Main Menu

حسان بن ثابت بزدل نہیں تھے

دوسری قسط

ڈاکٹر صغیر احمد

اب میں ان مؤلفین کا ذکر کر رہا ہوں جن کے متعلق مجھے علم ہوا کہ انہوں نے قصہ پر اعتما د کیا ہے اور اس کو اپنی تصنیفات میں درج کیا ہے اسی طرح اس قصہ کے خلاف جن متقدمین اور متاخرین نے اپنی آراء پیش کی ہیں تاکہ قاری کو یہ پتہ چل سکے کہ یہ قصہ کس قدر مشہور ہے۔

اور یقین ہو جائے کہ حسان رضی اللہ عنہ پر یہ تہمت لگانے والوں کی دلیل صرف یہی منفرد قصہ ہے۔
قاری کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے کسی خاص ترتیب کا التزام نہیں کیا ہے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔

چنانچہ میں نے ان کا ذکر بھی کیا ہے جنہوں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی بزدلی کے متعلق لکھا ہے اگرچہ انہوں نے یہ قصہ ذکر نہیں کیا ہے اور اس سلسلے میں میرا مقصد تمام کا احاطہ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں مجھے جو کچھ دستیاب ہوا ان میں سے میں نے صرف اہم کو ذکر کیا ہے۔
1– ابن ہشام کی السیرۃ النبویۃ  (2/228) : جس میں انہوں نے ابن اسحاق کی المغازی والسیر کو مرتب کیا ہے۔ اس میں سے انہوں نے کچھ کو باقی رکھا ہے اور کچھ کو حذف کیا ہے- چنانچہ ان کی یہ کتا ب ہمارے لئے ابن اسحاق کی مغازی کے بارے میں ایک روشن دان کی حیثیت رکھتی ہے جس مغازی کے متعدد اجزاء غائب ہوگئے ہیں۔

۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس سیرت کی کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے کہ وہ اس سے [بعض ایسی چیزوں کو جن کے بارے میں بات کرنا غلط ہے نیز بعض ایسے امور کو بھی جن کا ذکر بعض لوگوں کو ناپسند ہے][1] حذف کریں گے۔

مگر اس کے باوجود آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس قصہ کو باقی رکھا ہے جس کا ذکر مومنوں کو برا لگتاہے۔ انہوں نے اس قصہ پر کوئی نقد وتبصرہ  نہیں کیا ہے۔0
2- واقدی کی المغازی: اس قصہ کو دو جگہوں پر ذکر کیا ہے۔
الف۔ غزوہ احد (1۔288) کا ذکر کرتے وقت انہوں نے کہا کہ [صفیہ بنت عبد المطلب کہتی تھیں کہ ہم لوگ قلعہ کے اوپری حصہ میں  تھے، ہمارے ساتھ حسان بن ثابت تھے اور ہم فارع نامی قلعہ میں تھے تو یہودیوں کی ایک جماعت آئی اور قلعہ پر تیر اندازی کرنے لگی ۔۔۔] اور قصہ کو اسی طریقے سے ذکر کیا ہے۔
ب۔ اس کو غزوہ خندق (2۔462) کے واقعات کے ضمن میں ذکر کیا ہے [مجھ سے قریش کے ایک شیخ نے بیان کیا ہے- ابن ابی الزناد اور ابن جعفر کا کہنا ہے کہ غزوہ احد میں موجود ایک شخص نے اس قصہ کو صحیح قرار دیا ہے- کہ حسان بن ثابت بزدل آدمی تھے، وہ قلعہ میں عورتوں کے ساتھ بند تھے اور صفیہ رضی اللہ عنہا ایک جماعت کے ساتھ فارع نامی قلعہ میں تھیں اور حسان رضی اللہ عنہ بھی انہیں کے ساتھ موجود تھے تو دس یہودی آگئے۔۔۔] اور قصہ کو اسی طرح ذکر کیا ہے۔
3- ابن سعد کی الطبقات (8/41) :

