ثنا اظہر
ریسرچ اسکالر شعبہ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی، لکھنؤ
سیمین دانشور ایک مشہور ایرانی ادیب ہیں ان کی نثری کاوشیں ایرانی ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں ایران کی سماجی اور سیاسی صورتحال کو اس پرکشش انداز میں تحریر کیا کہ اس کا پورا نقش ذہن کے پردوں پر مرتسم ہوجاتا ہے خاص طور پر ان کے ناولوں میں فیمینزم کا موضوع اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے یوں تو ان کا ہر افسانہ اور ناول فارسی ادب میں ایک اہم مقام کا حامل ہے لیکن جس ناول نے سرحد کی تمام بندشوں کو توڑتے ہوئے قبولیت عامہ اور شہرت دوام حاصل کی وہ سوشون ناول ہے، سووشون کاعنوان فارسی کی ماتمی تقریب کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اس کتاب نے ایرانی ادب میں ایک انقلاب برپاکیا اورایرانیوں کے اپنے نقطہ نظر کو یعنی شکست خوردہ قوم کے دائرے سے نکل کر آزادخود مختار اور عزت نفس کی حامل قوم کی شکل میں بدلنے میں مدد کی۔کیونکہ 1970ء میں جونسل جوان ہوئی اس نے اس انقلاب کوجنم دیا جس نے ان کے ملک کی اس دہائی کے آخر میں نگہداشت کی۔سیمین دانشور واقعی ایک ادبی الہام تھیں۔
دانشور کے اس ناول کو ایران میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے قارئین کی تعداد بہت زیادہ ہوئی۔یہ ایک سیدھی سادی کہانی ہے جوایک خاتون کے نقطہ نظر سے رشتہ تحریر میں آئی ہے۔ اس میں بیرونی مداخلت کے کربناک واقعہ کے خلاف عوام کے غم وغصہ کو بڑی ژرف نگاہی سے بیان کیاگیاہے جس سے عام لوگ اتفاق کرتے ہیں۔اس کے کردار مختلف قسم کے جذبا ت سے بحث کرتے ہیں۔ چنانچہ اس کا پلاٹ شادی بیاہ، بچوں کی ولادت وتربیت، زناوبدکاری، غربت وافلاس، تنہائی، دفاع اورموت وغیرہ مضامین پر مشتمل ہیں۔کچھ نقادوں کاخیال ہے کہ سووشون اگرچہ ایرانی عوام کے دلوں کے تار کوچھوتاہے لیکن ادبی حیثیت سے وہ ”بوف کور“ کی بہ نسبت زیادہ پائیدارنہیں ہے جسے دانشور کے معاصر ادیب صادق ہدایت نے لکھا۔لیکن بہرحال ایران میں ان کے ناول کے قارئین کاحلقہ وسیع ہے۔
اپنے شاہکار ناول ”سووشون“ کے 1969ء میں شائع ہونے کے بعد ہی سیمین دانشورؔ نے جدید فارسی نثر نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی۔ حتیٰ کہ ادبی اہمیت کے میدان میں وہ آل احمد سے آگے بڑھ گئیں۔سووشون پہلا ناول ہے جسے ایک ایرانی خاتون نے نسوانی نقطہ نظر سے لکھا۔ یہ کتاب 16 بار شائع ہوئی اورہنوز وہ واحد ناول ہے جس کے قارئین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔سووشون میں کمزور تکنیک،پلاٹ اور اسلوب کے اثرات نظر نہیں آتے ہیں۔کہانی ”زری“ نام کے ایک کردار کے تناظرمیں کہی گئی ہے۔اس میں ایک شیرازی زمیندار خاندان کی کہانی بیان کرتی ہیں جو 1940کی جنگی سیاست میں گرفتار ہوگیاتھااور بیرونی حملہ آوروں اورمقامی موقع پرستوں کے بیچ رسہ کشی کاسبب بن گیاتھا۔