Main Menu

منتخبات شرح تمہیدات (از حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ) کا علمی وادبی جائزہ

                                                                                  ڈاکٹرشبیب انورعلوی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ فارسی
لکھنؤ یونیورسٹی ،لکھنؤ

پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا زمانہ اسلامی سلطنتوں اور اسلامی علوم و فنون کے انتہائی عروج واقبال مندی کا زمانہ ہے ہندوستان ، چین کی سرحد سے مراقش ، اندلس اور بحر اوقیانوس تک ساری زمین عالم اسلام کے ماتحت تھی ، اس مذکورہ خطے میں اس وقت جو چھوٹی اور بڑی مستحکم حکومتیں قائم تھیں ان میں بادشاہوں اور امراء کی علم دوستی اور سر پرستی کی بدولت ہر قسم کے علوم و فنون اپنے درجے کمال کو پہنچ گئے تھے۔ اسی دوران جہاں ایک طرف علماء، فضلا ، فقہا و مورخین کثیر تعداد میں تشنگان علم کو سیراب کر رہے تھے وہیں دوسری طرف صوفیائے کرام اکا بر طریقت اور اولیاء عظام بھی ایک بڑی تعداد میں تصوف و عرفان کی شراب سے سالکان طریقت کو مست بنارہے تھے جہاں ایک طرف ابوریحان البیرونی (م۴۴۰ھ ) ابو الفضل بیہقی (۴۷۰ھ) شیخ عبد القاہر جُرجانی (۴۰۰ھ-۴۷۱ھ) امام ابو حامد محمد غزالیؒ (۴۵۰ھ،۵۰۵ھ) اور امام احمد غزالی (۴۵۲ھ-۵۲۰ھ) کا شہرہ تھاو میں دوسری طرف شیخ ابوسعید ابوالخیر ( ۴۴۰ ) خواجہ عبداللہ انصاری (۴۸۱ھ) اور شیخ عبد القادر جیلانی (۴۷۰ھ-۵۶۱) جلوہ افروز تھے اسی مردم خیز زمانہ میں ایک ایسی شخصیت کا ظہور ہوا جو بیک وقت نہ صرف ایک مفسر، محدث، فقیہ، عالم، قاضی اور دانشور تھے بلکہ ایک بلند پایہ صوفی اور ایک صاحب حال و قال عارف باللہ تھے۔ یہ شخصیت حضرت شیخ ابو المعالی عبد اللہ بن ابو بکر محمد بن علی میانجی ہمدانی کی تھی جو عرف عام میں’’ عین القضات ہمدانی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

 حضرت شیخ کی ولادت ۴۹۲ھ مطابق ۱۰۹۰ ء میں شہر ہمدان کے علاقہ میانج میں ہوئی جوتبریز اور ہمدان کے درمیان واقع ہے۔ ان کے والد ابو بکر محمد بن علی اپنے زمانہ کے مشہور عالم فقیہ اورشہر ہمدان کے قاضی تھے انہوں نے ابتدائی تعلیم و تربیت والد کے زیر سایہ حاصل کی اور نہایت کمسنی میں شہر ہمدان کے عہدہ قضا پر فائز ہو گئے۔ مرأت الاسرارکی روایت کے مطابق ان کو فطری طور پر ایسا غیر معمولی حافظہ اور ذہانت ودیعت ہوئی تھی کہ صرف پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا اور بارہ سال کی عمر میں تمام علوم منقول و معقول سے فراغ حاصل کیا اور اپنے والد کی نیابت میں قضاوت کے امور انجام دینے لگے لیکن علم کی تشنگی ایسی تھی کہ کچھ ہی عرصے بعد اس عہدے کو خیر باد کہہ کر ہمدان سے خراسان ہجرت کر گئے جہاں اس زمانہ کے مشہور عالم اور بزرگ ابو عبد اللہ محمد بن حمویہؒ جوینی اورعظیم شاعر اورفلسفی حکیم ابوالفتح عمر خیام (۴۳۹-۵۲۶ھ) کی صحبت میں علم فلسفہ وحکمت سے آشنائی حاصل کی لیکن ان کی قلب ماہیت کا سبب کچھ اورہی ہواجس کو انہوں نے خود زبدۃ الحقائق (تمہیدات) میں یوں تحریر کیا۔

’’ جب میں تمام علوم درسیہ کو حاصل کر چکا تو امام محمد غزالی ؒکی تصانیف کا مطالعہ شروع کیا اور چار سال اس میں صرف کئے اور جب ان کتابوں پر عبور حاصل کر چکا تو یہ سمجھا کہ میں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا اور میرے لئے اتنا علم کافی اور بہت ہے اور تقریباً ایک سال اسی فکر میں گم رہا اور قریب تھا کہ میں علوم باطن اور طلب حق سے بے بہرہ رہ جاتا کہ اچانک حضرت سلطان الطریقت امام احمد غزالیؒ ہمدان تشریف لائے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور صرف بیس دن کی صحبت میں مجھ پر وہ چیز ظاہر ہو گئی کہ جس کے بعد میری ہستی سے کچھ باقی نہ رہا الا ماشا اللہ۔ ‘ ‘  ۱ ؎

حضرت شیخ نے کئی سال ان کی صحبت میں رہ کر کمالات باطنی کی تکمیل کی اور ان کے علاوہ حضرت خواجہ مود و دچشتیؒ( ۴۳۰ھ-۵۲۷ھ) سے بھی باطنی فیض حاصل کیا۔

اگر چہ شیخ ہمدانیؒ نے بہت تھوڑی عمر پائی لیکن ان کی مقبولیت اور محبوبیت کی سب سے بڑی وجہ یہی زیر مطالعہ کتاب ’’تمہیدات‘‘ ہے۔ چونکہ یہ کتاب دس فصلوں یا دس تمہیدوں پر مشتمل ہے اس لئے تمہیدات عین القضات ہمدانی کے نام سے مشہور ہوئی۔

