہ اس کے اندر محبت کی آتش خاموش پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ناصری کی زندگی میں بھی بارہ سال کی عمر میں زبیدہ داخل ہوتی ہے جو اس کو محبت سے آشنا کراتی ہے۔ اس طرح دونوں وقت سے پہلے جوان ہوجاتےہیں۔ بقول محمد حسن:
“اور جب وہ اپنے معصوم تصورات کو شکست ہوتے دیکھتا ہے تو خود بھی اپنے آپ کو تکلیف دینے اور عذاب میں مبتلا کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ ریحانہ، شمیم، ناصری اور نسیم وغیرہ سب اپنی شکست کی آواز ہیں۔”
جہاں تک افسانے کے انداز بیان کا تعلق ہے اس میں ایک طرح کی دلکشی ہے۔ جملے برجستہ اور رواں دواں ہیں۔ اس میں بھی وہی مخصوص طرز تحریر ہے۔ جس میں اثر کا عنصر زیادہ ہے۔ برجستہ اشعار کے استعمال سے افسانے کے حسن میں اور اضافہ ہوگیا۔ افسانے میں رواں فلسفیانہ بحث اصل کہانی سے کٹی ہوئی ہے۔ داستان گوئی کے اثرات کے تحت دو تین ضمنی قصے بھی جوڑے ہوئے ہیں جن کا اصل کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ہیرو کے احساسات اور جذبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہانی شروع ہونے سے پہلے تقریبًا 28 صفحات تمہید کے طور پر لکھے گئے ہیں جس میں فلسفیانہ بحث مشہور شاعروں، ادیبوں و مفکروں کے قول اور اشعار بھی نقل ہوئے ہیں۔ مثلاً:
“ولس (Welis) کا قول ہے کہ ناآسودگی زندگی کی روح رواں ہے۔ برناڈ شاہ آسودگی کو موت سمجھتے ہیں۔ بیدل بھی ’عالم آسودگی کو جنون خیز بتاتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ انسان کی زندگی میں سکون کی تمنا کرنا ایک فعل ہے۔ ممکن ہے سکتہ یا سیات کے مریضوں کو کبھی کبھی آسودگی نصیب ہوجاتی ہو مگر ان کے سوا کوئی صحیح اور توانا آدمی ایسا خوش نصیب نہیں ہوسکتا۔
مطلبے گر بود از ہتی تمہیں آزاد بود
اک خواب و خیال تھا مجھے کیا تھی
میں نے آسودگی کی تلاش میں ایک مدت تک اپنے نفس کی غلامی کی ہے۔ ایک عمر آسودگیوں میں گذار چکا ہوں۔ میں کوئی واعظ یا پندگو نہیں ہوں۔ آسکر وائلڈ کی طرح میں بھی گناہ کو ارتقائے انسانی کا لازمی عنصر سمجھتا ہوں۔ پاسائی لفظ سے مجھے چڑ ہے۔ روحانیت مجھ کو ڈھکوسلہ معلوم ہوتی ہے۔ خیر و شر کی حیثیت میرے نزدیک اضافی ہے یونی ایک فعل جو ایک موقع پر کیا ہے کسی دوسرے موقع پر عین ثواب ہوگا۔”
افسانے میں جگہ جگہ شاعرانہ لطافتوں کے پہلو بہ پہلو فلسفیانہ اور حکیمانہ موشگافیوں کی کمی نہیں ہے۔ جو اپنے اندر علمیت لیے ہوئے ہیں لیکن اس علمیت کا افسانوی آرٹ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بھی خاص ان کے ہر افسانے میں موجود ہے لیکن اس سے انداز بیان میں تاثیر اور دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ افسانہ جس کے بارے میں مجنوں لکھا ہے کہ:
“یہ میرے خالص طبع زاد افسانوں میں ہے اس کے لیے تہہ دل سے اس موسوے کا ممنون ہوں۔‘‘
شکستن ہم نہ برد از شیشہ دمن بے صدائی ہا۔”
محبت کی قربانیاں: کملاوتی اور شمیم ایک دوسرے سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ اچانک افسانہ ایسا موڑ لیتا ہے جہاں خوشی ناکامی، غم اور افسردگی میں بدل جاتی ہے۔ شمیم محبت میں ناکام ہوکر سیاست میں پناہ لیتا ہے اور وطن کے لیے محبت کی قربانی پیش کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سیاست انہماک غم کو بھلادیتا ہے۔ اس نے کملاوتی کو لکھا:
