Main Menu

رسالہ ”آج کل“ اور محبوب الرحمن فاروقی: تعارفی جائزہ

عبداللہ منیر العالم

ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ

رسالہ ”آج کل“ 25 نومبر1942 ء کو پہلی دفعہ اس نام سے شائع ہوااور یہیں سے آج کل کی ابتدا ہوئی۔ لیکن اس کے رشتے کو’فِن پرون‘کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے پندرہ روزہ  ”آج کل“ کے نیچے میں یہ عبارت لکھی جاتی تھی ”فن پرون کا اردو ایڈیشن“ اور یہ سلسلہ آج کل کے 4مئی 1943کے شمارے تک جاری رہا۔ یکم جون1943 تا یک اکتوبر1944 تک آغا محمد یعقوب دواشی اس کے مدیر رہے۔ دواشی صاحب ”آج کل اردو کے اول مدیر تھے۔ قبل اس کے کہ میں محبوب الرحمن فاروقی کے اداریوں کا جائزہ پیش کروں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدیر اور مدیریت کے تعلق سے کچھ بنیادی باتیں بیان کر دی جائیں۔ مدیر کسے کہتے ہیں اور مدیر کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور اس کے لیے کیا کچھ اصول و ضوابط طے کیے گئے ہیں۔ مدیر کسی بھی رسالے یا اخبار کا منتظم ہوتا ہے اور کسی بھی رسائل و جرائد یا اخبار کو چلانے کے لیے مدیر کی ضرورت ہوتی ہے اور مدیر ہی اس کا مکمل ذمہ دار ہوتا ہے، ایک اخبار، رسالہ اور کسی جریدے کا مدیر انتظامی امور کا ماہر ہوتا ہے پورا مینجمنٹ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اب مدیر کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ اس کا ہدف کیا ہے۔پھر وہ اپنے طے شدہ ہدف کو پانے کی حتی الامکان کوشش کرے۔ اور ایک کامیاب مدیر ثابت کرنے کے لئے پوری جد وجہد کرے۔مدیر کو اخلاقیات کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے اور خود بھی اخلاقیات کا پابند رہے۔ مدیر کے لئے  ضروری ہے کہ وہ وسیع القلب ہو اور  باضمیر ہو۔

 اگر کسی رسالے یا اخبار کے مدیر نے ان متذکرہ اصول و قواعد پر عمل کرتے ہوئے اپنی ادارتی ذمہ داری سنبھالی تو یقین کیجیے کہ وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوگا، چوں کہ یہ وہ زریں اصول ہیں جو دین کی روشنی میں تیار کیے گئے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ادارت ایک فن ہے جس سے مدیر کا واقف ہونا لازمی ہے۔ کیوں کہ مدیر کا کام رسالے کے صرف ظاہر ی حسن کو بڑھانا، اس کی ترتیب و تزئین کے فرائض انجام دینانہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ رسالے کے معیار کو بڑھانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ ساتھ ہی پالیسی و پروگرام کو مد نظر رکھ کر اسے اپنے فکر وخیال کے سانچے میں ڈھالنا بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی رسالے کا مدیر تبدیل ہوتا ہے تو اس رسالے میں واضح اور نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اور یہ تبدیلی ہونا ضروری بھی ہے کیوں کہ یہ صحت مند ادارت کی علامت بھی ہے۔

رسالہ آج کل ایک بلند پایہ مجلہ ہے جو پوری اردو دنیا میں اپنے معیار کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس رسالہ کی خوش قسمتی ہے کہ شروع سے اب تک اسے ایک سے ایک اہل علم بحیثیت مدیر نصیب ہوئے۔ ماہر علم و فن اور اصحاب قلم مدیروں نے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ مختلف وقتوں میں اس کی آبیاری کی ہے۔ اسے سجایا اور سنوارا ہے۔ جب یہ رسالہ 25نومبر1942 کو پہلا شمارہ کے طور پر شائع ہوا۔ اس وقت سے4 مئی 1943تک پرچے پر کسی مدیر کا نام درج نہیں ہے۔ جب کہ 4 مارچ1943 کے شمارے میں شائع ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آج کل کے مدیر مولانا عبد القادر خان تھے۔ اس بات کا تذکرہ اداریہ کے اختتام کے علاوہ کہیں اور درج نہیں ہے۔ بہر کیف مولانا عبد القادر خاں باضابطہ آج کل کے مدیر رہے ہوں یا نہ رہے ہوں مگر اردو ایڈیشن کی تمام تر ذمہ داریاں انہی کے سر تھی۔ اور 4 مئی 1943 تک رسالہ ان کی ہی نگرانی میں شائع ہوتا رہا۔ اس کی کچھ نہ کچھ مصلحت رہی ہوگی کہ ان کا نام بحیثیت مدیر شائع نہیں کیا گیا ہو۔ جب کہ آج کل جیسے باوقار رسالہ میں مدیر کا نام نہ ہونا بے حد افسوس ناک ہے۔ کیوں کہ پہلا شمارہ ہی تاریخی اور اہم ہوتا ہے۔ چوں کہ اسی پہلے شمارے سے مستقبل کی راہیں طے کی جاتی ہیں۔ اس طور پر مدیر کا نام تو کسی بھی صورت میں ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ کیوں کہ مدیر ہی رسالہ کا لائحہ عمل طے کرتا ہے۔