حقایق و معارف کے سلسلہ میں یہ اپنے طرز کی پہلی کتاب ہے جو اپنے بعض مضامین کی بدولت اپنے تالیف کے زمانہ سے آج تک صوفیا اور ان کے معتقدین ومستر شدین کے درمیان نہایت مقبول رہی ہے۔ قاضی صاحب نے اس کتاب کو اپنی شہادت سے تقریباً تین چار سال پہلے تصنیف کیا تھا یعنی چھٹی صدی ہجری کی ابتداء میں یہ کتاب لکھی گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں صوفیاکے طبقہ میں انتہائی درجہ مقبول ہو گئی۔ قیاس ہے کہ ہندوستان میں بھی ساتویں صدی ہجری کی ابتداء میں ہی یہ کتاب پہنچ گئی چنانچہ حضرت سلطان المشایخ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ (۷۲۵ھ) کے ملفوظات فوائد الفواد، افضل الفوائد اور سیر الاولیاء میں بھی اس کی توصیف ملتی ہے۔ اس کے بعد حضرت خواجہ برہان الدین غریبؒ (۷۳۸ھ) اور حضرت خواجہ زین الدین شیرازیؒ (۷۷۱ھ) کے ملفوظات بھی جا بجا اس کا ذکر بڑی شد و مد سے کیا گیا ہے۔ چنانچہ امیر حسن سجزی فوائد الفواد میں۲۳؍ محرم۷۱۲ ھ کی مجلس میں لکھتے ہیں: ’’ بندہ عرضداشت کرد کہ مکتوبات عین القضات ہم نیکو کتا بیست ولی بتمامی ضبط نمی شود فرمودآری کہ آن ر از سرحال نبشتہ است ازسر وقت کہ او را بود نبشتہ ‘‘۔ ۲؎

متاخرین صوفیہ نے اپنی تصانیف اور مکتوبات میں شیخ ہمدانی کا ذکر نہایت محبت اور تعریف کے ساتھ کیا ہے مولانا عبد الرحمن جامی (۸۱۷-۸۹۸ھ) نفحات الانس میں لکھتے ہیں: ’’فضائل و کمالات صوری و معنوی از مصنفات وے ظاہر است چہ عربی و چہ فارسی آن قدر کشف حقایق کہ وے کردہ است کم کسے کردہ واز وے خوارق عادات چوں احیا و اماتت بظہور آمدہ است ‘‘۔۳؎

حضرت شیخ شرف الدین یحیٰ منیریؒ (۷۸۶ھ) کے ملفوظ معدن المعانی میں لکھا ہے : اگرچہ ہرکسے در علم و معرفت چیزے چیزے نوشتہ اند فاما چنان کہ عین القضات نوشتہ است برقانون و مقتضائے تمہیدات اصول دین کم کسے نوشتہ و مشکلات بسیار از ان حل می شود‘‘۔۴؎

لیکن اس کتاب کے بعض مضامین مطلقاً ایسے ہیں جن کی تردید جید صوفیا اور اپنے زمانہ کے مشایخ اور عارفین نے کی ہے غالباً یہی وہ مضامین تھے جو شیخ ہمدانی کی شہادت کا سبب بن گئے۔ صوفیا کا قول ہے:’’ الاسرار صونوھا عن الاغیار ‘‘کشف و شہوداور حقائق ومعارف کے علانیہ اور عوام کے سامنے بیان کرنے سے صوفیا نے صاحبان حال کوسختی سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ اسرار الٰہی ہیں۔

تھا انا الحق حق مگر منصور کو کہنا نہ تھا

 یار کے پردے کے باہر یار کے پردے کی بات

 چنانچہ بخاری شریف کے کتاب العلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے’’ حفظت من رسول اللہ ﷺ وعائین  فاما احدہما فبثثتہ فیکم واما الآخر فلو بثثتہ قطع ھٰذاالبلعوم یعنی مجری الطعام ‘‘ترجمہ: مجھ کو رسول اللہﷺ سے علم کے دو طروف یاد ہوئے ایک وہ جس کو تم سب کے سامنے بیان کرتا ہوں دوسرا وہ ہے کہ اگر اس میں سے کچھ بیان کر دوں تو تم میرا گلا کاٹ ڈالو گے لیکن بعض ایسے صاحبان حال عاشقان الٰہی ایسے ہیں جن پرسُکر کا غلبہ اور استغراق کی کیفیت طاری رہتی ہے اور اکثر اوقات اس حالت میں ان کو دنیا ومافیہا کی خبر نہیں رہتی اس کیفیت میں کبھی کبھی ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو علماء ظاہر کی نگاہ میں کفر و شرک اور الحاد وزندقہ کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کی سزا موت سے کم نہیں ہوتی علماء ظاہر بلکہ علماء ِ سو ء   ا کثر اوقات ایسے مجذوبوں اور اِبنُ الحال صوفیا کی تلاش میں رہتے ہیں جن پر کسی طرح اس قسم کے کفر والحاد کے الزامات عائد کریں اوراس کی بنا پر ان کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ لگا ئیں اور پھر عوام الناس کے ساتھ ان کی موت کا تماشہ دیکھیں اس سلسلہ میں حضرت حسین بن منصور حلاج اور حضرت سرمد شہید وغیرہ کی مثالیں مشہور ہیں۔

