ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی علیگ
آراضی باغ ، آعظم گڑہ
ایک ہمہ گیرمایہ ناز شخصیت جو فرزند ندوۃ العلماء اور روایات و فکر سلیمانی کے پاسبان سے معروف رہی ہے جنہوں نے بایں ہمہ بحیثیت مفکر ، محقق ، مدبر، مصنف ، مجتہد اور مؤسس ،علمی چمن پر اپنی صلاحیتوں کے پھول بکھیرے تو ملت اسلامیہ ہند کے خزاں رسیدہ چمن میں بہار آگئی اور اپنی قرآني افکار کے چراغ روشن کئے تو بدعت و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک کرن نمودار ہوئی جس نے چمنستان علم و فن کو روشنی دکھائی ۔ جس کی شاھین صفت فکر نے باد مخالف کو ترقی کا آبگینہ سمجھا بقول:
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
وہ جامع اور مختلف الاذواق شخصیت مولانا مجیب اللہ ندوی کے نام سے جانی جاتی ہے اور فقہ اسلامی کے میدان میں اعلی مقام رکھتی ہے لیکن ان کی حیات کاملہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ دریچہ وا ہوتا ہے کہ آپ کی شخصیت نہ صرف ایک فنی انفرادیت سے معمور رہی ہے بلکہ وہ کثیر الجہات اور متنوع الکمالات شخصیت کے حامل تھے۔
فقہی میدان میں آپ کی کارکردگی آپ کی قرآنی فکر اور ذہانت کی آئینہ دار ہیں جس سے آپ تجدد پسند مجتہدین کی صف میں شامل ہوئے اور اسلامی نقطہ نظر کو پوری قوت و جرءات کے ساتھ واشگاف کرنے کی جدوجہد کی۔
آپ کی شخصیت اگرچہ تحقیق و تدقیق کا مستقل موضوع بنائے جانے کی مستحق ہے مگر حیات عامہ سے قطع نظر ہم آپ کی فکر اور نقطہ نظر کو ” تواضع ” کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ دور جدید میں عوام الناس کے درمیان خال خال ہی نظر آتی ہے۔ آپ کی شخصیت چونکہ سراپا تواضع اور فروتنی کا پیکر تھی لہذا امت کے اس عظیم اخلاقی صفت سے منحرف ہونے کے سبب آپ نے اس درد کو سمجھا اور یہ کتابچہ تحریر کرکے لوگوں کو ایک مشعل عطا کی جس کی روشنی سے انسان تاریکی کے گڑھے میں گرنے سے خود کو بچا سکتا ہے۔
تواضع یعنی عاجزی و انکساری ایک ایسی اخلاقی صفت ہے جس سے مزین انسان اپنی شخصیت کو چار چاند لگا سکتا ہے ۔ چونکہ ایک عظیم مفکر و محقق جب معاشرہ میں کسی اخلاقی صفت میں انحطاط کا درد محسوس کرتا ہے تو اس سے اجتناب کی دعوت دیتے ہوئے اپنے افکار کو قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا مولانا مجیب اللہ ندوی نے بحیثیت مفکر و محقق جب اس اخلاقی تنزلی و پستی کا کرب محسوس کیا تو امت کو اس سے دوری اختیار کرنے کی دعوت دی کیونکہ کبر و نخوت سے کسی بھی صالح معاشرہ کا وجود میں آنا ناممکن ہے جو کہ دور معاصر میں لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔
آپ کے علمی و ملی کارنامے کے ساتھ اس کتابچہ کا ذکر شاذ و نادر ہی آتا ہے جو کہ موضوع کے لحاظ سے گراں قدر اہمیت کا حامل ہے۔ بیشتر ارباب علم و فن نے آپ کے دیگر موضوعات کو اپنے رشحات قلم سے نوازا اور اپنے تجزیاتی افکار کی روشنی میں ان موضوعات سے عوام الناس کو روشناس کرایا مگر اس کتابچہ کو یا تو یکسر نظر انداز کیا یا محض ضمنا اس کے ذکر پر اکتفا کیا لہذا ہم نے دور جدید میں اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوۓ اس پر قلم اٹھانے کی کوشش کی۔
