صغير احمد
پیدائش
عبدالعزیز بن صالح مشری رجب 1374ھ مطابق فروری 1955 عیسوی میں طائف سے تقریباً 200 کلومیٹر جنوب میں الباحہ علاقہ کےمحضرہ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ عبدالعزیز مشری کا تعلق ایک معزز گھرانے سے تھا۔ گاؤں کے لوگ اس گھرانے کو بہت توقیر اور عزت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اجداد اور ان کے بعد ان کے والد کو شیخ القریہ (گاؤں کے سردار) کا لقب ملا ہوا تھا۔
بچپن
عبدالعزیز مشری لکھتے ہیں کہ جب وہ اپنے گاؤں میں پرائمری کے طالب علم تھے تو اس وقت ان کو ڈرائنگ بہت زیادہ پسند تھی اور وہ اپنی ڈرائنگ کو اپنے ساتھیوں اور استاد کے سامنے پیش کرتے تھے۔ مشری اپنے گھر کی دیواروں اور لکڑیوں پربھی ڈرائنگ کرتے رہتے تھے وہ کہتے ہیں کہ ڈرائنگ کاپی کے صفحات کو تعلیمی سال کے اختتام سے پہلے ہی بھر دیتے تھے۔ مشری بتاتے ہیں کہ 25 سال کے بعد بھی ان کے ذریعے ان کے گاؤں کی مسجد میں لکھی گئی قرآن کی آیات آج بھی موجود ہیں جن کو انہوں نے بہترین رائٹنگ میں کھڑکی اور دروازوں پر لکھا تھا۔
بچپن میں مشری نے ان لوگوں سے دوستی کی جن کو ڈرائنگ اور پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ وہ ان لڑکوں سے کافی دوری بنا کر رکھتے تھے جن کو کھیل کود، لڑائی جھگڑا اور دوسری لایعنی چیزوں میں دلچسپی تھی۔ مشری کہتے ہیں کہ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں کمزور تھا۔ اسی طرح سے جب گاؤں کے لوگ بیل یااونٹ ذبح کرتے تھے تو مشری الگ تھلگ رہتے تھے اور ان کے ساتھ شریک نہیں ہوتے تھے۔عبدالعزیز مشری کو شروع ہی سے لکھنے اور پڑھنے میں کافی دلچسپی تھی۔ خاص طور پر’’ العربی‘‘ نامی میگزین سے ان کو کافی لگاؤ تھا۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ العربی میگزین خرید کر پڑھیں۔ اسی طرح سے اس وقت جو بھی کتاب، میگزین یا رسالہ ان کے ہاتھ لگتا اس کو وہ پڑھ ڈالتے تھے۔ محض 18 سال کی عمر میں انہوں نے ’’باقۃ من تاریخ ادب العرب‘‘ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی۔ انہوں نے خود کو پڑھنے، ڈرائنگ اور تخلیقی تحریر کے لیے وقف کر دیا تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ عبدالعزیز مشری صحت کی خرابی کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہ کرسکے، پھر بھی انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ بچپن میں عبدالعزیز مشری کے گاؤں میں بجلی کی سہولیت دستیاب نہیں تھی۔ انہوں نے گاؤں میں ہی پتھر سے تعمیر کا کام سیکھا۔
ازدواجی زندگی
1980میں، عبدالعزیز مشری نے فلسطینی نژاد اردنی خاتون محترمہ ناہید سے شادی کی اور ان کے نام اپنے افسانوں کے مجموعے ’’أسفار السروي‘‘ کو معنون کیا۔ دس سال تک ایک ساتھ رہنے کے بعد 1990 عیسوی میں میاں بیوی نے باہمی رضامندی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ مشری کے مریض ہونے کی وجہ سے اس دوران کوئی اولاد نہ ہوئی جس کی وجہ سے عبدالعزیز مشری نے اپنی بیوی کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دے دی ، تاکہ محترمہ ناہید اپنے دوسرے شوہر کی معیت میں اولاد کی نعمت سے مالا مال ہو سکیں۔
مرض
