صبا نعیم
ریسرچ اسکالر
شعبہ اردو و فارسی
الہ آباد یونیورسٹی
مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شخصیت کسی تعارف کی طلبگار نہیں کیونکہ ہندوستانی ادیبوں میں مرزا غالب اس اعتماد سے ایک یگانہ روزگار شخصیت ہیں۔ وہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں یکساں شہرت کے مالک ہیں اورانکی ہرتحریر توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہے ۔
مرزا اسد اللہ خاں غالب پراب تک نہ جانے کتنی تصانیف اور تحقیقی کام کیے جا چکے ہیں۔اسی صف میں آگے بڑھتے ہوۓ انکی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیۓ میں نی یہ شعر پیش کیا ہے۔
فارسی بین تا بہ بینی نقشہاۓ رنگ رنگ
بگزر از مجموعہ اردو کہ بیرنگ من است
کیونکہ ان دو مصرعوں نے اپنے اندراس قدر وسعت و گہرایی پنہا کر رکھی ہے کہ اسکی زندہ جاوید مثال نہ صرف دیوان غالب ہے بلکہ انکی نثری تصا نیف بھی ہیں۔
غالب فارسی ادب کے عظیم مصنف ہیں جنکی فارسی دانی کا لوہا صرف ہندوستان کے لوگوں میں ہی نہیں بلکہ خود اہل ایران نے بھی مانا ہے انھوں نے فارسی شاعری کے علاوہ فارسی نثر میں بھی بہترین ادبی کارنامے پیش کیے ہیں اور انکی فارسی نثر کا مطالعہ کیۓ بغیر ہم غالب شناسی کا حق ادا نہیں کر سکتے ہیں۔انھوں نے منسوب فارسی آثار میں اپنے وقت کے سیاسی،ادبی،اخلاقی اور معاشی حالات کا ذکر ذیادہ میسَر اوردلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔
یوں تو مرزا غالب نے کئی فارسی تصانیف لکھی ہیں لیکن یہاں پر دستنبو، قاطع برہان، پنج آھنگ اور میرنیم روز کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔
1- دستنبو- مرزا اسد اللہ خاں غالب کی فارسی تصانیف میں دستنبو کو خاص اہمیت حاصل ہے اس میں غالب نے 1857 کے ان تمام واقعات کا ذکرکیا ہے جو اس وقت رونما ہو رہے تھے۔1857 میں ہندوستانیوں نے انگریز حکومت کے خلاف جنگ کی جسکو بعدمیں جنگ آزادی کا نام دیا گیا۔ ۔دستنبو میں غالب نے پندرہ مہینے ک حال لکھا ہے۔ اس وقت دہلی میں غدر کے حالات تھے ان تمام واقعات کا ذکر دستنبو میں کیا گیا ہے۔
دستنبو کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ غالب نے انگریزوں کا ساتھ دیا، انکے ہر قدم کی حمایت کی اور ہندوستانیوں کی جد وجہد کوبے وقت راگنی اور عدل و انصاف کا خون قرار دیا حالانہ یہاں اس بات پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ جو کچھ غالب نے پیش کیا وہ مصلحت وقت کے تحت تھا ظاہر ہے اس وقت انگرہز سب سے بڑی طاقت کی شکل میں اس ملک میں موجود تھے لہذا ان کے احکامات کو یکسر نظر انداز کر دینا دانش مندی سے بعید تھا۔
غالب کی دستنبو سب سے پہلے 1857 میں شایع ہوی۔اس وقت دہلی میں ہندوستانیوں کی بغاوت مکمل طور پر کچلی جا چکی تھی اور دیگرعلاقوں میں بھی انگریزوں کی حکومت غالب ہورہی تھی۔
”یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کے خلاف کسی بھی تحریر کا شایع ہونا آسان نہیں تھا سخت پریس ایکٹ نافز ہو چکے تھے مخالف تحریروں کے خلاف کاروایی کی جا رہی تھی پھر بھی انگریز افسروں کے مطالعے کے بعد دستنبو کی اشاعت کی اجازت دی گیی”۔1
غالب پر لکھنے والوں نے دستنبو کا مطالعہ کرتے وقت 1857 سے متعلق حالات کے تقاضوں اور مصلحتوں کو سامنے رکھ کرغالب کے روّے کی تصویر پیش کی ہے جو صحیح بھی ہے ورنہ دستنبو کے مطلب سے ترجمہ نکلتا ہے کہ برا ہو اس پینشن اور خطاب کی آرزو کا جس نے غالب کو دستنبو لکھنے پر مجبور کیا۔
غالب کے شاگرد،اپنے استاد کے پہلے اور اہم سوانح نگار مولانا الطاف حسین حالی ہیں۔حالی نے زیادہ تردستنبو کی ادبی حیثیت پر گفتگو کی ہے۔حالی نے فارسی میں غالب کے عام طرز نگارش پر اور خاص طور پر دستنبو میں ان کے اسلوب کا ان الفاظ میں تعارف کرایا ہے:
”اگرچہ مرزا کی نثر میں عموما عربی الفاظ بہت کم آتے ہیں، لیکن دستنبو میں جو غدر کے حالات پر مرزا نے لکھی ہے،التزام کیا گیا ہے کہ تمام کتاب میں کویی عربی الفاظ نہ آنے پاۓ، باوجود اس سخت التزام کے مرزا نے دستنبو میں اپنی طرز خاص اور شاعرانہ ادا اوربانکپن کو کہیں ہاتھ سے جانے نہ دیا۔”2
دستنبو کا آغاز غالب نے اس خدا کےنام کیا ہے جو کامیابی بحشنے والاہے، جس سات آسمانوں کو بلند کیا، ستاروں کو روشنی عطا کی، جس نے جسم کو روح سے سرفرازکیا، مشکل اور آسان کاموں کا بن جانا سب اسکےدم سے ہے، در حقیقت ہر چیزکا فنا ہونا کسی دوسری چیز کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ انسان کو جوکچھ آرام و تکلیف اور بلندی اور پستی انسان کو ملتی ہے اس کے لیے وہ تمام چیزیں فلاح و بہبودی کا وسیلہ بن جاتی ہے جن سے خوشیاں اور مسرت حاصل ہوتی ہے.
سبحان اللہ؛ کتنا عظیم ہے وہ رب جو وجود عطا کرتا ہےاورعدم کوختم کر دیتا ہے، جو ظلم و ستم کو ختم کرکےانصاف کی روشنی پھیلاتا ہے، وہ انصاف کرنے والا اور کمزور کو طاقت دینے والا ہے۔
وہ خالق جس نے ایک لفظ ”کن” سے سارے عالم کوایک لمحے میں پیدا کیا اگر وہ دوسرے لمحےمیں فنا کر دے تو کسی کے مجال نہیں کہ کچھ بول سکے۔
اس کتاب کے جو پڑھنے والے ہیں وہ یہ سمجھ لیں کہ جسکی قلم سے کاغذ پر موتی بکھر جاتے ہیں، جس نے بچپن سے ہی انگریزی حکومت کے نمک سے پرورش پایی ہوں اور جب منھ میں دانت نکلے اس وقت بھی ان کے دسترخوان کا ریزہ چیں ہو۔ بادشاہ دہلی نے مجھکو بلایا اور مجھ سے فرمایش کی کہ میں تیموری خاندان کے بادشاہوں کی تاریخ لکھوں جس کے عوض مجھکو 600 روپیہ سالانہ دیاجاۓ گا میں نے اس پیش کش کو قبول کرلیا اور اپنےکام میں مشغول ہو گیا میں بوڑھا اور کمزور تھا جسکے باعث آرام کا عادی ہوچکاتھا مجبورً ہفتے میں ایک دو بار قلعے میں جاتا تھا اگر بادشاہ ہوتے تو کچھ دیر وہاں بیٹھ کر واپس آ جاتا۔ جب کام پورا ہو جاتا تو اپنے ساتھ لے جاتا یا کسی سے بھیج دیتا یہ تھا میرا پیشہ، فکر اور کام۔ لیکن وقت کو یہ منظور نہ تھا اس نے میرا سکون و فراغت سب کچھ تباہ و برباد کر دیا۔