ہیروئن زری کا شوہریوسف بدیسیوں کے اس مطالبہ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکتاہے کہ اپنی فصل قابض فوجیوں کوخوراک کی فراہمی کیلئے دیدے، کیونکہ اس کے اس فعل کانتیجہ خود اپنے کسانوں کی بھکمری کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ اس سخت موقف کی وجہ سے اسے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑااوراس ناول کاآخری منظریہ ہے کہ یوسف کے جلوس جنازہ میں جوایک عظیم احتجاجی مظاہرہ کی شکل میں بدلنے کے قریب تھا، سرکاری فوج مظاہرین کوکھدیڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی لاش صرف اس کے بھائی اورزری کے رحم وکرم پررہ جاتی ہے۔یہ منظر فارسی ادب کی تاریخ میں نہایت اثر انگیز انداز اور بہترین اسلوب میں لکھے جانے والے نثری نمونوں میں ہے۔سووشون میں دانشور سماجی واقعات، رسومات اورافکار وخیالات کو باہم ہم آہنگ کرکے اس طرح بیان کرتی ہیں کہ حسین اسلوب پر مشتمل وہ ایک کہانی ہو جاتی ہے۔سووشون سے متعلق اخبار ”کیہان فرہنگی“نے خود دانشور سے ایک انٹر ویولیا جو سوال وجواب کی شکل میں درج ذیل ہے:اوربہترین تبصرے پرمشتمل ہے۔
کیہان فرہنگی:
” شما خود دلیل اقبال فراوانی را کہ بہ سووشون شدہ است، بیشتر درچہ می بینید؟آیا اشارات پوشید ومرثیہ واری کہ بہ شاد رواں آل احمد داشتہ اید درآن موثر بودہ است؟
دکتر دانشور:دلیل اقبال فراوان مردم را بہ سوشون در مصاحبہ ھائی طاق وجفتی کہ کردہ ام و بیشتر شاں اخیراًدرآمدہ گفتہ ام۔ درسطح رمان اشارہ ای مرثیہ وار بہ جلال وپیش بینی مرگش ھست اما درژرفاء زاری برسوک سیاووش زاری برملت ایران است۔
مروری برتاریخ ایران بہ شما نشان می دہد کہ کشور ما چہارراہ حوادث بودہ، ھرکہ آمدہ لگدی بہ ما زدہ و تا مدتہا نرفتہ۔اسکندرآمدہ وجانشینانش سلوکی ہا، قریب یک قرن ونیم دراین ملک، جاخوش کردہ اند۔مغول آمدہ و ایلخانیان تامدتہا امان مارا بریدہ اند و تیموریان دست مغول را از پشت بستہ اند۔آن یکی کلہ منار ساختہ، آن دیگری در نیشاپورحتیٰ سگ وگربہ رازندہ نگذاشتہ وتازہ امر اوشاہان خودی، ہموارہ بلای جان ما بودہ اند۔ یکیشان آدم خور داشتہ و ازریخت ہرکہ خوشش نمی آمدہ بہ آدم خوارش دستور می دادہ کہ”بخورش“آں دیگری انتقام خواجگی خود را ازمردم کرمان گرفتہ ویک چارک چشم مقداردقیقش را نمی دانم۔ از مردم بیگناہ برآوردہ۔ شما درتاریخ کمتر کشوری می خوانید کہ حکمرانی یاپادشاہی، برادران وپسران خود را ازترس رقابت آنہا باخودش،کشتہ باشد یا کور کردہ باشد ودر گوست واندی سال اخیر، شاید ہم بیشتر، اگر از صفویہ واز جنگ ایران وعثمانی بہ تحریک غرب، حساب کنیم۔ استثمار واستعمار غرب از نوع کہنہ ونوش،شیرہ جان مارا مکیدہ،ہنوز ہم دست از سرما برنمی دارند۔تازہ آخرین بادشاہ این کشور چرا بایستی بہ جای آنکہ از مصدق پشتیبانی کند، با آئیدن وآیزنہاور گاوبندی کردہ؟