“خیریت یہ ہے کہ سیاسی زندگی بھی بڑی محویت اور خود فراموشی کی زندگی ہوتی ہے۔ اپنےدرد کو بھولنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ سارے زمانے کا درد دل میں لے کر بیٹھے رہو آج اگر میں کانگریس کی شورش میں منہمک نہ ہوتا تو تم سے جدا ہوکر سانس لینا دشوار ہوجاتا۔‘‘
اس افسانے میں بھی شادی کی راہ میں مذہب حائل ہوجاتا ہے۔ کملاوتی کا بھائی شمیم کو دھمکی دیتا کہ اگر وہ شادی سے باز نہ رہا تو کملاوتی کو زہر دے کر ماردے گا۔ کملاوتی کی شادی ہوجاتی ہے۔ شمیم لکھنؤ چلا جاتا ہے۔ لیکن بہت بیمار تھا، جانبر نہ ہوسکا خون تھوکتے ہوئے مرگیا۔ کملاوتی کا شوہر ایک حادثہ میں مرجاتا ہے۔ کملاوتی شمیم کی یاد کو دل سے لگائے ہوئے ستیہ گرہ میں شامل ہوجاتی ہے۔ اپنا غم دور کرنے کے لیے کملاوتی بھی سیاست کو اپنی زندگی بنالیتی ہے۔ یہ قنوطیت تاثیر پیدا نہیں کرتی۔
کملاوتی کو بھی شمیم سے جدا ہوکر زندگی کا مفہوم سمجھ میں نہ آتا تھا اور وہ شمیم سے وہ ایک نامعلوم مدت کے لیے جدا ہوگئی تھی۔
وہ چھٹے ہم سے جس کو پیار کریں
جبر کیوں کر یہ اختیار کریں
کملاوتی اب میں محبت کا اہل شاید نہیں جو شخص محبت کو عنقا سمجھنے لگا وہ بھلا کیا کرسکے گا۔ میں نے محبت کی اور محبت کو دیکھ لیا۔ آہ!
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنس چاہ کے رومان ہونگے
افسانے کی ابتدا کرداروں کی گفتگو سے ہوتی ہے۔ مجنوں کے اکثر افسانوں کی ابتدا مکالموں سے ہوتی ہے۔ ابتدا میں نہ کسی قسم کی تمہید ہے نہ کوئی منظر نگاری بلکہ مکالمے ہیں جس سے ابتدا بڑی دلکش اور انتہائی حسین ہوگئی ہے۔ افسانے کی ابتدا درمیانی واقعات سے ہوتی ہے۔ بعد میں ابتدائی سلسلہ واضح ہوتا ہے۔
“آہستہ بولو شمیم آہستہ، نہ جانے کیوں جب تم جوش میں باتیں کرتے ہو تو میرا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ پہلے میرا خال تھا کہ تمہارا یہ سارا مجوبانہ فروش میری محبت کا کرشمہ ہے مگر اب میں سمجھی ہوں کہ تمہاری فطرت ہی ایسی ہے۔”
مجنوں کے قصے اس ماحول سے متعلق ہیں وہ کسی تصوراتی اور اور تخئیلی دنیا کی سیر نہیں کراتے۔ ان کا ماحول ہندوستانی ہے، اس افسانے میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک ہے۔ کردار وطن کی آزادی میں حصہ لیتے ہیں۔ شمیم محبت سے منہ موڑ کر ملک وقوم کی خدمت کرتا ہے وہ وطن کے لیے خود کو قربان کردینا چاہتا ہے۔
“ملک میں عدل و مساوات، انسانیت اور آزادی کے لیے جو شورش پھیلی ہے اس سے الگ رہنے کی مجھ میں تاب نہیں۔ میں اپنا خون بہادنیا چاہتا ہوں۔ اگر یہ بہا ہوا خون برادران ملک کے کام آسکے اس کے لیے میں تڑپ رہا ہوں کہ کس طرح اپنا گلا کٹا کے استبداد سے یاروں کی گلو خلاصی کرادوں۔”
کملاوتی بھی اپنی ناشاد و نامراد زندگی ایک کار خیر میں لگادیتی ہے۔ وہ شمیم کی محبت اور اس کی یاد کو دل میں لیتے ہوئے وطن کی آزادی میں حصہ لینے لگتی ہے۔
“نمک کا شور کم ہوا۔ بدیشی کا محاسبہ اور مقاطعہ شروع ہوا۔ بدیشی کپڑے کی دکانوں کا محاصرہ کرنے عورتوں میں کملاوتی سب سے آگے تھی۔ صبح و شام وہ دکانوں کے سامنے کھڑی رہتی اور لوگوں کو اپنے ’افسون التجا‘ سے بدیشی کی خریداری سے باز رکھتی۔ نہ اس کو بھوک پیاس کا ہوش تھا نہ دھوپ کا اسی بے اعتدالی کا اثر اس کی صحت پر بہت جلد پڑگیا۔ اس کو خفیف حرارت رہنے لگی۔ اب بھی کملاوتی باز نہ رہی اور شمیم کی یاد میں اپنا کام کرتی رہی۔”