یہ کتابچہ اگرچہ محض 20 صفحات پر مشتمل ہے مگر اپنے اندر وہ لعل و گہر سموۓ ہوۓ ہے جس سے استفادہ کرکے انسان خود کو انسانیت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کر سکتا ہے ، کیونکہ سادگی ، تواضع و خاکساری ایک ایسی اعلی صفات حمیدہ میں سے ہے جو معاصر دور میں نسل نو کے اندر بمشکل ہی نظر آتی ہے۔ ایسا اس لۓ کہ آج کا انسان مادہ پرستی سے لبریز کبر و غرور کا شیوہ اپناۓ ہوۓ ہے یا پھر احساس کمتری کا شکار ہوکر اپنی دنائت و رذالت کو چھپانے کے ریاکاری جیسی مکروہ صفت سے خود کو مزین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
دور جدید میں امت محمدیہۖ کے اسی معیوب مرض کو مولانا موصوف نے اجاگر کرنے اور پھر کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے علاج کی کاوش میں اپنی فکر کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا جس پر عمل کرکے بندہ اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتا ہے۔
یہ مضمون کمیت کے اعتبار سے اگرچہ مختصر مگر کیفیت کے اعتبار سے پر مغز اور جامع ہے جس سے قاری قلیل وقت میں اپنی گمراہ کن سوچوں سے پردہ فاش کرتے ہوئے عین شریعت اسلامیہ کے مطابق زندگی کی گاڑی کو رواں دواں کر سکتا ہے ، کیونکہ کبر و نخوت ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو نہ صرف گمراہ ہی کرتا ہے بلکہ بندہ کو عبودیت الہی سے نکال کر سرکش و باغی بنا کر مستحق جہنم بھی ٹھہراتا ہے۔
لہذا مولانا نے تواضع کی تعریف میں کتاب و سنت کا حوالہ دیتے ہوۓ نہایت مدلل انداز میں تواضع اور کبر و نخوت کی تفریق کی اور ان اللہ جمیل و یحب الجمال کے مصداق امت مسلمہ کو اعتدال کی راہ سجھا ئی۔ کبر و غرور کی متضاد صفت دنائت و پستی کو بھی مذموم ٹھہراتے ہوئے ملت کو خوشامد و دنائت چھوڑ کر خوددارانہ روش اختیار کرنے کی دعوت دی اور اس ضمن میں افراط و تفریط دونوں سے ہی احتراز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعتدال کو اسلام کی شان اتزان قرار دیا۔
چنانچہ لکھتے ہیں :
” تکبر اور غرور میں افراط ہے اور دنائت و پستی میں تفریط ہے ، اسلام چونکہ زندگی کے تمام شعبہ میں انسان کو افراط و تفریط سے بچانا چاہتا ہے ، اس لئے اس نے یہاں بھی ان دونوں کے درمیان ایک معتدل اور توسط کی راہ اختیار کی ہے اور وہ تواضع اور خاکساری کی راہ ہے”۔ [1]
مساوات و رواداری کو بحال رکھنے کے لئے دونوں ہی یعنی افراط و تفریط جیسی مذموم صفت سے اجتناب کو واجب قرار دیا کیونکہ دونوں ہی صورتحال عام انسانوں کی صلاحیتوں کو روندنے کی دعوت دیتی ہیں جس سے معاشرہ ظلم و بربریت کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور بندہ رب کی کبریائی سے منہ موڑ لیتا ہے۔
لہذا رقم طراز ہیں :
” اللہ تعالی نے قوت اقتدار کے وہ تمام طریقے جس کے ذریعہ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنا غلام بنا کر اس پر ظلم و زیادتی کرسکتا ہے اسے بند کردیا ہے ۔۔۔۔۔ الخ[2]
چنانچہ طواف میں رمل کی روایت اور جہاد میں قوت کے اظہار کو جائز قرار دیتے ہوئے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ جہاں پر عجز و انکساری کی روش سے ضعف کا اظہار ہو تو ایسے مواقع پر عارضی طور پر کبر و غرور کی اجازت ہے۔
