Main Menu

مہا راجہ رتن سنگھ زخمیؔ:اودھ کا اہم شاعر وانشاء پرداز

ڈاکٹر ناظر حسین

شعبۂ فارسی ،لکھنؤ یونیورسٹی ،لکھنؤ

ہندوستان میں دیگر زبانوں کے ساتھ فارسی زبان و ادب کی بھی تابناک تاریخ ہے مسلم دور حکومت میں خاص کر مغلیہ عہد میں اس زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا حکمران اور عوام سب کی زبان فارسی تھی مغل حکمرانوں نے ہندوستان میں ایک بہتر منظم حکومت قائم کرنے کے ساتھ علم و ادب کی بھرپور سرپرستی کی اسی علم پروری اور اہل علم کی حوصلہ افزائی کے سبب ایرانی شعراء و ادباء کی ایک بڑی تعداد نے ہندوستان کا رخ کیا اور ہندوستان فارسی زبان و ادب کا ایک مرکز بن گیا۔مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد دہلی کے اطراف میں جو کئی آزاد حکومتیں قائم ہوئیں ان میں شاہان اودھ کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے جن کا دارالسلطنت اودھ تھا ان حکمرانوں نے نہ صرف اودھ کے ادباء و شعراء کی سرپرستی کی بلکہ دہلی سے منتقل ہونے والے اہل علم کی بھی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی نتیجتاً اودھ فارسی زبان و ادب کا مرکز بن گیا۔

یہ وہ اہم خطّہ ارضی ہے جس کی آغوش میں پلنے اور بسنے والوں نے دسرتھ ،رام لچھمن ،سیتااور کیکئی کے مشفقانہ و محبتانہ کردار کو اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے نمونۂ عمل قرار دیا۔یہ وہ اہم خطہ ہے جسے مہاتما گوتم بدھ نے اپنی تعلیمات کا نور بخشا،اور اس خطّۂ ارضی پر سنت کبیر داس نے اپنے منفرد انداز میں حق شناسی ،اصول پر ستی ،ہم آہنگی ،امن و سلامتی اور قومی یکجہتی کا ایسا صور پھونکا جس کی دلفریب اور مترنم آواز آج تک فضاؤں میں گونج رہی ہے۔اودھ کی گنگا جمنی تہذیب اور مثالی تمدن ساری دنیا میں مشہور ہے لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس تہذیب وتمدن کی انفرادیت شاہان اودھ اور ان کی رعایا کے ما بین استوار ہونے والے ہمدردانہ ،کرم گسترانہ اور باہمی خوشگوار تعلقات کا حتمی و لازمی نتیجہ ہے جو ہر کاروان انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔

 اودھ کی علمی و ادبی فضا لوگوں کے دلوں پر ایسے اثر انداز ہوئی کہ یہاں بلا تفریق مذہب و ملت ہندو مسلمان ایک دوسرے کے علوم وفنون سے دلچسپی لینے لگے بالخصوص فارسی زبان کو سیکھنے میںہندوؤں نے اپنی رضاورغبت کا اظہار کیا ۔ان میں کئی صاحب دیوان شاعر ،صاحب تصنیف،نثر نگار،تذکرہ نگار پیدا ہوئے۔

اودھ کے حکمرانوں نے سلطنت میں اپنے سیاسی استحکامات بحال کرنے کے بعد سب سے پہلے علم و ادب کی ترویج و ترقی پر توجہ کی، اس ضمن میں حکمران اودھ نے بڑے ذوق وشوق اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ، اور علم ادب کے شعبہ میں قابل قدر خدمات انجام دیں، ساتھ ہی گزشتہ حکومت کے علمی ورثہ میں حیرت انگیز اضافہ کیا ۔اکثر حکمراں خود باشعور و پڑھے لکھے تھے۔ بلکہ بعض شاعر بھی تھے۔ اس لئے شاعروں کی طبیعت سے واقف تھے اور ان کی طبیعت کی بحالی کا بہتر انتظام کرتے تھے۔

