ڈاکٹر محمد مصعب انصاری
سیرت نبویﷺ اپنی جامعیت و آفاقیت اور شان وشوکت کے لحاظ سے ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے،سیرت کا اعجاز وکمال یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے لیکر اب تک مختلف انداز میں مختلف پہلوؤں پرلکھا جاتا رہاہے۔اور جب تک اس خطہ ارض پر انسانیت کی بقا ہے تب تک انشاء اللہ لکھا جاتا رہے گا۔لہذا سیرت پر غیر مسلم دانشوروں نے اتنا لکھا ہے،کہ اس کا احاطہ ممکن نہیں اور کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں سیرت داں موجود نہ ہوں اور اس علاقے میں سیرت کی مہک نہ پہنچی ہو۔
سیرت نبوی پرایک ایسی ادبی اور محققانہ انداز میں کتاب “عرب کا چاند”موجود ہے جواپنی شان و انفرادیت کا ایک عجیب و غریب علمی شاہکار ہے۔جس کے مصنف ایک غیر مسلم نوجوان ادیب دانشور سوامی لکشمن پرشاد ہے،جس نے قومی تعصب سے بالاتر ہو کر حقیقت شناسی کے جزبے کو پران چڑھایا ہے۔خاتم الانبیاء محمدﷺ کی سیرت کو ایسے انداز میں قلم بند کیا ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے داد تحسین بلکہ رشک آتا ہے،سوامی لکشمن پرشاد بے حد محنتی،حق گو،بااخلاق،دلیر اور بہترین خلق کے انسان تھے۔اس پر یہ واقعہ گواہ ہے کہ جب مسجد کے باہر سے گزرتے ہیں تو اپنے دل کا حال کا بیان کرتے ہیں:
“جب میں مسجد کے سامنے سے گزرتا ہوں تو میری رفتار خود بخود سست پڑجاتی ہے ،گویا کوئی میرا دامن پکڑ رہا ہو۔میرے قدم وہیں رک جانا چاہتے ہیں ،گویا وہاں میری روح کے لئے تسکین کا سامان موجود ہو،مجھ پر یک بیخودی سی طاری ہونے لگتی ہے،گویا مسجدکے اندر سے کوئی میری روح کو پیام مستی دے رہا ہو،جب مؤذن کی زبان سے میں اللہ اکبر کا نعرہ سنتا ہوں تو میرے دل کی دنیا میں ایک ہنگامہ سا برپا ہوجاتا ہے،گویا کسی خاموش سمندر کو متلاطم کر دیا گیا ہو،جب نمازیوں کو میں خدائے قدوس کے سامنے سر بسجود دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں ایک بیداری سی پیدا ہو جاتی ہے،گویا میری روح کو یک متوحش خواب سے جھنجوڑ کر جگادیا گیا ہو”۔[1]
مذکورہ واقعہ سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ سوامی لکشمن پرشاد کوشعائرہ اسلام سے کس قدر انسیت تھی یہی وجہ ہے کہ ان کو آپﷺ کی سیرت مبارکہ سے بے حد لگاؤ،انتہائی محبت و رغبت تھی اللہ کے نبی ؐ کی ذات ایسا چراغ تھی جوچودہ سوسال گزرنے کےبعد بھی اپنی روشنی سے دنیا کو منور کررہی ہے،اور آگے بھی کرتی رہےگی،اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کردیکھے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ نبی کریم ﷺ کی ذات دنیا کی واحد ایسی ذات ہے،جس کی مدح سرائی بھی غیر مسلم کرنے پر مجبور ہوگئے ،یہ رسول عربیﷺ کی عظمت و شان تو ہے کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی آپﷺ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