قصہ کو صفیہ رضی اللہ عنہا کی سوا نح حیات میں ذکر کیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں: (ہم کو حماد بن اسا مہ نے خبر دی ہے کہ ان سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دشمن سے قتال کرنے کے لئے مدینہ سے نکلے تو اپنی ازواج مطھرات اورخواتین کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے قلعہ میں محفوظ کردیا کیونکہ وہ مدینہ کے سب سے مضبوط قلعوں میں سے ایک تھا۔ احد کے دن حسان رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے تھے چنانچہ ایک یہودی آیا اور قلعہ کی آڑ میں چھپ کر غور سے باتیں سننے لگا اور حقیقت حال سے با خبر ہونے کی کوشش کرنے لگا تو صفیہ بنت عبد المطلب نےحضرت حسان سے کہا :اس یہودی کے پاس جائیے اور اس کو قتل کر دیجیے۔۔۔)اور قصہ کو اسی طرح سے ذکر کیا۔

4– ابن حزم کی جوامع السيرة (189) :
غزوہ خند ق کے بارے میں کہا (اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ، حسان بن ثابت کے فارع نامی قلعہ میں تھیں اور حسان بن ثابت اس قلعہ میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ تھے) اور اس میں اضافہ نہیں کیا۔
5– بیہقی کی دلائل النبوۃ (3/442) :
ابن اسحاق کے حوالے سے اس مشہور قصہ کا ذکر کیا ہے اور اس پر کوئی نقد وتبصرہ  نہیں کیا۔
6– ذہبی کی تاریخ الاسلام (٥4ھ کے واقعات) :

حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں لکھا ہے (حسان میں بزدلی تھی )اورقصہ کو ذکر نہیں کیا ہے۔

7- ذہبی کی سیر أعلام النبلاء: اس کو دو جگہوں پر ذکر کیا ہے:
الف- صفیہ کی سوانح حیات میں (2/270) انہوں نے کہا: [ خندق کے دن حسان بن ثابت کے ساتھ قلعہ میں تھیں، وہ کہتی ہیں کہ حسان ہمارے ساتھ بچوں میں تھے۔۔۔] اور قصہ کو ذکر کیا ہے۔
ب- حسان کی سوانح حیات میں (2/521) جعفر بن الزبیر عن ابیہ اور ابن اسحاق کے طریق سے ذکر کیا ہے اور اس كے بعد کوئی فیصلہ کن نقد وتبصرہ نہیں کیا۔[2]۔
8- ابن کثیر کی السیرۃ النبویۃ (3/208):
اس  قصہ کو ابن اسحاق کے مشہور طریق سے ذکر کیا ہے

اس کے محقق نے فہرست میں کہا ہے [ صفیہ بنت عبد المطلب حسان بن ثابت سے زیادہ بہادر تھیں۔۔۔]باوجود اس کے کہ انہوں نے سہیلی کے  ذریعہ اس خبر کو ضعیف قرار دینے کو   حاشیہ میں ذکر کیا ہے۔
9- ابن کثیرکی البدایۃ والنھا یۃ۔ اس کو دو موقعوں پر ذکر کیا ہے:
الف۔ غزوہ خندق کے واقعات میں (4/110) قصہ کو ابن اسحاق کے مشہور طریق سے ذکر کیا ہے۔
ب۔ صفیہ رضی اللہ عنہا کی سوانح حیات میں (7/107) انہو ں کہا ہے:[انہوں نے خندق کے دن یہود کے ایک آدمی کو قتل کیا جو قلعہ کے پاس آیا تھا اوراس کا چکر لگارہا تھا۔۔۔]اور قصہ کو اختصار سے ذکر کیا ہے۔
10– ابن جریرلطبری کی تاریخ الطبری (2/96) :

اس مشہور قصہ کو غزوہ خندق کے واقعات کے ضمن میں اپنی سند سے ذکر کیا ہے جو ابن اسحاق تک پہنچتی ہے۔
11- ابن حجر العسقلانی کی الإصابۃ ۔ اس قصہ کو دو جگہوں پر ذکر کیا ہے:
الف۔ حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں (2/237) آپ رضی اللہ عنہ کے محاسن کے ذکر کے بعد ابن اسحاق کی مشہور روایت پر اعتماد کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے [مگر ان سب کے باوجود وہ بزدل تھے]۔
ب۔ صفیہ رضی اللہ عنہا کی سوانح حیا ت میں(13/18) قصہ کو متعدد طریق سے بیان کیا ہے جن کا بیان قصہ کی سندوں کے ذکر کے وقت آئے گا۔
12- ابن عبد البر کی الدرر (186):
-غزوہ خندق کے بارے میں کہا کہ [حسان بن ثابت کا صفیہ بنت عبد المطلب کے ساتھ اس دن ایک دلچسپ واقعہ ہے اور حسان مدینہ میں پیچھے رہ جانے والے افراد کے ساتھ تھے۔ اس کو ابن اسحاق اور سیرت نگاروں کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے۔