سیاسی اعتبار سے ان حکمرانوں کے لئے اودھ کی فضا بھی ساز گا ر نہیں رہی ، ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں آئیں ، لیکن ان تما م پریشانیوں سے قطع نظر نوابین اودھ نے علمی و ادبی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے کبھی انحراف نہیں کیا ، ان کے زیر سایہ شعر و سخن کی ترقی ہوئی اودھ اور اس کے قرب و جوار میں لا تعداد اہل علم پیدا ہوئے جو اودھ کے فرماروا ں کی سرپرستی کی بدولت عزت و شہرت کی بلندیوں پر پہونچے۔ ماضی کے اوراق الٹ کردیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبۂ اودھ میں پانچ پانچ دس دس میل کے فاصلوں پر شرفاء کی بستیاں آباد تھیں جہاں علماء و فضلا تدریسی خدمات انجام دیتے تھے ۔ ان علمی مراکز کے لئے مخیر حضرات اپنی جائداد وقف کرتے تھے ،اہل دل اپنا سب کچھ نثار کرنے پر آمادہ رہتے تھے ان مدارس میں طلبہ جوق درجوق تحصیل علم کے لئے آتے تھے۔ حکمراں و سلاطین کے ساتھ اہل ثروت بھی ان مدارس اور خانقاہوں کی اعانت کرتے تھے۔ مغلوں کی مرکزی سلطنت میں انحطاط کے آثار رونما ہوئے۔انہیں کے تعاون سے اطراف و اکناف ملک میں آزاد حکومتیں قائم ہو گئیں ، ان حکومتوں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ ہر چیز میں مرکزی حکومت کے ساتھ مشا بہت پیدا کریں اس لئے لوازم شان و شوکت کے علاوہ اہل دانش کی حوصلہ افزائی کریں اور زبان وادب کی آبیاری میں بھی وہ مغلوں کی مثال پیش نظر رکھتے تھے ۔ چنانچہ آزاد حکومتوں کے قائم ہوتے ہی لکھنؤ، حیدرآباد، عظیم آباد، مرشد آباداور رام پور وغیرہ جیسے مقامات پر علمی مراکز قائم ہوئے شمالی ہندوستان میں سب سے زیادہ اہم اور عظیم الشان حکومت شاہان اودھ کی تھی ۔ جہاں بہت سے علماء و شعرا موجود تھے شاہانِ اودھ کے دفاتر میں فارسی کے واقف کار لا تعدادہندو ملازم تھے ، معمولی منشیوں سے لے کر دیوان اعلیٰ کے مناصب پر ہندو تعلیم یافتہ تھے علی الخصوص بیت الانشاء اور دارالانشاء تو ہندوؤں کا خاص محکمہ تھا ۔لسانیات کے شعبہ پر یہی طبقہ قائم تھا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں لفظ منشی کا اطلاق عموماً فارسی داں ہندوں ہی پر کیا جاتا تھا ۔ اس عہد میں جو ہندو دیوان ، ناظم ، وزیر بخشی مدارالمہام و غیرہ عہدوں پر فائز ہوئے۔

 اودھ کے حکمراں چونکہ فارسی کے عاشق زار تھے۔ اس لئے اس زبان کی ترویج واشاعت میںانہوں نے گہری دلچسپی دکھائی جس کانتیجہ یہ ہوا کہ ایک قلیل مدت میں لکھنؤ فارسی کے مرکز کے طور پر معروف ہوگیا۔اور مسلمانوں کے علاوہ متعدد ہندو شخصیات بھی علم وادب میں درجۂ امتیاز کو پہنچے۔ سطورذیل میں لکھنؤ کی اس کثیر الجہات شخصیت کا تعارف مقصود ہے جسے ہم رتن سنگھ زخمیؔکے نام سے جانتے ہیں ۔

مہاراجہ رتن سنگھ زخمی بیک وقتؔ ایک قادر الکلام شاعر، صاحب طرز ادیب، نکتہ شناس شارح، مستندو معتبر تذکرہ نویس اور ماہر علم نجوم تھے۔