11 می 1857 پیر کے دن ایک پہر گزرنے کے بعد دہلی کے قلعے اور درو دیوارلرز اٹھے۔ جس کا اثر چاروں طرف دکھایی دے رہا تھا یہ کویی زلزلہ نہیں تھا بلکہ میرٹھ کی فوج کے کچھ سپاہی شہر میں آۓ اور یہ سب انگریزوں کے خون کے پیاسے تھے جہاں کوی افسر نظر آیا اسے مار ڈالا اور انگریزوں کے قانات کو تباہ کر دیا۔کچھ مسکین جنکو انگریزوں کی مہربانی سے دال روٹی مل رہی تھی شہر کے مختلف علاقوں میں ایک دوسرے سے دور دن گزار رہے تھے۔ان غم زدہ لوگوں میں میں بھی ہوں۔ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دم سے شور کی آواز آنے لگی میں نے جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ قلعے کے اندر صاحب ایجنٹ اور قلعےدار قتل کر دیے گیے ہیں۔ زمین ہر طرف انگریزوں کے خون سے رنگی ہوی تھی۔ باغ کا ہر گوشہ ویرانی اور بربادی کے سبب بہاروں کا مدفن بن گیا۔
غالب کا یہ شعر اسی مفہوم کا حامل ہے:
دل ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آۓ کیوں
روییں گے ہم براد بر کویی ہمیں رلاۓ کیوں
اس کتاب میں شروع سے لیکر آخر تک ان حالات کا ذکر ہے جو کچھ مجھ پر گزرے ہیں یا ان واقعات کا بیان ہے جو سننے میں آۓ ہیں۔ میں نے اس میں کویی بھی بات جھوٹ نہیں بتایی ہے نہ اس میں کویی کمی کی ہے میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اورسچّایی میں نجات ڈھونڈتا ہوں۔
2- قاطع برہان- دستنبوکا کام ختم کرنے کے بعد اب مرزا تنہایی کے عالم میں تھے۔اس اکیلے پن کو دور کرنےکے لیۓ انھوں نے قلم اور دوات کو اپنا رفیق سمجھا اوراس کے ذریعہ اپنا دل بہلایا۔ اس وقت مرزا کے پاس محمد حسین برہان کی فارسی لغات برہان قاطع کے علاوہ کوی دوسرے کتاب موجود نہیں تھی مرزا نے اس پر سرسری نظر ڈالی تو پہلی ہی نگاہ میں کچھ غلطیاں معلوم ہوی ا یک ایک لفظ متعدد فصلوں میں مختلف صورتوں میں لکھا پایا۔ طریقہ بیان اصول لغت نگاری بلکل خلاف تھا۔ کچھ تفصیر ایسی نظر آیی جسکے معنی بلکل سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ اس کے بعد مرزا نے بطور یاداشت جومقام قابل اعتراض نظر آۓ انکوجمعہ کرنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ وہ ایک کتاب کی شکل میں سامنے آیی جس کا نام ”قاطع برہان” رکھا گیا اور 1276 میں یہ کتاب چھپ کر شایع ہویی۔
یہاں پر کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جن پر مرزا نے صاحبِ برہان کا باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ کیا ہے مثلاً صاحب برہان نے عنبرارزاں کے معنی گیسوۓ رسول مقبول کے لکھے ہیں، پھر کہتا ہے کہ اسکو عنبر لرزاں بھی کہتے ہیں، مرزا نے صاحب برہان کی غلطی کو اس طرح بتایا ہے کہ انھوں نے نظامی کا یہ شعر دیکھا ہےجو لغت میں موجود ہے۔