حالا درجمہوریہ اسلامی باوجود خواست درست و محکم ”نہ شرقی نہ غربی“چقدر ہم شرق وہم غرب برای ماخط ونشان می کشند وگربہ می رقصانند،تازہ من از آفات سماوی وارضی کہ ہموارہ گریبانگیر این مملکت بودہ،حرفی نزدم، از زلزلہ وسیل،ہمیں سیل اخیر تجریش و نقاط دیگر، انفلوئنزا راہم یادم رفت کہ پیش از تولد من روی دادہ وکشتار کردہ۔
درسووشون بہ ایہام برداغہای مردم ایران گریستہ ام اما امید ہم دادہ ام
(کیہان فرہنگی،شمارہ۶ شہریور۶۶۳۱/۸۸۹۱)
(ترجمہ)
کیہان فرہنگی:
سوشون کوجوعام مقبولیت حاصل ہوئی اس کی وجہ آپ کے خیال میں کیاہے؟ کیا اس میں مرحوم آل احمد کے لئے سوگواری کاجوجذبہ آپ کے اندر تھا اور جوپوشیدہ اشارے اس میں تھے وہ اس میں موثر ہوئے ہیں؟
دانشور:
”سووشون“ کی عوام میں غیرمعمولی پذیرائی کی وجہ اپنے انٹر ویومیں جوکبھی تنہا اورکبھی چند نفر کے ساتھ دی ہے، بیان کرچکی ہوں اور زیادہ ترحصہ ادھر حال میں شائع ہوچکاہے۔ناول کی سطح پرجلال کی طرف سوگ وارانہ اشارہ ہے اور ان کی وفات کی پیش بینی بھی ہے مگر گہرائی میں جایئے تو سیاووش کے ماتم اورایرانی قوم کی حالت پرآہ وزاری ہے۔
ایران کی تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ ہمارے ملک پرچاروں طرف سے حوادث کاحملہ ہواہے۔ جوبھی یہاں آیا اس نے ہمیں لات ماری اورمدتوں یہاں رہا۔اسکندر آیااوراس کے جانشین سلوکی لوگ ڈیڑھ صدی تک اس ملک میں ٹھاٹ کرتے رہے۔ مغل آئے اورایلخانیوں نے ایک مدت تک ہمارا چین سکون غارت کیا۔تیموریوں نے مغلوں کاہاتھ پشت کی طرف باندھا، ایک نے انسانی کھوپڑیوں کامینارہ بنایا، دوسرے نے نیشاپور میں کتا بلی تک کو زندہ نہیں چھوڑا، پھر خودسے مسلط ہونے والے امراء اورسلاطین سداہمارے لئے بلائے جان ثابت ہوتے رہے۔ایک نے ایک آدم خور چھوڑ رکھاتھا اور ہر اس آدمی کوجس سے وہ ناراض ہوتاآدم خور کے حوالے کرتا کہ اسے کھالے۔دوسرے نے خواجگی کا انتقام کر مان کے لوگوں سے لیااورکم سے کم مقدار بھی اس کی نہیں معلوم۔ بے گناہ لوگوں سے لیا۔آپ نے بہت کم ملکوں کی تاریخ میں پڑھا ہوگاکہ حکمرانوں اور بادشاہوں نے اپنے بھائی بندوں کومحض رقابت کے اندیشہ سے یا تو قتل کرادیا یااندھا کرادیا ہوگا۔ ادھر کچھ اوپر دوسو سال کے اندراور شاید اس سے کچھ زیادہ مدت میں صفویہ دور سے اور ایران اور ترکی کی جنگ سے جو یورپ کی تحریک پرہوئی، حساب لگائیں تویورپین ممالک کے نئے پرانے استحصال اوراستعمار یعنی نوآبادیاتی نظام نے ہماری جان کے شیرے کو چوس لیااور آج بھی وہ ہم سے دستبردار نہیں ہیں۔تازہ بات یہ ہے کہ اس ملک کے آخری بادشاہ نے مصدق کی تائید کرنے کے بجائے امریکہ کے صدر ایزن ہاور اوربرطانیہ کے وزیراعظم ایدن کے ساتھ صف بندی کی۔