ان کا پورا نام رتن سنگھ اور تخلص زخمیؔتھا۔ زخمیؔکے دادا راجہ بھگوان داسؔ وزیر الممالک آصف الدولہ (۱۲۲۹ھ) کے اتالیق تھے انہیں بریلی کی نظامت سپردکی گئی تھی ۱ور ان کے و الد کا نام بالک رام تھاجومہاراجہ جھاؤمل کے نائب تھے۔ فارسی کے عمدہ شاعر تھے اور صبوریؔ تخلص اختیار کیاتھا۔

 زخمیؔکے والد بالک رام نواب آصف الدولہ کے دور میں توپ خانہ کے افسرتھے ان کی شہرت اوراہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لکھنؤ کاتوپ خانہ ’’بالک گنج‘‘ جو شہر کے مغربی حصہ میں واقع تھا اور آج کل’’ بالاگنج‘‘ کے نام سے جاناجاتا ہے۔ انہیں کے نام سے موسوم تھا  ۱؎

رتن سنگھ  زخمیؔکی ولادت ۲۳؍محرم ۱۱۹۷ھ؁ مطابق ۹؍دسمبر ۱۷۸۲ء؁ کو یکشنبہ کی رات لکھنؤ میں ہوئی۔ ان کا آبائی وطن بریلی تھا اپنے آبائی مذہب میں رہتے ہوئے عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت اور کسی قدر انگریزی زبان کے ساتھ علم  ہئیت اور انشاء کی مہارت حاصل کی  ۲؎

فارسی تذکرہ نویسی کے مصنف نے اس کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے۔

’’ زخمیؔ در لکھنؤ درشب یکشنبہ ۲۳؍محرم سنہ ۱۱۹۷ھ؁ مطابق ۹؍دسامبر۱۷۸۲ء؁ میلادی چشم بدنیا گشود و درآغاز شباب شوق اکتساب علم بدلش افتاد بنابریں بعضی زبانہای مشہور و متداول مانند فارسی و عربی وہندی وسنسکرت وانگلیسی را بقدر مایحتاج فراگرفت وباعلوم عقلیہ ونقلیہ در این زبانہا آشنا شد‘‘  ۳؎

لیکن تذکرۂ ریاض العارفین کے مطابق  زخمیؔکے سال ولادت میںفرق ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

’’ زخمیؔ راجہ رتن سنگھ صاحب بہادر لکھنوی ابن راے بالک رام ابن راجہ بھگوان داس بہادر پدر خسرم کہ ولادتش درسن یک ہزار ویکصدو نود وہفت ہجری است‘‘  ۴؎

سیدسلیمان ندوی رسالہ ’’ معارف‘‘ میں لکھتے ہیں۔

’’ منشی الملوک فخر الدولہ دبیر الملک رتن سنگھ زخمیؔ جائے پیدائش لکھنؤ قوم کائستھ اس کا خاندان تین پشت سے دربار اودھ میں معزز عہدوں پر ممتاز تھا۔ رتن سنگھ بڑا فاضل تھا۔ اور علامہ تھا۔ اس کے اصلی کمالات فلسفہ کے زیر عنوان ظاہر ہوں گے۔ اس کا دادا بھگوان داس آصف الدولہ کاایام شاہزاد گی میں اتالیق تھا اور عہد حکومت میں دیوان تھا۔ رتن سنگھ نے منجملہ اور تصانیف کے سلطان التواریخ نام کتاب شاہان اودھ کی تاریخ میںلکھی ۱۲۵۸ھ؁ میں ساٹھ سال کی عمر میں یہ کتاب اس نے ختم کی‘‘  ۵؎

