Main Menu

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بزدل نہیں تھے

(پہلی قسط)

  مؤلف: سلیمان بن صالح الخراشی

                                    مترجم: ڈاکٹر صغير احمد

شعر۔۔۔ اور بزدلی

اکثر لوگوں کے نزدیک یہ دونوں ایسی واضح صفات ہیں جو حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منفرد کرتی ہیں.بہرحال شعر میں تو ان کا کوئی مدمقابل نہیں ہے.

وہ جاہلی دور کے شاعر ہیں،انہوں نےاپنے جاہلی دور میں جاہلیت کے واقعات بیان کیے،اپنی قوم کی لڑائیوں کا تذکرہ کیا، اور ان لڑائیوں پر فخر کیا.
اور اسلام کے بعد بھی وہ رسول صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کے ساتھ رہے اور شاعری کرتے رہے، وہ ان کےغزوات کو بیان کرتے، ان کی بہادری کی گیت گاتے، اور کفرواہل کفر کی مذمت کرتےیہاں تک کہ آپ اسلام کے پہلےشاعر اوراللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی عزت وناموس کی دشمنوں سےحفاظت کرنے والے شمار کئے گئے۔جہاں تک بزدلی کا تعلق ہے تو آپ رضی اللہ عنہ اس سے مشہور ہوگئے،اور اس صفت سے متصف ہوگئے۔

آپ نے کسی غزوہ میں شرکت نہیں کی-جیسا کہ کہا جاتا ہے- بلکہ آپ دور سے، محفوظ و بلند پناہ گاہوں، نیز قلعوں کے پیچھے سےغزوات كا جائزہ لیتے تھے۔
یہ صفت زمانہ قدیم وجدید کے لوگوں کے درمیان مشہور ہوگئی اور اس صفت کو بعد کے لوگوں نے اپنے اسلاف سے لیا یہاں تک کہ یہ لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گئی۔

اس طرح حسان رضی اللہ عنہ کا نام آتے ہی بات کرنے والے کے سامنے ان کی صفات میں سے دو صفتیں آجاتی ہیں:

شعراوربزدلی
جہاں تک شعر کا تعلق ہے تو آپ کی شخصیت کسی دلیل کی محتاج نہیں جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔

رہی بزدلی تو اس کو بیان کرنے والوں نے ایک عجیب وغریب اور انوکھی کہانی پر اعتماد کیا ہے جو اپنی نوعیت میں منفرد ہے جس کو بہت ہی دلچسپ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی تفصیلات کا پلاٹ اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ سامع اور قاری کوپسند آئے۔

اس قصہ کو آزاد، اور بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ کتابوں میں درج ہوسکے۔

یہ قصہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا کی شجاعت اور حسان رضی اللہ عنہ کی بزدلی کا ہے جو دونوں کے درمیان مشترک ہے۔

کہا جاتا ہے کہ غزوہ خندق میں صفیہ رضی اللہ عنہا نے ایک یہودی کو اس وقت قتل کیا جب حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس جانے سے بزدلی دکھاتے ہوئے انکار کردیا اور بقیہ عورتوں کے ساتھ قلعہ میں پناہ لی۔
اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ان سب کا علم نہ تھا کیونکہ وہ دشمنوں سے مقابلہ کر رہے تھے۔

 یہ قصہ مؤلفین کے درمیان غزوہ خندق کے اہم یادگار میں سے ہوگیا۔
اس کو ہم عصروں نے قدماء سے نقل کیا، اور اپنی تالیف کردہ کتابوں میں شامل کیا اور یہ اس قدر مشہور ہو گیا کہ درسی نصاب میں شامل ہونے لگا۔

لڑکیوں کے الصف الثانی المتوسط کے نصا ب میں شیخ احمد الغزاوی کا ایک قصیدہ (امھات الاشبال) کے نام سے شامل ہے جس میں وہ لڑکیوں کو صالح خواتین کی اقتدا پرابھاررہے ہیں [1].۔ اس قصیدہ میں مندرجہ ذیل اشعار ہیں:

وھم الشاعرالذی قال فخرا

وتمطى والحرب مهوى شباته

كتب القتل والقتال علينا

واجترار الذيول من غانياته

أين منه حنين وأم سليم

يوم أوطاس وهي من جمراته

أين منه صفية وهي تسطو

                  بيهودي فارع  وخفاته؟

چنانچہ صحابہ کے احبا ب پر لازم ہے کہ وہ اس قصہ کی حقیقت کا پتہ لگائیں، اوراس کے مصادر کی تفتیش کریں۔ تاکہ اس قصہ کی سچائی اور اس کی تفاصیل کی صداقت کے بارے میں یقینی علم حاصل کرسکیں۔

قصہ اوراس کی تشہیر

قصہ اور اس کی تشہیر:

–  قصہ کی متعدد روایات ہیں لیکن ان میں سے میں نےایک کو اختیار کیا ہے.اور وہ مغازی کے امام ابن اسحاق کی روایت ہے جس پر اکثر مصنفین نے اعتماد کیا ہے تاکہ (یہ روایت) اس قصہ کے واقعات کے بارے میں قاری کو مکمل طور سے روشناس کرائے جوکہ اس کا مرکزی موضوع ہے.

