Main Menu

حضرت مولانا عبد السلام مبارک پوری (1289- 1342ھ-)

فواز عبدالعزيز

نام ونسب:

ابو الہدی عبد السلام بن خان محمد بن  امان اللہ  بن حسام الدین المحمدیون[1]۔  پیدائشی نام ‘‘سلامت اللہ’’ہے، اساتذہ وشیوخ  کی جانب سے دی گئی ‘‘اسانید واجازات’’ میں بھی یہی  نام اور کنیت لکھی ہوئی ملتی ہے۔ لیکن آپ نے علمی دنیا  میں قدم رکھنے کے بعد اپنا نام ‘‘عبدالسلام’’ اختیار کرلیا تھا، منشور اور غیرمنشور تحریروں میں بھی اسی نام کا ہی استعمال ملتا ہے۔

ولادت اور خاندانی پس منظر:

مبارک پورکے نہایت معروف، با اثر، دین  دار، متبع سنت اور موحد خاندان میں ۱۲۸۹ھ  میں  پیدا  ہوئے۔ آپ کے پر دادا شیخ حسام الدین حضرات سیدین شہیدین  کی مبارک تحریک سے متأثر ہوکر سرحد چلے گئے تھے، کسی مقام پر معرکہ آرائی کرتے  ہوئے۱۲۴۴ھ میں مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔  دادا  شیخ  امان اللہ بھی صحیح عقیدہ کے شیدائی، منہج  سلف کے پابند اور متبع سنت تھے۔  آپ کے والد محترم شیخ خان محمد(ولادت: ۱۲۵۷ھ/ وفات: اتوار۲۹-شوال-۱۳۲۷ھ/۱۳-اکتوبر-۱۹۰۹م) قصبہ مبارک پور کے معروف ومقبول تاجر، نہایت دین دار، علما٫ اورصالحین کے صحبت یافتہ تھے۔ مذہبی درد اور سلفیت سے شیفتگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، قرآن کریم بہ کثرت تلاوت کرتے تھے۔ وہ مبارک پور میں تیار کردہ ریشمی کپڑوں کی فروخت بھوپال اورحیدرآباد کی ریاستوں میں کرتے تھے۔  اسی طرح آپ کے نانا حکیم امان اللہ مبارک پوری (وفات: ۱۲۹۹ھ)بھی قصبہ کےمقبول ومعروف عالم دین، حاذق حکیم،سردار اور مرجع خلائق تھے، مشہورمحدث حضرت مولانا شاہ ابو اسحاق لُہراوی(متوفی: ۱۲۳۴ھ) کے فیض یافتہ تھے، بقول قاضی اطہر مبارک پوری کے کہ مبارک پور میں مسلک اہل حدیث کے فروغ واستحکام میں آپ کا کردار نمایاں رہا ہے۔[2]

تعلیم وتربیت:

ابتدائی تعلیم وتربیت مبارک پور میں محترم  حافظ عبد الرحیم مبارک پوری اور ان کے نامور فرزند حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی  شرح جامع ترمذی سے  حاصل کیا۔  اس کے بعد  ۱۳۰۷ ھ میں  غازی پور کے لئے رخت سفر باندھا، جہاں حضرت مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری کا علمی فیضان جاری تھا۔ وہاں سے ۱۳۰۹ھ میں مرکز  علوم وفنون دہلی عازم ہوئے، جہاں امام وقت، حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی� کا تدریسی غلغلہ پورے عروج پر تھا، ان سے کتب  ستہ وغیرہ  کا درس لے کر سند اجازہ حاصل کیا۔ اسی دوران دہلی میں علامہ شیخ حسین بن محسن خزرجی  کی با برکت آمد اور موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے بھی اجازت حدیث اور حدیث مسلسل بالاولیہ کی اسناد حاصل کی۔ بلوغ المرام اورحدیث مسلسل بالاولیہ کی سندیں۱۳۱۴ھ میں علامہ قاضی محمد بن عبد العزیز جعفری مچھلی شہری کی خدمت میں حاضر ہوکر حاصل فرمایا۔ دیگر اساتذہ میں حضرت مولاناحسام الدین مئوی اورمولانا عبد الحق ولایتی مدرس مدرسہ فتح پوری دہلی کا نام بھی ملتا ہے۔

حضرت میاں صاحب کا سند اجازہ:

آپ کے شیخ حضرت سید نذیر حسین میاں صاحب محدث دہلوی نے جو سند حدیث آپ کو عنایت فرمائی تھی، اصل متن کے پیش ہے:

‘‘بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على محمد سيد المرسلين وعلى آله وأصحابه أجمعين، أما بعد، فيقول العبد الضعيف طالب الحُسنيين محمد نذير حسين/عافاه الله تعالى في الدارين: أن المولوي محمد سلامة الله ولد خان محمد المبارك بوري الأعظم كهدي قد قرأ علي الصحاح الست ومشكوة المصابيح وموطأ الإمام مالك وسنن الدارقطني وشرح نخبة الفكر وتفسير الجلالين ونبذاً نبذاً من الـهداية والبيضاوي وسمع ترجمة القرآن المجيد، فله أن يشغل بإقراء هذه الكتب المذكورة وتدريسها، لأنه أهلها وأحق بها بالشروط المعتبرة عند أهل الحديث.

وإني حصلت القرأة والسماعة والإجازة عن الشيخ المكرم الأورع البارع في الآفاق محمد اسحاق المحدث الدهلوي رحمه الله تعالى، وهو حصل القرأة والسماعة والإجازة عن الشيخ الأجل مسند الوقت الشاه عبد العزيز الدهلوي رحمه الله تعالى، وهو حصل القرأة والسماعة والإجازة عن الشيخ القَرْمُ المعظم بقية السلف وحجة الخلف الشاه ولي الله الدهلوي رحمه الله تعالى.

وأوصيه بتقوى الله تعالى وإشاعة السنة بلا خوف لومة لائم، اللهم أيده بالاستقامة إلى الدين القويم، وباقي السند محرر عنده.

حرر سنة  1311 الهجرية المقدسة’’

الختم[3]

حضرت مولانا عبد السلام مبارک پوری حضرت میاں صاحب سے صحیح بخاری پڑھتے وقت ان کے بعض افادات کو اپنے صحیح بخاری کے نسخہ پر لکھ لیا تھا، جو آج بھی ان علمی مجالس کی سنہری یادگار ہے۔

دہلی ہی میں امام کبیر ومحدث جلیل شیخ حسین بن محسن خزرجی انصاری کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کتب ستہ موطأ امام مالک اور مسند دارمی کے ابتدائی حصے پڑھ کر سند اجازہ کے طالب  ہوئے اور  شیخ کی جانب سے اجازہ سے سرفراز کئے گئے۔

اسی طرح رمضان ۱۳۱۳ھ میں معروف عالم دین اورمحدث شیخ محمد بن عبد العزیز ھاشمی جعفری مچھلی شہری کی خدمت گرامی میں حاضر ہوکر بلوغ المرام قرأت کر کے سند لی، اسی طرح مسلسل بالاولیہ کی سند بھی حاصل کی، جس کا نص یہ ہے:

‘‘الحمد لله حق حمده، والصلوة والسلام على من لا نبي بعده، وعلى سائر إخوانه من الأنبياء والمرسلين وأهل بيته وعترته واتباعه وأشياعه أجمعين، وبعد: فيقول خادم الخدام تراب الأقدام لعالم علوم أحاددث النبوي ووارث موارث المصطفوي الفقير المعتصم بحبل الله الصمد الغني الباري عبده محمد المدعو بشيخ محمد بن مولانا الحاج الحافظ عبدالعزيز الهاشمي الجعفري الطياري هذه أربعون حديثا سلسلتها بالآباء في غالب سندها  ’’.

بعد ازاں مشہور حکیم عبد الولی بن حکیم عبد العلی لکھنؤی جھوائی ٹولہ لکھنؤ کی خدمت میں پہونچ کر  حکمت وطبابت اور نباضی کے قواعد اور اسرار ورموز سے واقفیت بہم پہونچائی۔

درس وتدریس:

تحصیل علم کےبعد درس وتدریس، تصنیف وتألیف اور دعوت وارشاد میں پوری زندگی  بسر کردی،  آپ  نے مختلف اوقات میں بر صغیر کی پانچ ممتازسلفی علمی درس گاہوں کو علمی سرگرمیوں کا محور بنایا۔

