ڈاکٹر فواز رحمانی
جس وقت بر صغیر میں مسلم حکمرانی زوال پذیر ہورھی تھی، اسی دور میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ کی کوششوں سے ایک عظیم علمی انقلاب برپا ہورھاتھا۔ قرآن مجید کے ترجمے مدون کرکے اورمسجدوں میں درس قرآن کو فروغ دے کر عوام الناس میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ، اس بابرکت تحریک سے ہرمسلمان کا گھر روشن ہوا۔ خود مولانا محمد علی جوہر نے اپنی مختصر خود نوشت میں بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ علی گڈھ کے زمانہ طالب علمی میں علامہ شبلی نعمانی کے درس قرآن اور اسلام اور اسلامی زندگی پر ان کےلکچرنے ماضی کے تسلسل اور اس کی صحت مند روایتوں سے زندگی بھر جوڑے رکھا۔[1] آگے چل کریہی بنیادی تعلیم اور تربیت مولانا کی زندگی کا نصب العین بن گئی، اسی راہ میں رفتہ رفتہ گرویدگی سے سب کچھ نچھاور کردیا۔ ملک وملت کے لیے مولانا محمد علی جوہر کی ہمہ جہت خدمات ناقابل فراموش ہیں، چند صفحات پر مشتمل اس تحریر سے صرف چند گوشوں کو اجاگر کرنا اور توجہ دلانا مقصودہے۔
مولانا محمدعلی جوہر کی ہمہ گیر شخصیت ان کی غیر معمولی ذھانت اور دماغی بلندی کا سب کو اعتراف ہے، وہ بیک وقت پایہ کے انشاء پرداز ادیب، نامور صحافی، شعلہ بار خطیب، جنگ آزادی کے بلند حوصلہ سالاراورتحریک خلافت کے اول رہنما او رقائد تھے۔ اس سے بڑھ کر ایک درد مندانسان تھے، وہ جو کچھ کہتے تھے، اسے کرکے دکھاتے بھی تھے۔ حق گوئی میں ان کا ثانی نہ تھا۔ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل کا نمونہ تھی، ان کے ہرحرف سےوطن کے لئے بے پناہ جذبہ خلوص اور سچی محبت جھلکتی تھی، انگریزوں سے دشمنی جنون کی حدتک رکھتے تھے، مختصر مدت میں فرنگی سامراج کو اپنی تحریروں اور تقریروں سےزچ کررکھا تھا، وہ ایک عہد آفرین شخصیت کے مالک تھے۔
مولانا محمدعلی جوہر ۱۸۸۷ء میں رام پور کے ایک آسودہ حال گھرانے میں آنکھیں کھولیں، دوسال کی عمرمیں ان کے والد عبدالعلی خاں داغ مفارقت دے گئے، والدہ ماجدہ نے تعلیم وتربیت کا خاص اہتمام کیا، حصول علم کے لیے علی گڑھ کا رخ کیا، جہاں سے گریجویشن۱۸۹۸ء میں فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا، اسی سال اعلیٰ تعلیم کے لئے آکسفورڈ میں داخلہ لے لیا،۱۹۰۱ء میں I.C.Sمیں ناکامی کے بعد وطن واپس لوٹ آئے۔ ۱۹۰۲ء میں پھر آکسفورڈ دوبارہ تشریف گئے، واپسی پر بڑودہ سول سوس جوائن کرلیا،۱۹۱۰ء میں بڑودہ کی خدمات سے سبکدوش ہوکرملک وملت کے لئے خود کو وقف کردیا۔[2]
