Main Menu

حماد انجم ایڈوکیٹ

                                  جمال قدوسی

جمال قدوسی کا اصلی نام جمال احمد ہے۔ ان کا تعلق سدھارتھ نگر، اترپردیش کے ایک علمی گھرانے سے ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی شعر وشاعری میں دلچسپی ہے۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔   ان کا شعری مجموعہ’’ رنگ جمال‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہےجس کا انتساب انہوں نے  مرحوم حماد انجم کے نام کیا ہے۔ وہ اپنی غزلوں، نعتوں اور نظموں کی وجہ سے کافی مقبول اور مشہور ہیں۔ مشاعروں اور دینی اجلاس، خصوصا سدھارتھ نگر اور اطراف کے اضلاع، میں برابر شریک ہوتے ہیں۔ تجارت کے پیشہ سے منسلک ہونے کی بنا پر دور دراز کے مشاعروں میں شرکت سے احتراز کرتے ہیں۔ ہندوستان کے تقریبا تمام ادبی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا ہے۔عرصہ دراز سے ہم ان کی شعری تخلیقات   سے واقف تھے اور میدان شاعری میں ان کے کمال کے معترف،مگر اپنے دوست حماد انجم ایڈوکیٹ رحمہ اللہ  کے بارے میں ان کا یہ مضمون اس بات پر شاہد ہے کہ نثر نگاری میں بھی وہ ممتاز ہیں۔ حماد انجم ایڈوکیٹ رحمہ اللہ مشرقی اترپردیش میں کافی معروف اور مشہور تھے اور  اسلامی شاعری میں ان کا  اہم   مقام ہے۔ وہ اردو زبان وادب کے ان قلیل شعراء میں سے ہیں جنہوں نے نعت گوئی جیسے اہم فن میں  افراط وتفریط کا شکار ہوئے بغیر کمال حاصل کیا ہے۔ جمال قدوسی بھی اسلامی مزاج کے شاعر ہیں اور ان دونوں کی فکر میں کافی یکسانیت ہے۔ جمال  قدوسی صاحب نے جو یہ خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کے لئے ہم شکر گذار  ہیں۔ اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ حماد انجم کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین (مدیر)

فروری (2015) کا پہلا عشرہ تھا کڑاکے کی ٹھنڈک نے کئی دنوں سے جسم ہی نہیں ذہن کو بھی منجمد کر دیا تھا البتہ آج آفتاب کئی بار شرماتے لجاتے ہولے ہولے رخ سے چادر برف ہٹاکر اہل زمیں کو دیکھ چکا تھا لیکن اس کی جھلک میں وہ جوش و گرمی نہیں تھی۔ بعد نماز عشاء بستر پر آیا اور لحاف سے ابھی بدن ڈھک بھی نہیں پایا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ ایک عزیز کا فون تھا جو میرے قصبہ سے متصل ایک گاؤں میں مدرس تھے۔ انہوں نے کہا جمال صاحب ابھی ابھی گھر سے فون آیا ہے کہ وکیل صاحب کے گھر سے رونے کی آواز آرہی ہے۔ ان کے گھر کافی لوگ جمع ہیں شاید وکیل صاحب کی طبیعت پھر خراب ہوگئی ہے یا کوئی ناگہانی بات ہو گئی ہے۔یہ سننا تھا کہ بدن میں کپکپی طاری ہو گئی کچھ دیر تک آواز ہی نہیں نکلی۔پھر اپنے آپ کو ڈھارس بندھایا اور کہا کہ آج ہی دن میں گیارہ سے تین بجے کے درمیان کئی قسطوں میں مجھ سے ہنس ہنس کر دیر تک باتیں کی ہیں آپ گھر فون لگائیے اور پتہ کیجئے کیا بات ہے۔
بہر حال دھڑکن اور الجھن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ سوچ رہا تھا کہ کس کو فون لگاؤں۔ وکیل صاحب کے نمبر پر فون لگانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ بے چینی واضطراب بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ اسی عزیز کا فون آیا کہ وکیل صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے انا للّہ وانا الیہ راجعون۔
کچھ ساعت کے لئے نبضِ حیات تھم گئی۔ گردشِ خون ٹھہر گئی۔ زبان گنگ۔آنکھیں جیسے پتھرا گئیں کہ ایک چیخ اٹھی۔ آہوں اور سسکیوں سے بھری۔ بچے چونک اٹھے اور کہا کیا ہوا ابو؟ آپ کیوں رورہے ہیں؟ میں نے کہا حماد بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
دل کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ حماد بھائی داغ مفارقت دے گئے۔ ابھی دن میں کئی بار فون آیا۔ خوب باتیں کیں اور میں نے کہا بھی بھیا مجھے آپ کی صحت کا خیال ہے۔زیادہ باتیں کرنا آپ کے لئے بہتر نہیں۔انہوں نے کہا جمال بھائی اب میری طبیعت بہت ہی بہتر ہے۔کل کورٹ میں بحث بھی کی تھی۔ کل پھر ان شائراللہ کورٹ جائیں گے۔میں نے کہا اللہ رب العزت آپ کو شفائے کلی عطا کرے۔
پھر کئی طرح کی باتیں ہوئیں لطائف بھی ہوے اور کئی تازہ نظمیں بھی سنائیں۔ پھر دو تین بجے کے درمیان فون آیا۔ سلام دعا کے بعد کہا جمال بھائی آج آپ سے بہت باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں نے پروگرام بنایا ہے کہ ان شاء اللہ دو تین دن بعد آپ کے یہاں آؤنگا اور کچھ دن تک رہوں گا۔ بیٹھے بیٹھے بہت بور ہو چکا ہوں۔ میں نے کہا خوش آمدید! دو تین دن بعد کیوں آج ہی آ جائیں۔آج نہیں دو دن بعد ضرور ان شاء اللہ آؤنگا۔میں نے کہا آج ہی سے آپ کا انتظار ہے۔ پھر ادب کے حوالے سے باتیں ہوئیں اور کہا کہ ابھی ابھی