خود صاحب شرح ہٰذا یعنی حضرت خواجہ بندہ نوازؒ دہلی میں مقیم تھے اور سلطان فیروز شاہ تغلق (۷۵۲ھ -۷۸۸ھ) کا زمانہ تھا۔ احمد بہاری اور عز کا کوی نام کے دو مجذوب صفت اور مغلوب الحال بزرگ تھے جو حضرت شیخ شرف الدین کی منیریؒ کے دوستوں میں تھے اور نہایت متورع اور عابد تھے چنانچہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ کے مطابق ’’ احمد بہاری را دیدم کہ تا دوازدہ سال ہیچ نخوردہ‘‘۔ ۵؎  (احمد بہاری کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے بارہ سال تک کچھ نہ کھایا) لیکن غلبۂ حال اور عالم بے اختیاری میں ان دونوں کی زبان سے سطحیات یعنی ایسے کلمات نکل جاتے تھے جس سے علماء ظاہر میں انتشار اورغصہ پیدا ہو جاتا تھا آخر کار ایک دن دونوں کی موت کا فتویٰ جاری ہوا اور نہایت بیدردی اور بے رحمی سے دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ بادشاہ اگرچہ فقیر دوست تھا مگر علماء ظاہر نے شریعت کا ایسا نعرہ بلند کیا کہ وہ دیدہ دانستہ بھی کچھ نہ کرسکا اور پاس شریعت میں خاموش رہا۔ جب حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کو یہ خبر پہنچی تو ان کو نہایت رنج ہوا اور فرمایا کہ’’ افسوس دہلی میں کوئی ایسا بھی نہ تھا جو دیوانگی کا ہی عذر پیش کر کے ان کی جان بچا لیتا تعجب ہے کہ جس شہر میں ایسے لوگ قتل کئے جائیں وہ آباد رہے۔‘‘ ۶؎  چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد فیروز شاہ تغلق ختم ہو گیا اور ملک میں انتشار پیدا ہو گیا پھر تیمور نے آکر قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور دہلی کو تباہ و ویران کر دیا۔

 اسی طرح حضرت شیخ ہمدانی بھی حقایق کے اظہار میں نہایت بے تکلفی اور بے خوفی کا ثبوت دیتے تھے تمہیدات میں بھی اس قسم کی بہت سی باتوں کا بیان ا علانیہ کیا ہے اور جگہ جگہ اس امر کا اظہار کیا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ایک دن مجھے قتل کر دیں گے لیکن مجھے اس کی کوئی پروانہیں بلکہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ وہ دن جلد آئے تاکہ پردہ ناسوتی اٹھ جائے۔ ’’ من خود ایں قتل بدعا می خواہم دریغا دور است گہے باشد وماذٰلک علی اللہ بعزیز‘‘۔۷؎

 دوسری جگہ فرماتے ہیں: اگر چہ خونم بخواہند ریختن امادریغ ندارم آخر نشنیدۂ کہ’’ شر الناس من اکل  وحدہ‘‘  ۸؎  یعنی اگر چہ میں جانتا ہو کر قتل کر دیا جاؤ نگا لیکن جو اسرار الٰہی مجھ پر منکشف ہیں ان کو اس لئے دوسروں کو بتلاتا یا ان پر ظاہر کرتا ہوں تا کہ وہ بھی اس سے فیضیاب ہو سکیں اس لئے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ’’ وہ بُرا آدمی ہے جو تنہا خوری کرے۔‘‘ حقایق و معارف اور اسرار الٰہیات کے اظہار کے علاوہ ایک دوسری چیز ان عارفان حق کی خوارق عادات اور کرامات بھی ہیں جن کے ظاہر کرنے سے بھی ان کو اسی طرح منع کیا گیا ہے حضرت شیخ بھی اپنے غلبہ حال کی وجہ سے ان کے اظہار میں نہایت بے پروا تھے۔

زبدۃ الحقایق میں ان کی ایک کرامت کا ذکر ہے جس میں اپنے مخاطب مرید کو لکھتے ہیں۔’’ شنیدہ باشی این حکایت کہ من و پدرم و جماعتی از ائمۂ شہر بودند در خانۂ مقدم صوفی پس مارقص می کردیم وابوسعید تر مذی بیت می گفت پدرم در نگریست پس گفت کہ خواجہ احمد غزالیؒ  رادیدم با ما رقص می کرد و لباس او چنیںو چنیں بود و نشان می داد شیخ ابوسعید گفت نمی یارم گفت کہ مرگم آرزو می کند گفتم بمیر ابو سعید در ساعت بے ہوش شد و برو مفتی وقت دانی کہ خود کہ باشد گفت چون زندہ را مردہ می کنی مردہ را نیز زندہ کن گفتم مردہ کیست گفت ا بوسعید گفت خداوندا ابوسعید رازندہ کنی در ان ساعت زندہ شد کامل الدولہ نوشتہ بود کہ در شہرمی گویند عین القضات دعویٰ خدائی می کند بقتل من فتویٰ دادند‘‘۔

 ( تم نے یہ قصہ سنا ہوگا کہ ایک بار میں اور میرے والد شہر کے علماء کی ایک جماعت کے ساتھ ایک صوفی کے گھر پر سماع سن رہے تھے اور ابو سعید ترمذی اشعار پڑھتے تھے اور ہم رقص کرتے تھے اس دوران میرے والد نے کہا کہ ابھی میں نے دیکھا کہ خواجہ احمد غزالی فلاں قسم کے کپڑوں میں ہمارے ساتھ رقص کر رہے ہیں اور ان کے کپڑوں کا رنگ بیان کیا اسی دوران شیخ ابوسعید نے کہا کہ مجھے موت کی آرزو ہے میں نے کہا مر جاوہ فوراً بے ہوش ہوکر گر پڑے اس وقت مفتی وقت نے مجھ سے کہا کہ جیسے تم نے زندہ کو مردہ کر دیا ویسے ہی مردے کو زندہ کر دو میں نے کہا مردہ کون ہے اس نے کہا ابو سعید میں نے کہا خدا وندا ابو سعید کو زندہ کر دے وہ فوراً زندہ ہو گیا اور شہر میں لوگوں نے کہنا شروع کیا عین القضاۃ نے خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے اور میرے قتل کا فتویٰ جاری ہو گیا )۔