کلکتہ سے ۱۹۱۱ء میں انگریزی اخبار کا مریڈ جاری کیا،جلد ہی وہ ھندوستانی سیاست پر چھا گئے، بہت کم وقت میں اخبار کامریڈ ھندوستانی اخباروں میں اعلی مقام حاصل کرلیا، وائسرائے کو بھی اس کا انتظاررہتا تھا،مولانا کو اس بات کا شدت سے احسا س تھا کہ ہمارے اولین مخاطب ھندوستانی عوام ہے، اگلے سال دہلی منتقل ہوکر ۱۹۱۳ء سے اردو اخبار ہمدرد منظر عام پر آنا شروع ہوگیا، جس میں قاضی عبد الغفار مولوی محفوظ علی بدایونی ھاشمی فریدآبادی اور مولانا عبد الماجد دریا آ ّبادی وغیرہ لکھتے تھے۔ یہ دونوں اخبار مولانا کے افکار ونظریات کا ترجمان تھے، تحریک خلافت اور جنگ آزادی کو عوامی سطح پر مقبولیت عطا کرنے میں زبردست کردار ادا کیا، لیکن۱۹۲۶ء اور ۱۹۲۷ء میں دونوں اخبار بند ہوگئے، نومبر ۱۹۳۰ء کو لندن کی گول میز کانفرنس میں یادگار تاریخی خطاب فرمایا۔ ۴ جنوری۱۹۳۱ء کو لندن کےایک ہوٹل میں انتقال ہوا او ربیت المقدس میں۲۴ جنوری۱۹۳۱ء کو سپرد خاک ہوئے۔[3]
مولانانے صحافت کے کارزار میدان میں پہلا قدم ۱۹۰۷ء میں ٹائمزآف انڈیا میں مضامین کے ذریعے رکھا، پھر یہ سلسلہ دھیرے دھیرے ‘‘آبزرور’’ اور‘‘انڈین ریویو’’ میں دراز ہوتا چلا گیا۔ مولانا کے مضامین، عام مضامین کی طرح نہیں ہوتے تھے، بلکہ فکرونظر اور تدبر وبصیرت سے چھلکتے ہوئے وقت کے نازک سیاسی حالات پر بے لاگ تبصرہ اور مدلل تجزیہ ہوتے تھے، نقطہ ہائے نظر میں واضح فرق اوراختلاف کے باوجودانگریزی اخبار،ان کی تحریروں کو بے حد رغبت سے شائع کرتے تھے، ان کے وسیع مطالعہ، زبان وبیان پر قدرت اورٹھوس قلم نے بہت جلد غیرمعمولی مقبولیت سے نوازا، عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت سے گھبراکر انگریزی حکومت نے ۳ نومبر ۱۹۱۴ء کو کامریڈ اخبار کی ضمانت ضبط کرلی، جس کی بناپر دس سال کے لیے بندہوگیا۔ عرصہ تک قیدوبند کی زندگی گذارنے کے بعد ۳۱اکتوبر ۱۹۲۴ء اور ۲۸نومبر ۱۹۲۴ء کو بالترتیب کامریڈ اور ہمدرد جاری کیا، لیکن۱۹۲۶ء اور ۱۹۲۷ء میں پھر یہ دونوں اخبار افق صحافت سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے، اس طرح ہندوستان میں تابناک صحافت کا ایک زریں دوراختتام پذیر ہوگیا۔
مولانا محمدعلی جوہر کا مریڈکے پہلے شمارے میں اپنے موقف کا اعلان بغیر کسی جھجھک کے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ہم کسی کے جانبدار نہیں اورسب کے ساتھی ہیں، ہم مختلف فرقوں اورمذاہب کے روز افزوں اختلافات کے خطوط کو بہ خوبی محسوس کرتے ہیں اور ہماری دلی آرزو ہے کہ ہندوستان کے سیاسی نظام کے مختلف اجزاء میں بہتر تعلقات پیدا ہوں’’۔[4]
اسی طرح اردو اخبار ہمدردمیں مولانا جوہر رقم فرماتے ہیں: ‘‘صحافت سے میری غرض صحافت نہیں، بلکہ ملک وملت کی خدمت ہے’’۔[5] مذکورہ بالا اقتباس سے مولانا کی صحافتی ذمہ داریوںکا شدید احساس فکرونظر کی بالیدگی، پختہ شعور اور عالمانہ سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے،یہی نہیں اس سے مادہ پرستوں کی بھی بھرپور تردید ہوتی ہے، جو صحافت کوکسب زر اورحصول شہرت کا سستا اور آسان نسخہ خیال کرتے ہیں۔
‘‘مولانامحمد علی صحافت میں عقیدے ،اصول اور نظریئے کے قائل تھے، وہ مقلد نہیں رہبرتھے، ان کی صحافت کا بنیادی عقیدہ اور نظریہ تھا قومی اتحاد، ہندوستان کی کامل آزادی، مسلمانوں کی سربلندی، اور عالم اسلام کی حفاظت، اور سرفرازی، اپنے ان اصولوں مین مولانا نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔لکھتے ہیں: مین نے ہمیشہ اتحاد کی حمایت کی اور میرے اخبار کانام مریڈ اسی پر دلالت کرتا ہے ’’[6]
