ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی علیگ
آراضی باغ ‘ اعظم گڑھ
بنت حوّا تیری عظمت تیری رفعت کو سلام
تیری پاکیزہ جبیں و تیری عفت کو سلام
تونے اسلام کی تعلیم کو پھر عام کیا
اور اسلاف کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیرکیا
گھر بنا جنت جب کی تو نے اس کی نگہبانی
پھول گلشن میں کھلا جب کی تو نےاسکی آبیاری
تو ہے وہ باغ جو شاہین سے مشہور ہوا
تیری پرواز سے سارا جہاں مسحور ہوا
تیری افکار سے دنیا کو وہ طاقت ہے ملی
پھول غنچوں میں کھلے فکر کو دولت ہے ملی
توجوسڑکوں پہ اتری تووقت کےفرعون ڈرے
تیری للکار سے طاغوت کے پرخچے اڑے
ہے ترا نام جو شاہین تو شاہین ہے تو
تیری عظمت کو نہ پہونچے کہ وہ جاگیر ہے تو
شب تاریک میں بڑھتے ہوۓ تیرے قدم
امن کی مشعلیں ہاتھوں میں اور آنکھیں پرنم
تیری ہمت تیری قدرت تیری طاقت کو سلام
تیری پرجوش تقاریر و تیری جراءت کو سلام
تونے دشمن کے عزائم سے خبردار کیا
ہٹلر شاہی کے ارادوں پر وہ وار کیا
اپنا قانون بچانے کے لۓ جب بھی چلی
ملک میں امن و اماں کی ہی سدا شمع جلی
تووہ خوشبوہےجوپورے ملک کومعطرکردے
گلدستۂ ہند کو تو مشک و عنبر کردے
یکجہتی کی مثالیں تو نے کی ہیں قائم
اور اسلاف کے قدموں پہ چلی ہے دائم
تونےوہ کام کۓ جس سے تھےغافل سب ہی
اپنی ماؤں کی روایت کو جلا ہے بخشی
تیری عزت تیری عصمت تیری شوکت کو سلام
تیری پر نور نگاہوں و بصیرت کو سلام