مصنف نےا پنی تصنیف میں بلند آہنگ اردو فارسی کے اسلوب انداز سے نہ صرف اردو داں کو حیرت میں مبتلا کر دیاہے،بلکہ یہ سوچنے پر مجبور کر دیاہے کہ ایک ہندو نوجوان کا یہ اسلوب بیان جس کا مطالعہ کرنے پر یہ فخر محسوس ہوتا ہے ۔سوامی لکشمن پرشادنے یہ پیغام دیا ہے کہ میری زبان کسی کی میراث نہیں ہے،جبکہ یہ حقیقت ہے۔
“کہ اردولکھنے کی صلاحیت اور خاص طور پر ادبی رنگ میں پیش کرنے کی اہلیت اہل ہنود میں کم پائی جاتی ہے”[2]
سوامی لکشمن پرشادنے اتنی کم عمرمیں سیرت پر ایک ایسی کتاب لکھی ہے،جس کو پڑھ کر انسان کشمکش میں پڑجاتا ہے کہ یہ کتاب ایک ہندو مصنف کی ہے یا ایک مسلمان کی؟ مصنف فرماتے ہیں کہ:
“اپنا مذہب فطرتاً ہر شخص کو پیارا ہوتا ہے،جب کسی غیر مذہب کا شخص ہمارے مذہب کی کسی مقدر ہستی کے سچے حالات قلم بند کرنا چاہے تو ہمیں اس سے بہت زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے،جتنی اپنے ہم مذہب کے کام سے ہونا چاہئے اس خوشی میں اس محبت کا عنصر بھی شامل تھا جو ایک دوست کو دوسرے دوست کے کسی قابل قدر کام سے ہونا چاہئے”[3]
سوامی لکشمن پرشاد اس دنیا کی فکر میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ دنیا کی چیزوں کو پس و پشت ڈال کر اپنے کام کو انجام دیتے رہے،غرض ایک غیر مسلم سیرت نگار نے جب رسول عربیﷺ سے سرشر ہوکر قلم کو تھامے ہوئے دنیا وما فیھا کی ساری چیزوں سے غافل ہوکر صرف اور صرف سیرت مصطفیٰ کی وادی میں سرپٹ دوڑتے چلے جاتے ہیں اور بڑے بڑے ٹیلوں اور خندقوں کوپھلانگ کر گر جاتے ہیں،سوامی لکشمن پرشاد حضرت محمدﷺ کے نام مبارک کے ساتھ کم وبیش ہر جگہ ﷺ اور بعض جگہوں پر”فداہ ابی وامی وروحی الفا الفا” لکھتے ہیں اور آپ کو یہ سن کر بہت تعجب ہوگا کہ وہ دائر اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔
سوامی جی نے کتاب کو زبان کی پختگی وشائستگی ،تشبیہ واستعارہ کی فراوانی،اسلوب کی دل آویزی،تخیل کی بلندی،اور الفاظ کی کامل مہارت سے اپنی مثال آپ بنایا ہے،اور آپ نے کتاب کی ابتدا میں جو ادبی اسلوب کا جامہ پہنایا ہے۔ اسکو اختتام تک اسی انداز میں ڈھالا ہے،اور پوری کتاب میں زبان کی گرفت کو کہی نہیں چھوڑا ہے مثال کے طور پر”نور آسمانی وطن آمنہ میں ” کے تحت حضرت عبداللہ نے اپنی عصمت مآب اور فدا کار بیوی آمنہ کے پاس تین دن قیام کیا اور ان دونوں میں ہی حضرت آمنہ امانت دار نور محمدی ﷺ ہوگئیں :
“انہی دنوں عبدالمطلب نے خواب میں ایک سرخ درخشاں ستارہ دیکھا جو زمین کی پشوں سے طلوع ہو کر آسمان کی بلندیوں کی طرف پرواز کرگیا،اس کی روشنی تمام روشن ودرخشاں ستاروں اور چاند پر غالب آگئی، اور کائنات کا ذرہ زرہ اس کی تابناکیوں سے مطلع نوربن گیا،اس کی روشنی مبدم پھیل رہی تھی ،اور اس سے شرق و غرب روشن ہوتے تھے۔
“یہ خواب ایک معبر سے بیان کیا گیا تو اس نے تعبیر دی کہ یہ روشن ستارہ وہ مہتم بالشان نبی ہے جو حضرت عبداللہ کے یہاں پیدا ہوگا،جس کے دین ہدی کے درخشاں اصول تمام ادیا ن عالم کو اپنی روشنی میں چھپالیں گے،اور اپنی ہمہ گیری اور دنیا کےمستقبل کی ضرورت کو پورا کرنے کی وجہ سے شرق و غرب میں قبولیت حاصل کریں گے”[4]