صبح گلشن کے مؤلف سید علی حسن خاںسلیمؔ زخمیؔ کے سلسلہ میں یوں تحریر کرتے ہیں۔

’’ زخمیؔ  مہاراجہ رتن سنگھ بہادر کہ از شاہان اودھ بخطاب فخر الدولہ دبیر الملک، مہاراجہ رتن سنگھ بہادر ہوشیار جنگ سرفرازبود اصلش از رام پوراست پدرش بالک رام درسرکار وزیر الممالک نواب آصف الدولہ بہادر والی ملک اودھ عہدۂ میر آتش را انصرام میخود وتوپ خانہ بالک گنج در لکھنؤ بنامش الی الآن مشہور و زخمیؔ در عہد غازی الدین حیدر اولین بادشاہ دارالسلطنت لکھنؤ وثمرۃ الخلافۃ نصیر الدین حیدر بادشاہ دومین بخطاب وخدمت منشی الملوک مخاطب ومامور بود، ودرزمانہ محمدعلی شاہ سومین لکھنؤ بمنصب دیوانی آں ریاست وخطاب مہارا جگی کلاہ گوشہ بآسمان سود وپایان کار در سنہ یک ہزار  و دو صد وشصت وچہاردین اسلام راملت حقہ یافتہ اختیار نمود وبعد سہ سال در ۱۲۶۷ھجری راہ آخرت پیمود با اکثر علوم عربی وفارسی وترکی وانگریزی وسنسکرت آشنائی داشت وپسرش کنور دولت سنگھ شکریؔ تخلص کہ در عنفوان جوانی مرد از پدر والا قدر قدم فراتری گذاشت‘‘۶؎

 زخمیؔابتدا میں نصیر الدین حیدر (۱۸۲۷ء تا ۱۸۳۷ء )کے اتالیق مقرر ہوئے اس کے بعد د اروغگی کے عہدہ پرفائز ہوئے۔ نواب غازی الدین حیدر کے دربار سے منشی الملک کا خطاب ملا اور ان کے دیوان کے میر منشی بنائے گئے۔

محمد علی شاہ کے دورتک زخمیؔاسی عہدہ پر فائز رہے ۔ محمد علی شاہ نے انہیں فخر والدولہ دبیر الملک مہاراجہ رتن سنگھ بہادر ہو شیار جنگ کے خطاب سے نوازا ۔

ادبی ذوق کے ساتھ ساتھ زخمیؔکو سیاحت کا بھی شوق تھا انہوں نے ہندوستان کے مختلف مقامات کاسفر کیا۔

’’ زخمیؔ سیرو سیاحت اکثر بلا دہندوستان پرداختہ ونخستین مسافرت وی از لکھنؤ بہ بریلی وطن آبائی وی بود سپس در ۱۲۱۸ھ؁ بہ کلکتہ رفت و آنجا چند سال در خدمت ایست انڈیا کمپنی بود-بالآخر در ۱۲۳۰؁ بہ لکھنؤ مراجعت نمودہ در خدمت شاہ اودھ آمد‘‘  ۷؎

۱۲۶۳ھ؁ میں رتن سنگھ زخمیؔنے اسلام قبول کرلیا مشرف بہ اسلام اور تین سال بعد یعنی ۱۲۶۷ھ؁ میں  ان کا انتقال ہوگیا۔

در سال ۱۲۶۳ھ؁ زخمیؔ مسلمان شد وبعد ازسہ سال در ۱۲۶۷؁ھ مطابق  ۱۸۵۰؁  تا  ۱۸۵۱ ؁  فوت کرد۔

رتن سنگھ زخمیؔفارسی ادب کے قادر الکلام شاعر تھے۔ زخمیؔکا دیوان لکھنؤ کے مشہور معروف پریس مطبع محمدی سے ۱۲۵۳ھ؁ مطابق ۱۸۳۲ء ؁ طبع ہوا دیوان کے آخر میں درج ذیل فارسی عبارت لکھی ہوئی ہے۔

’’ دیوان فصاحت عنوان حکیم دوراں، افلاطون زماں فخرالدولہ دبیر الملک راجہ رتن سنگھ بہادر ہوشیار جنگ زخمیؔ تخلصاً ولکھنوی تولداً و بریلوی مسکناً اشعار آبدارش گوہر راجہ آب غلطا نیندہ وموزونی مصاریع برجستہ اش وزن شعراء راہم پلہ میزان آسمان گردانیدہ بتاریخ یاز دہم جمادی الآخر ۱۲۵۳ھ؁ در دارالسلطنت لکھنؤ بمطبع سنگین محمدی باہتمام حاجی حرمین بنظر نظار گیان خردمند جلوہ گر گردیدہ وقبای طبع دربرآراستہ مطبوع طبائع دقیقہ سنجان دشوار پسندہ شدہ اللہم اجعل آخر تنا وآخرہ خیراً من الاولیٰ‘‘  ۸؎