‘‘ہمدرد کا فرض ہوگا کہ روز سچی خبریں سنائے، ان خبروں کو پوری طرح سمجھنے کے لیے جن معلومات کا مہیا کرنا ضروری ہے مہیا کرے۔ ناظرین کے معلومات میں ہر روز اضافہ کرے، تاکہ وہ خود رائے قائم کرسکیں نہ اس کی رائے کے ہمیشہ محتاج رہیں، مگر یہ خیال نہ کیجئے کہ ہمدرد مسجد کا ملا ہوگا، تعلیم کا اصول یہی ہے کہ اس قدر کبھی مطالعہ نہ کیا جائے کہ طبیعت اکتا جائے، ہمدرد ملک وقوم کی ملا گیری کے علاوہ اپنی رنگینی طبع سے احباب کی رونق محفل بھی ہوگا، سیاسیات کے تو تو میں میں کے ساتھ نقد سخن کی جھنکار سنائی دے گی، اختصار کے ساتھ مزے مزے کے افسانے بھی ہوں گے اور فلسفے کی پھیکی سیٹھی کھچڑی کے لیے لطیفوں کی چٹپٹی چٹنی بھی دسترخوان پر موجود ہوگی ہمدرد آپ سے سیکھے گا اورآپ کو سیکھائے گا، خود روئے گا اور آپ کو رلائے گا اور جس طرح ساون میں کبھی کبھی پھول کے ساتھ دھوپ بھی ہوتی ہے، اور دھنک بھی اپنی رنگا رنگ سپہر آرائی کی جھلک دکھا جاتی ہے، ہمدرد کبھی ھہنستوں کو رلائے گا اور کبھی روتوں کو ہنسائے گا’’۔[7]
انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے کامریڈ میں لکھتے ہیں:’’صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے، اسے خیال رکھنا چاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہوکہ مورخ اس کی تحریروں کی بنیاد پر تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں، راہنما بھی ہوتاہے’’۔ [8]
ڈاکٹر شہزاد انجم لکھتے ہیں: ‘‘مولانا محمدعلی جوہر صحت مند صحافت کے قائل تھے، خودان کا کردار بالکل صاف ستھرا اور عیوب سے پاک تھا۔ اسی طرح وہ اپنی صحافت کو بھی اسی راستہ سے بلند مقام تک لے جانا چاہتے تھے، مولانا کے اصول صحافت پر نظر ڈال کر ہم بہ آسانی اندازہ کرسکتے ہیں کہ واقعی مولانا محمدعلی جوہر، جس طرح بے لاگ صحافت پر گامزن رہے، یہ ان ہی کلیجہ تھا کہ اتنی دور تک بڑھ آئے، ورنہ عام طورپر لوگ چند قدم بھی چل نہیں پاتے’’۔[9]
مولانا محمدعلی جوہر کے دونوں اخبار حددرجہ معیاری اورنفیس تھے، کامریڈ کی تعداد اشاعت، اس کے پہلے دور میں ایک اندازہ کے مطابق بڑھتے بڑھتے پچیس ہزار تک پہنچ گئی تھی، وہ اپنی گونا گوں خوبیوں کے باعث جلد ہی بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرلی، صرف لندن میں اس کے تین سوخریدار تھے۔ اس کی اہمیت ومقبولیت کا بہ خوبی اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وائسرائے کے گھرمیں بھی اس کا بڑی بے چینی سے انتظار ہوتا تھا، کامریڈ کے طرز انشاء اور قو ت استدلال کو آج بھییاد کیا جاتاہے۔وہ اپنے مثالی اور منفرد معیار کی وجہ سے شائع ہوتا رہا، اس کی مقبولیت وشہرت میں ذرہ برابرکمی نہیںآئی، اپنے بلند ذوق اوراعلیٰ خیال کی وجہ سے مولانا محمد علی جوہر کوکوئی پسندیدہ معاون یا کارکن نہیں مل سکا، مجبوراً کامریڈ کا ساراکام تھا انجام دینا پڑتا تھا۔ لیکن یہی اخبار جب دوبارہ ۳۱نومبر ۱۹۲۴ء کو منظر عام پر آیا تواب مولانا کی مصروفیات حددرجہ بڑھ چکی تھیں۔اعضاء رئیسہ بھی جواب دے رہے تھے، پہلے وہ گھنٹوں مسلسل بیٹھ کر معرکۃ الآراء مضامین قلم بند کرکے اخبار کے حوالہ کرتے تھے، تاخیر اورکم توجہی نے کامریڈ کے اشاعتی گراف کو نیچا کرتا چلاگیا، اورپھر ایک دن مولانا محمد علی جوہر کو ہمیشہ کے لیے کامریڈ کو بند کرنا پڑا۔اسی طرح اردو اخبارہمدرد بھی کامریڈ کی طرح مثالی اور معیاری تھا۔ پروفیسر محمد جہانگیر عالم کی اطلاع کے مطابق:’’ہمدردہندوستان کا پہلا اردوروزنامہ تھا، جس نے براہ راست اسوسی اسیٹیڈ پریس اوررائیٹرکی خدمات حاصل کی تھیں’’ ۔[10]
مولانا محمدعلی جوہر ایک دوسری جگہ صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے اخبار ہمدرد میں لکھتے ہیں:’’فرقہ وارانہ کشیدگی اور آئے دن کے ہندوستان کے مابین فسادات کی سب سے بڑی ذمہ داری، ان ناعاقبت اندیش صحیفہ نگاروں پر عائد ہوتی ہے، جوسادہ لوح عوام کو اپنی گمراہ کن تحریروں سے اکسایا کرتے ہیں، اوران میں فرقہ وارانہ تعصب پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں، اگرملک کے تمام اخبار نویس اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ محسوس کرلیں اور اس قسم کی خبروں اور مضامین کے شائع کرنے سے احتراز کرلیں توملک میں جو فضا اس وقت ہے، اس کے بدلنے میں کچھ دیر نہ ہو۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ ہندواخبارہندوؤں کی خبریں اور مسلما ن اخبار مسلمانوں کے جائز مطالبات کی تائید نہ کریں،یا ان کا تحفظ نہ کریں۔ بلکہ عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے’’۔[11]
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد انجم لکھتے ہیں: ’’محمد علی جوہر نے صحافت کو جس دیانتداری، خلوص اور اثباتی انداز میں پیش کیا، اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، اس کا دس پندرہ فیصد خلوص بھی آج ہمارے میڈیا کے مزاج میں داخل ہوجائے توشائد دوتہائی ملکی مسائل خود بخود حل ہوجائیں، کیوں کہ یہ ایک عام اندازہ ہے کہ ہمارے زیادہ ترمسائل میڈیا کے پیدا کردہ ہوتے ہیں،یا اس کی شہ پر سراٹھاتے ہیں اورپھرالجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں‘‘ ۔[12]
اخبار ہمدرد کے متعلق مولانا عبدالماجد دریا آبادی جو خودہمدرد کے اسٹاف میں شامل تھے اور مولانا محمد علی جوہر کے خاص رفیق اورمعاون تھے، کاجامع تبصرہ ملاحظہ ہو: ‘‘ہمدردکوئی خشک اور واعظانہ رنگ کا پرچہ ہرگز نہ تھا، ادبیت اس میں چاشنی کی حدتک نہیں، بلکہ اچھی خاصی نمایاں رہتی تھی، افسانے اس نے بارہا شائع کیے، ادبی تبصرے اس میں برابر نکلے رہتے تھے، مہذب شوخیاں اس کے ایڈیٹوریل میں جھلکتی رہتی تھی، کبھی کبھی کچھ دن کے لیے ظریفانہ کالم بھی اس نے اپنے ہاں کھولے، حاجی بغلول صاحب کے تجاہل عامیانہ کے کالموں کو وقتاًفوقتاً مشرف کرتے رہتے، شعر وسخن کے چرچے بھی اس کے صفحات پر اکثرجاری رہے، باایں ہمہ مذاق عوام کی پیروی اس سے کبھی نہ ہوسکی، بازاریت اورابتذال، فحش وپھکرپن کی نقالی وہ نہ کرسکا، خشک یقینا وہ نہ تھا۔ لیکن چٹپٹا بھی وہ نہ بن سکا، بگڑے ہوئے ذائقے، جس چٹپٹے پن کی تلاش میں رہتے تھے، اس جنس سے اس کا دامن ہمیشہ خالی رہا۔ اشتہارات تک اس نے احتیاط برتی، شراب اور فحش کتابوں، فحش دواؤں کے اشتہارات توخیر الگ رہے، سنیما اورتھیڑکے بھی اشتہارات، اس نے کسی اجرت پر بھی نہ چھاپے۔بات کہنے کو تومعمولی ہی ہے، لیکن ایک روزنامہ کے بارمصارف اورضروریات زرکا اگراندازہ ہوا ورمعاصرین اورثقہ معاصرین کا تعامل پیش نظر رہے، تب شاید محمدعلی کے اس مجاہدہ کی قدر ہو’’۔ [13]
اخبار ھمدرد کے متعلق امداد صابری صاحب لکھتے ہیں: ‘‘مولانا محمد علی صاحب نے اس زمانہ میں ھمدرد جاری کیا جب زمیندار اخبار کا طوطی بول رہا تھا، اس کے باوجود ہمدرد کی پالیسی زمیندار سے مختلف تھی ھمدرد متین وسنجیدہ اور برد بار ومتحمل اخبار تھا ۔ صحیح واقعات کی طرف توجہ دیتا تھا، اس نے کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ کسی خاص طرز اختیار کرنے سے اشاعت بڑھے گی یا گھٹے گی ۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں زمیندار نے ہر دل عزیزی اور قبولیت عامہ کا راستہ اختیار کیا، وہاں ہمدرد نے اعلا اور بلند پایہ کی صحافت کو رائج کرنے کی کوشش کی ’’۔[14]
خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں:‘‘اخبار نویسی میں ان کی نظر بہت بلند تھی ورنہ اردو کے ایک روزانہ اخبار کے لیے انہوں نے جو شاہانہ اہتمام کر رکھا تھا، وہ اردو اخباروں کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا’’۔[15]
مزید مولانا عبدالماجد دریاآبادی تحریر فرماتے ہیں: ‘‘ہمدرد کو اصلی مقابلہ انگریزی حکومت سے کرنا تھا، ہندوستان کی آزادی اورہندوستان سے بھی بڑھ کر ممالک اسلامیہ کی آزادی محمدعلی کو عزیزتھی، ہمدرد اور کامریڈ دونوں کے اجراء سے، ان کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ ملت اسلامی کواسی نقطہ نظر پر لاکر متحد کریں۔ جزئی معاملات میں اختلاف اور اندرونی نزاعات اس مقصد کے حق میں زہر تھے، اس لیے محمد علی جوہر کی انتہائی کوشش یہ رہتی کہ ہمدرد کبھی بھی اپنی قوت، مسلمانوں کے اندرونی باہمی اختلافات میں پڑنے اورایک فریق بن جانے میں منتشر نہ کرے’’۔[16]
پھر بھی ہمدرد کواندرونی فتنوں او رجھگڑوں کی جانب کئی بار متوجہ ہونا پڑا، موت تک نوک جھوک میں طاقت آزمائی کرنی پڑی، پہلی جنگ سعودی شریفی تنازعہ میں سعودی حکومت کی موافقت میں، دوسری جنگ اسی سلسلہ میں ملک عبدالعزیز آل سعود کی وعدہ خلافی پرمولانا ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار اورساری جماعت اہل حدیث کے خلاف ،تیسری جنگ خواجہ حسن نظامی کے خلاف رہی۔