اس وقت جمہوریہ اسلامی نے اگرچہ ”نہ شرقی نہ غربی“(نہ مشرقی ممالک اور نہ مغربی ممالک کی پالیسی پرچلناہے) کے صحیح پالیسی پرعمل پیراہے اس کے باوجو دمشرق ومغرب کس قدر ہماری سیاست میں خط کشی کرتاہے اورہم کونچاتاہے (سب کومعلوم ہے)۔اور ادھر حال میں ارضی وسماوی آفات کی بات توہم نے کی ہی نہیں جو سدا ہمارے ملک پرنازل ہوتی رہتی ہیں۔اس کے علاوہ کبھی زلزلہ اورکبھی سیلاب کاسلسلہ رہتاہے۔ ادھر حال میں تجریس اوردیگر جگہوں میں آنے والا سیلاب اورانفلوئنزا کی وبا تو ہم بھول ہی گئے جوہماری پیدائش سے پہلے پیش آیا اورتباہی اور بربادی مچاگیا۔ سووشون میں درپردہ ایرانی عوام کے صدموں پرآہ وزاری کی ہے۔لیکن امیدکی کرن بھی ہے۔
کیہان فرنگی:
لطفاًدربارہ نام سووشون وتلفظ آن توضیح بہ فرمائید:
دکتر دانشور:
سووشون بہ فتح سین، شکستہ شدہ یاتلفظ محلی ”سیاوشان“ است و معنای آن زاری کردن بہ سوک سیاوش است۔چوں شیرازی ہاسیاوش را بفتح واو تلفظ می کنند۔بنابراین تعزیہ سیاوش را ہم سووشون بفتح سین می گویند اما سووشون بضم واو اول وفتح واو دوم ہم غلط نیست۔چراکہ درتہران سیاووش می گویند بہ ضم ہردوواو۔ اما چوں صحنہ اصلی رمان درشیراز است و تعزیہ را ہم تامدتہا در معانی وبیشتر اطرافگاہ ہای عشایر می دادند و سووشون را بفتح سین تلفظ می کردند، غرض خود منہم ہمیں تلفظ است۔سہ بار این تعزیہ را دیدہ ام وہربار وقتی سربریدہ سیاووش درطشت بحرف آمد ومی گفت ”وجداکردن راست منیزم“برستمہای کہ برمردم ایران رفتہ گریستہ ام،این جور مواقع نمی شود خندید۔
(کیہان فرہنگی،شمارہ۶ شہریور۶۶۳۱/۸۸۹۱)
(ترجمہ)
کیہان فرنگی:
سووشون کے نام کی براہ کرم وضاحت فرمایئے۔
دانشور:
سووشون بفتح سین، سیاوشان کا مقامی تلفظ یاشکستہ صورت ہے۔اس کے معنی ہیں سیاوش کی موت پر سوگ کرنا۔ شیرازی لوگ چونکہ سیاوش کوفتح واؤ کے ساتھ بولتے ہیں اس لئے سیاوش کی تعزیہ اورسوگواری کوبھی سووشون بفتح سین تلفظ کرتے ہیں۔لیکن سووشون بضم واؤ اول وفتح واؤ دوم بھی غلط نہیں ہے۔چونکہ تہران میں سیاوش کہتے ہیں بضم ہردو واؤ،لیکن اس ناول کااصل اسٹیج شیراز ہے اوراس کے تعزیہ کاسلسلہ وہاں اور اس کے گرد ونواح کے اکثرعلاقوں میں ہنوز جاری ہے اور سووشون کوفتح سین کے ساتھ تلفظ کرتے ہیں۔ غرض کہ خود میرابھی یہی تلفظ ہے۔ اس تعزیہ کومیں نے تین باردیکھا اورجب بھی سیاوش کے کٹے ہوئے سر کا تذکرہ ہوا اوریوں کہا”جدا کردن راس منیزم“ ایرانیوں پر جوستم ڈھائے گئے اس پر رو پڑی ہوں۔یہ ایسے مواقع ہیں جہاں مجھے ہنسی نہیں آتی۔
الغرض یہ ناول ایرانیوں کے مسائل کی بھر پور عکاسی کرتا ہے اور ان کی مشکل زندگی کا خاکہ بڑے درد بھرے انداز میں بیان کرتا ہے جو ایرانیوں کی اکیسویں صدی کی زندگی سے واقف ہونا چاہتا ہوں اس کے لئے یہ ناول ایک بہترین ذریعہ علم ہے
مآخذ ومراجع:
۱۔داستان نویسان معاصرایران، محمد قاسم زادہ،تہران
۲۔صد سال داستان نویسی درایران،از حسین عابدین
۳۔کیہان فرہنگی،شمارہ۶ شہریور۶۶۳۱/۸۸۹۱)