محمد اکمل
ریسرچ اسکالر
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
تلخیص:
ہندوستان کی تاریخ میں مسلم حکمرانوں نے اپنے عہد حکومت میں مختلف نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ اگر ہم عہد اکبر کی تاریخ کا جائزہ لیں اور اس کے مشمولات کاجائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کا عہد ہندوستان کے دیگر بادشاہوں کے عہد سے کئی معنوں میں ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اکبر کے عہد میں تاریخ دانوں کے کہکشاں میں ان گنت ستارے ہیں لیکن اس انجمن کے درخشاں ستاروں میں ایک نام خواجہ نظام الدین احمد میر بخشی مؤلف طبقات اکبری کا ہے۔اس میں غزنوی کے عہد سے لے کر اکبر کے 38ویں جلوس تک کے واقعات کو قلمبند کیا گیا ہے۔
بنیادی الفاظ: طبقات، مشمولات، مراعات، علوم، اقتصادیات، تاریخ نویس، عمائدین، میر سپاہ، فوجی مہمات
ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کی ہند میں آمد سے لے کر مغلیہ سلطنت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر کے عہد تک مختلف حکومتوں کے الگ الگ بادشاہوں نے اپنے عہد حکومت میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ تاریخ، سیاسیات، سماجیات، مذبیات، اقتصادیات، سائنس اور علوم غرض کہ ہرمیدان میں ہمارے پاس اس عہد کا ایک بھرپور مواد ملتا ہے جس سے ہمیں اس عہد کو پورے طور سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
اس ضمن میں اگر ہم عہد اکبر کی تاریخ کا جائزہ لیں اور اس کے مشمولات کو تلاشیں اور سمجھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکبر کا عہد ہندوستان کے دیگر بادشاہوں کے عہد سے کئی معنوں میں ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے۔عہد اکبر میں سیاسی، سماجی، مذہبی اور علمی سطح پر جن رجحانات کو فروغ حاصل ہوا وہ ہمیں دوسرے عہد میں کم کم دکھائی دیتا ہے۔ عہد اکبر کے افکار و نظریات اور اس کے اثرات اکبر کے عہد کے بعد بھی ہر دور میں مرتب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ان مختلف وجوہات میں ایک بہت بڑی وجہ اکبر کا اپنے دربار میں عالموں اور فاضلوں کو جگہ دینا بھی ہے اور ان عالموں اور فاضلوں کے درمیان بھی اکبر نے تاریخ دانوں اور تاریخ نویسوں کے لیے جو خاص مراعات دیں اس نے اکبر کے عہد کو دیگر بادشاہوں کے عہد اور اس کے اثرات سے فزوں تر رکھا ہے۔ یوں تو اکبر کے عہد میں علما و فضلا کی ایک کثیر تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔ جنھوں نے مختلف میدان میں اپنے فن کے نقوش چھوڑے، جن میں سے چند ایک کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
ملا عبدالقادر بدایونی، فیضی سرہندی، عارف قندھاری، ابوالفضل علامی، نظام الدین بدخشی، نورالحق دہلوی، شریف آملی، طوسی قاضی، عباس سروانی، عبداللہ سلطان پوری، خواجہ نظام الدین احمد میر بخشی، خواجہ نعمت اللہ ہروی اور ابوالفیض فیضی وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
اکبر کے عہد میں تاریخ دانوں کے کہکشاں میں یوں تو ان گنت ستارے ہیں لیکن اس انجمن کے درخشاں ستاروں میں ایک نام خواجہ نظام الدین احمد میر بخشی ہے۔ ان کے اباؤاجداد کا تعلق ہرات سے تھا۔ خواجہ نظام الدین احمد میر بخشی کے والد خواجہ محمد مقیم بابر کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اور بابر کے قریبی عمائدین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