۱ –  مدرسہ احمدیہ، آرہ۔۲

 – مدرسہ صادق پور،پٹنہ۔

۳ – مدرسہ عالیہ،  مئو ناتھ بھنجن۔

 ۴- مدرسہ سراج العلوم، بونڈیہار،ضلع  بلرام پور۔

۵- مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ،باڑاھندؤ راؤ، دھلی۔ اس کے علاوہ آپ کومدرسہ ریاض العلوم دہلی، مدرسہ دار الحدیث سیالکوٹ اورمدرسہ دارالہدی کلکتہ سے بھی تدریس کی دعوت دی گئی تھی۔

تلامذہ :

پوری زندگی درس وتدریس ہی مین بسر ہوئی، بے شمار لوگوں نے فیض اٹھایا، جن میں سے چند نام ذکر کئے جارہے ہیں: مولانا حافظ ابو الحسن عبد العزیز مبارک پوری۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا ابو الحسن عبید اللہ مبارک پوری (صاحب زاداگان)۔حضرت مولانا نذیر احمد املوی رحمانی، حضرت مولانا حکیم محمد بشیر رحمانی مبارک پوری۔ مولانا حکیم  احمد حسان سنجر پوری۔ مولانا حکیم یسین بونڈیہار۔ مولاناحکیم عبد الرزاق صادق پوری۔ مولانا حکیم عبد الستار مظفر پوری۔ مولانا مجیب اللہ صاحب پٹنہ، وغیرہم ہیں۔

تصانیف:

۱- اولیاء اللہ اور تصوف: یہ کتاب مشہور جریدہ’’اخبار اہل حدیث‘‘امرتسر میں چھپ کر اہل علم سے داد وتحسین وصول کر چکا ہے۔اسی  مقبولیت اور افادیت کے پیش نظراُس وقت آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نے اپنی طرف سے شائع اور تقسیم کرنے کی پیش کش بھی کیا تھا۔ جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس کتاب کے بارے میں شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی اپنے ایک گرامی نامہ بنام مولاناعبیداللہ رحمانی مبارک پوری میں فرماتے ہیں: ‘‘مولانا مرحوم کا رسالہ ‘‘تصوف اور اسلام’’ ضرور شائع  فرماویں، بڑی مفید  چیز  ہے،اخبا ر اہل حدیث میں وہ شائع ہوتا رہا ہے’’۔

 اسی طرح مشہور اسکالر پروفیسر کبیر احمد جائسی سابق استاذ شعبہ اسلامک اسٹڈیز علی گڈھ مسلم یونی ورسٹی نے اپنے استاذ محترم مولانا عبد السلام ندوی کی خصوصی ہدایت پر اخبار اہل حدیث امرتسر کی فائلوں سے اس کا مطالعہ کیا تھا، اس کی طباعت کی خواہش رکھتے تھے[4]۔

2- سیرۃ البخاری: حضرت مولانا عبدالسلام مبارک پوری کی وہ مایہ ناز اور شہرہ آفاق تصنیف ہے جس نے ان کو عالم گیر شہرت دوام بخشی، امام بخاری کے احوال وکوائف اور ان کی شہرہ آفاق کتاب’’ جامع صحیح‘‘  پر اردو  زبان میں نہایت  مبسوط، غیر مسبوق اور شاہکار تصنیف ہے۔ یہ کتاب اگرچہ اردو  خواں حضرات کی تشنگی اور  ضرورت کی تکمیل کے لئے وجود میں آئی تھی، لیکن کتاب کی جامعیت اور گونا گوں خوبیوں کے پیش نظرمحترم ڈاکٹر عبد العلیم بن عبد العظیم بستوی/رحمہ اللہ کےقلم سےعربی اور محترم رفیق احمد خان مرحوم کے کاوش سےانگریزی زبان میں منتقل ہوجانے کے بعد اس کی افادیت وسیع ہوگئی ہے، ایک مخصوص خطہ سے آزاد ہوکر اسے آفاقیت حاصل ہوگئی ہے، عرب علماء، باحثین اورمحققین نے بھی کتاب کی جامعیت، اچھوتے مباحث، ندرت مضامین اورمؤلف کتاب کی دقت رسی اور عبقریت کا بے ساختہ اعتراف کیا ہے۔

3 – تاریخ المنوال: یہ کتاب پارچہ بافی کی مفصل تاریخ ہے،پہلے حصہ میں تمدن،صنعت وحرفت کی تعریف، اُمہات صنائع کی تعریف، حیاکتاور دیگر پیشوں سے وابستہ انبیاء�،صحابہ کرام، اور مختلف طبقات سے وابستہ دیگر اہل کمال واصحاب علم اور ملوک وسلاطین کا تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔آخر میں اسلام کے قانون مساوات کی تشریح کی گئی ہے۔