لسان العرب کے مطابق تواضع کی لغوی تشریح کے ساتھ ساتھ آپ نے حدیث ” من تواضع للہ رفعہ اللہ ” کی روشنی میں اس کے شرعی مفہوم کی توضیح یوں کی : ” ایک بندہ کی بندگی اور عبد کی عبدیت کا تقاضا ہے کہ وہ خداکے احکام کے آگے اپنے سر نیاز کو بالکل جھکا دے اپنی کسی علمی یا عملی خوبی سے اپنے کو دوسروں سے بلند نہ سمجھےاور نہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے”۔[3]
آپ نے نہایت مدلل انداز میں یہ بات عرض کرنے کی کوشش کی کہ قرآن میں صراحـۃ تواضع کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اللہ نے اس کی تعلیم اس کے مظاہر کے ذریعہ دی ہے۔ سورۃ فرقان آیت 19′ لقمان 18′ حجر 88′ شعراء 215 آیات کا حوالہ دیتے تواضع کے مظاہر کی وضاحت بڑے جامع اور لطیف انداز میں یوں کی : ” نشست و برخاست میں ترفع کے بجائے فروتنی ہو۔ بات چیت میں اس کی آواز کرخت نہ ہو۔ اپنی زبان یا طرز عمل سے اپنی بڑائی کا اظہار نہ کرتا ہو۔ اسی طرح قرآن نے ایسی بہت سی صنعتوں کا ذکر کیا ہے جس سے تواضع اور خاکساری پیدا ہو”۔[4]
چنانچہ مذکورہ بالا آیات کے تناظر میں یہ نشاندہی کی کہ اگرچہ قرآن نے تواضع کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے مگر بہت سی ایسی صنعتوں کا ذکر کیا ہے جس سے معاشرہ کے تمام افراد کے اندر عجز و انکساری ، نرمی اور انقیاد کی صفت پیدا ہو جائے جو ایک پر امن اور خوبصورت معاشرہ کی تشکیل کے لئے نہایت ضروری ہے۔
قرآن کے علاوہ آپ نے دیگر انبیاء کرام کے طرز عمل اور سنت نبوی سے اس پر مغز تحریر کی تزئین کاری کرتے ہوئے اس بات کی تاکید کی کہ تواضع کی صفت سے انسان اس وقت تک متصف نہیں ہو سکتا جب تک وہ بلا تفریق ملک و ملت معاشرہ کے تمام خوشحال یا زبوں حال افراد کے ساتھ مساویانہ اور برادرانہ سلوک نہ اختیار کرے ۔ چنانچہ ظلم و زیادتی سے اجتناب برتتے ہوئے غرباء و مساکین کی محفلوں میں شرکت کو بھی تواضع قرار دیا تاکہ ایک انسان کسی کی پستی و بدحالی سے غلط فائدہ اٹھا کر اس کے حقوق کی پامالی نہ کر سکے۔
تواضع کے ضمن میں آپ نے ابن قیم کا قول نقل کرتے ہوئے نبی کریمۖ کی عملی زندگی کی تفسیر اس خوبصورت پیرایہ میں بیان کیا ہے جس کے پڑھنے کے بعد قاری پر کوئی بات مبہم نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ فرماتے ہیں :” وہ اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرتے تھے، اپنے کپڑے سیتے ، اپنے جوتے گانٹھ لیتے تھے اپنی بکریاں خود ہی دوہ لیتے تھے ۔۔۔۔۔ الخ[5]
اور آپۖ کے قول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ تواضع کے بلند مرتبے پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جو اپنے ذاتی محاسن اور اخلاق حمیدہ کے باوجود ان صفات سے آراستہ و پیراستہ ہو جس کی خوبصورت تعبیر ہمیں آپۖ کی عملی زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپۖ کی شخصیت تمام اوصاف فاضلہ سے مزین ہونے کے باوجود تواضع و انکساری کی اعلی مثال تھی۔