بوے کزاں عنبر لرزاں دہی
گر بدو عالم دہی ارزاں دہی
پس عنبر لرزاں میں استعارے کو اصلی لغت قرار دیا اور دوسرے مصرع میں ارزاں کے موقع اورمحل کو بلکل بھی نہیں سمجھا۔ برہان میں لکھا ہے ”قافلہ شد معنی قافلہ سالاررفت کہ کنایہ از فوت شدن پیغمبر باشد” اوؔل تو قافلہ شد کو ایک لغت قرار دینا بے معنی ہے پھر اسکے معنی قافلہ سالار رفت کہنا اور قافلہ سالار کے جانے سے وفاتِ سرورِکاینات مراد لینا بلکل غلط ہے۔ اس طرح کے صدہا الفظ ہیں جس پر مرزا نے گرفت کی ہے۔
مرزا نے قاطع برہان کے آخر میں چند فواید لکھے ہیں۔ فواید اوؔل یہ ہے کہ ان فواید کو پیش کرنے میں خود نمایی کی بوآتی ہے۔ خود ہندوستانی ہوکر ہندوستانیوں کو مسلم نہ جاننا اور زبا ن دانی کا دعوی کرنا بلکل بے معنی ہے۔ میں اس با ت کا اقرار کرتا ہوں کہ میرے دادا کا تعلق تران سے تھا۔ میرے والد کی پیدایش دہلی اور میری آگرہ میں ہوی، اپنے تییں اہل زبان کو سمجھتا ہوں بلاشبہ زبانداں ہوں، میری زبان دانی جو غلطی کو قبول نہیں کرتی اور بغیر سچّایی کے تسؔلی نہیں پاتی ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ میری طبیعت فارسی زبان قطرۃً مناسب واقع ہویی ہے ۔
تیسری عبدالصمد کی فیض صحبت مجھ کو دو برس تک برابر ملتی رہی۔ چودہ برس کی عمر میں ان سے تربیت حاصل کی میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور خدا کے سوا کویی نہیں جانتا کہ ان باون
برسوں میں اس نے مجھ پر کس قدر معنی کے دروازے کھولے ہیں اورمیری فکرکو خدا نے کس درجے کی بلندی بخشی ہے۔
3– پنج آھنگ– جیسا کہ اس کے نام سے ظاہرہوتا ہے کہ اس میں پانچ آھنگ ہیں، یہ غالب کے فارسی خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ خطوط غالب نے 1826 اور 1868 کے درمیان مختلف احباب اور مشاہیر کو لکھے تھے۔
پنج آھنگ غالب کے فارسی نثر کا پہلا مجموعہ تھا اسکو غآلب کے دوست اور نسبتی بھای مرزا علی بخش خاں نے مرتب کیا اور ایک دیباچہ بھی لکھا تھا۔
٭ باب اول میں وہ آداب والقاب درج ہیں جو اس زمانے میں عام طور پر خط وکتابت میں استعمال کیے جاتے تھے۔
باب دوم میں فارسی کے مصادر و مصطلحات اور لغات ہیں ۔ *
باب سوم میں غالب کے چند فارسی اشعار نکل کیے گیے ہیں۔ *
باب چہارم میں انکی تفریظیں اور دیباچے شامل ہیں۔ *
باب پنجم میں ان کے خطوط شامل ہیں۔ *
آھنگ اول– غالب نے اس مجموۓ کوبیان کرتے ہوۓ تمہید میں لکھا ہے کہ 1825 میں جب انگریزوں نے لشکر کشی تھی تو میں اس وقت نواب احمد بخش خاں رفیق اور مرزا علی بخش خاں کا ہمسفر تھا۔ ہم دونون ایک ہی خیمے میں قیام کرتے تھے،علی بخش نے مجھ سے خواہش کی کہ میں خطوط نویسوں کے لیے القاب و آداب اور شکر و شکوہ اور شادی و غم کے لیے رسمی الفاظ تحریر کروں پس آھنگ اول تین دن میں مکمل ہوۓ۔