جب کہ دوسرے سیرت نگاروں نے اس کا یہ کہتے ہوئے انکار کیا ہے کہ اگر حسان کے اندر بزدلی ہوتی جس کو آپ حضرات نے بیان کیا ہے تو وہ لوگ  آپ کی ہجو کرتے جن کی آپ جاہلیت اور اسلام میں ہجو کرتے تھے اور اسی طرح ان کے بیٹے عبد الرحمن کی ہجو کی جاتی کیونکہ وہ اکثر و بیشتر شعراء عرب کی ہجو کیا کرتے تھے
13– ابن عبد البر کی الاستیعاب ۔(3/26) :

-حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں انہوں نے کہا کہ [اکثر تاریخ نویسوں اور سیرت نگاروں نے کہا ہے کہ بے شک حسان کافی بزدل تھے اور ان کی بزدلی کے متعلق زبیر کے حوالہ سے ایسی شنیع اور بیہودہ چیزوں کا ذکر کیا ہے جن کا ذکرنا میں نے ناپسند کیا کیونکہ وہ کافی ناپسندیدہ ہیں۔
جس نے اس کو بیان کیا ہے اس نے کہا ہے کہ یقینا حسان اپنی بزدلی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے۔
اوربعض اہل علم نے اس خبر سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ بات سچ ہوتی تو اس کی وجہ سے ان کی ہجو ضرورکی جاتی۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کو یہ بزدلی اس وقت سے لاحق ہوئی جب وہ صفوان بن معطل ۔سے تلوار بازی میں شکست کھا گئے]
14- مزی کی تہذیب الکمال (6/3):

حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں قصہ کو زبیر بن بکار کے طریق سے ذکر کیا ہے ،نیز ابن الکلبی کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت حسان بہادر تھے پھر ان کو کوئی بیماری لاحق ہوئی جس کی وجہ سے ان کے اندر بزدلی پیدا ہو گئی۔

اور ابن سعد کا قول بھی بیان کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ بزدل تھے۔

ابن حجرنے (تہذیب التہذیب) (2۔247) میں ابن سعد کے قول پر اکتفا کیا ہے۔
15ابن الأثیر کی الکامل (2/125):
– غزوہ خندق کے ضمن میں کہا ہے [نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب،حسان بن ثابت کے فارع نامی قلعہ میں تھیں اور حضرت حسان اس قلعہ میں عورتوں کے ساتھ تھے کیونکہ وہ بزدل تھے۔۔۔] پھر قصہ بیان کیا ہے۔

اور فہرست میں محقق نے لکھا ہے [مشہور شاعر حسان بن ثابت کی بزدلی]

(مشہور شاعر) پر آپ غور کیجیے..!
١٦– تاریخ الیعقوبی (2/48):
اس قصہ کا ذکر غزوہ احد کے ضمن میں کیا ہے نہ کہ غزوہ خندق میں اور کہا ہے: [ایک یہودی آیا اور اس قلعہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا جس میں عورتیں تھیں اور حسان بن ثابت ان کے ساتھ تھے پھر یہودی چلایا: آج جادو کا خاتمہ ہے۔

اس کے بعد وہ اوپر چڑھنے لگا۔

اس وقت صفیہ بنت عبد المطلب نے کہا: حسان! اس کی طرف جائیے

تو انہوں نے جواب دیا عبد المطلب کی بیٹی! اللہ آپ پر رحم کرے اگر میں جنگ جؤوں سے لڑنے والا ہوتا تو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال کے لیے جاتا۔

چنانچہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے تلوار لی اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک موٹا ڈنڈا لیا اور اس سے مار کر یہودی کو قتل کردیا، اس کے بعد کہا جائیے اس کے ہتھیار اتار لیجیے تو انہوں نے کہا: اس کے ہتھیارکی مجھے کوئی حاجت نہیں ہے۔

یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن صفیہ رضی اللہ عنہا کا حصہ مقرر فرمایا تھا]۔

  • میرا کہنا ہے: یہ روایت غریب ہے۔ اسی سبب سے میں نے اس کو مکمل ذکر کیا ہے شاید کہ یعقوبی نے اس میں تبدیلی کی ہے۔
    17- ابن قدامہ کی التبیین فی أنساب القرشیین (140):