دوسرے حصہ میں ‘‘حیاکت’’ یعنی: بُنائی کی تاریخ، اس سے جڑےافراد اور دنیا کےمختلف خطوں میں اس پیشہ کی صور ت حال اور اس کے مستقبل کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ھندوستان کے مختلف خطوں میں بسنے والے بنُکر (انصاری) برادری کا تعلیمی،اقتصادی اور معاشرتی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی اور سرکردہ حضرات کا ایک  مختصر مگر جامع خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں شرافت ورذالت کے ہندوستانی معیار پر بھی کلام کیا ہے۔

در حقیقت آپ کی یہ کاوش بھی ’’سیرۃ البخاری‘‘ کی طرح  اردوزبان میں اپنے موضوع پرغیر مسبوق، بے نظیر اور بیش بہا اضافہ ہے۔آپ نے  کتاب میں جواعتدال، متانت، سنجیدگی اورتحمل وبرد باری کی ٹھوس روایت قائم فرمائی ہے، وہ اس موضوع پر آگے کام کرنے والوں کے لئے نہ صرف  سنگ میل ثابت ہوا،  بلکہ مشعل راہ بھی رہا۔ اس موضوع پرمتعدد  لوگوں نے آپ کے منہج اور اسلوب کی پیروی اور تتبع کی کوشش تو ضرور کیاہے، لیکن اس  توازن ، میانہ روی اور ژرف نگا ہی – جو علم تمدن اور  سماجیات  پر لکھنے سے والوں سے درکار ہوتی ہے-  کو  برقرار  رکھنے میں ان کے قلم لڑکھڑائے ضرور ہیں۔ ان تمام علمی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر اُسے تمام مذہبی، غیر مذہبی، علمی اورغیر علمی حلقوں میں پسندیدگی اور قدر کی نگاہوں سےدیکھا گیا، اس کی طلب بر قرار ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پورے برصغیر ھند میں تنہا جماعت اہل حدیث بالخصوص حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی  اور ان کے  جاں نثار تلامذہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے جہاں خالص کتاب وسنت پر مبنی اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے میں پہل کی، وہیں معاشرہ میں پھیلے ہوئے دیگر بدعات وخرافات اور برائیوں کی سرکوبی کے ساتھ ساتھ، پہلی بار بر صغیر ھند  میں نسلی امتیاز وتفریق، ذات پات، شعوبیت اور عصبیت کی شرعی حیثیت سے عوام کو روشناس کرایا، اس کے بھیانک اور سنگین نتائج کو بھی لوگوں پر واضح کیا، یہ  کتاب  بھی  ان عظیم اصلاحی   کا وشوں  کا  ایک  حصہ  ہے۔

۳ – دس سؤالات کے جواب میں: مبارک پور میں شروع سےکچھوچھہ ضلع فیض آباد کے مشہور بدعتی اشرفی خاندان کا دور دورہ رہا ہے۔ مصنف کتاب کےزمانہ میں مولوی ابو احمد علی حسین اشرفی کچھوچھوی،جو اس خاندان کے گدی نشین تھے۔ قصبہ مبارک پور میں ان کی کافی مقبولیت بلکہ طوطی بولتی تھی۔ ان کی بلا دلیل اور اناپ شناپ تقریروں پر مولانا عبدالسلام مبارک پوری نے ۱۳۳۳ھ میں ایک سؤال نامہ بنا کر بھیجاکہ ان کا ثبوت دلائل شرعیہ سے دیں، اپنی بیان کردہ باتوں سے انکار تو نہیں کیا، لیکن دلائل کے فراہمی اور فرمائش پر طیش میں آکر، اس قلمی پرچہ کو چاک کرکے جلا دیا، اور پہلےسے زیادہ بولنا شروع کردیا، ایک صاحب خیر نے  اُن سؤالوں کو چھاپ تقسیم کردیا، جس سے بدعتی حلقوں میں مزید کھلبلی اوراضطراب پیدا ہوا، مبارک پور کے بدعتیوں کی جامع مسجد راجہ شاہ مبارک میں فریقین کے درمیان مناظرہ بھی  ہوا، صورت حال اس  قدرنازک اور پیچیدہ ہوگئی تھی کہ بقول جد امجد حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری کے کہ: ‘‘مناظرہ کےلئے والد صاحب گھر کے تمام افراد سے مل ملاکر اور غسل کر کے پوری تیاری کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔  فریقین پوری تیاری کے ساتھ موجود تھے، اللہ تعالی کا کرم رہا کہ فتح آپ کو حاصل ہوئی، کوئی آپ کو گزند نہ پھونچا سکا اور صحیح سلامت گھر واپس آئے۔ یہ ہماری پیدائش سے پہلے کی بات ہے’’۔ اس  کا  یہ  فائدہ  ہوا  کہ  بدعتی  براہ  راست  کشمکش  سے  گریز  کرنے  لگے۔