نظام الدین احمد اکبرآباد یعنی موجودہ آگرہ میں 1551ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے سبھی علومِ متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ ادب کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کا خاص میدان تاریخ تھا۔ انھیں بچپن سے ہی تاریخ کی قدیم کتابوں کے مطالعے کا شوق تھا۔یہ اپنے وقت میں وقوع پذیر ہونے والے احوال و کوائف کو ایک تاریخ داں کی حیثیت سے دیکھا کرتے تھے اور یہی چیز ان کے ایک بہترین تاریخ داں بننے میں ممد و معاون رہی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے بھی اپنے والد کی طرح فوج میں ملازمت اختیار کرلی اور دن بہ دن ترقی کرتے ہوئے صوبہ گجرات کے بخشی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعد ازاں اپنی بہترین کارکردگی کی بنا پر پوری مغلیہ سلطنت کی افواج کا میر سپاہ مقرر ہوئے۔ اس کے صرف دوسال بعد ہی 45سال کی عمر میں 1594ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
خواجہ نظام الدین احمد میر بخشی باوجود اپنی پیشہ ورانہ فوجی مہمات اور مصروفیات کے ایک بہترین علم دوست، ادب دوست اور ادب پرور انسان تھے۔ ان کا طبعی میلان بچپن سے ہی تاریخ کے مطالعے کی طرف تھا۔ اسی طبعی میلان کے مطابق انھوں نے اپنے ذاتی مشاہدات اور زندگی کے تجربات کو کتابی شکل میں پیش کیا اور اس کا نام ”طبقات اکبری“رکھا۔ جسے ”طبقات اکبر شاہی“ اور ”تاریخ نظامی“ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب1592-93ء کی تالیف ہے۔ اس میں اکبر کے 38ویں جلوس تک کے واقعات کو قلمبند کیا گیا ہے۔
نظام الدین میر بخشی نے اس کتاب میں غزنوی سلطنت کی تاریخ سے لے کر عہد اکبر تک کے واقعات قلمبند کیے ہیں۔ میر بخشی نے طبقات اکبری میں ایک مقدمہ اور خاتمہ کے علاوہ ہندوستان کے نو طبقات کو شامل کیا ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
مقدمہ میں غزنویوں کے حالت ہیں۔ ابتدا سبکتگین 367ھ سے انتہا 582ھ تک دو سو پندرہ سال کا زمانہ ہوتا ہے۔ پندرہ بادشاہ گزرے ہیں۔
1۔ طبقہ دہلی۔ سلطان معزالدین غوری کے زمانے سے ابتدا ہوئی کہ علاقہ دہلی پر قبضہ کرکے اس نے حاکم مقرر کیا۔حضرت خلیفہ الٰہی (اکبر بادشاہ) کے عہد سعادت قرین تک چھتیس بادشاہ ہوئے۔ 574ھ تا 1002ھ
2۔ طبقہ دکن۔ چھتیس بادشاہ گزرے۔ 748ھ سے 1002ھ تک دو سو چون سال کا زمانہ ہوتا ہے۔
3۔ طبقہ گجرات۔ ان کی سلطنت کی مدت، 703ھ تا 980ھ ایک سو ستاسی سال کا عرصہ ہوتا ہے۔ سولہ بادشاہوں نے حکومت کی۔
4۔ طبقہ بنگالہ۔ اکیس اشخاص نے حکومت کی، حکومت کی مدت ایک سو اٹھانوے سال، 741ھ تا 929ھ
5۔ طبقہ مالوہ۔ بارہ حکمران رہے، مدت حکومت ایک سو اٹھاون سال۔
6۔ طبقہ جونپور۔ ستانوے سال مدت حکومت، پانچ بادشاہ۔
7۔ طبقہ سندھ۔ اکیس بادشاہ، مدت حکومت دو سو چھتیس سال۔
8۔ طبقہ کشمیر۔ چھبیس بادشاہ، مدت حکومت دو سو پینتالیس سال۔
9۔ طبقہ ملتان۔ پانچ حکمران، مدت حکومت اسی سال۔
خاتمہ میں ہندوستان کی بعض خصوصیات اور متفرق امور کا ذکر ہے۔1؎