عبد العزیز مشری کو اوائل عمر ہی میں ذیابیطس ہو گیا تھا اور بیماری کی پیچیدگیوں اور ادویات نے پچیس سال کی عمر میں ان کی بینائی کو بھی متاثر کردیا۔ اسی طرح سے وہ چلنے پھرنے میں عدم توازن کا شکار ہوئے اور ان کے گردے بھی فیل ہوگئے۔ مشری ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں بھی مبتلا ہوگئے ۔ ان کو ہفتے میں تین بارڈائیلیسس کروانا پڑتا تھا۔ 1993 میں جدہ کے کنگ فہد اسپتال میں ان کے گردے کی پیوند کاری کی گئی۔ کامیاب پیوندکاری کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے آخری چھ برسوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دوبارہ بروئے کار لاتے ہوئے اہم ادبی کارنامے انجام دینے میں کامیاب ہوئے، لیکن گینگرین نے ان کے اعضاء پر حملہ کرنا شروع کر دیا، چنانچہ پہلے ان کے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کاٹی گئی، پھر دایاں پاؤں کاٹا گیا اورجب صورت حال مزید بگڑ گئی تو ان کی بائیں ٹانگ پوری طرح کاٹ دی گئی۔ عبد العزیز مشری کو اسپتال میں ٹھہرنا اور اس کی پابندیوں کو برداشت کرنا کافی ناگوار گذرتا تھا اسی لئے وہ مختلف بہانے بناکر اسپتال سے فرار ہوجاتے تھے۔ وہ کہتے تھے ان کے لئے اسپتال میں دن گذارنے سے بہتر ہے کہ وہ جیل میں زندگی گذاریں۔
ملازمت
انیس سال کی عمر میں عبدالعزیز مشری دمام میں الیوم اخبار کے ادبی ضمیمہ “المربد” سے منسلک ہوئے۔ وہ1975 سے 82 تک اس سےوابستہ رہے۔ ان کے کہنے کے مطابق، اس وقت ان کی تنخواہ اتنی کم تھی کہ وہ انسولین خریدنے کے لئے بھی نا کافی ہوتی تھی۔
بچپن میں محبت
مشری لکھتے ہیں کہ جب وہ گیارہ برس کے تھے تو اس وقت انہوں نے اپنے گاؤں کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی۔ ان دونوں کی ملاقات لگ بھگ روزانہ ہوتی تھی کیونکہ ان دونوں کے کھیت آس پاس تھے۔ مشری بیان کرتے ہیں کہ ان کو یاد ہے کہ جب بھی ان کو حلوہ یا کوئی دوسری مٹھائی ملتی تھی تو وہ اس کو حفاظت سے رکھ لیتے تھے اور جب اس لڑکی سے ملاقات ہوتی تھی تو دونوں مل کر کھاتے تھے اور ہنستے تھے۔ مگر جب اس لڑکی کے لئے اس کے چچا کے لڑکے نے پیغام دیا تو اس وقت مشری کو کافی برا محسوس ہوا اور ان کو اس بات کا احساس ہوا کہ جو چیز حاصل نہیں کی جاسکتی ہے وہ انتہائی قیمتی اور نایاب ہوتی ہے اور اس کا مرتبہ اور مقام مزید بڑھ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت لفظ محبت کا ذکر کرنا ایک جرم تھا۔ مشری کے اندر رقابت اور محبت کی آگ جل رہی تھی۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ نہ تو میں نے اور نہ ہی اس نے کسی دن اس بارے میں ایک دوسرے سے بات کی لیکن بلاشبہ وہ محبت تھی۔
مشری کہتے ہیں کہ جس دن ان دونوں کی شادی تھی اس دن ان کی حالت اس بلے کی طرح تھی جو کھانا کی خوشبو پا کر چہار دیواری پر گھومتا رہتا ہے مگر مار اور ڈانٹ کے ڈر سے گھرمیں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شادی کے کئی سال بعد تک ان کو اس بات کا احساس رہا کہ لوگوں نے ان کے اوپر ظلم کیا ہے اور ان کے احساسات اور جذبات کی قدر نہیں کی ہے اور ان کی محبوبہ کی شادی ایک ایسے شخص سے کر دی ہے جس سے وہ واقف نہیں ہے۔ دن گزرتے رہے ان کی محبوبہ بچی سے ایک عورت میں تبدیل ہوگئی اور ایک دن جب مشری اپنی ماں کے ساتھ قریب کے ایک کنویں سے واپس آرہے تھےاس وقت اتفاق سے ان کی ملاقات اپنی سابقہ محبوبہ سے ہوگئی۔ ان کو اس بات کی امید تھی کہ وہ کم ازکم ان سے سلام کرے گی۔ مگر اس نے بے توجہی سے ’’والعون‘‘ کہا، جس کا مطلب ایک ایسا سلام ہوتا ہے جو کسی راہگیر یا اجنبی سے کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ سے مشری کو کافی صدمہ پہنچا۔