 علماء کو جس موقع کی تلاش تھی وہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے کفر کا جرم ثابت کرتے ہوئے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا لیکن حاکم وقت کامل الدولہ کی بدولت جو حضرت شیخ کے معتقد تھے اس وقت ان کی جان بچ گئی لیکن اسی قسم کا دوسرا واقعہ حضرت کی موت کا باعث ہوا۔ مرأت الاسرار میں حضرت عبد الرحمن چشتی نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ ہمدان کے حاکم کا ایک خدمتگار جو اس کو نہایت محبوب تھا مر گیا۔رنج و غم سے نہایت بیتاب ہوا اور شہر کے تمام علماء وقت کو بلا کر کہا کہ تم لوگ کہا کرتے ہو کہ حضرت رسالت مآبﷺ نے فرمایا ہے کہ’’ علماء امتی کانبیاء  بنی اسرائیل‘‘(میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثل ہیں) انبیاء بنی اسرائیل مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تم خود کو ان کا وارث کہتے ہو، لہٰذایاتو میرے اس خدمت گزار کو زندہ کر دواور اگر نہیں کر سکتے تو کہہ دو کہ یہ حدیث جھوٹی ہے۔ یہ لوگ نہایت حیران و پریشان حضرت شیخ کے پاس آئے اور نہایت عجز والحاح سے عرض کیاکہ ’’ وارث علم انبیاء فی الحقیقت شمائید در یں باب توجہ نمائید والاتخلل در دین محمد ﷺپدیدمی آید ‘‘(حقیقتاً انبیاء کے علوم کے وارث آپ ہی ہیں اس مسئلہ میں توجہ کیجئے ورنہ شریعت محمدی میں خلل واقع ہوجائے گا) حضرت شیخ نے جواب دیا کہ فقراء کے نزدیک یہ چیزیں مشکل نہیں ہیں لیکن ’’بعد از وقوع این واقعہ شماہمہ بجھت قتل من فتویٰ خواہید داد‘‘۔ (اس واقعہ کے ظاہر ہونے کے بعد تم سب میرے قتل کا فتویٰ صادر کر دو گے )۔ ان لوگوں نے بہت عجز والحاح سے عرض کیا کہ معاذ اللہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

’’پس عین القضات از سر وجد برخاست و نزدیک این مست برفت حالے عجیب بر وے اظہار شد و بزبانش بے اختیار گذشتہ کہ ’’ قم باذنی‘‘ در ساعت محبوب خلیفہ زندہ شد شورد عالم افتاد و علماء ظاہرین بشدت پیش آمدند عیسیٰ علیہ السلام قم باذن اللہ می گفت و مردہ را زندہ می کرد و شما چرا قم باذنی گفتید دعویٰ الوہیت ثابت می شود پس ہمہ بہ اتفاق برائے کشتن عین القضات فتویٰ نوشتند‘‘۔

( اس وقت حضرت شیخ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان پر وجد کی کیفیت طاری ہوئی اور اسی حالت میں مردہ کے پاس پہنچے اور بے اختیار ان کی زبان سے نکلا ’’قم باذنی ‘‘ بس اتنا کہنا تھا کہ حاکم کا وہ محبوب غلام ( خدمتگار ) زندہ ہو گیا اور سارے شہر میں شور و غل مچ گیا اور علماء ظاہرسختی کے ساتھ پیش آئے اور کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ جب مردہ کو زندہ کرتے تھے تو ’’قم باذن اللہ ‘‘ کہتے تھے اور تم نے ’’قم باذنی ‘‘ کہا اس سے تو خدائی کادعویٰ ثابت ہو گیا پھر سب نے متفق ہو کر حضرت کے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا اور اس فتوے پر یوں عمل درآمد کیا گیا کہ ایک بوریا لایا گیا اور حضرت شیخ کو اس میں لپیٹ کر مضبوط باندھ دیا گیا اور اس پر روغن نفط ( مٹی کا تیل ) خوب ڈالا گیا اور اس پر آگ لگا دی گئی اور ان کو زندہ جلا دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون .۹؎یہ واقعہ ۵۲۵ھ کا ہے اور اس وقت شیخ کی عمر صرف ۳۳ ؍برس کی تھی۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ کتاب ہٰذا صوفیہ کی مجالس میں نہایت ہی قلیل مدت میں مقبول ہوئی لیکن اس کے باوجود جب اکابر صوفیہ نے اس کتاب میں کچھ ایسے مضامین دیکھے جن سے وہ اتفاق نہ کر سکے تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کتاب کی ایک ایسی عمدہ شرح لکھی جائے جن سے ان مضامین کی وضاحت ہو اور ان کی خامیوں کو صاف طور پر ظاہر کر دیا جائے آخر کار اس کام کو حضرت امام العارفین ، قدوۃ الواصلین ، شہباز بلند پرواز  لامکان، غواص بحر عشق و عرفان ، قطب الاقطاب فرد الاحباب خواجہ صدرالدین ابو الفتح سید محمد حسینی معروف بہ خواجہ گیسودراز بندہ نوازؒ نے انجام دیا اور اس کتاب کے شایان شان شرح لکھی جس سے اس کے مشکل مضامین عام فہم ہو گئے۔ اگر چہ زبدۃ الحقایق یعنی تمہیدات نہایت دقیق اور غامض کتاب ہے لیکن حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نے اس کی مشکلات کو نہایت خوبی سے حل فرما دیا ہے جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ اس کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے صوفیہ طریقت اور کاملین نے اتفاق نہیں کیا بلکہ متعدد مقامات پر ان کی تردید فرماتے رہے چنانچہ صاحب سراج العارفین نے حضرت محبوب الٰہیؒ کا یہ قول نقل کیا ہے۔ ’’عین القضات قاضی بچہ ہمدان بود و فور علم او چہ توان گفت علم ہنوزش شود فاما در بست سالگی در ویشی از کجا شود۔ در مکتوبات او کہ از سر حال نوشتہ است لطایف بسیار است و عین القضات عارف بود فاما چون کودک بود وقت ہستی اوہنوزبمحل فنانہ رسیدہ بود‘‘۱۰؎ ( عین القضات ہمدان کے قاضی کا لڑکا تھا اس کے زبردست عالم ہونے میں کوئی شک نہیں ہے مگربیس سال کی عمر میں درویشی میں کمال کہاں حاصل ہو سکتا ہے اس کے مکتوبات جو ایک خاص کیفیت میں لکھے گئے ہیں ان میں بہت سے لطائف ہیں اور وہ مرد عارف تھا لیکن کم سنی کی وجہ سے فنائیت کے درجہ کو نہیں پہنچا تھا) خود حضرت خواجہ بندہ نواز نے بھی اپنی شرح میں بعض جگہ پر شیخ ہمدانی کے اقوال پر سخت اعتراضات کئے ہیں اور ان اقوال کو ان کی کمسنی ، خام کاری اور مغلوب الحال ہونے کی وجہ سے غلط قرار دیا ہے جگہ جگہ فرماتے ہیں کہ ’’قاضی مادیوانہ است‘‘۱۱؎  آٹھویں تمہیدکی شرح میں ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں’’ در بسیار فوائد علوم قاضی بچۂ راہست و خام کاراست مرد پختہ نیست‘‘۱۲؎  (بہت سے فوائد علوم کے با وجود قاضی راہ سلوک کا بچہ اور خام کا رہے پختگی کو نہیں پہنچا )