    صفیہ رضی اللّٰہ عنہا کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ [بیان کیا جاتا ہے کہ وہ غزوہ احزاب کے دن عورتوں اور بچوں کے ساتھ قلعہ میں تھیں اور اس میں حسان بن ثابت بھی تھے۔۔۔] اور قصہ کو اسی طرح سے ذکر کیا ہے۔

18- ابن الجوزی کی تلقیح فھوم أھل الاثر (68):
حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں کہا کہ [ان کا شمار اسلام کے شروع زمانہ میں مسلمان ہونے والوں میں ہوتا ہے البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ بزدل تھے]۔

19- سیرۃ ابن ھشام کے شارح سھیلی کی الروض الأنف (6/324):
قصہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے: [لوگوں کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حسان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ بزدل تھے البتہ بعض علماء نے اس بات کو رد کیاہے اور اس کا انکار کیا ہے کیونکہ اس حدیث کی سند منقطع ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اگر یہ بات صحیح ہوتی تو حسان رضی اللہ عنہ کی اس کے ذریعہ ہجو کی جاتی کیونکہ وہ ضرار اور ابن الزبعری جیسے نامور شعراء کی ہجو کرتے تھے اور وہ لوگ آپ سے مقابلہ کرتے تھے اور آپ کا جواب دیتے تھے مگر کسی نے آپ کو بزدلی یا اس جیسے کسی عیب سے عار نہیں دلائی چنانچہ یہ اس بات کی  دلیل ہے کہ ابن اسحاق کی یہ حدیث ضعیف ہے۔
اور اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تب بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالبا حسان رضی اللہ عنہ کو اس دن کوئی ایسا سبب لاحق رہا ہوگا جس کی وجہ سے وہ جنگ میں حاضر نہ ہوسکے ہوں گے اور یہ سب سے بہتر تاویل ہے۔ جن لوگوں نے اس کے صحیح ہونے کا انکار کیا ہے ان میں ابوعمر رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب الدرر میں اس کی تردید کی ہے]۔
20– عبد الملک بن حسین عصامی مکی کی سمط النجوم العوالی (360)

آپ صلى الله عليه وسلم کی پھوپھیوں کے بیان میں کہا ہے: [صفیہ بنت عبد المطلب کی ماں کا نام ہالہ بنت وہب بن عبد مناف ہے اور وہ غزوہ خندق میں شریک ہوئیں، یہود کے ایک آدمی کو قتل کیا نیز ان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حصہ مقرر فرمایا، انہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم سے ایک حدیث روایت کی ہے، جس کو ان سے زبیر بن العوام نے روایت کی ہے۔۔۔] پھر پورا قصہ ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد سہیلی کی الروض الأنف میں مذکور تعلیق کا ذکر کرکے اس پر تبصرہ کیا ہے۔
اس کے بعد کہا: [میں نے سیرت کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ حسان رضی اللہ عنہ کو کوئی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس نے ان کو بزدل بنا دیا تھا۔ ابتدا میں وہ بزدل نہیں تھے اگر ایسا ہوتا تو ان کو اس سے عار دلائی جاتی جیسا کہ سہیلی نے کہا ہے۔
میں نے بعض ماہر اطباء سے اس بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ : ہاں ہمارے یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے۔]
21– صلاح الدین صفدی کی نکت الہمیان فی نکت العمیان (134) :
–        ابن اسحاق کے حوالے سے قصہ ذکر کرنے کے بعد حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں کہا ہے: [ میرا کہنا ہے: میں نے پایا ہے کہ بعض ان کی بزدلی کا انکار کرتے ہیں اور ان کے لئے یہ کہتے ہوئے عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ قریش کی ہجو کرتے تھے اور ان کے عیوب اور برائیوں کو بیان کرتے تھے اور ہم تک یہ بات نہیں پہونچی کہ ان میں سے کسی نے ان کو بزدلی یا جنگوں سے فرار ہونے کے سلسلے میں عار دلائی ہو]
پھر ابن الکلبی سے ان کا مشہور قول نقل کیا ہے [ یقینًا حسان فصیح و بلیغ اور بہادر تھے پھر ان کو کوئی بیماری لاحق ہوئی جس نے ان کو بزدل بنادیا۔ اس کے بعد وہ جنگ کی طرف دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور نہ اس میں شریک ہوتے تھے۔]
22– ابن الأثیر کی أسدالغابۃ :
اس قصہ کو دو جگہوں پر ذکر کیا ہے:
الف۔ حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں (1۔482) انہوں نے کہا ہے: [اور حسان سب سے زیادہ بزدل لوگوں میں سے تھے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو خندق کے دن قلعہ میں عورتوں کے ساتھ رکھا] پھر قصہ کو ابن اسحاق کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا ہے (اپنی بزدلی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہ ہوئے)
ب۔ صفیہ کی سوانح  حیات میں (6/173) قصہ کو ابن اسحاق اور عروہ بن زبیر کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
23- زرقانی کی شرح المواھب اللدنیۃ (2/111) :
قصہ کو ابن زبیر اور ابن اسحاق کے طریق سے ذکر کیا ہے اور اس کے بعد (الروض الأنف ) میں سہیلی کی تعلیق کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے: ]ابن اسحاق اس میں منفرد نہیں ہیں بلکہ متصل حسن سند سے ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہوا۔ اس طرح ان کی بات کو تقویت ملی۔ ابن السراج نے کہا ہے : شعراء کا اس کے ذریعہ انہیں عار نہ دلانا نبوت کی نشانیوں میں سے ہے کیونکہ وہ شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے]۔
24– کلاعی کی الإکتفاء فی مغازی رسول اللہ والثلاثۃ الخلفاء (2/171) :
غزوہ خندق کے سلسلے میں کہا ہے [صفیہ بنت عبد المطلب حسان بن ثابت کے فارع نامی قلعہ میں تھیں۔۔۔] اور مشہور قصہ کو ذکر کیا ہے۔
25– ابن شاکرکتبی کی عیون التواریخ (1/202) :
غزوہ خندق کے ضمن میں کہا ہے:[اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی صفیہ، حسان بن ثابت کے فارع نامی قلعہ میں تھیں اور حسان اس میں عورتوں کے ساتھ تھے کیونکہ وہ بزدل تھے۔۔۔) اور قصہ کو بیان کیا ہے۔

