Main Menu

پروفیسر سید احسان الرحمٰن: حیات وخدمات

پروفیسر سید احسان الرحمٰن 1945ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش پرانی دہلی کی جامع مسجد کے ایک محلے میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مکتب میں حاصل کی اور اس کے بعد سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی پھر دہلی یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔

اس کے بعد سید احسان الرحمٰن تعلیمی میدان سے وابستہ ہو گئے اور بطور لیکچرر، تمل ناڈو میں 1970 سے اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ پھر وہ 1974ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں عربی زبان کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر سینٹر فار عربک اینڈ افریقن اسٹڈیز سے وابستہ ہوگئے۔ اس سینٹر کی ترقی میں انہوں نے فعال کردار ادا کیا۔ وہ ترجمہ اور تدریس میں مکمل مہار اور وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ لیکن جو اہم چیز انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ طلباء اور پروفیسروں کے ساتھ ان کا تعاون ہے، کیونکہ وہ ہر وقت سب کی مدد کے لئے تیار رہتے تھے اور اپنے طلباء کی بہت زیادہ ہمت افزائی کرتے تھے۔

سید احسان الرحمن  جون 1995 سے جنوری 1999 تک قاہرہ میں مولانا آزاد سنٹر فار انڈین کلچر کے ڈائریکٹر رہے۔ ان کو 2002 میں ہندوستان میں عربی زبان کے فروغ کے لیے صدر  جمہوریہ ہند کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ مجلہ ثقافۃ الہند کے ایڈیٹر بھی رہے۔ یہ مجلہ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز، وزارت امور خارجہ، حکومت ہند کی طرف سے شائع ہوتا تھا۔  سید احسان الرحمن نے عربی، انگریزی، ہندی اور اردو میں  بہت سے مضامین لکھے، اس کے ساتھ ساتھ عربی، انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں میں کئی مضامین اور کتابوں کا ترجمہ بھی کیا ۔ انہوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے اسکالرس کی رہنمائی کی اور ان کی نگرانی میں متعدد مقالات لکھے گئے۔ ان کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں بطور مثال چند نام حسب ذیل ہیں:

  1. پروفیسر حبیب اللہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔
  2. پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد، بنارس ہندو یونیورسٹی، بنارس۔
  3. پروفیسر مظفر عالم، یونیورسٹی آف انگلش اینڈ فارن لینگویجز، حیدرآباد۔
  4. پروفیسر مجیب الرحمن، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
  5. پروفیسر رضوان رحمان، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
  6. ڈاکٹر محمد قطب الدین، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
  7. ڈاکٹر محمد عفان، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری۔

پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’عربی ادب کی ممتاز ہندوستانی شخصیات میں سید احسان رحمٰن کی شخصیت سرفہرست ہے جو کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سنٹر فار عرب اینڈ افریقن اسٹڈیز کے سربراہ ہیں۔ وہ ان ہندوستانی ادیبوں میں سے ہیں جو جدید عربی زبان بولنے اور لکھنے دونوں پر عبور رکھتے ہیں۔  ان کی عربی اور ادبی ثقافت میں مزید وسعت ان برسوں کے دوران  ہوئی جب انھوں نے قاہرہ میں ہندوستانی سفارت خانے کی مولانا آزاد ثقافتی لائبریری کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے گزارے۔ ‘‘

جہاں تک تصنیف کے میدان میں ان کی خدمات اور اپنی کتابوں کے ذریعے ہندوستان میں عربی زبان کو فروغ دینے میں ان کی کوششوں کا تعلق ہے، تو اس کا اعتراف ہر کوئی کرتا ہے۔ اس کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ انہیں ہندوستان میں عربی زبان کو فروغ دینے پر صدر جمہوریہ ہند کا ایوارڈ ملا۔

ان کی کتاب  ’’الجدید فی اللغۃ العربیۃ ہےجو دو حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر ایک حصہ تیس اسباق پر مشتمل ہے۔  اس کے علاوہ ان کی  ایک مشہور کتاب ’’ٹیچ یور سیلف عربک‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے نہایت آسان اور سلیس انداز میں عربی زبان کے قواعد کو بیان کیا ہے اور ترجمہ نگاری کے فن کو مقبول بنانے کی غرض سے انگریزی سے عربی اور عربی سے انگریزی ترجمہ کے لئے متعدد پیراگراف کے ساتھ ساتھ تمارین بھی پیش کی ہیں۔ ان کی ایک اور کتاب اے ڈکشنری آف ایبریویشن انگلش عربک ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے مشہور اصطلاحات اور محاورات کو پیش کیا ہے۔ ان کی ایک اور اہم کتاب ’’لیٹ اس اسپیک عربک‘‘ ہے جو عربی زبان سیکھنے والوں کے لئے نہایت مفید اور کار آمد ہے اس کتاب میں مصنف نے عربی زبان میں بول چال کے طریقے بتائے ہیں۔انہوں نے بچوں کے نام کس طرح رکھے جائیں اس پر بھی ایک کتاب تالیف کی ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ پروفیسر احسان الرحمن نے مشہور عرب ادیب احمد امین کی سوانح حیات ’’حیاتی‘‘ کا ترجمہ اردو زبان میں ’’میری زندگی‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ طہٰ حسین کی سوانح حیات  الایام کا ترجمہ اردو زبان میں کیا ہے اور اسی طرح فجر الاسلام کا ترجمہ بھی اردو زبان میں کیا ہے۔ ان کی تصنیفات میں فن الترجمۃ،  ترجمہ فن و روایت اور  رہنمائے جدید عربی رہنمائے بحث و تحقیق تصنیف  وغیرہ شامل ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد دس سے زائد ہے جبکہ ان کے مقالات اور مضامین بہت زیادہ ہیں اور مختلف زبانوں میں ہے لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس ادیب کی سوانح حیات سے لوگوں کو کماحقہ متعارف کرائیں جس نے نہ صرف ہندوستان میں عربی زبان وادب کو فروغ دیا  بلکہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ میں بھی اہم رول ادا کیا۔