دسویں تمہید کی شرح میں ایک جگہ فرماتے ہیں ’’ چکنم اگر قاضی پیش من بود ی تعلیم حقایق می کردم آن مسکین بچۂ راہ ما بودہ است کارش بکمال نرسیدہ بود وگرنہ این بچگی ھانکردی۔‘‘ ۱۳؎  ( کیا کروں اگر قاضی میرے سامنے ہوتا تو میں اس کو حقایق و معارف کی تعلیم دیتاوہ بیچارہ راہ سلوک کا بچہ تھا اور ابھی درجہ کمال کو نہ پہنچا تھاور نہ یہ بچکانی حرکتیں نہ کرتا)۔

 اگر چہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نے کتاب کے بہت سے مضامین میں قاضی صاحب سے اختلاف کیا ہے اور سخت جملے بھی لکھے ہیں لیکن آپ کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سرزنش اور تشبیہات ایسی ہیں جیسی استاد اپنے چہیتے شاگرد کو کرتا ہے آخر میں کتاب کو خاتمہ کے بعد دعا پر ختم کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’اگر عیاذ باللہ خطائے وسہوے از مارفت آن را بہ بخش بروح قاضی۔‘‘ (اگر معاذ اللہ اس شرح میں مجھ سے کوئی سہو و خطا سرزدہوئی ہے تو قاضی کی روح کے طفیل اس کو بخش دے )

زیر مطالعہ کتاب تمہیدات کل دس فصلوں پر مشتمل ہے جن کی ترتیب اس طرح ہے۔

پہلی تمہید                                                         بصارت اور بصیرت کے بیان میں

دوسری تمہید                                             طالب اور مطلوب کے بیان میں

تیسری تمہید                                                اس جہاں یعنی دنیا کی تخلیق کے بارے میں

چوتھی تمہید  نفس کی معرفت کے بیان میں

پانچویں تمہید                                               علم اور عرفان کے بیان میں

چھٹی تمہید       عشق کے بیان میں

ساتویں تمہید                                              روح کے بیان میں

آٹھویں تمہید                                              قرآن مجید کے بیان میں

نویں تمہید        کفر کے بیان میں

دسویں تمہید                                                مذکورہ بالا تمہیدوں کی غرض وغایت کے بیان میں یعنی کتاب کی وجہ تالیف کے بارے میں۔

تقریباً ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اس شرح کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نے کسی دقت نظر اور عرق ریزی سے ان مضامین کی تفتیش اور تحقیق کی ہے اگر چہ اس مختصر مقالے میں پوری کتاب کے مضامین کا تفصیلی طور پر جائزہ نہیں لیا جا سکتا لیکن چند مثالوں سے ان کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔

مثلاًپہلی تمہید میں بصارت اور بصیرت کے فرق کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔’’وتر اہم ینظرون الیک وہم لا یبصرون ‘‘۱۴؎ یعنی اے محمد ﷺ وہ آپ کو دیکھتے ہیں لیکن در حقیقت آپ کو دیکھ نہیں سکتے۔) یعنی آپ کو دیکھنے کا حق نہیں ادا کرسکتے کیونکہ وہ یعنی عوام آپ کی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کیونکہ آپ نور ہیں۔ ’’قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ‘‘۱۵؎ (اللہ کے یہاں سے تمہارے پاس ایک نور آیا اور کتاب مبین آئی) اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ’’ واتبعواالنور الذي أنزل معہ ۱۶؎ ( اس نور کی اتباع کرو جو کتاب کے ساتھ نازل کیا گیا )۔

