Main Menu

مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری کاثقافتی مطالعہ

عبدالبصیر

ٹی جی ٹی۔اردو،گورنمنٹ بوائز سینئر سیکنڈری اسکول
مدنپور کھادر،نئی دہلی

ابتدائی خاکہ نگاری کی تاریخ میں “چند ہم عصر”کا شمار عظمت کا حامل ہے ۔مولوی عبدالحق بلا شبہ ایک صاحب طرز انشا پرداز ہیں ۔صاف،سادہ،شستہ،دلنشیں اور سنجیدہ نثر لکھنے کا جو طریقہ انھوں نے ایجاد کیا ہے وہ قابل تقلید ہے ۔چند ہم عصر میں عبدالحق کی ساری خوبیاں بھر پور رنگ میں ظاہر ہوئی ہیں ۔یہ کتاب1937 میں شائع ہوئی ۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں خاکوں کو مجموعہ کی شکل میں یکجا کیا گیا ہے۔ترمیم شدہ ایڈیشن 1959 میں کل چوبیس افراد کے خاکے ہیں ۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کا تعلق ہاپوڑ ضلع میرٹھ سے تھا ۔ان کی پیدائش 1870 کو “سرواہ”میں ہوئی ۔میٹرک کا امتحان پنجاب سے پاس کیا مزید تعلیم کے لئے انھیں علی گڑھ بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے1894  میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا اس کے بعد ملا زمت کے غر ض سے بمبئی چلے گئے پھر وہاں سے حیدرآباد چلے گئے اور مترجم کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا اور ماہنامہ ادبی رسالہ”افسر”کی ادارت کی ذمہ داری بھی سنبھالی ۔انجمن ترقی اردو جو 1903 میں معرض وجود میں آئی تھی جس کے لئے ایک رہبر کی تلاش تھی آخر کار اہل علم کی نگاہیں مولوی عبدالحق پر مرکوز ہوئیں اور 1911 میں انھیں انجمن کا سکریٹری منتخب کیا گیا ۔تقسیم وطن کے بعد وہ پاکستان چلے گئے جہاں اردو کی ترویج واشاعت کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے بالآخر اردو کا یہ مجتہد 16 اگست 1961 کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا ۔

مولوی عبدالحق کی ذات ایک انجمن تھی اگرچہ انھوں نے بڑ ا تصنیفی سرمایہ نہیں چھوڑا تاہم جو بھی تنقید وتحقیق کا کام انھوں نے کیا ہے اسے اردو ادب فراموش نہیں کر سکتا ۔ایک اہم کارنامہ جسے اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ ان کے خاکوں کا مجموعہ ” چند ہم عصر ہے”عبدالحق نے ان خاکوں میں محبت یا عداوت سے بلند ہو کر تقریبا معروضیت کے ساتھ شخصیات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ وہ انسان اور انسانیت کی عظمت کے شناسا ہیں۔جس شخص کا خاکہ تحریر کرتے ہیں اس شخصیت کے کسی روشن پہلو کو مد نظر رکھتے ہیں اور نہایت پر اثر انداز میں بیان کرتے ہیں ۔شخصیت کی پرکھ میں اس کی بڑی اہمیت ہے کہ خاکہ نگار کے ذہن میں خوبیوں اور خامیوں کا کیا معیار ہے؟ اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خاکہ نگار نے شخصیت کے کن خوبیوں کی ستائش کی ہے اور کن کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے ۔مولوی عبدالحق نے محاسن ومعائب بیان کرنے میں دوستی،تعلقات اور شخصیات کی عظمت وشہرت کی کبھی پرواہ نہ کی ۔مولوی محمد علی جوہر کے خاکے میں دونوں پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:

“مولانا محمد علی مرحوم عجیب وغریب شخص ہوئے ہیں ۔وہ مختلف،متضاد اور غیر معمولی اوصاف کا مجموعہ تھے۔اگر انھیں ایک آتش فشاں پہاڑ یا گلیشیئر سے تشبیہ دی جائے تو کچھ زیادہ مبالغہ نہ ہوگا۔ان دونوں میں عظمت وشان ہے۔لیکن دونوں میں خطرہ وتباہی بھی موجود ہے۔{1}

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے مولانا محمد علی مرحوم انگریزی تعلیم اور مغربی خیالات کے حامی بھی تھے تاہم کوئی بات ان کے مزاج یا ناموافق یا خلاف طبع ہوتی تو وہ اسے برداشت نہ کر پاتے تھے۔محمد علی مرحوم کے خاکے میں مولوی عبدالحق نے شخصیت وکردار کو ایک متحرک شکل وصورت عطا کی ہے جو کامیاب خاکے کا غماز ہے ۔

مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری میں شائستگی اور تہذیب کا عنصر نمایاں ہے ۔وہ اپنی زندگی میں چند افراد کے طرف دار ہیں ۔انسان کی محبت ،جفاکشی،راست گفتاری،بے لوث جذبہ خدمت اور وضع داری پر انھوں نے زیادہ زور دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف معروف شخصیات بلکہ عام انسانوں کی محنت ،لگن اور ہمہ جہتی ان کی توجہ کا مرکز بنی اور غیر معروف شخصیات کو بھی انھوں نے اپنے زور قلم سے معروف بنا دیا۔نورخاں اور نام دیو مالی اس کا بہترین نمونہ ہیں ۔نور خاں کے خاکے کی شروعات کتنی دل پذیر ہے ملاحظہ فرمائیں:

” لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں ،نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں،میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں ،امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اورپڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لئے سبق آموز ہو سکتی ہے۔انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے ۔اور انسان ہونے میں امیر وغریب کا کوئی فرق نہیں۔{2}

اس اقتباس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ صرف امیر اور شہرت یافتہ لوگوں کی ہی مدح سرائی یا مرثیہ نگاری نہیں کی جا سکتی بلکہ ایسے عام لوگ بھی ہیں جن میں انسانی محاسن موجودہیں جن کی صلاحیتیں قوم وملک کی خدمات انجام دیتی ہیں مگر عام انسان ہونے کی وجہ سے گمنامی کی زندگی جی کر اس دنیا کو خیر آباد کہہ جاتے ہیں ۔لیکن مولوی عبدالحق نے نورخاں جیسے عام سپاہی پر قلم اٹھا کر اسے بقائے دوام بخشا۔نور خاں کی شرافت ،نیک نفسی اور جانفشانی کا ذکر بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:

“وہ حساب کے کھرے ،بات کے کھرے ،دل کے کھرے تھے۔وہ مہر وفا کے پتلے اور زندہ دلی کے تصویر تھے ،ایسے نیک نفس،ہمدرد،مرنج ومرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں!ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا ،اور ان کی مستعدی کو دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی ،ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا ۔مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں ۔اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا آدمی تھا ۔قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں ۔کاش ہم میں بہت سے نور خاں ہوتے۔{3}

مذکورہ بالا اقتباس سے نورخاں کی وفا داری ،ایمان داری،عرق ریزی وجانفشانی اور احساس ذمہ داری کا پتہ چلتا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سپاہی جیسے معمولی عہدے پر رہتے ہوئے اس نے افسران والی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔صدیوں میں ایسے لال پیدا ہوتے ہیں جن کی نیک نیتی اور زندہ دلی قابل رشک ہوتی ہے۔

مولوی عبدالحق کی شخصیت سنجیدہ،پر وقار اور بے رنگ سی ہے۔ان کی زندگی میں نہ کیف ورنگ ہے اور نہ کوئی چونکا دینے والی بات یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں کسی غیر معمولی رنگینی اور رعنائی سے محروم ہیں ۔موضوع بحث شخصیات میں وہ ان قدروں کو تلاش کرتے ہیں جن کے وہ طرف دار ہیں ۔ان کی نظر یں انسانیت کے حسن اور اس کی عظمت و رفعت کی شناسا ہیں ۔وہ بڑے بڑے ناموں سے مرعوب نہیں ہوتے کاموں کی ستائش کرتے ہیں۔خاکہ نام دیو مالی کے متعلق رقم طراز ہیں :

“جب کبھی مجھے نام دیو مالی کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نیکی کیا ہے اور بڑا آدمی کسے کہتے ہیں ہر شخص میں قدرت نے کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے۔اس صلاحیت کو درجہ کمال تک پہونچانے میں ساری نیکی اور بڑائی ہے ۔درجہ کمال تک نہ کبھی کوئی پہونچا ہے اور نہ پہونچ سکتا ہے لیکن وہاں تک پہونچنے کی کوشش ہی میں انسان ،انسان بنتا ہے۔یہ سمجھو کندن ہو جاتا ہے۔حساب کے دن جب اعمال کی جانچ پڑتال ہوگی خدا یہ نہیں پوچھے گا کہ تونے کتنی اور کس کی پوجا پاٹ یا عبادت کی ۔وہ کسی کی عبادت کا محتاج نہیں ۔وہ پوچھے گا تو یہ پوچھے گا کہ میں نے جو استعداد تجھ میں ودیعت کی تھی اسے کمال تک پہونچانے اور اس سے کام لینے میں تو نے کیا کیا اور خلق اللہ کو اس سے کیا فیض پہونچایا اگر نیکی اور بڑائی کا یہ معیار ہے تو نام دیو نیک بھی تھا اور بڑا بھی۔{4}