محقق کتاب استاذ حسام الدین مقدسی نے کہاہے: [اس حدیث کی سند منقطع ہے اس کو ابن اسحاق اور سیرت نگاروں کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے جبکہ دوسرے لوگوں نے اس کا انکار کیا ہے۔
٢٦– عباسی کی معاھد التنصیص علی شواھد التلخیص (1/213):
حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں کہا ہے: [اور حسان رضی اللہ بزدل تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ: صفیہ بنت عبد المطلب خندق کے دن حسان بن ثابت کے فارع نامی قلعہ میں تھیں۔۔۔] اور قصہ کو اسی طرح سے ذکر کیا ہے۔
27- شوکانی کی درالسحابۃ (537):
حضرت صفیہ کے مناقب میں کہا ہے: [زبیر بن بکار، ابن اسحاق اور ابن عساکر نے زبیر بن عوام کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ حضرت صفیہ نے بیان کیا۔۔۔] اور قصہ کو ذکر کیا ہے، نیز ابن عساکر کے طریق سے بھی ذکر کیا ہے۔
28- ابن برہان الدین الحلبی کی السیرۃ الحلبيۃ ( 2/338):

ابن زبیر کے طریق سے قصہ کو ذکر کرنے کے بعد کہا: [اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ حسان بن ثابت سب سے ‌‌‍‎‎زياده بزدل لوگوں میں سے تھے، اس بات پر یہ (قصہ)  دلالت کرتا ہے۔]
29- صالحی کی السیرۃ النبو یۃ (4/564):
قصہ کو ابن اسحاق وغیرہ کے طریق سے ذکر کیا ہے پھر بیان کیا ہے کہ اس روایت کو ابن عبد البر نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اس کے بعد کہا ہے: [غالبا حسان – جیسا کہ- الروض الانف میں ہے- اس دن کسی بیماری میں مبتلا رہے ہوں جس کے سبب وہ جنگ میں شریک نہ ہوسکے ہوں۔]
پھر ابن الکلبی کا مشہور قول ذکر کیا ہے اور اپنی تحقیق کا اختتام ابن السراج کے اس قول پر کیا ہے کہ شعراء کا اس بارے میں خاموش رہنا علامات نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہے۔
30- صفی الرحمن مبارک پوری کی الرحیق المختوم (353):
غزوہ خندق میں بنو قریظہ کے یہودیوں کی کرتوتوں کو بیان کرتے وقت قصہ کو ابن اسحاق کے طریق سے ذکر کیا ہے۔