 دیوان کی ضخامت بہت زیادہ ہے جس میں کل پانچ سو تیرہ ۵۱۳ صفحات ہیں۔ اس میں غزل، رباعی، مخمس، مسدس، اور منقبت سے متعلق تمام اصناف پر اشعار ہیں البتہ زیادہ تر حصہ صنف غزل پر مشتمل ہے۔

نمونہ ٔ  غزل

ای غازہ زنام تو برخ شاہد فن را

پیرایہ زوصف تو عروسان سخن را

ازدست تو کافر عجبی نیست کہ درحشر

صد بار زغم پیش خدا چاک کفن را

تادل شدہ آوارہ دران زلف پریشان

رشک ست بشام سفرم صبح وطن را

زاں بادہ کزو مستی منصور تراود

ساقی قدحی لطف کن ایں تشنہ دھن را

مپسند مرا این ھمہ چوں فاختہ نالاں

ای از تو سرفرازی نو سروچمن را

بخشد اگرم جاں دم بسمل عجبی نیست

آبی است دگر خنجر آں عہد شکن را

زخمیؔ مگرت چشم سفید ست کہ دادی

نسبت بکف پای کسی برگ سمن را  ۹؎

زخمیؔ کے شعری سرمایہ کی تعداداس طرح ہے۔

 اصناف

تعداد

تعداد الشعار

غزل

۱۰۱۸

۶۶۱۴

منقبت

۷

۷۸

مخمس

۵

۴۰

مسدس

۶۹

۴۱۴

رباعیات

۳۷

۳۷

کل اشعار ۷۱۸۳

قوافی کے اعتبار سے غزلوں کی تعدادیوں ہے۔

الف ۱۰۲، ب ۱۷، پ۱، ت ۱۵۶، ث ۲، ج ۴،

چ ۴، ح ۴، خ ۲، د ۲۳۴، ذ ۱، ر ۱۴، ز ۱۵،

س ۱۳، ش ۲۱، ص ۳، ض ۳، ط ۳، ظ ۳، ع ۳،

غ ۳، ف ۵، ق ۴، ک ۳، گ ۱، ل ۱۰، م ۱۳۱،

ن ۸۲،    و  ۵۰،  ء   ۱۱،   ی  ۱۰۲

زخمیؔ نے غزل کے علاوہ رباعی اور مخمس بھی لکھے ہیں۔

نمونۂ رباعی

درماندہ ام وہم نفسی نیست مرا

می نالم وفریاد رسی نیست مرا

یارب بنظر بحال زارم از رحم

جز مسلم وجز تو کسی نیست مرا ۱۰؎

نمونۂ مخمس

کجا خواب وخوش وکو چشم وقت صبح وا کردن

من وہر شب زدرد دل بکویش نالہا کردن

شود تا دررہ معشوق روزی جان فدا کردن

چہ باشد عاشقی خود را بغمہا مبتلا کردن

بصد خون جگر بیگانہ ای را آشنا کردن ۱۱؎

………دیگر………

گرفتم جان من جا کرد از بیداد اوبرلب

کشیدم صد جفا ہر روز دیدن صد بلا ہر شب

بصد تقریب کردم پیش او اظہار بر مطلب

چہ حاصل زینہمہ افسانہ مہر و وفا یارب

کہ نتواں در دل بی مہر اویک ذرہ جاں کردن

………دیگر………

عجب نبود گر با این ھمہ بیر حمی جاناں

کند زخمیؔ خدا در راہ او جان و دل وایمان

ہمیں بودست طرز عاشقاں کشتہ ہجراں

فغانی کمتریں بازیست در عشق مگو ادیاں

نمونۂ مسدس

دوستاں درد من زار شنیدن دارد                              سرگزشت دل بیمار شنیدن دارد

رنج ای دیدۂ خونبار شنیدن دارد                              ماجرۂ من و آن یار شنیدن دارد