ایک مطلع ایسے ہی ہو گیا دیکھیئے کیسا ہے ؎

اپنی اوقات بھر روشنی لے چلیں
ایک جگنو بہت ہے یہی لے چلیں
میں نے کہا واہ بہت عمدہ مطلع ہوا کسے خبر تھی کہ ان کی گفتگو اور یہ شعر آخری ھوگا۔

حماد بھائی کی رحلت کو سن کر رات بھر یہی شعر ذہن میں گونجتا رہا اگر شاعری الہام کا درجہ رکھتی ہے تو یہ شعر الہامی ہی تھا۔
وہ رات شیطان کی آنت تھی حماد بھائی کے ساتھ گزارے ایام مشاعرے ادبی نشستیں جلسے پروگرام وہ جگہیں ایک ایک کر کے سب یاد آنے لگے یاد آیا کہ پہلی ملاقات کب ہوئی تھی۔

یوں تو زمانے سے ایک دوسرے کو رسائل و جرائدمیں پڑھتے آ رہے تھے۔ایک دوسرے سے متعارف تھے۔ لیکن ملاقات نہیں ہوئی تھی وہ میرے علاقے کا ایک طرحی مشاعرہ تھا۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ اور وہیں ہم سچے دوست بن گئے۔ ان کے کلام کے سحر سے میں تو زمانے سے مسحور تھا ہی۔ان کے بے تکلف انداز گفتگو نے جو میرے دل میں ان کی علمی صلاحیت رتبہ و منزلت کا جو رعب داب خوف اور ہچکچاہٹ تھی یکلخت ختم کردی اور وہیں ہم سچے دوست بن گئے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے تعلقات و مراسم گہرے ہوتے گئے۔ کبھی ایسا دن نہیں گزرا کہ ہماری گفتگو نہ ہوئی ہو۔ اس سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ جس دن حماد بھائی پر اچانک دورہ پڑا ان کو دیکھنے کے لئے لوگ آنے لگے تو ایک عورت نے کہا کہ وکیل صاحب کو کیا ہوا۔ ابھی تو کچھ وقت پہلے ہنس ہنس کر موبائل پر کسی سے باتیں کر رہے تھے۔ حماد بھائی کے ایک خاص عزیز ممتاز نے کہا وہ اٹوا کے جمال بھائی رہے ہونگے۔ ان کی آخری گفتگو اس خاکسار ہی سے تھی۔

حماد بھائی میرے یہاں کئی بار آے لیکن میں تجارت میں مصروف ہونے کی وجہ سے ان کے بار بار اصرار کے باوجود کبھی ان کے یہاں جانے کے لیے وقت نہیں نکال سکا۔اتفاق سے ایک دن دریا باد ایک کام نکل آیا۔ میں نے حماد بھائی کو فون کیا اور کہا بھیا کل میں دریا باد آ رہا ہوں۔ سوچ رہا ہوں آپ سے ملاقات کروں۔ حماد بھائی کی خوشی ان کی آواز سے پھوٹ رہی تھی۔ انہوں نے کہا آئیے آئیے میں بھی دریا باد آپ کے ساتھ چلونگا۔کورٹ جانا کینسل۔ تقریباً دس بجے کرنجوت لہرسن بازار پہنچا۔حماد بھائی گھر کے گیٹ پر کھڑے بے چینی سے میرے منتظر تھے۔اس کے بعد جب جب بھی میں ان کے یہاں گیا ان کوگھر کے دروازے پر بے قراری سے اپنا منتظر پایا(حماد بھائی کو بچھڑے آج کئی سال ہوگئے لیکن آج بھی ایسا لگتا ہے کہ گیٹ پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں) دیکھتے ہی آگے بڑھے بہت گرم جوشی اخلاق و محبت تپاک سے ملے زبردست مہمان نوازی کی۔