یہ افسانہ رومانی ہوتے ہوئے بھی اس میں سماجی اور سیاسی حقیقتوں کو پیش کیا گیاہے لیکن سیاسی حقیقتوں کے باوجود یہ کلی طور پر رومانی ہے کیوں کہ اس کا طریق پیش کش اسلوب اور کرادروں کا ذہنی رویہ رومانی ہے۔ رومانیت اس میں اس قدر چھائی ہوئی ہے کہ سیاسی سماجی مسائل کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔
سمن پوش: مجنوں کے دوسرے رومانی مجموعے کا نام سمن پوش ہے۔ اس میں شامل افسانوں کے بارے میں مجنوں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“یہ افسانے میرے کسی روحانی جذبے یا عقیدے کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ صرف میرے وسیع مطالعے اور شدید تخئیل کا اکتساب ہے۔ 1924 سے 1930 تک میں جہاں رہا علوم و فنون کے بارے میں اپنے معلومات کا دائرہ وسیع کرتا رہا، وہیں ’آکلٹ سائنس‘ علوم باطنی اور ’فزیکل ریسرچ‘ یعنی روحانی تخلیق کا انہماک کے ساتھ مطالعہ کرتا رہا۔ انہی سب عوامل کا نتیجہ ’سمن پوش‘ اور ’حسن شاہ‘ مطبوعہ نگار 1927 ’تم میرے ہو‘ مطبوعہ موقع 1927 اور رسالہ ’جن‘ کے وہ ابتدائی چار شمارے ہیں۔ ’سبز پری‘ اور ’محبت کا جوگ‘ 1935 میں رسالہ ’جن‘ میں شائع ہوئے۔”
سمن پوش کے افسانوں کا تعلق روحانیت اور باطنیت سے ہے: مجنوں اس وقت ارواح پر کس قدر یقین رکھتے تھے۔ اس کا اظہار انھوں نے سمن پوش کے اختتامیہ مضمون ’دنیائے آب و گِل سے دور‘ میں کیا ہے۔ اس مضمون میں روحانیت کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ روح کے وجود پر زور دیا گیا ہے۔ حیات بعد الموت کے عقیدہ کو حقیقی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
“دنیا میں کوئی بات ما فوق الفطرت نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ کتنی ہی بعید از قیاس کیوں نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ آپ ایسے واقعات کو فوق العادۃ کہہ سکتے ہیں۔روحانیت کے مسائل بھی اس کے تحت آتے ہیں۔”
اس مضمون میں انھوں نے یورپ اور امریکہ کی ان انجمنوں کا ذکر کیا ہے جو اس سلسلے میں تحقیق کررہی ہیں، ان شخصیات کا ذکر کیا ہے جن کا تعاون ان انجمنوں کو حاصل تھا اور ان کا مظاہرہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ جو روحانیت کے تحت آتے ہیں۔ مثلاً تنویم دور خیال با نقل جذبات، خود نگاری اور خود مقامی غیب دانی اور ضمیر شناس وغیرہ۔
“ہمارا نفس غیر شاعر ایسے ایسے کرشمے ہم کو دکھا سکتا ہے جو ہمارے شعور خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یعنی ’نفس غیر شاعر‘ ہے جو مجرم کی مجرمانیت، دیوانہ کی دیوانگی، شاعر کی شعریت، ولی کی ولایت اور نبی کی نبوت کا ذمہ دار ہوتا۔ “
بھوت پریت، ارواح، ملائکہ، جنات اور اس قسم کے دیگر مظاہر جو ہمارے حیطہ شعور سے باہر ہیں اس ’نفس غیر شاعر‘ کے توسط سے ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔‘‘
روحانیت کے مسائل سمجھنے کے لیے عقل و ہوش کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ذوق اور وجدان میں کامیاب ذریعہ ہے۔ مجنوں کا خیال ہے:
“جب تک اس کو حقیقت کی صرف بیرونی سطح نظر آسکتی ہے جس کو اہل معنی صورت یا مجاز کہتے ہیں۔”