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صرف امیر اور شہرت یافتہ لوگ ہی صلاحیت مند نہیں ہوتے بلکہ ہر انسان میں اللہ نے ایسی صلاحیت و استعداد ودیعت کر رکھی ہے جس کو بروئے کار لاکر انسان درجہ کمال تک پہونچ سکتا ہے اور اس کی یہی کوشش انسانیت کی معراج ہے۔کیونکہ دن قیامت کے اللہ بھی اپنے بندوں سے یہی سوال کرے گا کہ تو نے اپنی صلاحیت وقابلیت سے خلق اللہ کو کتنا فیض پہونچایا اور اگر انھیں کو معیار تسلیم کر لیا جائے تو مولوی عبدالحق کے نزدیک نام دیو مالی نیک بھی تھا اور بڑا بھی۔

اس طرح سے ایک اور گمنام شخص عبدالرحمٰن پر خاکہ لکھ کر مولوی عبدالحق نے ان کی اخلاقیات ،انصاف پسندی اور شخصی صلاحیتوں کی عکاسی نہایت دل کش انداز میں کی ہے ۔ایک تصویر ملاحظہ فرمائیں:

” اخلاقی جرأت ،بے باکی و آزادی میں نیک نام نہیں بدنام تھا ۔وہ کبھی کسی سے مرعوب نہ ہوا اور جس بات کو وہ سچ سمجھتا تھا اسے وہ بڑے سے بڑے شخص کے منہ پر یا بھری مجلس میں کہنے میں باک نہیں کرتا تھا اور اگر ذرا بھی زمانہ سازی اور مصلحت کوشی سے کام لیتا تو بڑے رتبے پر پہونچ جاتا مگر ہماری نظر میں وہ ان نام کے بڑے لوگوں سے کہیں بڑا تھا جو زمانہ سازی ،منافقت اور سازش سے بڑے بڑے مناصب پر پہونچتے ہیں۔{5}

اس اقتباس سے عبدالرحمٰن کی راست گفتاری ،صاف گوئی ،بے باکی اور اخلاقی جرأت کا پتہ چلتا ہے ۔یہ وہ اوصاف حمیدہ ہین جو کسی انسان کی نیک نامی کا ذریعہ ہوتے ہیں تاہم یہاں اس کی بدنامی کی وجہ بن گئیں تھیں اس طور پر کہ انہوں نے کبھی مصلحت کوشی یا زمانہ سازی کا ساتھ نہیں دیا ۔چاپلوسی اور منافقت جیسی رذیل خصائص سے ہمیشہ دوری بنائے رکھی اس سلئے وہ نیک نام ہو کے بھی بدنام ہی رہے ۔آج کے زمانے میں لوگ مال ودولت اور بڑے بڑے عہدوں کے حصول میں حق کا راستہ ترک کر کے منافقت اور خوشامد کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں لیکن عبدالرحمٰن دولت وشہرت اور منصب کے لئے اپنے ایمان کا سودا نہیں کرتے بلکہ سچائی کے راستے پر چل کر اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

مولوی عبدالحق کے خاکوں میں ضمیر واحد متکلم کا استعمال بہت کم ہوا ہے یہ وہ خوبی ہے جو خاکوں کے معیاری ہونے کی ضمانت ہو سکتی ہے”چند ہم عصر”میں مولوی عبدالحق نے اپنے خاکوں میں کرداروں کی اس طرح مرقع کشی کی ہے کہ ان سے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور خاکہ نگار کی نہ صرف انسان دوستی کا پتہ چلتا ہے بلکہ قاری کے دل میں انسانیت کا احساس بھی موجزن ہو جاتا ہے۔خاکے کی زبان وبیان،سیرت و کردار کی بے لاگ معاشرتی عکاسی اور فنی اصولوں کی پاسداری کے لحاظ سے ـ’چند ہم عصر‘ اردو خاکہ نگاری کے لیے مشعل راہ ہے۔

حواشی

1۔چند ہم عصر،مولوی عبدالحق،اردو اکیڈمی سندھ،کراچی1990  ص104

2۔چند ہم عصر،مولوی عبدالحق،ص124

3۔چند ہم عصر،مولوی عبدالحق،ص 137

4۔بحوالہ دیدودریافت،نثاراحمدفاروقی،آزاد کتاب گھر،دہلی1964  ص33

5۔چند ہم عصر،مولوی عبدالحق،ص365