٣١– کردی کی رفع الخفا شرح ذات الشفا۔ (2/22):
آپ صلى الله عليه وسلم کی پھوپھیوں کے بارے میں بیان کرتے وقت حضرت صفیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے [جنگ خندق میں حاضر ہوئیں اور ایک یہودی کو قتل کیا اور ان کے لئے آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک حصہ مقرر فرمایا۔] کتاب کے محقق محترم حمدی سلفی نے کسی قسم کی رائے نہیں پیش کی ہے۔
32– عامری یمنی کی الریاض المستطابۃ۔۔۔(51):
– حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں کہا ہے: [ابن سعد نے کہا کہ حسان نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے اور وہ بزدل تھے۔ ابن الکلبی نے کہا ہے: وہ فصیح وبلیغ تھے ان کو کوئی بیماری لاحق ہوئی جس کے بعد وہ بزدل ہوگئے۔]
٣٣– (سخاوی کی التحفۃ اللطیفۃ 1/464):

حسان رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں کہا ہے: [بہادر نہیں تھے اور اپنی بزدلی کی وجہ سے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک نہیں ہوئے جس کا آپ رضی اللہ عنہ خود اعتراف کرتے تھے جیسا کہ صفیہ بنت عبد المطلب اور اس یہودی کے ساتھ آپ کے اس قصہ سے واضح ہے جو اس قلعہ کے ارد گرد گھوم رہا تھا جس میں خواتین موجود تھیں۔]
34- سمہودی کی وفاء الوفا (1/302):
ا بوبکر بزار کی روایت سے اس کو نقل کیا ہے اور اس کے بعد کہا ہے: [احمد نےعبداللہ بن زبیر سے قوی سند سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: صفیہ خندق کے دن حسان بن ثابت کے قلعہ میں تھیں اور اس قلعہ کا نام فارع  تھا۔ پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ یہودی کے قتل کرنے کی بات کوبیان کیا ہے۔]
●       میرا ماننا ہے: آپ رحمۃ اللہ علیہ کو وہم ہوگیا ہے کیونکہ احمد نے قصہ کو بیان نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے اس حدیث کو بیان کیا ہے جو صحیحین میں ابن زبیر کے طریق سے ثابت ہے کہ خندق کے دن وہ اور عمر بن ابی سلمۃ عورتوں کے ساتھ حسان کے قلعہ میں تھے۔
انہوں نے قصہ سے متعلق کوئی بحث نہیں کی ہے جس کی تفصیل عنقریب آئے گی۔ اور غالبًا ان کو وہم اس وجہ سے ہوا ہے کیونکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے الفتح (6/285) میں بیان کیا ہے کہ احمد نے اس کو قوی سند سے روایت کیا ہے، حالانکہ ابن حجر نے الاصابۃ میں اس قصہ کی روایات کی تحقیق کی ہے، جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ اور اللہ بہتر جانتا ہے۔
35امام بخاری کی التاریخ الکبیر (3/29)
–        حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات میں کہا ہے: [اور عازم نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ہشام بن عروہ  سے بیان کیا کہ خندق کے دن حسان قلعہ میں تھے تو صفیہ نے کہا کہ اے ابو الولید] اس عبارت کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات ختم ہوتی ہے۔

غالبا سند میں غلطی ہوئی ہے اور متن غیر مکمل ہے جیسا کہ غور کرنے والے کے لئے ظاہر ہے۔
لیکن پڑھنے والے کو سابقہ باتوں سے علم ہوتا ہے کہ امام بخاری نے مشہور قصہ کو ذکر کرنا چاہا ہے۔
36– تفسیر الخازن (4/198) :
–        ابن اسحاق کے طریق سے سورہ احزاب کی تفسیرمیں اس کا ذکر کیا ہے۔
37– تفسیر البغوی بحاشیۃ تفسیر الخازن (4/198) :
ابن اسحاق کے طریق سے سورہ احزاب کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔
38– باقوری کی صفوۃ السیرۃ المحمدیۃ (279🙂 :
–        غزوہ خندق کے سلسلے میں صیغہ تمریض (روایت کیا جاتا ہے)سے ذکر کیا ہے۔
39– امام غزالی کی فقہ السیرۃ (305) :
غزوہ خندق کے سلسلے میں کہا ہے: [اور قریظہ نے کیا کیا؟ بلاشبہ ایک یہودی نکلا اور مسلمانوں کے قلعہ کا چکر لگانے لگا تو صفیہ بنت عبد المطلب اس کے پاس گئیں اور اس کو قتل کردیا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں] شیخ البانی نے کسی قسم کی کوئی رائے نہیں دی ہے کیونکہ امام غزالی نے قصہ کو اس کے سند کے ساتھ ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب کیا ہے بلکہ مختصرا بیان کیا ہے۔
40– احمد تاجی کی سیرۃ النبی العربی۔۔۔ (607) :
غزوہ خندق کے بیان میں اس کا ذکر بغیر سند کے کیا ہے۔
41– مستشار عبد العزیز خیر الدین کی السیرۃ العطرۃ (435) :
غزوہ خندق کے بیان میں اس کا ذکر بغیر سند کے کیا ہے۔