مرزا علی بخش لکھتے ہیں کہ نواب شمس الدین کی پھانسی کے بعد جن دنوں میں مرزا غالب کے ساتھ دہلی میں تھا تو موصوف نے ان دنوں اپنا فارسی دیوان مسمیٰ بہ ”میخانہ آرزو” مرتب کیا تھا۔ اس میں غالب کی نثری تحریریں بھی شامل تھیں۔ میرے من میں یہ خیال آیا کہ اس دیوان میں شامل تمام نثر کو ایک کردوں اور غالب کی دوسری تحریروں کو بھی اس میں شامل کرلوں لیکن اس کام کو کرنے کی مجھے فرصت نہ ملی۔ نکات غالب جو فروری 1828 کی تحریر ہے غالب نی پنج آھنگ کا ذکر کرتے ہوۓ لکھا کہ:
”اس زمانے سے تیس برس پہلے 1837 میں اپنی فارسی نثریں جمع کیں اور اس کا نام پنج آھنگ رکھا۔ آھنگ لغت فارسی ہے اس کے دو معنی ہیں۔ قصد و آواز۔ چونکہ وہ مجموعہ پانچ ابواب کا ہے یعنی باب کو آھنگ قرار دیا ہے یہ لغت دونوں معنوں کی روسے بجا ہے۔ چالیس برس کی عمرمیں یہ رسالہ لکھا ہے اب 31 برس کے بعد یہ ارادہ کیا ہے کہ پنج آھنگ کی چوتھی آھنگ جس میں فارسی کی صَرف کا بیان ہے اس کا اردو میں ترجمہ کیا جاے۔”3
اس تحریرسے پتہ چلتا ہے کہ غالب نے اپنی فارسی نثر خود جمع کی اور اس کا نام پنج آھنگ بھی انھوں نے ہی رکھا بعد میں یہ قلمی نسخہ انھوں نے نواب ضیاء الدین خان نیؔر کے حوالہ کر دیا تھا۔
آھنگ دوم- ”مصادر و مصطلحات و لغاتِ فارسی” بھی مرزا علی بخش کی فرمایش پر لکھا گیا ہے۔”نکات ورقعاتِ غالب”کے پہلے حصؔے ”نکاتِ غالب” مین خود غالب کا بیان ہے کہ انھوں نے یہ رسالہ فارسی صَرف پر چالیس برس کے سِن میں لکھا تھا لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے یہ اُس زمانے میں لکھا گیا جب علی بخش خاں اپنے چچا احمد بخش خاں کے سایہ رافت میں آزاد زندگی بسر کر رہے تھے اور غالب سے تحصیلِ زبانِ فارسی میں مصروف تھے۔
آھنگ سوم– ملک رام صاحب آھنگ اول و دوم کے ساتھ 1825 کی تصنیف قراردیتے ہیں۔ تفصیل تو یہ ہے کہ علی بخش کی فرمایش پر” آھنگ اول و دوم مرزا نے تحریر کیے بعد میں آھنگ سوم لکھا۔ اس میں اپنے دیوان سے انتخاب کر کے وہ اشعار جمع کر دیے جو خطوط و مکتوب وغیرہ میں استمعال کیے جا سکتے ہیں۔”4
اس آھنگ کے عنوان میں منتخب از دیوانِ رشکِ گلستاں کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ اسکی ترتیب و تالیف کے وقت دیوانِ فارسی مرتب صورت میں موجود تھا۔
آھنگ چہارم و پنجم- اس آھنگ کے بارے میں یہ امر ہے کہ ابتدایی صورت میں یہ علی بخش خاں کے جےپورسے دہلی اورغالب کے دولت کدے پر قیام کے زمانے میں مرتب ہوۓ تھے۔ انھوں نے یہ کام نواب شمس الدین احمد خاں والیِ لاہور کے ولیم فریزر کے قتل میں ماخوذ ہونے اور پھانسی پانے کے واقعات کے بعد ذہنی سکون اور فرصت کے لمحے میں شروع کیا ہوگا۔ ان حالات کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں آھنگوں کی ترتیب اوراس کے بعد بہ صورتِ کتاب ”پنج آھنگ” کی تالیف 1251 کے نصف آخر کے عمل میں آیی ہوگی۔