گرنہاں داشتن غم بفغاں آمدہ ام

     چند خاموش نشینم کہ بیجاں آمدہ ام   ۱۲؎

 غزل کا مقدم مضمون حسن کی تعریف وتوصیف اور عشق کا اظہار ہے۔ شعراء کے لیے عشق کی تمام آفتیں راحت افزا  ولذت بخش ہوتی ہیں۔ ہر چیز کی اہمیت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ درجہ کمال کو پہنچتی ہے۔ لیکن عشق از ابتداتا انتہالذت بخش، لطف آمیز اور اثر انگیز ہے۔ عشق کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ تمام رذایل کو فضایل میں بدل دیتا ہے۔ بغض، کینہ، حسد، غرور، فخر، تکبر، خودپرستی اور خود بینی ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین جب اپنے مرید وطالب کو نفس کے تزکیہ کی تعلیم دیتے ہیں سب سے پہلے وہ عشق ومحبت کی تلقین کرتے ہیں۔ حافظؔ شیرازی نے بھی اپنی عارفانہ غزل سے ہی یہ کام لیا ہے۔ حافظؔ کی غزل کی خصوصیات ان کے جذبات کی پاکیزگی اور احساسات کی رفت میں نمایا ں ہیں۔ اس سے حافظؔ کے فن میں اعجاز پیدا ہوگیا ہے۔

زخمیؔ نے عاشقانہ غزلیں کہی ہیں چونکہ ان کا انداز عاشقانہ ہے۔ اس لیے گفتار بیک طرز نہیں ہے او رعاشقانہ کیفیات سے کلام میں بوقلمونی جلوہ گر ہے۔ عشق پنہاں کا اظہار دوست تک غزل عاشقانہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

زخمیؔ نے معاملہ بندی کو ایک مستقل فن کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ محبوب کی کج ادائی جو معاملات عشق کا ایک اہم موضوع ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ عاشق کی دل میں معشوق کے متعلق ہزاروں خواہشیں وتمنائیں پیدا ہوتی ہیں اور عاشق محبت کی شدت کی وجہ سے چاہتا ہے کہ وہ محبوب کی بے التفاتی کا شکار نہ ہواور اس کے ہرجذبے کا احترام کیا جائے لیکن فارسی غزل کا معشوق ،ظلم،فریب، حیلہ بازی، مکاری، سفا کی، بیر حمی، بیدردی، بے اعتنائی، دل آزاری کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ عاشق کے سوز دروں اور بے تابی پہ نگاہ تو جہ ڈالنا بھی نہیں پسند کرتا ہے۔

مہاراجہ رتن سنگھ زخمیؔ ایک فطری شاعر تھے اور شاعری ان کو ورثہ میں بھی ملی تھی۔ا گرچہ زخمی ؔکا شمار فارسی کے استاد شعراء میں نہیں ہوتا ۔تاہم وہ اپنے عہد کے شعراء میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف ان کے معاصر او رقریب العصر مستندتذکرہ نگاروں نے کیا ہے اور ان کے ایک قادرالکلام شاعر ہونے کی گواہی دی ہے۔ نریندر بہادر سری واستو کے الفاظ اس طر ح ہیں۔

’’ راجہ رتن سنگھ زخمیؔ ماہر وقادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے یہاں شگفتگی، روانی، دلکشی اور معنی آفرینی کی فراوانی ہے۔ ان کے کلام میں متقدمین اور ہم عصر اساتذہ کے مضامین کا توارد اکثر پایا جاتا ہے۔‘‘۱۳؎