مریدوں کی تسکین  خاطر کے لئےشاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی  کے حکم پر ان کے نواسے مولوی ابوالمحامد محمد اشرفی کچھوچھوی   نے ایک رسالہ بنام :

‘‘نوکِ تیر بر جگرِ بے پیر  ‘‘

۱۳۳۵ھ

 لکھا تھا جو مطبع گلشن ابراہیمی لکھنؤ سے چھپا تھا۔انہیں ہفوات کے جواب میں یہ رسالہ تحریر کرنے کی نوبت پیش آئی۔عقیدہ کے بعض بنیادی مباحث پر گفتگو ہے۔  یہ بھی غیر مطبوع  اورمخطوط ہے۔ مصنف کتاب کو اسی حق گوئی میں مقدمات اور مختلف قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، بحمد اللہ  تعالیٰ آپ کو رب العزت والجلاال کی مدد ونصرت شامل حال رہی اور آپ ان پر مادی اورمعنوی ہر طور پر غالب رہے۔

۴ – غذاء الروح للتفريق بين غذاء الروح الخبيثۃ والروح الطيب یا ‘‘غذائے روح’’:  یہ کتاب ‘‘غذائے روح’’ مصنفہ مولوی ابو اللطیف سید محمد حنیف چشتی، صابری، عابدی، مفتی نکودر،ضلع جالندہر کے جواب میں امام المناظرین شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی فرمائش پر وجود میں آئی۔ مذکورہ رسالہ جواز سماع میں تحریر کیا گیاتھا۔ مؤلف نے ان کے مستدلات  پر علمی گرفت اور محاسبہ کیا ہے۔  یہ تحریر چند یاد داشتوں پر مشتمل ناقص غیر مطبوع اور مخطوط ہے۔

اس کےعلاوہ آپ نے ‘‘اخبار اہل حدیث’’ امرتسرمیں سو سے  زائد مختلف موضوعات پرعلمی،فقہی اور تاریخی مضامین اور مقالات تحریر فرمائے ہیں، ‘‘ضیاءالسنہ’’ کلکتہ اور مجلہ ‘‘النجم’’ میں بھی آپ کے علمی اور معرکۃ الآراء مضامین چھپ کر اہل علم کی نگاہوں سے گذر چکے ہیں۔

استاذ گرامی حضرت مولانا محمد مستقیم سلفی صاحب/حفظہ اللہ  استاذ جامعہ سلفیہ بنارس اپنی گراں قدر  تصنیف  جماعت اہل حدیث کی تصنیفی خدمات میں ‘‘اثبات الاجازۃ لتکرار صلاۃ الجنازۃ’’ کو بھی آپ  کی  تصنیفات  میں شمار کیا  ہے،  اور  ان  پر  اعتماد  کرتے  ہوئے  متعدد  لوگوں  نے  اس  رسالہ  کو  ان  کی  تصنیفات  میں  شمار کیا ہے۔

اصل رسالہ کی طرف  رجوع  کرنے  پر معلوم ہوا کہ رسالہ کے  مؤلف  ابو  محمد  عبد البر  عظیم  آبادی  صاحب ہیں، اس رسالہ کے سر ورق پر یہ لکھا گیا ہے: ‘‘اس رسالہ میں تکرار صلاۃ  جنازہ  کا  ثبوت  احادیث نبویہ  وآثار صحابہ وتابعین سے لکھا گیا ہے، اور مخالفین کے اعتراضات کا جواب  دیا  گیا  ہے’’۔   پھر  نیچے یہ لکھا  گیا  ہے  کہ: ‘‘باہتمام تام مولٰنا عبد السلام  مبارک  پوری سلمہ القوی،  در  مطبع  احمدی  طبع  شد’’۔