تصنیفات
عبدالعزیز مشری نے افسانہ، ناول، مقالہ، ڈرائنگ اور شاعری جیسے مختلف میدانوں میں اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔ ان کی تصنیفات کی فہرست درج ذیل ہے؛
- 1. باقة من أدب العرب، 1973
- 2. مكاشفات السيف والوردة (تخلیقی اور ثقافتی سوانح حیات (نادی ابہا الادبی،1996
افسانوں کے مجموعے:
- 1. موت على الماء، النادي الأدبي بالرياض ـ 1979
- أسفار السروي، نادي القصة السعودي ـ 1986
- الزهور تبحث عن آنية، نادي جازان الأدبي ـ 1987
- بوح السنابل، نادي الطائف الأدبي ـ 1987
- أحوال الديار، النادي الثقافي الأدبي بجدة ـ 1993
- جاردينيا تتثاءب في النافذة، إصدار خاص ـ 1998
ناول
- الوسمية (دار شهدي ـ القاهرة ـ 1984
- الغيوم ومنابت الشجر (مختارات فصول المصرية) ـ 1989.
- ريح الكادي ، المؤسسة العربية للدارسات والنشر ـ 1992
- الحصون، دار الأرض بالرياض ـ 1992
- صالحة، (مختارات فصول المصرية) ـ 1996
- في عشق حتى، المؤسسة العربية للدراسات والنشر ـ 1996
- المغزول،ان کی وفات کے بعد ان کے دوستوں نے 2005 میں شائع کیا ـ
مخطوطات
- القصة القصيرة في المملكة
- توسلات فی زمن الجفاف (نصوص شعرية)
- بڑی تعداد میں آئل پینٹنگز اور سیاہی کی ڈرائنگز
نوٹ: توسلات فی زمن الجفاف اور سیاہی کی ڈرائنگز کو الآثار الکاملۃ جلد 4 میں ان کے دوست علی الدمینی نے 2012 میں شائع کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ عبد العزیز مشری الیوم اخبار کے ادبی ضمیمہ “المربد” سے 1975 سے 82 تک وابستہ رہےاور سعودی عرب کے اکثر اخبارات میں مقالات لکھے۔
عبد العزیز مشری نے اپنے ناولوں میں سماج کی بھر پور عکاسی کی ہے ۔ آئندہ صفحات میں ہم مشری کے ناولوں الوسمیۃ )1984(، الغیوم و منابت الشجر )1989(، الحصون )1992(، ریح الکادی )1992(، صالحۃ (1996) فی عشق حتی (1996) اور المغزول (2005) کا تجزیاتی مطالعہ کریں گے تاکہ یہ جان سکیں کہ ان کے ناولوں میں سماجی مسائل کی عکاسی کس طرح کی گئی ہے۔
وفات
عبدالعزیز مشری کے دوست علی الدمینی کا کہنا ہے کہ مشری کی وفات سے پہلے اس رات (یعنی کہ چالیس دن پہلے جب ان کو بے ہوشی طاری ہوئی تھی) وہ مشری کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں پر ان کے بھائی تھے اور ان کی نرس اور ان کی ماں بھی موجود تھیں اور مختلف امور پر گفتگوہو رہی تھی۔ خاص طور پر ان کی کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں بات ہو رہی تھی۔ علی الدمینی اور عبدالعزیز مشری کے بھائی احمد اس بات کے خواہاں تھے کہ ان کے ناول کے کچھ اجزاء میں تھوڑی سی ترمیم کر دی جائے تاکہ مقامی طور پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو مثلًا ان کے ناول وسمیہ میں ایک باب ہے کہ احمد نئی چیزیں سیکھتا ہے جس کو مقامی طور پر مقبولیت حاصل نہیں تھی اسی لیے ان دونوں حضرات کی رائے تھی اس میں تبدیلی کر دی جائے مگر مشری اس بات کے بالکل مخالف تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اگر اس باب کو اس ناول سے ہٹا دیا جائے تو اس ناول میں کیا بچے گا پھر انہوں نے کہا کہ تم لوگ جنوب کی کہاوتوں اور حکایتوں سے بہتر طور پر واقف ہو اس لیے ایسا ممکن نہیں ہے کہ اس باب کو ہٹا دیا جائے۔ اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کے افسانوں کے مجموعہ اور ان ناولوں کو شائع کیا جائے جن پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کے اوپر تھکان کے آثار نظر آنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پیشاب کی نالیوں میں جلن ہو رہی ہے مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے ہمارے ساتھ شام کا کھانا کھایا جو کہ خاص طور پر میرے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اس کھانے کو عصیدہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کو خاص طور پر ان کی ماں نے تیار کیا تھا۔ مشری نے اپنی نرس فائزہ سے کہا کہ تم بھی اس طرح کا کھانا بنانا سیکھ لو تاکہ جب جنوب کے ہمارے دوست تشریف لائیں تو تم ان کے لیے اس طرح کا کھانا تیار کر سکو۔ کھانا کھانے کے بعد کتاب کے حجم، پبلشر اور غلاف پر جو تصویر لگے گی اس کے بارے میں بات ہوئی۔ ان کی دیوار پر لگی ہوئی ایک تصویر کو میں نے پسند کیا کہ یہ کتاب کےغلاف پر چھپے اس پر انہوں نے کہا کہ اس کی سائز کتاب کے غلاف کے برابر ہوگی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تصویر کتاب کے غلاف سے پوری طرح مطابقت رکھتی تھی۔
علی الدمینی کہتے ہیں کہ رات کو ایک بجے میں سو گیا تاکہ صبح پانچ بجے وقت پر ایئرپورٹ پر پہنچ سکوں۔ جب میں بیدار ہوا تو میں نے دیکھا کہ ان کی نرس فائزہ رو رہی تھی اور اس نے بتایا کہ رات میں عبدالعزیز مشری کی صحت خراب ہو گئی تھی اوران کے بھائی احمد مشری ان کو لے کر اسپتال گئے تھے اور وہ دونوں اب تک واپس نہیں آئے ہیں۔ علی الدمینی نے جب ان کے بھائی احمد کو فون کیا اور عبدالعزیز کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بے ہوشی کی حالت میں ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اطمینان دلایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے اور عبدالعزیز مشری جلد ہی صحت یاب ہوجائیں گے اور اپنی اس بے ہوشی سے واپس لوٹ آئیں گے کیوں کہ وہ بلیوں کی طرح ہیں جن کی سات جانیں ہوتی ہیں۔ میں ان کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہوں کیونکہ دمام سے ریاض اور امریکا تک میں نے ان کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھا ہے اور کس طرح سے وہ بے ہوشی پر غالب ہوئے ہیں اور ہمیشہ واپس لوٹے ہیں اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔ ایک ہفتہ کے بعد علی الدمینی نے اسپتال میں جاکر ان سے ملاقات کا ارادہ کیا مگر ان کے بھائی احمد نے کہا کہ ڈاکٹر دوستوں کو زیارت سے منع کرتے ہیں کیونکہ اس سے مشری کو تکلیف پہنچتی ہے۔ بالآخر وقت موعود آپہنچا اور بے ہوشی کے چالیس دن بعد 7 مئی 2000ء کو اتوار کی شام پونے چھ بجے جدہ کے کنگ فہد اسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت ان کے ساتھ ان کے وفادار بھائی احمد مشری اور مخلص دوست سعد الدوسری تھے۔ مشری کی تدفین جدہ کے الفیصلیہ قبرستان میں ہوئی۔ان کی قبر قبرستان کی مشرقی دیوار سے چار میٹر اور شمالی دیوار سے آٹھ میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ (یہ معلومات ان کے ناول المغزول کے مقدمہ، . ابن السروی …وذاکرۃ القری، الآثار الکاملہ جلد اول سمیت دیگر کتابوں سے لی گئی ہیں۔)
( کتاب “عبد العزیز مشری کے ناولوں میں سماجی مسائل” مصنف صغیر احمد سے ماخوذ)