سوامی جی نے اپنے خیالات کا سحر کار اثر قوم کی ترقی و تنزل کا راز اس کے افراد کی بلندخیالی یا پست ہمتی میں ہی مضمر رکھا ہے دنیا کے تمام حیرت انگیز کارناموں کا ذکر اور انقلاب آفریں واقعات کا راز ترقی یافتہ دلوں کےترقی یافتہ خیالات میں ہی مضمر ہوتا ہے۔
“انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس کے اپنے خیالات پر ہےاگر کسی شخص کے خیالات بزدل اور پست ہمتی میں ملوث ہیں تو غیر ممکن ہے کہ وہ زندگی کے میدان کا راز میں شجاعت و بسا لت کے کارہائے نمایاں انجام دیں سکے،اس طرح ایک شیر دل کو باوقار استقلال کے مالک انسان کے لئے کارزار حیات میں ناکام و شکست یاب ہونا بھی اتنا ہی ممکن ہے، اس قسم کی پست ہمتی اور شیر دلی کا رازبھی انسان کے اپنےخیالات میں مضمر ہے،انسان کی تمام زندگی اور اسکی کارگزاریاں اسی رنگ میں رنگی جاتی ہے جس رنگ کے خیالات اس کے دل میں بستے ہیں”[5]
حیات انسانی کی فتح وشکست ،کامیابی،وناکامی،فارغ ا لبالی وشکستہ حالی اور ناداری عزت و ذلت کے تمام کارنامے اس قوت و خیالات کے نتائج و اثرات ہیں،ہر انسان کی زندگی اسکی عادات و اخلاق اس کےرسم و رواج اور اس کے کارنامے اس کے خیالات ہی کی ترجمان کی عکاسی کرتے ہیں۔
سوامی لکشمن پرشاد دنیا کی مایہ ناز شخصیتوں کی سوانح حیات قلم بند کرنا چاہتے تھے،لیکن انہوں نے سب سے پہلے خاتم الانبیاء محمدﷺ کی شخصیت کا انتخاب کیا۔اور خاتم الانبیاء محمدﷺ کی شخصیت کا صفحہ قرطاس پر لانے کا عزم کرلیا تھا تو اس انتخاب کے سلسلے میں مصنف خود فرماتے ہیں :
“میں نے دنیا کی عظیم المرتبت اورنادرروزگارہستیوں کے حالات یا برکات کو صفحہ قرطاس پر لانے کا ارادہ کر لیا ہے ،انہوں نےدنیا کی جہالت کی شب تاریک میں علم و عرفان کی ضیاپاشیوں سے روشنی پھیلائی اور اپنے اصول کے مذبح اور اپنی زندگی کے تمام عیش و عشرت کو بے دریغ قربان کر دیا ، دنیا کی جلیل القدر ہستیوں میں جن کے اسمائے گرامی ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے ہیں،رحمۃ للعالمین ،شفیع المذنبین ،سید المرسلین،خاتم النبین،باعث فخر موجودات سرورکائنات حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبی علیہ الصلوۃ والتسلیم کو کئی اعتبار سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے،اس لئے میں نےسب سے پہلے اسی قابل تعظیم ،فخر روز گار ہستی حیات مطہرہ کے حالات قلم بند کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔”[6]
سوامی جی ایک جگہ لکھتے ہیں:
“آج سے تقریباًچودہ سوبرس پہلے ایسی سیاہ کاری ور ظلم و ستم کی گھن گھور گھٹائیں عرب کے مطلع پرچھائیں ہوئی تھیں ،تو اس کی افق پر یثرب کا چاند طلوع ہوا جس نے اپنی ضیا با ر کرنوں سےایک دفعہ تو ریگستان عرب کے ذرہ ذرہ کو تجلی زار بنا دیا”[7]
کتاب کی خصوصیات:
1۔ یہ کتاب اپنا مخصوص ادبی مقام رکھنے کےساتھ ساتھ تاریخی حقائق کے بیان کرنے میں بھی بالعموم کتب تاریخ و سیرت سے انحراف نہیں کرتی ہے۔