 فرماتے ہیں حق تعالیٰ قرآن مجید کو بھی نور قرار دیا ہے اور حضور ﷺ کو بھی اور سب کو قرآن اور محمد ﷺ دونوں کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کو ایک لباس اور ایک صورت میں ظاہر کیا ۔محمدﷺ نور ہیں اور قرآن نور ہے اور ان کی اتباع کرنے والا بھی نور ہے۔ ذرا غور کرو اور اس نکتہ کی گہرائی کو سمجھو میرا مطلب یہ ہے کہ قرآن بھی خدا کی طرف سے آیاہے اور محمدﷺ بھی۔ جس طرح قرآن آیا اسی طرح محمد بھی آئے ہیں کیا قرآن کی تحریر شدہ صورت یعنی کا غذ اور سیاہی کو تم قرآن سمجھتے ہو؟ نہیں ، قرآن کا مرتبہ اس کا غذ اور سیاہی سے بلند ہے بالکل اسی طرح محمد ﷺ کی بشری اور جسمانی شکل و صورت کو اگرتم محمدﷺ سمجھتے ہو تو تم غلط ہو کیونکہ ان کا مقام اس ظاہری شکل وصورت اور بشری تمثیل سے بلند ہے جب قرآن کو مخلوق نہیں شمار کرتے تومحمدﷺ کو کیسے کرو گے۔ یہ وہی کہتا ہے جس نے حقیقت محمدی ﷺکا ادراک نہیں کیا۔

 دوسرے یہ کہ عوام الناس آیۂ کریمہ ’’ قل انما انا بشر مثلکم ‘‘ ۱۷؎کہہ دو کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں کی وجہ سے تفکر وتر ددکا شکار ہیں تو ذرا یہ آیۂ کریمہ بھی تو دیکھو ’’ابشر یھدوننا فکفرو‘‘۱۸؎ (کیا یہ بشر ہو کر ہماری ہدایت کریگا پس وہ کافر ہو گئے ) یعنی جنہوں نے محمد ﷺ کو بشرسمجھا وہ کافر ہو گئے۔

پانچویں تمہید میں نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کی حقیقت کی تشریح نہایت دلچسپ انداز میں بیان کی ہے روزہ کے بارے میں فرماتے ہیں شریعت میں روزہ سے مراد ظاہری کھانا پینا ترک کرنا ہے اور حقیقت میں یہ کھانا پینا ظاہری نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے ظاہری کھانا پینا مقصود ہوتا تو پھر حدیث میں ہے کہ ’’ابیت عند ربی یطعمنی ویسقنی ‘‘ (میں اپنے رب کے پاس رہتا ہوں وہ مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے ) یعنی اس سے ظاہری کھانا پینا مراد نہیں بلکہ اس کامطلب کچھ اور ہی ہے اس کو یوں سمجھوکہ ’’ وکلم اللہ موسیٰ تکلیما‘‘۱۹؎ (اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے بذات خود کلام فرمایا)

یہ کلام ہی حضرت موسیٰ کی غذا تھی اسکا مطلب یہ ہے کہ ظاہری حسیات سے فارغ ہو کر حقیقت کی طرف متوجہ ہونا اصلی روزہ ہے۔ یعنی سب سے ٹوٹ کر اس کی طرف پیوست ہونا  اور اسی لئے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ الصوم الغیبۃ عن رویت مادون اللہ ‘‘(یعنی روزہ ماسوی اللہ کی دید سے فارغ ہو کر حق کا دیدار کرنے کا نام ہے ) اسی مقام سے حضرت مریم ؑکا فرمان ہے’’ انی نذرت للرحمٰن صوما ‘‘۲۰؎   (آج میں نے رحمٰن کاروزہ ماناہے ) اورس روزہ کی جزا دیدار الٰہی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ’’ للصائم فرحتان فرحۃ عند الافطار وفرحۃ عند لقاء الرحمن‘‘ (یعنی روزہ دار کیلئے دو فرحتیں ہیں ایک افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری لقائے الٰہی کے وقت ) حضرت خواجہ بندہ نوازفرماتے ہیں کہ حدیث شریف میں ہے کہ ’’صوموا لرویتہٖ وافطروا لرویتہ‘‘

(اس کو دیکھنے کے بعد روزہ رکھواوراس کودیکھنے کے بعد افطار کرو۔ اس روایت کے معنی فقہاء محدثین کے نزدیک چاند دیکھنا ہے یعنی رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کرو اور شوال کا چاند دیکھ تو روزے رکھا بند کردو یعنی عید منا ؤ۔لیکن صوفیا کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ رکھو محبوب کے دیدار کی خاطر اور افطار کرو اسی کے دیدار کے ساتھ یعنی جب تم اس طرح روزہ رکھو گے کہ ماسوی کی طلب سے خود کو رو کے رکھو گے تو تمہارا افطار اس کے جمال جہاں آرا کے دیدار سے ہوگا۔ چونکہ تم اس کے دیدار کے لئے ہر شے کی دید سے فارغ ہو کر اس کی طرف یکسو اور ہمہ تن متوجہ ہو چکے ہو تو اب دیدار کرو۔ اور جو شخص ماسوی کی دید سے فارغ نہ ہوا اس کے لئے حدیث ہے کہ’’ لاصام ولا افطر ‘‘ (یعنی نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا )۔

 اسی طرح اس تمہید میں حج کی حقیقت کا بیان بھی بہت عمدہ انداز میں کیا ہے اور اس کی تشریح بھی نہایت اعلیٰ ہے۔ فرماتے ہیں ’’وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘ ۲۱؎   (جو شخص استطاعت رکھتاہو،اس پر اللہ کے لئے اس کے گھر کا حج فرض ہے) یعنی بہترین سفر اللہ کی راہ میں بیت اللہ کا سفر ہے۔’’ ومن دخلہ کان آمنا‘‘ ۲۲؎  اور جو وہاں داخل ہو گیا اس کو امان و پناہ مل گئی۔ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ فرماتے ہیں کہ عوام اپنے نفسانی خیالات میں غرق کعبۃ اللہ کا سفر کرتے ہیں اور حج کے ارکان ادا کر کے یہ تصور کرتے ہیں کہ جنت حاصل ہوگئی اور اپنی دعاؤں میں دنیاوی اغراض و مقاصد کی طلب کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا دامن اسی سے بھر جائے ۔یہ بھی کوئی حج ہے؟ طالب خدا اور عارف حق کے نزدیک کعبہ سے مرادتجلی گاہ حق ہے اس کے نزدیک روزہ تجلی ہے نماز تجلی ہے اور حج بھی تجلی ہے اور بیت اللہ کیا ہے؟