4- مہر نیم روز– یہ وہ کتاب ہے جسکی تصنیف کے لیے غالب پچاس روپے ماہوار پر دہلی دربار میں نوکر ہوۓ۔ جب مغلیہ سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا تو بادشاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ تیمور خاندان کی تاریخ لکھوای جاۓ جس کے لیے غالب کا انتخاب کیا گیا انھوں نے کتاب کے پہلے حصؔے کو مہر نیم روز اور دوسرے حصؔے کو ماہِ نیم نام دیا۔
غالب نے عام تاریخ نویس کی طرح صرف واقعات وحقایق کو جمع کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ اس کتاب کو اپنے کمال اظہار کا ذریعہ بنایا۔ وہ ایک طباع اور منفرد انشا پرداز بھی تھے اس لیے مہرنیم روزمحض تاریخ کے بجاۓ فارسی انشاۓ غالب کا ایک شہ پارہ بن گیا چونکہ اسکی نثر بہت دقیق ہے اس کا اردو ترجمہ نہایت مشکل کام تھا۔
مہر نیم روز وہ کتاب ہے جسکی وجہ سے غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطاب سے نوازا گیا اس میں ذیل کے عنوانات پر دل کھول کر لکھا ہے:
٭- اس میں انھوں نے اپنے نسب،خاندان اور اسلاف کا ذکر کیا ہے۔
٭- اپنے عالی نسبی پر فخرکیا ہےاور اس فخرکو تحدیث نعمت پر محمول کیا ہے۔
٭- فارسی زبان سے فطری لگاو،اس میں کمال پیدا کرنےاور شاعری پر نہایت پرجوش انداز میں فخر کیا ہے۔
٭- غالب نے بڑے موثر انداز میں اپنے علمی و ادبی اور فارسی دانی کی نا قدری پر زمانے کی شکایت کی ہے۔
اس کتاب میں وہ خدا کی حمد اور رسولﷺ کی نعت بڑے پرخلوص اورعقیدت مندی کے ساتھ لکھتے ہیں اور اپنی بے عملی و غفلت پر افسوس کرتے ہیں، ان تمام باتوں کا ایسی سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں کہ گستاخی و بے باکی کا ذکر توکیا ہی ہے اس کے علاوہ کہیں ظرافت و مدح سے بھی کام نہیں لیا۔
اوّل مہر نیم روز انشا پردازی کا شہکار ہے اس میں شاعری کا عنصر نظم سے کہیں زیادہ ہے اور اس قدر لطافت و رعنایی لیے ہوۓ ہےکہ پڑھنے سے طبیعت سیر نہں ہوتی۔
دوسرے تاتریوں، مغلوں اور بلخصوص تیمور سے ہمایوں تک کی واقعات میں بہت ساری باتیں کام کی بھی ہیں۔
مزکورا بالا کتابوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ غالب کو صرف فارسی زبان و بیان پر ہی قدرت حاصل نہیں تھی بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ سے گہری واقفیت رکھتے ہیں اور بظاہر ہرعام سی چیزیں اور عام سے نظر آنے والے حالات کوبھی گہری نظروں سے مطالعہ و محاصبہ کرتے ہے اور جو کچھ قلمبند کرتے ہیں وہ انکی دقیق بینی اور گہرے مشاہدے کا شاہد ہے۔ ہمیں غالب کے مشہور آثار کے ذریعہ اس عہد کے صرف سیاسی اور سماجی ماحول کا پتہ نہیں چلتا بلکہ ادبی اور علمی حالات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اس لیۓ ان کتابوں کا پڑھنا اور ان میں موجود نکات وجہات کی باضیابی بہت ضروری ہے
حوالہ:
1-غالب اور انقلاب ستاون، ص 11-13
2-یادگارغالب، ص 365
3-مجموعہ نثرغالب اردومرثیہ خلیل ارحمان داودی،مجلس ترقی ادب لاہور،ص 7-8
4- رقعہ نیز بہ نامِ جامع کتاب