2۔ زبان میں سلاست روانی اوردل آویزی کے ساتھ ساتھ کتب کے بیشتر واقعات مستند روایات کی بنیاد پر منتخب کئے گئے ہیں ۔
3۔یہ کتاب لوازمات سیرت نگاری سےمتصف ہوتے ہوئے بھی اپنے انداز کی ندرت وجدت کے اعتبار سے زبان اردو کے خزینہ ادب کے لئے سرمایہ فخر گردانی جاتی ہے۔
4۔کتاب میں ماخذ کے حوالے کم ہیں ،صرف روضۃ الاحباب،ولیم میور اور کارلائل کی کتب کا نام ہیں۔
5۔مصنف کا مقصد عرب کا چاند لکھنے کا یہ تھا کہ مسلمانوں کو جھنجوڑا جائے،انکے خوابیدہ افسردہ بے حس اور منجمددلوں میں احساسات تازہ کئے جائے،اور اس بات کا یقین دلایا جائے کہ نبی نوع انسان کے لئے قابل اتباع اور نظام حیات کا عمل نمونہ حضرت محمدﷺ کی سیرت مبارکہ ہے۔
لکشمی پرشاد نے اس کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے:
حصہ اول(مکی دور)
حصہ دوم(مدنی دور)
مکی دور: اس دور کی ابتداء زمانہ جاہلیت اور عرب کی جغرافیائی،سماجی،اخلاقی حالت سے کی ہے، اسکے بعد آپﷺ کی ولادت کے مختصر حالات ،پرورش،والد اوردادا کی کفالت،آپﷺ کی پاک بازاور زہد و پر ور جوانی،شق الصدر کا واقعہ ،اصحاب الفیل کا حیرت انگیز واقعہ،حضرت علی کااسلام قبول کرنا،ہجرت حبشہ ،امیرحمزہ کا مشرف بہ اسلام ہوناوغیرہ جیسے واقعات کوحسب ذیل 22 عناوین کے تحت بیان کئے ہیں۔
1۔دنیا میں تحیر خیز ہنگامہ ترقی 2۔خیالات کا سحر کا راثر 3۔دنیا کی مایہ ناز شخصیتوں کی سوانح حیات
4۔موجودہ دور کا ہندوستان اور دور جاہلیت کا عرب 5۔چودہ سو برس پہلے یثرب کا چاند 6۔بعثت
7۔شمع حرم(نظم) 8۔شمع حرم کی شعاع ریزیاں 9۔حضورﷺ کے والد محترم
10۔حضرت عبداللہ کا نکاح مبارک 11۔ نور محمدی ﷺ کی برکات عظیمہ 12۔حضور انورﷺ کی آفرینش کی صبح درخشاں 13۔سفر شام 14۔نکاح مبارک 15۔ازدواجی زندگی کامہکتا ہواگلشن 16۔دوبرائے نام خیالی لغزشیں 17۔ہجرت حبشہ 18۔ظالم مو ت کے دوجا ں گداز واقعات 19۔عرب میلوں ور جلسوں میں اسلام کی دعوت 20۔افسوں گرافسوں چلا گیا 21۔نقش حق 22۔بیعت عقبہ ثانیہ
مدنی دور:اس دور کا آغاز آپ ﷺ کی مکہ سےمدینہ کی طرف ہجرت سے ہوتا ہے،ہجرت کی تیاریاں رسولﷺ کی شہر آفاق امانت داری ،مسجدقبا کی تعمیر،مدینہ میں سلسلہ مواخات،مسجد نبوی کی تعمیر،جنگ بدر،جنگ احد،صلح حدیبیہ ، غزوہ تبوک،حجۃ الوداع کے بعد آپﷺ کی وفات کے ساتھ 18 عناوین کے بعد اس کتاب کا اختتام ہے۔
1۔ہجر ت کی تیاریاں 2۔مدینہ منورہمیں حضورﷺ کا پہلا خطبہ 3۔سرداران یہود سے حضورﷺ کا معاہدہ 4۔جنگ بدر 5۔جنگ احد 6۔مسلمانوں کی کفار سے سات لڑائیاں 7۔ شام کی سر حد پر فتنہ و فساد 8۔واقعہ افک 9۔جنگ احزاب 10۔کفارہ کی عیارانہ چالوں کا ایک ادنی نمونہ 11۔صلح حدیبیہ 12۔بیعت رضوان 13۔خیبر کے یہودیوں کی شر انگیزیاں 14۔حیات نبوی کی شاندار فتح 15۔جنگ حنین 16۔غزوہ تبوک 17۔حجۃ الوداع 18۔وفات مبارکہ