مختصر یہ کہ زخمیؔ کی غزلوں کے تجزیاتی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تکلف ،آورد،تصنع اور لفظی آرایشوں یا ایہام کی پیچیدگیوں سے آزاد تھے۔سبک ہندی کا دور تھا مگر وہ سادگی ،سلاست ،برجستگی کی عظیم روایتوں کے حامل تھے۔وہ معیار فن کے تسلسل کے حسن سے مکمل واقف تھے۔شعر سادہ سلیس اور رواں ہو۔یہی معیار حسن تھا۔کلام میں تعقید خواہ لفظی ہو یا معنوی ہو معیوب سمجھی جاتی تھی۔اس کے یہ معنی نہیں کہ صرف ایسے شعراء ہی ہوئے ۔کچھ ایسے شاعر بھی ملتے ہیں جن کے کلام میں پیچیدگی اور معنویت کی تہہ داری ملتی ہے۔مگر زخمیؔ نے ایسا طرز تفکر اختیار نہیں کیا ۔اس کے کلام میں ایک انفرادیت ہے۔ان کا ایک مزاج ہے وہ عام روش سے علیحدہ رہے ۔اس دور میں سبک ہندی رواج پا چکا تھا ۔جس میں زیادہ تر الفا ظ کی بندش ،تراکیب کے حسن انتخاب اور دقت آفرینی اور لفظی گورکھ دھندے ہی برتے جاتے تھے۔شاعر معنیٰ آفرینی اور پیچیدگی میں اتنے الجھے ہوئے تھے کہ لطافت اور شعری پاکیزگی کا ان کے کلام میں دور دور تک پتہ نہ تھا۔اس دور کے اکثر شعرا ء سبک ہندی کے پیر وکار تھے لیکن زخمیؔ نے اس کا تتبع نہیں کیاانہوں نے قدیم شعری روایات کا ہی احترام کیا جن کی ایک شاندار تاریخ رہی اور جن کی خصوصیات میں سادگی اور برجستگی سلاست اور صفائی بیان اہم ہیں۔زخمیؔ نے اسی معیار کو اپنا ادبی معیار بنایا۔ان کی نظر میں پیچیدگی یا ایہام کلام کے حسن کے منافی ہے۔

زخمیؔ کے کلام کی اہم خصوصیت معاملہ گوئی ہی ہے اس اعتبار سے وہ اپنے عہدکے دوسرے شاعر وں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں عارفانہ اور متصوفانہ تجربے شاذی ہی ملتے ہیں۔حسن وعشق کے اس پہلو کی عکاسی ملتی ہے او ریہی رنگ ان کی غزلوں کا طرہ امتیاز ہے۔

حواشی:

1- خان سید علی حسن ، صبح گلشن ،ص 190-198،مرتبہ سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی،عظیم الشان بک ڈپو سلطان گنج، پٹنہ1968ء

2-معارف اعظم گڑھ، جلد 3ص 231،ماہ صفر 1337ھ

3-نقوی علی رضا سید ،تذکرہ نویسی فارسی در ہند و پاکستان،ص 521-526

4-آفتاب رائے لکھنوی ،تذکرہ ریاض العارفین ،ص 8-9

5-معارف نمبر دو جلد 3،ص 63-64 ،جولائی 1918ء

6-خان سید علی حسن ، صبح گلشن ،ص 189-190،مرتبہ سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی،عظیم الشان بک ڈپو سلطان گنج، پٹنہ1968ء

7-نقوی علی رضا سید ،تذکرہ نویسی فارسی در ہند و پاکستان

8-مہاراجہ رتن سنگھ زخمی، دیوان زخمی، مطبع محمدی،1253ھ، لکھنؤ

9-مہاراجہ رتن سنگھ زخمی، دیوان زخمی، دیوان کی پہلی غزل،مطبع محمدی،1253ھ، لکھنؤ

10-ایضاً،ص689

11-ایضاً ص 664

12- ایضاً ص 667

13-نوابی عہد کے ہندوؤں کافارسی ادب میں یوگدان،ڈاکٹر نریندر بہادر شریواستوا،طباعت ناظم پریس ،رامپور،1979ء

گزشتہ لکھنؤ، عبدالحلیم شرر لکھنوی ، مطبوعہ نسیم بک ڈپو،لاٹوش روڈ ،لکھنؤ

تاریخ لکھنؤ ، محمد باقر شمس لکھنوی ،مطبوعہ عکس لطیف دارالتصنیف کراچی

Dr. Nazir Husain

Department of Persian

University of Lucnkow

nazirhusain007@gmail.com

Mob. No. 91-9335336222