–  ابن اسحاق نے کہا (مجھ سے یحیی بن عباد بن عبد اللہ بن زبیر نے اپنے والد کےکے واسطہ سے بیان کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ صفیہ بنت عبد المطلب حسان بن ثابت کے فارع نامی قلعہ میں تھیں، وہ کہتی ہیں کہ حسان بن ثابت عورتوں اور بچوں کے ساتھ اس میں ہمارے ساتھ تھے۔

–  صفیہ نے کہا ہمارے پاس سے یہودی آدمی گذرا اور قلعہ کے ارد گرد گھومنے لگا جبکہ بنو قریظہ نے جنگ چھیڑدی تھی اور عہد و پیمان کو توڑ دیا تھا اور مسلمان اپنے دشمنوں کے محور میں تھےاس لئے اگر ہما رے پاس کوئی آ جائےتو وہ ہماری مدد کے لئے آنے پر قا در نہ تھے۔

صفیہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے حسان! یقینا یہ یہودی جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ قلعہ کے ارد گرد گھوم رہا ہے اور اللہ کی قسم میں مامون نہیں ہوں کہ وہ ہماری عزت و ناموس کے با رے میں ہمارے پیچھے جویہودی ہیں ان کو خبر دیدے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوران کےاصحاب ہمارے احوال سے باخبر نہیں ہیں تو آپ اس کے پاس جائیے اور قتل کر دیجیے۔
انہو ں نے کہا اللہ تیری مغفرت کرے اے عبدالمطلب کی بیٹی! اللہ کی قسم آپ کو معلوم ہے کہ میں یہ نہیں کرسکتا، وہ کہتی ہیں کہ جب انہو ں نے مجھ سے ایسا کہا اور میں نے ان کے پاس ایسی کوئی چیز نہ دیکھی جس سے میں کمربستہ ہوتی تو پھر میں نے ایک لاٹھی لی اور قلعہ سے اترکر اس کے پاس پہونچی پھر اس کو لاٹھی سے مار کرقتل کردیا۔

صفیہ کہتی ہیں میں اس سے فارغ ہو کر قلعہ کی طرف لوٹی تو میں نے کہا اے حسان اس کے پاس جائیے اوراسکے ہتھیار اتارلیجيے میں نے ایسا صرف اسلیے نہیں کیا کیونکہ وہ مرد ہے تو انہوں نے کہا کہ اے عبد المطلب کی بیٹی! مجھے اسکے ہتھیار اتارنے کی کوئی ضرو رت نہیں ہے[2].

قصہ کی تشہیر اور اس کے متعلق علماء کے اقوال

اس قصہ اور اس کے متعلق علماء کے اقوال کے تتبع کے دوران میں نے پایا کہ اس کا ذکر مختلف قسم کی کتابوں میں موجود ہے ۔

پہلی قسم: سیرت نبوی کی کتابیں- مغازی

 یہ قصہ غزوہ خندق یا احد کے واقعات کے ضمن میں ذکر کیا جاتا ہے، اس میں اختلاف ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔

دوسری قسم: تاریخ کی کتابیں ۔ دونوں غزووں کے واقعا ت کے ضمن میں ذکر کیا جاتا ہے ۔

تیسری قسم: سوانح حیات کی کتابیں ۔ حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں ان کی بزدلی کو بتا نے کے لئے ذکر کیا جا تا ہے یا صفیہ رضی اللہ عنہا کی سوانح حیات میں ان کی بہادری ثابت کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔
چوتھی قسم:ادب اور شعر کی کتابیں- اور ان کے تراجم ۔۔۔۔ شاعر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے وقت ذکر کیا جاتا ہے۔

پانچویں قسم:مسانید کی کتابیں- صفیہ‎رضی اللہ عنھا کے مناقب کے بیان کے دوران یا جو ان کے بیٹے زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔

حواشى

[1]ص 89 پانچواں ایڈیشن

[2]/228سيرة ابن هشام 2