رسالہ کے آخری صفحہ پر مولانا عبد السلام مبارک پوری  صاحب  لکھتے ہیں: ‘‘میں نے  اس رسالے کو غور سے دیکھا، ثبوت  تکرار  صلاۃ  جنازہ  میں نایاب پایا، مجدد بریلوی  کی  ہرزہ  گوئی  کا پردہ  فاش  ہوگیا  ہے، بہلا اس میں کسی ذی علم مسلمان کو شک ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد مبارک میں بعض صحابہ کی نماز جنازہ  دوبارہ پڑھی،  اور خود حضور  (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بارہا  پڑھی گئی۔

اور سنئے!ملا علی قاری حنفی نے مکہ میں  انتقال کیا  اور مصر میں مدرسہ جامع ازہر کے علما نے چار ہزار لوگوں کے ساتھ اون کی نماز جنازہ پڑھی، اور امام ابو حنیفہ کی نماز جنازہ چار بار پڑھی گئی (التعلیق الممجد، عمدۃ الرعایہ)۔ شاید بریلوی  کے  خیال میں یہ  لوگ غیر  مقلد ہوں  گے۔ عبد السلام مبارک پوری’’۔[5]

جد امجد حضرت مولانا عبدالسلام مبارک پوری عربی، فارسی اور اردو پر یکساں قدرت رکھتےتھے۔  فارسی نثر کا کوئی نمونہ ہمیں نہیں مل سکا، صرف ایک قطعہ ہی مل سکا یہ دو قطعہ جسے اپنے شیخ واستاذ سید میاں سید نذیرحسین صاحب دہلوی کی رحلت سے متأثر ہو کرکہا تھا، اور جس سے ان کی سال وفات بر آمد ہوتی ہے، دستیاب ہوئے ہیں جسےیہاں پیش کیاجارہاہے :

‘‘حیف شیخ الکل مہ چرخ ہدای      شُدسوےعقبی ز دنیاے   دنی

گفت سال رحلتش عبدالسلام      رفت اےواےمحدث دہلوی

                                                           ۱۳۲۰

تاریخ دیگر:

    کجا رفت سید نذیرحسین    دل اززخم ھجرش زند خندہ برگل

بفصلی ندا کرد عبدالسلام  سن رحلتش حیف استاذ کل

                                                             ۱۳۱۰ف’’[6]

وفات:

ایک دن آپ اپنے  بیٹے مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری اور گھر سے آئے ایک مہمان رشتہ دار کے ساتھ چاندنی چوک دہلی میں دریبہ کلاں سے ایک کتاب خرید کر گھنٹہ گھر کے پاس سے بے خیالی میں سڑک پارکر رہے تھےکہ اچانک ایک بے قابو گھوڑا گاڑی جس پر کوئی سواری نہیں تھی،سامنے سے دوڑتی ہوئی آئی اور روندتی ہوئی آگے نکل گئی، پورےبدن بالخصوص سر میں زخم کاری تھا، یہ حادثہ فاجعہ شنبہ ۱۰رجب ۱۳۴۲ھ کو شام ساڑھے چھ بجے پیش آیا، فوراً اسپتال میں داخل کئے گئے، لیکن وقت موعود آچکا تھا ۱۸/رجب/۱۳۴۲ھ مطابق ۲۴ /فروری/۱۹۲۴م کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے رات ڈیڑھ بجے روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، تدفین شیدی پورہ قبرستان میں اپنے استاذ گرامی حضرت میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی کے پہلو میں ہوئی۔

[1]  جد امجد حضرت مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اپنے سلسلہ نسب کو اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘‘سیرۃ البخاری’’ کے مقدمہ اور  دیگر یاداشتوں میںاسی طرح  تحریر فرمایا ہے۔

[2]  قاضی اطہر مبارک پوری : تذکرہ علمائے مبارک پور ص؛ ۷۶۔

[3]  یہ  سند  چھوٹے  تایا  محترم  مولانا  عبد الرحمن  رحمانی  مبارک  پوری/مدظلہ  وبارک  فی  عمرہ   کے  یہاں محفوظ  ہے۔

[4]  بہ  روایت  مولانا  رفیق  احمد سلفی رئیس مقیم علی گڈھ۔

[5]  اثبار الاجازہ لتکرار صلاۃ الجنازہ ص: ۲۸۔

[6]  ضیاء السنہ کلکتہ شمارہ نمبر :۱۱ جلد نمبر:۱-رمضان ۱۳۲۰ھ۔