ان ہی اسباب کی بناء پر ہمدرد کی تعداد اشاعت بھی دن بہ دن گھٹتی چلی گئی، اورکامریڈ کی طرح ہمدرد کو بھی بند کرنے کا سخت فیصلہ مولانا کولینا پرا۔ کیوںکہ جو زریں اصول ہمدرد اور کامریڈکے پیش نظر تھے، وہ مادی زیاں اور سراسر گھاٹے کاتھا، لیکن مختصر مدت میں ہمدرد کے ذریعہ مولانا محمدعلی جوہرنے اردو دنیا کو جو پیغام اور آزادی حق گوئی اور بے باکی کا نغمہ سنایاوہ آگے چل کر آزادی کے متوالوں کے لیے مشعل راہ راہ ثابت ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانامحمد علی جوہر کی صحافت نگاری سے ایک نئے دور کا آغازہوا ہے ، جو آگے چل کر آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔
مولانا محمدعلی جوہر نے اردو میں بہت کم ہی لکھا، ان کا اصل میدان انگریزی تھا، لیکن اردو میں ان کے جوہر کم نہیں کھلتے تھے، اردو سرمایہ خواہ نثر ھو یا نظم، تعداد کے اعتبار سے اگرچہ کم ہے، لیکن نوعیت، وزن او روقار کے لحاظ سے دوسروں سے کسی درجہ کم نہیں۔ ان کی تمام تحریریں بصیرت اور دیدہ وری کا بین ثبوت ہے۔ان کی جملہ تحریریں، اسلام سے بے پناہ محبت وشیفتگی، انگریزوں سے بغض ونفرت، آزادی وطن کے لئے مژدۂ جانفزا اور امید صبح تھی۔
مولانا محمد علی جوہرنے صحافت کے خارزارمیدان میں ملک وملت کی خدمت کے وافر جذبہ کے ساتھ قدم رکھا،انہوں نے کبھی بھی صحافت کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنایا، بلکہ صحافت کے ذریعہ سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور پھر کچھ سیاسی مصروفیات اور وقت کی ضرورتوں میں ایسے الجھے کہ اپنی جان جان آفریں کو سونپ دی۔[17]
مولانا محمد علی جوہر کے صحافت نے جہاں ایک طرف لوگو ںمیں سیاسی شعور بیدار کیا اور ان کی آزادی کی جنگ میں مددکی، وہیں اردو نثر کو بھی فکر انگیزتحریروں سے خوب مالا مال کیا۔ ان کی زابان جتنی بے خوف تھی ان کاقلم بھی اتناہی بے خوف تھا، وہ لکھنے بیٹھتے تو گویا الفاظ کاغذ پر اترنے کے لیے بے تاب ہے، گردوپیش پر گہری نظر، حالات حاضرہ پر بہترین تبصرہ، اور مصلحتوں کے فقدان سے عوام آپ کی گرویدہ ہوچکی تھی۔ اس کے گہرے نقوش آج بھی برقرار دیکھے جاسکتے ہیں۔اسی طرح حضرت جوہر اپنی شاعری میں بھی انفرادیت اورطمطراقی کے ساتھ جلوہ گر نظرآتے ہیں، ان کا شعری ذوق اوروجدان بے حد نازک اورلطیف ہے، ان کی شاعری بھی ان کی زندگی کا شفاف آئینہ ہے۔خوف خدا، محبت رسول، حب الوطنی، قومی ہمدردی اورمال ومتاع سے بے نیازی ان کی شاعری کی بنیاد اور اساس ہے۔
حواشی
[1] حیات جوہر مولانا محمد علی کی مکمل سوانح حیات مع خود نوشت حالات۔ عشرت رحمانی رام پوری ص: ۶-۷۔
[2]مولانا محمد علی کی یادمیں سید صباح الدین عبد الرحمن ص 13۔ مولانا محمد علی جوہر ایک مطالعہ مضمون مولانا محمد علی کی ابتدائی زندگی، مولانا شوکت علی مرحوم ص:۱۷۔
[3] مولانا محمد علی جوہر ایک مطالعہ مضمون مولانا محمد علی کی ابتدائی زندگی، مولانا شوکت علی مرحوم ص:۹ – ۴۳۔ مرتبہ عبد اللطیف اعظمی
[4]ھندوستانی ادب کے معمار مولانا محمد علی جوہر ص: 52۔
[5]ہمدرد 23 جنوری 1927 بحوالہ ھندوستانی ادب کے معمار ص: 46۔