حضور ا کرمﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے فرمایا ’’ فی قلوب عبادہ المؤمنین‘‘ یعنی اپنے مومن بندوں کے دلوں میں رہتا ہے۔ اور یہ بھی حدیث ہے کہ ’’قلب المؤمن بیت اللہ ‘‘ مؤمن کا دل ہی بیت اللہ ہے۔ عوام الناس حج کرنے جاتے ہیں مگر حج کی حقیقت سے واقف نہیں۔ جب حضرت عمرؓ نے حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا ’’انک حجر لا تضر و لا تنفع لو لا انی رأیت رسول اللہ ﷺقبلک فما قبلتک‘‘ (توصرف پتھر ہے نہ فائدہ دیتا ہے اور نہ نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں ہرگز تجھے بوسہ نہ دیتا ) اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’مھلاًیا عمرؓ بل ھو یضر وینفع ‘‘۔

ٹھہرجائیے اے عمرؓ!یہ نقصان بھی پہنچاتا ہے اور فائدہ بھی۔ اس واقعہ میں حضرت عمرؓکی نگاہ میں حجر اسود کی حیثیت بس اتنی تھی کہ وہ ایک پتھر ہے اور وہ اس کے سر اور حقیقت کو نہ سمجھے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا اسے بوسہ دینا بلا وجہ یا مذاق نہیں تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺکا کوئی بھی فعل مذاق نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا حضرت علی ؓنے ان کو تنبیہ کی کہ اس کا سر اور حقیقت یہ ہے کہ وہ نفع و نقصان دونوں پہنچانے کی قابلیت رکھتا ہے اور اس کو صرف ایک پتھر نہ سمجھنا چاہے اور اس کو بوسہ دینا ازل کے میثاق یا عہد نامہ کی توثیق کرنا ہے۔

’’ الا من اتخذا عند الرحمٰن عہدا‘‘ ۲۳؎  (مگر وہ جس نے رحمٰن کے پاس وعدہ کررکھاہے)چنانچہ اہل تحقیق و مشاہدہ پتھر کو بوسہ نہیں دیتے بلکہ سنگ آستانہ محبوب کو بوسہ دیتے ہیں۔ مزید فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام طالب کوہِ طور تھے لیکن ان کے دل میں  کوہِ طور کی ظاہری حالت کی طرف سے کوئی شک اور اختلاف نہ تھا نہ ان کو پہاڑ اورپتھر سے کوئی مطلب تھا کیونکہ وہ اس کی حقیقت سے واقف تھے اور اس کوتجلی گاہ محبوب سمجھتے تھے اسی طرح حاجیوں کو بھی بیت اللہ کی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہے۔غرض کہ آپ کی تشریح حقایق ومعارف سے لبریز ہے۔

چھٹی تمہید میں عشق کے بیان میں شیخ ہمدانی کے اس قول کے بارے میں کہ’’پروانہ  آگ سے قوت حاصل کرتا ہے‘‘۔ حضرت خواجہ بندہ نو ازؒ فرماتے ہیں کہ عاشق کی بقا معشوق کے خیال میں رہنے سے ہوتی ہے اور وہ اسی سے زندہ رہتا ہے۔ اور اسی سے قوت حاصل کرتا ہے جب شمع روشن کی جاتی ہے تو پروانہ دور سے سیدھا اسی کی سمت آتا ہے اور اس کی نظر صرف نور شمع پر ہوتی ہے اور اس کا حاصل صرف جل جانا ہوتا ہے لیکن وہ اس کے اردگرد چکر لگا تا رہتا ہے اگر چہ اور بھی حشرات الارض شمع کے نزدیک جمع ہوتے ہیں مگر پروانہ نزدیک تر ہوتا جاتا ہے اور اس کو اپنے وجود کو جلائے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ اگر ایک چکر میں وہ دور ہوتا ہے تو دوبارہ اس سے زائد قوت سے اس کے نزدیک آجاتا ہے یہاں تک کہ اس ذوق و شوق کی لذت میں خود کو جلا کر فنا کر دیتا ہے عشق کی اس ذوق وکیفیت کی مثال کا حضرت موسیٰؑ کے اس واقعہ سے اندازہ لگاناچاہیے کہ جب وہ کوہِ طور سے واپس آئے تو انہوں نے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا اور عوام  وخواص دونوں اس حالت میں ان کے دیدار کی طاقت نہیں رکھتے تھے کیونکہ ان کی آنکھوں میں تجلیات کی بجلیاں کوند رہی تھیں جو اس فیض تجلیات کا حصہ تھیں جو انہیں کوہِ طور سے حاصل ہوا تھا۔ آپ کی اہلیہ بی بی صفورا نے جو حضرت شعیبؑ کی صاحبزادی تھیں عرض کیا کہ اب آپ اپنے چہرے سے نقاب ہٹادیجئے۔