طبقات اکبری کے متعدد قلمی نسخے ہندو پاک اور یورپ کے کتب خانوں میں دستیاب ہیں جن کی تفصیل C.A Storeyنے اپنی کتاب Persian Literatureمیں قلمبند کی ہے۔ یہ کتاب سب سے پہلے لکھنؤ سے 1870ء میں طبع ہوئی۔ اس کے بعد برجیندر ناتھ ڈے (B. De)نے اس کا متن تیار کیا جو تین حصوں میں ایشیاٹک سوسائٹی کولکتہ سے شائع ہوئی۔ اس کی اہمیت و مقبولیت کے پیش نظر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ خواجہ نظام الدین میر بخشی نے یہ کتاب سادہ اور عام فہم اسلوب میں اس انداز سے لکھی کہ جس نے بعد میں آنے والے تقریباً سبھی تاریخ نویسوں پر اپنے اسلوب کا ایک خاص اثر مرتب کیا۔ ملاعبدالقادر بدایونی کی”منتخب التواریخ“ اور فرشتہ کے ”گلشن ابراہیمی“ وغیرہ معرکۃ الآرا جیسی تاریخی کتابیں بھی طبقات اکبری کے اسلوب کی پیرو نظر آتی ہیں۔ فاضل مؤلف نے طبقات اکبری کی تالیف میں جن مستند تاریخی کتب سے استفادہ کیا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
تاریخ یمینی، تاریخ زین الاخبار، روضہۃ الصفا، تاج المآثر، طبقات ناصری، خزائن الفتوح، تغلق نامہ، تاریخ فیروز شاہی، تاریخ مبارک شاہی، تاریخ فتوح السلاطین، تاریخ محمود شاہی،طبقات محمود شاہی، مآثر محمود شاہی، تاریخ محمدی، تاریخ بہادر شاہی،تاریخ بہمنی،تاریخ ناصری، تاریخ مظفر شاہی، تاریخ مرزا حیدر، تاریخ کشمیر، تاریخ سندھ، تاریخ بابری، واقعات بابری، تاریخ ابراہیم شاہی، واقعات مشتاقی، واقعات حضرت جنت آشیانی، ہمایوں بادشاہ۔2؎
بہر طور مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں جب ہم طبقات اکبری پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ کتاب عہد اکبری کا ایک ایسا آئینہ نظر آتی ہے جس میں اس عہد کی پوری تاریخ سمو دی گئی ہو۔فاضل مؤلف نے اس کتاب کو اتنی آسان و سہل اور سلیس زبان میں لکھا جس کو ہر صاحبِ فہم و ذکا بڑی آسانی سے درک کرسکے اور اس عہد کے احوال و کوائف سے پوری واقفیت حاصل کرسکے۔ بلا شبہ یہ کتاب فن تاریخ نویسی کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جس سے نہ صرف اکبر کے عہد میں بلکہ بعد کے ادوار میں بھی تاریخ دانوں نے کسب فیض کیا اور نہ صرف اس کے اسلوب سے استفادہ کیا بلکہ عہد اکبر کی تاریخ کو بہترین، مبسوط اور عام فہم انداز میں پیش کرنے کا اول اول سہرا بھی اسی کتاب کو جاتا ہے۔
حواشی:
1۔طبقات اکبری، مولفہ، خواجہ نظام الدین احمد، ص:16_17
2۔ تاریخ نویسی فاریسی درہندو پاکستان، ص:151
منابع و ماخذ:
خواجہ نظام الدین احمد، طبقات اکبری، جلد اول، مترجم محمد ایوب، اردو سائنس بورڈ سنز پرنٹر، لاہور؛ 1990ء
محمود علی، عظمت ہندوستان اور عہد وسطیٰ، شوبی آفسیٹ پریس، نئی دہلی، دسمبر 2009ء
شمس العلماء، محمد حسین آزاد،دربار اکبری، لاہوتی پرنٹر ایڈس، دہلی 2000ء
ملاعبدالقادر بدایونی، منتخب التواریخ، جلد دوم و سوم، مترجم علیم اشرف خان، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، 2017ء
دکتر توفیق سبحانی،نگاہی بہ تاریخ ادب فارسی در ہند، شورای گسترش زبان و ادبیات فارسی، اول 1377ء
آفتاب اصغر،تاریخ نویسی در ہندو پاکستان، لاہور؛ خانۂ فرہنگ، ایران؛ 1364ء
History of Indo-persian Literature by Nabi Hadi, Iran Cultutre House, New Delhi, Firsrt 2001.
Historians and Historiography by Harbans Mukhia, Wikash publishing House, New Delhi, 1976.