جب یکم جون 1943 سے باضابطہ آج کل شائع ہونے لگا تو اس وقت دو نائب مدیر اور ایک مدیر مقرر کیے گئے، نائب مدیر میں شان الحق حقی اور شیش چندر سکسینہ طالب دہلوی کے نام درج تھا اور بحیثیت مدیر آغا محمد یعقوب دداشی کا نام تھا۔ اس طور پر آج کل کے روز اول سے ہی اپنے وقت کے مدیر کی ادارے حاصل رہی۔انہیں میں سے محبوب الرحمن فاروقی بھی ہیں۔آپ اگست1990 کو بحیثیت  مدیر مقررہوے۔

جہاں تک فاروقی صاحب کا سوال ہے تو وہ اپنے مزاج کے انسان تھے، ان کی زندگی اور معاملات زندگی میں وہ اپنا منفرد طرز رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی ادارت میں آج کل جداگانہ رنگ سے شائع ہونے لگا تھا۔ چوں کہ وہ تبدیلی کے قائل تھے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے آج کل کی بنیادی ساخت کے علاوہ اس کی ظاہری ساخت کو بھی بدل ڈالا۔ انھوں نے فہرست مضامین کو غیر سائنٹفک سے شروع کردیا، اور کوشش کرتے تھے کہ رسالہ میں کہیں بھی تھوڑی یا زیادہ جو بھی جگہ بچ جائے اس کا صحیح استعمال لازمی ہے۔ اسی لیے کہیں کہیں خالی جگہ پر اشعار اور کہیں قطعات کو لگا دیتے تھے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ کسی مضمون کا تھوڑا سا حصہ بچ جاتا تو اسے بھی کسی بھی صفحے پر جہاں خالی جگہ ملتی بقیہ لکھ کر ڈال دیتے جس کی وجہ سے کبھی کبھی کافی پریشانی ہوتی۔

فاروقی صاحب یہ چاہتے تھے کہ زبان سے زیادہ تخلیق کار کی تخلیقات شامل ہوجائیں جس کے لیے وہ غزل کو مختصر کردیتے تھے مثال کے طور پر اگر ایک غزل میں چھ یا آٹھ اشعار ہیں تو وہ یہ کرتے تھے کہ اس میں سے تین یا چار شعر جو حاصل غزل اشعار ہوں غزل سے چھانٹ کر شائع کردیتے تھے، جس کی وجہ سے شعرا کی بڑی تعداد شامل اشاعت ہوجایا کرتی تھی پھر یہ کہ قطار بند لوگوں کی بھیڑ میں بھی کمی واقع ہوگئی اس طور پر اگر ان کی فکر اور سوچ کا اندازہ لگایا جائے تو بلا تکلف یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ بحیثیت مدیر بہت ہی زیر ک اور ذہین انسان واقع ہوئے تھے۔ اور کمال تو یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی ذہانت اور فطانت کا استعمال کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک جگہ اس تعلق سے خود لکھتے ہیں کہ:

”ترتیب و تہذیب کے حدود میں ہر نئے کلم کار کی، حوصلہ افزائی‘ ممکن نہیں اس لیے اگر بھیجی گئی دس دس غزلوں میں سے ایک دو شعر بھی قابل اشاعت ہوں تو انھیں کھپانے کے لیے ایسا کرنا پڑا۔ اگرچہ اس سے ترتیب اور نظم میں بھی بعض دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔“ (اداریہ، آج کل، ماہ دسمبر1990)