عرب کا چاند جو خالص ادبی رنگ میں رنگی ہوئی ہے،سوامی جی کو اردو زبان پر اتنا عبور حاصل تھا کہ سیرت و تاریخ کی کتب کا اتنا سلیقہ تھاجو لوگوں کو حیرت و تعجب میں ڈالتا ہے، ان کی تصنیف و تالیف کا بے مثال کارنامہ شک پیدا کرتا ہے کہ اس کے پس پشت کسی پختہ ادیب کا ہاتھ ہے حتی کہ بعض لوگوں نے اس کو حکیم عبداللہ کی طرف منسوب کیا ہے، جس کی وجہ سے حکیم صاحب کو صفائی پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، عرب کا چاند کتاب شروع میں بعنوان سوامی لکشمن”مرحوم” اس کی وضاحت فرماتے ہیں :
” اس کتاب کی نگارش کا سہرا جس عزیز کے سر بندھا ہے اس کا نام “سوامی لکشمن”ہے اکثر احباب کا خیال ہے کہ دراصل اس کتاب کو لکھنے والا مسلمان ہے کسی تجارتی غرض یا تبلیغی مقصد کےلئے اس پر “سوامی لکشمن” کا فرضی یا اصلی نام لکھ دیا گیا ہے بلکہ بعض احباب نے تو اس کتاب کا نگار رندہ مجھے ہی گردانا ہے اور تعجب ہے کہ باوجود میرے باربار انکار کرنے اور اصلی معاملہ سے آگاہی دینے کے انہوں نے میری تصنیف نہ ہونے اور سوامی جی کے مصنف ہونے کو باور نہیں کیا”[8]
حکیم عبداللہ کا اس کتاب کی تصنیف و تالیف میں صرف اتنا رول ہے کہ انہوں نے ایک ہندو نوجوان سوامی لکشمن پرشاد کا حضرت محمدﷺ سے شوق محبت اور حقیقت حال کو دیکھ کر اپنے پاس ٹھہرایا،انکی مددکی اور کتب کی سہولت باہم پہنچائی۔
سوامی لکشمن پرشاد خ[9]وشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے مسلمان دوست کا صرف اتنا ہاتھ ہے کہ میرے شعلہ عزم کے باوجود باد مخالف کے جھونکوں کی وجہ سے تماشائی نہیں بنے،اور مسلسل یہ کوشش کی کہ اس چراغ کی روشنی کو ماند نہ پڑنے دیا جائے اس کی وضاحت فرماتے ہیں:
“مجھے اس حقیقت کا بجا طور پر اعتراف ہے،کہ اس مقدس کتاب کی نگارش میں میرے ایک مسلمان دوست کا اتنا ہاتھ ضرور ہے کہ اس نے میرے شعلہ عزم کو باد مخالف کے جھونکوں سے عارضی طور پر بجھتے دیکھ کر ایک خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار نہیں کی بلکہ برابر کوشش جاری رکھی کہ اس چراغ میں روغن ختم نہ ہونے پائے۔کتاب کے نفس مضمون میں نہ کسی کا شرمندہ اصلاح ہوں اورنہ کسی کا شرمندہ اصلاح میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی تحقیق و تدفین سے اور جو کچھ کہا ہے،وہ اپنے ضمیر کا ہمنوا ہوکر میں بھی عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہوں اور انسانی کمزوریوں اور لغزشوں سے مبرا نہیں ہوں”[10]
سوامی لکشمن پرشاد کہتے ہیں میں نے کتا ب میں جو کچھ لکھا ہے تحقیق کی روشنی میں لکھا ہے کسی فرد بشر یا کسی قوم کی خوشنودی کی خاطر اپنے ضمیر کو دھوکا نہیں دیا ہے ،میں اس کتب کا حق پوری طرح ادا کرنا چاہتا ہوں کہ عرب کے چاند میں خاتم النبین کی حیات مبارکہ کو رقم طراز کر سکوں بیں بھی عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہوں ،اور خطاؤں ،کمزوریوں اور لغزشوں سے بری نہیں ہوں، اس لئے میں نے اپنی جانب سے اس کتاب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔
انسان کے خیالات کو اچھے کاموں پر ابھارنے اور خیالات کو بہتر بنانے میں جس طرح صحبت کا اثر کارگر ہوتا ہے بلکل اسی طرح مطالعہ کتب کا اثر اس کے دل پر اپنا نقش جمائے بغیر نہیں رہتا،چنانچہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ جن کتب کا مطالعہ کیا جائے ان کے انتخاب میں وسعت نظری سے کام لیا جائے۔