اٹھا کر برقع مکھڑے سے ذرا صورت تو دکھلا دے

حجاب اتنا نہ کر مجھ سے تری تصویر کے قرباں

ایک عرصے سے میں نے آپ کے جمال کا دیدار نہیں کیا میرا دل بے چین ہے حضرت موسیٰؑ نے فرمایا کہ تم میری آنکھوں کے دیدار کی تاب نہ لا سکو گی۔ انہوں نے عرض کیا مجھے معلوم ہے لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں آپ کو دیکھے بغیر مجھے چین نہ آئے گا۔ خدا کیلئے ایک بار اپنا روئے زیبا دکھا دیجئے۔ غرض حضرت نے اجازت دے دی۔ انہوں نے جیسے ہی حضرت موسیٰ  ؑکے چہرے سے نقاب ہٹایا اور ان کی نگاہ چہرے پر پڑی ان کی بینائی چلی گئی۔ حضرت موسیٰ ؑفوراً نقاب چہرے پر ڈال لیا اور ان کیلئے دعا کی اللہ تعالیٰ نے دوبارہ ان کی بینائی لوٹا دی۔ پھر انہوں نے دیدار کی خواہش کی اور اصرار کیا اور عرض کیا کہ اب مجھے پہلے سے زائد اشتیاق پیدا ہو گیا ہے ۔لہٰذا ایک بار اور دیدار کرادیجئے۔ پھر حضرت موسیٰ  ؑنے جیسے ہی نقاب ہٹایا آپ کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی پھر ان کی آنکھوں کی روشنی جاتی رہی۔ حضرت موسیٰ  ؑ نے دوبارہ دعا کی اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی بینائی لوٹا دی۔ پھر تیسری بار انہوں نے اصرار کیا اور آہ وزاری شروع کی کہ اے موسیٰ  ؑ آپ کو اپنے حسن و جمال کی قسم ایک بار پھر اپنا چہرہ دکھا دیجئے اس کو دیکھئے بغیر مجھ کو قرار نہیں حضرت موسیٰ  ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اگر اب کی بار تمہاری بینائی چلی گئی اور میری دعا قبول نہ ہوئی تو پھرتم نابینا ہی رہ جاؤ گی۔ بی بی صفورا نے کہا اے موسیٰ  ؑ اگر ہزار بار بھی بینائی جاتی رہے پھر بھی آپ کے دیدار کا شوق میں مجھے اس کی کوئی پروانہ ہوگی۔ اسی دوران حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے خطاب فرمایا کہ اے موسیٰؑ اگر عشق سیکھنا ہے تو صفورا سے سیکھو کہ ہم نے ایک بار اپنے جمال سے ایک حصہ تم کو عطا کیا ہے تو تم نے اسی پر قناعت کرلی اور’’ تبت ‘‘ (یعنی میں نے توبہ کر لی )کہہ دیا اور وہ مزید اور بار بار کی طالب ہے پھر حضرت فرماتے ہیں کہ یہاں میں نے یہ قصہ اس لئے بیان کیا کہ معلوم ہو جائے کہ عاشق کی زندگی اور اس کی قوت عشق ہی ہے اور اس کی بقا اور حیات صرف معشوق ہے۔مختصر یہ کہ اس باب میں بھی ایسے ایسے حقایق و معارف کی تشریح کی ہے جن کو خواص ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کتاب ہٰذا کے مضامین کی جو نفیس تشریح حضرت خواجہ بندہ نوازؒ نے فرمائی ہے وہ لائق صد تحسین و آفرین ہے لیکن شرح کے فارسی زبان میں ہونے کی وجہ سے فی زماننا بکثرت اہل علم واہل ذوق حضرات ایسے ہیں جو اس سے کما حقہ فیضیاب نہیں ہو سکتے ہیں ۔لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس کو فارسی سے اردو میں منتقل کیا جائے تا کہ اہل علم وذوق کیلئے اس سے استفادہ کی راہ آسان ہو جائے اور حضرت کی دیگر تصانیف کے مثل اس کی مقبولیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکے۔

حواشی

۱؎: شرح زبدۃ الحقائق یعنی شرح تمہیدات، بہ تصحیح سید عطا حسین، معین پریس حیدرآباد دکن۱۳۶۴ھ،۱۹۴۵ء ص۴،۵

۲؎: فوائد الفواد، بہ تصحیح و ترجمہ خواجہ حسن ثانی نظامی ، اردواکیڈمی دہلی ۱۹۹۰ء،ص ۴۶۷۔

۳؎: نفحات الانس، بہ تصحیح مولای غلام عیسیٰ و غیرہ، لیسی پریس کلکتہ۱۸۵۸ء،ص ۴۷۵ :

۴؎: معدن المعانی، بہ اہتمام شاہ محمد مقبول حسین ، مطبع شرف بہار ،۱۸۸۴ء،۱۳۰۱ھ،۱۹۴۵ء،ص ۱۰

۵؎ شرح زبدۃ الحقائق یعنی شرح تمہیدات، بہ تصحیح سید عطا حسین ،معین پریس حیدر آباد دکن ۱۳۶۴۱ھ۱۹۴۵ء ص،۱۰

۶؎  ایضاً،ص،۱۰،۱۱

۷؎ شرح زبدۃ الحقائق یعنی شرح تمہیدات، بہ تصحیح سید عطا حسین ،معین پریس حیدر آباد دکن ۱۳۶۴ھ۱۹۴۵ء ص،۳۵۰

۸؎  ایضاً،ص،۴۰۹

۹؎شرح زبدۃ الحقائق یعنی شرح تمہیدات، بہ تصحیح سید عطا حسین معین پریس حیدر آباد کن۱۳۶۴ھ۱۹۴۵ء ص،۳۴۹

۱۰؎   شرح زبدۃ الحقائق یعنی شرح تمہیدات، بہ تصحیح سید عطا حسین معین پریس حیدر آباد کن۱۳۶۴ھ۱۹۴۵ء ص،۱۳

۱۱؎  ایضاً،ص،۶،

۱۲؎: ایضاً،ص،۶

۱۳؎:ایضاً،ص،۶

۱۴؎  لاعراف، ۱۹۸ ،

۱۵؎ : المآئد،۱۵،

 ، ۱۶ : اعراف۱۵۷،

۱۷؎:الکہف ۱۱۰

۱۸؎التغابن ، ۶ ،

 ۱۹ : النسآء،۱۶۴ ،

۲۰ : مریم ، ۲۶

۲۱؎آل عمران،۹۷ ،

 ۲۲؎ : آل عمران، ۹۸

۲۳؎   مریم ،۸۷