در اصل فاروقی صاحب ماضی کی صحت مند روایات کو برتنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے بعض روایات پر انھوں نے عمل بھی کیا جیسے موصول ہوئی کتابوں پرمختصر تبصرہ کے رواج کو انھوں نے دوبارہ زندہ کیا جس کی وجہ سے یہ ہوا موصولہ کتابوں میں سے زیادہ تر پر تبصرہ ہوجاتے تھے جس سے کتابوں کا ذخیرہ رفتہ رفتہ کم ہوا۔ اور زیادہ تر ادیبوں کی کتابوں کا تعارف ہوگیا۔

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ فاروقی صاحب کے مدیر بننے کے بعد سے ہی آج کل میں باضابطہ اداریے لکھنے کا رواج عام ہوا ورنہ ان سے قبل ماہنامہ آج کل میں اداریہ لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ سابقہ مدیر ان کرتے یہ تھے کہ کبھی کسی شمارے میں کوئی اعلان نکال دیتے یا کبھی اداریے کی جگہ کوئی پیراگراف ڈال دیتے یا کچھ اور لکھ دیتے بسا اوقات کبھی کبھار تو اداریے کی جگہ سرکاری اعلان یا ہدایات یا کچھ اور لکھ دیتے بسا اوقات کبھی کبھار سمجھ لیا جاتا تھا مگر مدیر کے قلم سے کوئی فکری اور تحقیقی یا تنقیدی تحریر شائع نہیں ہوتی تھی۔ اب اس کی وجہ چاہے جو بھی رہی ہو۔ ممکن ہے اس وقت کے مدیران وقت اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یا کسی اور مصلحت کے پیش نظر اداریہ نہ لکھتے ہوں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت مدیران اداریہ کی ضرورت نہیں محسوس کرتے ہوں وہ مناسب سمجھتے ہوں کہ اداریہ سے بہتر تو یہ ہے کہ سرکار کی جانب سے جاری کوئی حکم نامہ یا کوئی پریس ریلیز شائع کردی جائے کیوں کہ یہ ایک سرکاری رسالہ ہے اور اس میں اس طرح کے حکم نامے یا پریس ریلیز کا شائع ہونا ہی بہتر ہے الا یہ کہ کوئی ذاتی تحریر شائع کی جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت اداریہ لکھنا تو آسان سی ہوگا آج ہی کی طرح مگر اس کا شائع کرنا اس وجہ سے مشکل اور دقت طلب رہا ہوگا کیوں کہ اس کے لئے براہ راست سرکار سے اجازت طلب کی جاتی ہوگی جس کی وجہ سے کوئی مدیر اس قدر زحمت گوارا کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوگا جس کی وجہ سے اداریے نہیں لکھے جاتے ہوں گے۔ ایسا بالکل نہیں رہا ہوگا کہ کوئی مدیر اس لائق نہیں ہوگا کہ وہ اداریے لکھ سکے یا یہ کہ وہ مدیر تھاٹ لیس رہا ہوا ایسا بالکل نہیں ہوگا کچھ نہ کچھ پریشانیاں اور مجبوریاں ضروررہی ہوں گی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب آج کل کی ابتدا ہوئی یعنی اس کی جب شروعات ہوئی تھی اس وقت ملک ہی کیا پورے عالم کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ناگفتہ بہ تھے، دنیا اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی تھی پھر رفتہ رفتہ حالات بدلے جس کے نتیجے میں بالخصوص ملک بھارت کے حالات بدلے اور کسی صورت سے یہ ملک آزاد ہوا۔ جب یہ ملک آزاد ہوا تب اس ملک کے اور پوری دنیا کے حالات مزید دیگر گوں تھے، خاص طور پر ملک بھارت تو عجیب و غیرب حالات سے دوچار تھا۔ اس کے بعد جب رسالہ آج کل نکلنا شروع ہوا تو یہ اس کا دورِ ثانی تھا۔ دورِ اول کے مقابلے میں دورِ ثانی بھی کچھ کم پریشان کف نہیں تھا مگر راحت کی بات یہ تھی کہ ملک کا نظام ملک کے باشندوں کے ہاتھ میں تھا اور اب تک کے نظام کا بندو بست غیروں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اپنوں کے ہاتھ میں تھا۔جو کہ بڑی راحت کی بات تھی مگر ہر معاملے میں اس بات کو ترجیح دی جاتی تھی کہ صرف اور صرف ملک کی بات کی جائے۔ ملک کی ترقی کی بات ہو، قانون کی بہتری کی بات ہو، لوگوں میں اعتماد پیدا ہو کیا جائے اور نئی فضا کی بحالی ہو جس کے لیے زیادہ تر یہ کوشش تھی کہ لا ان آڈر اور سرکاری چیزوں کو ہی اولیت دی جائے جیسے حکم نامے وغیرہ کثرت سے شائع ہوتے تھے جس کی وجہ سے عموماً مدیر کا ذہن اداریہ نویسی کی جانب نہیں تھا یا نہیں رہا ہوگا۔ جس کی وجہ سے اداریہ کا رواج نہیں پڑ سکا تھا مگر جب بھی آج کل اور محبوب الرحمن فاروقی کی بات ہوتی تب تب ان کا ذکر آئے گا کہ انھوں نے اپنی کوشش، محنت اور اختراع ذہنی سے کام لیتے ہوئے حق مدیر یت کو ادا کیا اور آج کل میں اداریہ نویسی کی بنیاد رکھی جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ جہاں آج ان کے دورِ ادارت میں آج کل کے معیار کی بات ہے کہ انھوں نے اپنی ادارت میں کیا کیا اہم کارنانمے انجام دیے تو وہ اس تعلق سے خود لکھتے ہیں کہ:

”ہر مدیر کی یہ کاوش ہوتی ہے کہ وہ پرچے کے معیار اور وقار میں اضافہ کرسکے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس معیار کو بر قرار رکھے۔ میری بھی ان شاء اللہ یہی کوشش ہوگی۔ میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں، یہ آپ کے اور اہل قلم حضرات کے تعاون پر منحصر ہے۔ ہاں یہ اطمیان ضرور دلاتا ہوں کہ ہر طرح کے تعصب اور بڑے ناموں کی مرعوبیت سے اوپر اٹھ کر نام کی جگہ اچھی تخلیقات کو ترجیح دوں گا۔“

(اداریہ آج کل، 1990)

اس پیراگراف میں کیے گئے دعوے کے مطابق انھوں نے بھرپور طریقے سے اور ایمانداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے اگر رسالے کے وقار میں کوئی اضافہ نہیں کیا تو کم از کم اس کے وقار کو گرایا بھی نہیں دوسرے کہ انھوں نے ہر طرح کے مسائل اور معاملات پر اداریے لکھ کر ایک نیا طرز ایجاد کیا اور کوشش کی کہ سلگتے ہوئے موضوعات کے ساتھ ادبی اور تخلیقی موضوعات کو بھی جگہ دی جائے او رانھوں نے ایسا ہی کیا بھی جس کی وجہ سے فن ادارت کے ساتھ رسالہ کی اہمیت اور شہرت میں بھی اضافہ ہوا جب کہ آج کل میں اداریے کی ایجاد اس کے لکھنے کے طرز کو ایجاد کرنے پر فاروقی صاحب کا اس کا پورا کریڈیٹ جانی چاہیے بلکہ یہ رسم ان کے بعد سے آج تک بدستور جاری ہے۔

جب اداریہ کے تعلق سے اتنی اہم بات کا تذکرہ ہوچکا ہے تو میں مناسب سمجھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کے اس اقدام کی توثیق میں اداریہ کے تعلق سے چند سطریں تحریر کی جائیں۔ کیوں کہ ہو نہ ہو فاروقی صاحب نے اسی غرض سے اداریہ لکھنے کا چلن عام کیا ہوگا کیوں اداریہ کسی بھی رسالے کی روح ہوتی ہے۔ اور جب کوئی مدیر اداریہ لکھتا ہے تو اس میں اس بات کا خاص خیال اٹھتا ہے کہ اپنے نظریات کے ساتھ رسالہ کے مشمولات، اس کی اہمیت اور ضرورت پر بھی روشنی ڈالتا ہے جس کو پڑھ کر قاری کے ذہن میں وہ ساری باتیں………… ہوجاتی ہیں جو اس شمارے میں ہوتی ہیں۔ کیوں کہ اداریہ اس شمارے کا نچوڑ ہوتا ہے مدیر اپنے تاثرات اور خیالات کے اظہار کے بعد اس کے مشمولات کے تعلق سے ایک بھرپور نوٹ لکھتا ہے جس کو پڑھ کر وہ ساری چیزیں معلوم ہوجاتی ہیں جو اس رسالہ میں ہوتی ہیں اس لیے اداریہ کو کسی بھی رسالے کی روح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے فاروقی صاحب نے یہی سوچ کر اداریہ لکھنے کی بنیاد رکھی ہو۔ یہ بھی سچ ہے کہ صحافت میں اداریہ کی بڑی اہمیت ہے، وہ اس وجہ سے کہ اداریہ ہی کو پڑھ کر قاری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس رسالہ کی پالیسی کیا ہے۔ اس کے نظریات کیا ہیں اور سال بھر کا اس کا کیا خفیہ پروگرام ہے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا موقف کیا ہے۔ کیوں کہ جب ہم کسی رسالہ یا اخبار کو پڑھنے سے پہلے اداریہ کو جب پڑھتے ہیں تو ہمیں اداریہ کے مزاج اور اس کے نظریات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ادارہ اور یہ رسالہ کس مزاج کا ہے اور اس کے نظریات کیا ہیں۔ کیوں کہ مدیر کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ گاہے بہ گاہے اپنے موقف کو اپنے اداریہ میں واضح کرتا رہے تاکہ اس کے اعادہ کرنے سے نئے اور پرانے قارئین بار بار اس کے موقف سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں۔ گویا یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اداریہ رسالہ کا نبض ہوتا ہے جس پر ہاتھ رکھ کر ہم اس کی کیفیات کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔

مثال کے طور پر آج کل کے ایک شمارے کی سرخی بطور نمونہ ہم پیش کرکتے ہیں جس سے ہمیں سرخی کی تبدیلی کا احساس تو کم ہوگا مگر اس کے مزاج اور اس کی کیفیت کا اندازہ ہوگا۔ آپ اس پیراگراف کو پڑھیں اور اس کی کیفیت کا اندازہ خود لگائیں۔

”نہرو جی اور کشمیر، آل انڈیا سود یشی نابُش، کشمیری عوام کا عزم بالجزم، یو این او کی سالگرہ، پریس مشاورتی کمیٹی کا اجلاس، بھارت میں ریلوے انجن بنانے کی فیکٹری، سائنسی الفاظ کا ہندی میں ترجمہ، پاکستان میں نئی سیاسی پارٹی کا قیام، جارج برناڈ شا کا انتقال، بھارت کی تجارت بر آمد میں ترقی، نہرو لیاقت پیکیٹ کی کامیابی۔ کشمیر کا سب سے بڑا دوست، مذہبی اختلافات کو ختم کرنے کا عہد، فرانسیسی بستیوں میں لوک مت۔“ (جنوری 1951، ص 56۔59،رسالہ آج کل)

در اصل یہ کوٹیشن اس اداریہ سے اخذ کیا گیا ہے جس میں عنوانات کی تبدیلی کی گئی تھی کیوں کہ رسالہ آج کل کے اداریوں کے عنوانات ہمیشہ یکساں نہیں رہے وہ تبدیل ہوتے رہے۔ کیوں کہ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ20 جنوری1943 تک اداریہ فن پرون کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ 20جنوری 1943 سے اداریہ آج کل لکھا جانے لگا۔ اور اداریہ پر کبھی تو ادارہ لکھا ہوتا تھا اور کبھی اداریہ لکھنے والے کا نام ہوتا تھا۔ مگر یہ بھی الگ تاریخ ہے کہ 20جنوری 1943 سے اداریہ صرف اور صرف ادارہ کے نام سے آنے لگا۔ پھر 15ستمبر1943 سے رفتار زمانہ کے نام سے لکھا جانے لگا حتی کہ جون 1955 تک اداریہ کی جگہ یہی عنوان چلتا رہا۔ مگر بیچ میں یہ ہوا کہ عنوانات ندارد بھی رہے مگر مئی 1956 میں یہ عنوان ملاحظات کی صورت میں دوبارہ سامنے آیا، اور پھر یہ ہوا کہ اگست 1972 سے پھر اداریہ کا نام دیا گیا۔ مگر کچھ وجوہات کی بنا پر اپریل 1976میں اداریہ ہٹا کر پھر سے ”ملاحظات“ کردیا گیا۔ مگر فاروقی صاحب کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے ایک بار پھر ستمبر1990 اداریہ لکھنا شروع کیا۔ جب آغا محمد یعقوب، دداشی اس کے مدیر تھے تب انھوں نے کچھ اداریے لکھے تھے جس کا نام انھوں نے ”آج کل کا نیا دور“ رکھا تھا جو کہ بے حد اہم ہے۔ مگر دداشی صاحب سے پہلے جو اداریے لکھے گئے وہ محض اشتہاری نوعیت کے تھے باوجود اس کے اس عہد کے اس اشتہاری نوعیت کے اداریہ کی ضرورت اور اہمیت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا مگر ہاں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس وقت کی ضرورت تھی۔