حماد بھائی حسن اخلاق، سیرت وکردار کے حامل تھے۔ شرافت،نجابت، استقامت، استطاعت، معاونت، متانت، مخاصمت، مخالطت، حلم ومروت، بردباری، ایمان داری، دین داری، وفا شعاری، جاں نثاری، راست گوئی، حق بیانی، خاک ساری، خود داری، مہمان نوازی، دل نوازی، راز داری، پاس داری، سچائی، اچھائی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

خود غرضی، مفاد پرستی، دکھاوا، ریاکاری، جعل سازی، کذب بیانی، مکر وفریب، چھل کپٹ، خاص کر پیشہئ وکالت سے منسوب افراد کا ایک جزو بن گیا ہے لیکن حماد بھائی وکالت کے پیشے سے منسلک ہوتے ہوئے بھی اپنے دامن کو ان سے بچائے رکھا اور کبھی کوئی ناجائز اورغلط مقدمہ نہیں لیا۔ ہمیشہ صحیح لوگ اورسچے مقدمات کی ہی پیروی کی۔ اس وجہ سے اللہ کا خاص کرم تھا کہ کبھی وہ کوئی مقدمہ نہیں ہارے۔ آپ کا شمار سب سے اچھے نیک دیانت دار اور بہترین وکلاء میں کیا جاتاتھا۔ تدفین کے دن خود میں نے دیکھا وسنا۔ کچہری کے تقریبا تمام اسٹاف میں موجود اکثریت غیر مسلم بھائیوں کی تھی جو زار زار رو رہے تھے اور حماد بھائی کی ایمان داری اور ملنساری کی قسمیں کھا رہے تھے۔سارا اسٹاف حماد بھائی سے کتنی محبت کرتا تھاقارئین خود اندازہ کریں کہ بنا چناؤ کے حماد بھائی کو بار ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا گیا جب کہ پوری تحصیل میں اس وقت چار یا پانچ ہی مسلم وکیل تھے۔

زبان میں غضب کی شیرینی،حلاوت، ندرت، نفاست، نرمی ولطافت، نزاکت ونزہت، تمکنت، طہارت، نکہت، مشک وگلاب، خوشبوئے عود وعنبر اور لہجے میں عجب انفرادیت، جاذبیت، عطریت، ملاحت، ادبیت، علمیت، طمانیت، جامعیت، درستگی، پختگی، تازگی، سادگی، شگفتگی، ششتگی، دل آویزی اور تاثیر تھی۔ درخشاں، تاباں، ضوفشاں، گل فشاں تحریریں، یاقوت وزمرد سے جڑے اشعار، شہد وقند کے دریا میں غوطہ زن نثر حماد بھائی کا انداز سب سے نرالا اعلی اور جداگانہ تھا۔ حماد بھائی دنیائے شعر وادب کے ستارہ نہیں آفتاب تھے۔ آفتاب خاص جگہ کے لیے محدود نہیں بلکہ پورے عالم کو منور کرتا ہے ایسے ہی حماد بھائی کی ذات سے دنیائے اردو ادب کو کافی فیض ملا۔

حماد بھائی خداداد صلاحیت کے حامل تھے۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگلش زبانوں پر ان کی گرفت مضبوط اصناف سخن کے ہر پہلو پر قادر، عالم عروض، استاد القواعد، ماہر اللسان، قادر البیان تھے۔ ان کی حمد ونعت نظمیں، غزلیں، رباعیاں، ثلاثیاں، گیت، دوہے، ہائیکو، ماہیے بین ثبوت ہیں۔ آج دنیائے اردو ادب میں حماد بھائی جیسی شخصیت خال خال نظر آتی ہے۔

مشاہیر ادب کی نظروں میں حماد بھائی کا مقام ومرتبہ:

افتخار امام صدیقی مدیر شاعر لکھتے ہیں:حماد انجم حالیہ برسوں میں ادبی رسائل کے افق پر طلوع ہوئے اور پھر چاروں دشاؤں کیلیے سورج بن گئے۔ خاص طور پر رباعی کا فلک ان کا شعری اظہاریہ نئے شعراء کے لیے استعارہ بن گیا۔ حالانکہ وہ نظم کی دیگر اصناف میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ حماد انجم کو عروض سے بھی دلی لگاؤ ہے اور وہ اپنے ماہ وسال میں عروضی بھول بھلیوں میں بھی سیاحی کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے بزرگ شعراء سے بھی اقتباس بھی کرتے ہیں اور انھیں اپنا معنوی استاد تسلیم کرتے ہیں۔ نظم نگار نازش پرتاپگڈھی شاعر کے اہم لیکن فراموش کردہ شاعر فضا ابن فیضی حماد انجم کے لیے حرارت بھر تحریک وترغیب رہے ہیں۔
حماد انجم اردو غزل کا ایک کنڈکٹر گبرو شاعر ہے۔ زبان وبیان پر قدرت، عروض محل کا مکیں، ادبی مسائل کو سلجھانے کا ماہر، کسی نئی ادبی فرہنگ کی جستجو، تحریروں تحریر ندرت، دلائل وشواہد سے بھر پور، ایک ایسا ادبی سونامی جس کا ذہن اپنے میں ایک Micro chip رکھتا ہے۔ وہ جدید سیمی کندکٹر کا رول بھی ادا کرتا ہے۔ بزرگوں کا احترام، ہم عصروں سے محبت اور چھوٹوں سے شفقت کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

رسالہ شاعر کے بیشمار عاشقوں میں سے ایک اپنے راسخ العقیدہ ہونے پر فخر کرتا ہے۔اردو فارسی عربی زبانوں کے قدیم ادب سے واقفیت نے اس کے ”علم سمندر“ کو ہمہ وقت مضطرب رکھا ہے۔

مشہور شاعر ڈاکٹر رؤوف خیر فرماتے ہیں: جناب حماد انجم نے اللہ کی کبریائی اور قرآن وسنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ”خوشہئ کشت حرم“ جیسا خوب صورت تحفہ دنیائے شعر وادب کو دیا۔ وہ اسم با مسمی ہیں یعنی حمد سے حماد ہیں۔ ان کی حمد ان کے راسخ العقیدہ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔

ڈاکٹر تابش مہدی کا خیال ہے:جناب حماد انجم کی شخصیت اردو شعر وادب کے معاصر حلقوں کے لیے اب یکسر اجنبی یا گمنام نہیں رہی۔ وہ مشرقی اترپردیش کے ایک علمی ومذہبی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں۔ کم وبیش ربع صدی سے وہ مشق سخن کررہے ہیں۔ شاعری کی جملہ اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ہندو پاک کے موقر رسائل وجرائد میں ان کی نگارشات شائع ہوتی رہتی ہیں اور ان کی جہاں یا جو چیز بھی نگاہ سے گزرتی ہے دامن دل کھنچتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

محمد حسین مسکی لکھتے ہیں:حماد انجم کا نام ادبی دنیا میں محتاج تعارف نہیں۔ یہ نام آج کی نئی نسل میں سند کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ملاوٹ کا دور ہے۔ آج ز خالص نہیں رہ گیا ہے۔ شعروشاعری میں بھی ملاوٹ آگئی ہے۔ شاعروں میں متشاعروں کا بھی شمار ہونے لگا ہے۔ حماد انجم کی شاعری اوریجنل شاعری ہے۔ حماد انجم نے غزل گوئی کے بارے میں بہترین چھاپ چھوڑی ہے۔ ان کی غزلیھ شاعری اپنے قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

مشہور شاعر مدیر سہ ماہی آمد پٹنہ جناب خورشید اکبر فرماتے ہیں:حماد انجم ایک قادر الکلام شاعر اور خاصے پڑھے لکھے آدمی تھے جنہیں غزل نظم قطعات ماہیے جیسی شعری اصناف پر تو قدرت تھی ہی بالخصوص حمد ونعت گوئی میں انہیں یدطولی حاصل تھا۔اب میں ان کے جیسا دوست کہاں پاؤں گا۔ نہ جانے داعی اجل کو لبیک کہنے کی انہیں اتنی عجلت کیوں تھی۔ ان کی ناگہانی رحلت ایک عظیم ادبی نقصان ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان اور متعلقین کو صبر کی طاقت دے۔آمین ثم آمین۔ ان کی یادیں اکثر بے چین کرتی رہیں گی۔

حماد بھائی کے کچھ منتخب اشعار ملاحظہ کریں:

جو پیاسا ہو کوئی بچہ تو ماں   کا دم    نکلتا ہے
مگر جب ماں تڑپتی ہے تو پھرزمزم نکلتا ہے
کسی برگد کے نیچے بیٹھنے  سے کچھ  نہیں  ہوتا
جو غور وفکر کرتا ہے    وہی   گوتم  نکلتا  ہے
…………
سچ بولنا   منافقو       دشوار ہے   بہت
اس کے لیے تو جرات رندانہ چاہیے
پھیلادیا    جو  ہاتھ  تو    باقی    بچا   ہی    کیا
انجم اب ایسے جینے سے مرجانا چاہیے

بیعت کے        لیے گھر       سے نکل آئی ہے دنیا
ایسا   نہ ہو       پھر          کوئی    کوفہ     نکل         آئے
ہجرت سے مری خوش ہے بہت میرا پڑوسی
اے        رب مری قسمت میں مدینہ نکل آئے

حماد بھائی اردو شعر وادب کے یگانہئ روزگار، در شہوار شعر وغزل کے تاجدار تھے۔ مومنانہ فراست وبصیرت تو تھی ہی لیکن جب اس کے ساتھ فن کے لوازمات کے جلو میں وہ گیسوئے غزل نکھارتے تھے تو الفاظ ومعانی استعارے، اشارے، رموز وکنائے، تراکیب واصطلاحات، تشبیہات وتلمیحات دست بستہ زانوئے ادب تہ کرلیتے تھے۔ لفظ سحر وفسوں میں ڈھل کر دریائے شہد میں غوطہ زنی کرتے، حرف کے شبنم وگل بوسہ لیتے، حرکات وسکنات پیراہن تبسم پہن لیتے۔ صحراؤں، سنگلاح وادیوں، بنجر زمینوں میں سوری سمن نرگس وسوسن جوہی، نسترن، گل داؤدی، گل جعفری، گل رعنا، گل شبو کھلانے کے فن وہنر سے بحسن وخوبی واقف تھے۔

ان کے کلام میں گہرائی، گیرائی، تازہ کاری، آزمودہ کاری، رنگا رنگی، آراستگی، طرفگی، زندگی، ایمان، ایقان، آدمیت، انسانیت، راستی، خدا ترسی،تازگی، بلند خیالی، فقہ، فلسفہ، تلون، تمکین، تزئین، تشکل، تجمل، تجلی، تحلی،وسعت،صولت، سلاست، صباحت، فصاحت، بلاغت کیا نہیں تھی۔ جب لب کھولتے لفظیات ابر باراں کی طرح امنڈ امنڈ کر موتی لٹاتے۔ تازگی صبح طلوع آفتاب کی کرنیں پھوٹتیں۔ سماعت کو عجب طمانینت، راحت، مسرت، فرحت ملتی۔جیسے آغوش گل میں قطرہئ شبنم کی فضا عطر بیز ہوجاتی۔ اتنے ذکی وزیرک، معاملہ فہم، ہر مسئلہ چٹکیوں میں حل۔ چاہے وہ ادبی، عروضی ہو یا اور کوئی۔ جوہر شناسی میں یکتا۔ ظاہر وباطن ایک۔ ہمیشہ چہرے پر نور پھوٹتا، موج برق تبسم لبوں پر ہمہ وقت مچلتی۔ بڑوں کا احترام،ہم عصروں سے محبت، چھوٹوں پر شفقت۔ ان کے عادات واطوار میں شامل تھے۔ کسی کو خواہ عمر میں کتنا بھی چھوٹا ہو صرف نام سے نہیں پکارتے بلکہ اس کے نام کے ساتھ بابو لگاکر آواز دیتے۔ حماد انجم ایک مخلص رفیق تھے۔ ایسا سچا دوست جس پر برے سے برے وقت پر اعتماد کیا جاسکتا تھا۔ زبان کے پکے، دل کے سچے، پیکر ایفائے عہد، من کے دھنی، ہردے کے غنی، خوش طبع سلیم طبع، صفت درویشانہ، چال قلندارنہ، شیر دل، فراخ دل، عالی دماغ، آہنی جگر فرشتہ پیکر، نیک افکار، نسیمی کردار، خوش گفتار، یاروں کے یار تھے۔

اس خاکسارسے ان کا لگاؤ، انسیت ومحبت، دوستی، یاری، بستی کمشنری ہی میں نہیں دور دور تک ادبی حلقوں میں مشہور تھی اور لوگ رشک کرتے تھے۔ مقصود بستوی، محضر خلیل آبادی صاحبان شاہد ہیں۔

میری نظروں میں ہے تیرا وہ مقام
جیسے  صحرا      میں  ہو   نخلستان   کا