اس کے علاوہ بھی مجنوں کے کئی مشہور افسانے ہیں جن میں روحانیت کے عناصر کافی پائے جاتے ہیں۔ جیسے ’سمن پوش‘ اس افسانے میں روح کے وجود زور دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد انسان کی روح نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ اس کی پوری فردیت باقی رہتی ہے۔ ’سبز پری‘ افسانہ بھی رومانیت کے لحاظ سے اپنی الگ حیثیت رکھتی ہے۔ جو خوابوں کی دنیا میں ہی سیر کرتی ہے۔ ’محبت کا جوگ‘ میں سادھو کی محبت کو جس طرح اجاگر کیا ہے وہ رومانیت کا اہم پہلو واضح کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جمیل کی سرگذشت کے طور پر ’تم میرے ہو‘ اور ہولناک واقعات کے رومانی پہلو کے طور پر ’مردے نے کیا کہا‘ مجنوں کا اہم افسانہ ہے۔
مختصر یہ کہ مجنوں گورکھپوری کی رومانیت، قنوطیت اور مایوسی کی پیداوار ہے۔ ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع محبت ہے۔ ان کے یہاں محبت ایک مختصر سا لمحہ ہے اور اس کے بعد ایک مسلسل اور دائمی غم۔
مجنوں کے اس افسانے کا نمائندہ یقیناً ’سمن پوش‘ ہے۔ جو واحد متکلم میں لکھا گیا ہے اور جس میں واحد متکلم ناہید کی تصویر کی ایک جھلک دیکھ کر ہی جان دینے کی بازی پر اتر آتا ہے۔ مجنوں کے بیشتر افسانے حال سے ماضی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ ان کے کردار حقیقی زندگی سے متعلق ہیں۔ لیکن ان کا ذہنی رابطہ روحوں کے ساتھ قائم ہے۔ اور وہ اکثر اوقات ان روحوں کی تجسیم سے انھیں زندگی کی سطح پر بھی لاتے ہیں۔ مجنوں کے افسانے کے خاتمے پر جب حال کی طرف لوٹتے ہیں تو ماضی کے حالات سے حال کی حقیقت پر بھی اثر انداز ہوتےہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو مجنوں کا رومانی یوٹوپیا ماضی میں دفن ہے۔ اور وہ بار بار اس پر اسرار دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجنوں نے ماضی کی کوکھ سے ان تصویروں کو برآمد کرنے کی کوشش کی ہے جن کی جمالیاتی رعنائی زندگی کو حسن و توانائی عطا کرتی ہے۔ چنانچہ ماضی مجنوں کی رومانی پناہ گاہ ہے۔ مجنوں نے اردو کی رومانی تحریک میں سوز و گداز اور کرب مسلسل کا زاویہ پیش کیا ہے۔ لہذا مجنوں نے یقینًا اپنے عہد کے نوجوانوں کو شدت سے متاثر کیا ہے۔
* ريسرچ اسكالر، شعبه عربى، فارسى، اردو واسلاميات، ويسوا-بهارتى، شانتي نكيتن، مغربى بنگال
[1] پروفیسر مجنوں گورکھپوری، تحریر و ترتیب احمد رئیس: مجنوں کی زبانی، افکار، مئی 1978، ص 15-16
[2] پروفیسر مجنوں گورکھپوری، تحریر و ترتیب احمد رئیس: مجنوں کی زبانی، افکار، مئی 1978، ص 18
[3] سمن پوش: مجنوں گورکھپوری، دہلی، بار سوم 1946، ص 7-8
[5] اردو افسانہ اور افسانہ نگار: ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ص 44-45
[6] گہنا، ص 39
[7] گہنا، ص 41
[8] ایضا، ص 49
[9] گہنا، ص 60
[10] ایضا، ص 61
[11] ایضا ص 63
[12] پروفیسر مجنوں گورکھپوری، تحریر و ترتیب احمد رئیس: مجنوں کی زبانی، افکار، مئی 1978، ص 18
[13] ارمغان مجنوں حصہ اول (خود نوشت) مرتب صہبا لکھنوی، شبنم رومان کراچی، 1980، ص 47 پر یہ مذکور ہے کہ’’ پریم چند نے ’بھوشن‘ کے نام سے ہندی کا جامہ پہنایا۔‘‘
[14] خواب و خیال: مجنوں گورکھپوری، ص 21
[15] رومان مجنوں (خود نوشت) مربتہ صبا لکھنوی، شبنم رومانی کراچی 1980، ص 73
[16] ارمغان مجنوں، حصہ اول (خود نوشت) مرتبہ صبا لکھنوی کراچی، 1980، ص 71
[17] خواب و خیال، ص 46
[18] خواب و خیال، ص 48
[19] خواب و خیال، ص 78
[20] وقار عظیم: فن افسانہ نگاری، ص 153
[21] شکست بے صدا، ص 181 (43)