مصنف فرماتے ہیں:
“اگر سچ ہےکہ انسان کا چال چلن اس کے دوستوں کی صحبت سے پہچانا جاتا ہے تو یہ بات بھی اس قدر سچائی کا پہلو لئے ہوئے ہے کہ انسان اپنے مطالعہ کتب سے پہچانا جاتا ہے، جس قسم کی کتب کا مضمون اس نے خوب ذہن نشین کرلیا ہے،اسکی ذہنیت اور افتاد طبع اسی قسم کی بن جاتی ہے،بشرطیکہ کوئی دوسرا اس سے بھی غالباً اثر اس کے دل پر اپنا جما چکا ہو”[11]
انسان اپنے چال چلن سے ہی جانا جاتا ہے اسکے اندر سب سے پہلا کمال یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے نفس کی ترتیب صحیح نہج پر کرے اور خلاق کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرے،کیونکہ انسان معاشرے میں حسن اخلاق سے ہی جانا جاتا ہے، اور باقی دوسری چیزوں کی طرف توجہ بعد میں کرے۔
سوامی جی خود فرماتے ہیں:
“سب سے پہلا کمال جو انسان کو حاصل کرنا چاہئے ،وہ تربیت نفس اور حصول مکارم اخلاق ہے باقی سب کمالات کی طرف بعد میں توجہ مبذول ہونی چاہئے لیکن آج کل زمانہ اس کے برعکس چل رہا ہے،دوسروں کے ناصح بے شمار ہیں اپنا ناصح کوئی نہیں ہے۔”[12]
لیکن موجودہ زمانہ اسکے بلکل برعکس ہے حتی مکارم الاخلاق ہی وہ شے ہے جس کی تلاش زندگی ہی انسان کا پہلا مقصد ہو۔
سوامی لکشمن پرشاد چھبیس سال کی عمر میں اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے اور سیرت رسولﷺ پر قلم اٹھانے والے مصنف غیر مسلموں کی صف میں اپنے لئے مستقل جگہ بنالی،اور عرب کا چاند کتاب کی سطر سطر عشق رسول میں ڈوبی ہوئی ہے،اور ہر مسلم اور غیر مسلم کو اسوہ حسنہ پر عمل پیراں ہونے کی دعوت دے رہی ہے،جس میں ساری انسانیت کی فلاح و بہبود کا راز مضمر ہے۔
سوامی لکشمن پرشادکی کتاب “عرب کا چاند”414صفحات پر مشتمل ہے پہلا حصہ مکی دور تک شائع ہواتھا،لیکن موجودہ ایڈیشن مکمل کیا گیا ہے جس میں مدنی دور بھی شامل ہے اور یہ ایڈیشن مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار لاہور سے شائع ہوا ہے۔
حواشی
[1] سوامی لکشمن پرشاد،مرحوم(پیش لفظ)ازحکیم عبد اللہ،عرب کا چاند،مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور،ص:6
[2] سوامی لکشمن پرشاد،مرحوم(پیش لفظ)ازحکیم عبد اللہ،عرب کا چاند،ص:4
[3] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:28
[4] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:61
[5] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:17
[6] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:22
[7] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:25
[8] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:4
[9] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:29
[10] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:19
[11] سوامی لکشمن پرشاد،عرب کا چاند،ص:21