[6] مولانا محمد علی کی صحافت اور اس پر سیاسی اثرات احمد سعید ملیح آبادی مشمولہ جوہر نامہ مرتبہ حکیم محمد عرفان الحسینی ص: ۸۹۔
[7] اداریہ ہمدرد یکم جون ۱۹۱۳، بحوالہ مولانا محمد علی اور ان کی صحافت ابوسلمان شاہجہانپوری ص: ۴۷-۴۸۔
[8]مجلہ علم وآگہی کراچی بحوالہ ھندوستانی ادب کے معمار ص: 46۔
[9]ھندوستانی کے معمار مولانا محمد علی جوہر ص: 60۔
[10]مجلہ علم وآگہی کراچی بحوالہ ھندوستانی ادب کے معمار مولانا محمد علی جوہر ص: 59۔
[11]ہمدرد یکم جولائی 1926، کشکول ص: 9 کالم 1 بحوالہ ھندوستانی ادب کے معمار مولانا محمد علی جوہر ص: 62۔
[12]ھندوستانی ادب کے معمار مولانا مٖحمد علی جوہر ص: 63۔
[13]محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق ص: 204۔
[14] تاریخ صحافت اردو ص: ۳۰۲-۳۰۳ ج: ۴ امداد صابری جدید پرنٹنگ مشین پریس نئی دہلی ۔
[15] جامعہ مولانا محمد علی نمبر حصہ دوم ص : ۱۰۵، مدیر ضیا الحسن فاروقی /عبد اللطیف اعظمی جنوری فروری ۱۹۸۰ ناشر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
[16]محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق ص: 206۔
[17] مولانا محمد علی کی صحافت اور اس پر سیاسی اثرات احمد سعید ملیح آبادی مشمولہ جوہر نامہ مرتبہ حکیم محمد عرفان الحسینی ص: ۸۷-۸۸۔
کتابیات
ھندوستانی ادب کے معمار مولانا محمد علی جوھر ڈاکٹر شہزاد انجم ساہتیہ اکادمی بار اول ۲۰۰۵۔
مولانا محمد علی جوہر ایک مطالعہ مرتبہ عبد اللطیف اعظمی، علمی ادارہ ذاکر نگر نئی دہلی ۱۹۸۰ بار اول
تحریک خلافت قاضی عدیل عباسی قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو ۱۹۹۷۔
جوہر نامہ مرتبہ حکیم محمد عرفان الحسینی محمد علی لائیبریری کلکتہ ۱۹۷۸۔
مولانا محمد علی اور ان کی صحافت ابوسلمان شاہجہانپوری ادراہ تحقیق وتصنیف کراچی ۱۹۸۳۔
مولانا محمد علی کی یاد میں (مرتبہ ) سید صباح الدین عبد الرحمن مکتبہ معارف اعظم گڈھ ۱۹۷۷۔
محمد علی (ذاتی ڈائری کے چند ورق) مولانا عبد الماجد دریا آبادی معارف پریس اعظم گڈھ ۱۹۵۶۔
مولان محمد علی : شخصیت اور خدمات (مرتبہ) سید نظر برنی ادبی سنگم جامعہ نگر نئی دہلی ۱۹۷۶۔
مولانا محمد علی جوہر (روزانہ ہمدرد کی روشنی میں) ڈاکٹر محمد قمر تبریز ادبستان پبلی کیشنز نئی دہلی ۲۰۱۳۔بار اول۔
مولانا محمد علی جوہر ایک عہد ساز شخصیت محمد فضل حق پٹنوی بار اول ۱۹۹۷، منور پرنٹنگ مشین سبزی باغ پتنہ
مولانا محمد علی جوہر ثناء الحق صدیقی اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، پاکستان بار اول ۱۹۷۵۔
مولانا محمد علی جوہر ابو سلمان شاہجہانپوری مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد, بار اول ۱۹۹۲۔
علامہ اقبال اور مولانا محمد علی ابو سلمان شاہجہانپوری ادارہ تصنیف و تحقیق، پاکستان بار اول ۱۹۸۴۔
حیات جوہر مولانا محمد علی کی مکمل سوانح حیات مع خود نوشت حالات۔ عشرت رحمانی رام پوری مطبع محبوب المطابع ۱۹۳۱ ۔