مزید برآں آپ نے اس مختصرتحریر میں صحابہ کرام کے تواضع اور ان کے منتخپ اقوال نقل کرکے اس مضمون کی جامعیت کو اجاگر کردیا ۔ مثلا عمر کا اپنے نفس سے نخوت دور کرنے کی غرض سے مشکیزہ کا کندھے پر اٹھانا ، حضرت عمر کا معاذ کے پاس دوسرا جوڑا بھجوانے پر ان کی برہمی دور کرنے کے لئے نہایت انکساری سے اپنے سر کو حضرت معاذ کے سپرد کردینا ، حضرت ابن عباس کا حضرت زید کی رکاب تھامنے کے لئے آگے بڑھنا اور حضرت ابو ذر کا حضرت بلال کو سیہ فام کہہ دینے پر ندامت کا احساس ہونا وغیرہ وغیرہ۔
علاوہ ازیں اس ضمن میں صوفیائے کرام کے چنندہ اقوال بھی نقل کرتے ہوئے اس مضمون کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیا چنانچہ حسن بصری کا قول نقل کرتے ہیں کہ تواضع یہ ہے کہ جب تم اپنے گھر سے نکلو تو جس مسلمان سے بھی ملو اس کو اپنے سے افضل سمجھو “[6]
ابن عطاء نے فرمایا : ” تواضع یہ ہے کہ حق بات جس سے بھی معلوم ہوجائے اسے قبول کر لیا جائے “۔[7]
مذکورہ بالا تاویلات اور دیگر مشایخ کے نظریات کی روشنی میں آپ نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ تواضع افراط و تفریط کے درمیان کی راہ یعنی اعتدال ہے کیونکہ اگر اس نے افراط کی راہ اختیار کی تو گویا اس نے اللہ سے بغاوت کی اور اگر تفریط کی جانب بڑھا تو دنائت و پستی میں جا گرا۔
امام ابن قیم کا قول نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :” دنیا میں چار چیزوں کے ذریعہ رسول کی تعلیمات سے تعارض پیدا کیا گیا ہے ۔ معقول، قیاس ، ذوق اور سیاست۔[8]
ان چاروں ہی چیزوں کی مختصر مگر جامع تعریف پیش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ چاروں ہی راستے گمراہ کن ہیں جن میں انسان احکام الہی کے مقابلہ میں مذکورہ بالا چیزوں کو ترجیح دے کر گویا رب کی کبریائی کا مقابلہ کرتا ہے۔
امام ابن قیم کا یہ قول نقل کرکے تواضع کا مفہوم مزید واضح کردیا جس میں فرماتے ہیں : ” تواضع یہ ہے کہ عبدیت اور اس کی بندگی یہ سمجھ کر کرنا کہ اس کا حکم اور عبدیت کا تقاضا یہی ہے نہ یہ کہ تمہاری رائے یا تمہاری عادت و طبیعت اس کا سبب ھو۔
آخر میں آپ نے امام غزالی کے قیمتی قول کا خلاصہ پیش کرکے قارئین کو تواضع کی ہیئت و کیفیت سے متعارف کرایا ہے جس میں فرماتے ہیں :” اسلامی اخلاق کی طرح تواضع کے بھی دو کنارے ہیں اور ایک اس کا وسط ہے۔ اس کا ایک کنارہ زیادتی ( افراط) کی طرف جھکا ہوا ہے جس کا نام تکبر ہے اور دوسرا نقصان ( تفریط) کی طرف ، اس کا نام ذلت و پستی اور دنائت و چاپلوسی ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان جو چیز ہے اسی کا نام تواضع ہے۔۔۔۔۔۔ الخ[9]
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مادیت کے اس دور میں جب کہ اس صفت کا فقدان ہے آپ نے بالترتیب کتاب و سنت اور منتخب اقوال کی روشنی میں اپنے خیالات ذریعہ ایسے خوبصورت چمن کی آبیاری کی ہے جس کے رنگ برنگے پھولوں کی دبیز خوشبو دور جدید میں معاشرہ کو ایک معطر فضا فراہم کر سکتی ہے جس سے فرحت و انبساط کا دروازہ کھل سکے۔
حواشی
” تواضع ، مولانا مجیب اللہ ندوی ، ص 2 ، مکتبہ الرشاد ، آعظم گڑھ[1]
دیکھئے ” تواضع” ، ص 16، 17، 18[8]
مصادر و مراجع
- تواضع ، مولانا مجیب اللہ ندوی ، مکتبہ الرشاد ، آعظم گڑہ
- مجموعہ مقالات ” افکار مجیب” مولانا مجیب اللہ ندوی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، رشاد نگر ، آعظم گڑہ
- wikipedia.com