42– محمد ابو زہرہ کی خاتم النبیین (2/٣1١):
غزوہ خندق کے بیان میں قصہ کو اسی طرح ذکر کرنے کے بعداپنے اس قول کے ذریعہ تبصرہ کیا ہے: [اور ہم نے اس قصہ کا ذکر نہ ہی اللہ کے شیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہن کی شجاعت ثابت کرنے اورنہ ہی حسان رضی اللہ عنہ کی حالت بیان کرنے کے لئے کیا ہے بلکہ ہم نے اس کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی عدم موجودگی میں یہود ان کے گھروں تک آنے کے کس قدر حریص تھے۔
43– محمد باشمیل کی غزوۃ الأحزاب (235) :
بزار کے طریق سے[نبی صلى الله عليه وسلم کی عورتوں پر حملہ کرنے کی یہودیوں کی کوشش] کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے۔
44– احمد عساف کی خلاصۃالأثر (202) :
غزوہ خندق کے ضمن میں قصہ کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔
45– محمد فرج کی العبقریۃ العسکریۃ فی غزوات الرسول (454) :
غزوہ خندق کے ضمن میں اس کا تذکرہ بغیر سند کے کیا ہے۔
46– محمد حسین ہیکل کی حیاۃ محمد (337) :
اس کا ذکر غزوہ خندق کے ضمن میں بغیر سند کے کیا ہے۔
47– عمر رضا کحالہ کی أعلام النساء (2/342):
صفیہ کی سوانح حیات میں کہا ہے: [ غزوہ خندق میں حاضر ہوئیں۔۔۔] اور قصہ کو بیان کیا ہے
48– محمد ابراہیم اور علی بجاوی کی أیام العرب فی الإسلام (62):

دونوں نے اس کو غزوہ خندق میں بلا سند بيان کیا ہے۔
49– عبد السلام ترمانینی کی ازمنۃ التاریخ الاسلامی :
حسان کی سوانح حیات (1/2/578) میں کہا ہے: [ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں حاضر نہیں ہوئے شاید ان کو کوئی بیماری لاحق تھی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ بزدلی تھی]۔ ]
–        اور صفیہ کی سوانح حیات (1/2/988) میں کہا ہے: [ لکڑی سے ایک یہودی کو قتل کیا جو احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی جاسوسی کررہا تھا۔ ]
50– یوسف کاندھلوی کی حیاۃ الصحابۃ
قصہ کو اپنی بحث [ جہاد فی سبیل اللہ میں عورتوں کا لڑنا] (2/62) میں ابن اسحاق کے طریق سے بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ ابن مندہ، ابن ابی خیثمہ، طبرانی، بزار اور ابویعلی نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔ان کی سندوں کو قصہ کی سندوں پر بات کرتے وقت ان شاء اللہ بیان کریں گے۔
51– محمد داعوق کی ندوات الأسر (122) :
اس کو غزوہ خندق کے ضمن میں مکالمہ کے انداز میں بیان کیا ہے جو کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا مذاق اڑانے اور استہزاء پر مشتمل ہے۔

آئیے ہم سنتے ہیں:
[زینب: بہر حال میں تم کو قصہ سنا‍‍‍‍‍‍‏‏ؤں گی کیونکہ وہ مجھے یاد ہے۔
صفیہ بنت عبد المطلب تھیں ۔۔۔ (اور مشہور قصہ کو ذکر کیا۔)
مریم: (اہل خانہ کے باقی افراد کے ساتھ ہنستے ہوئے کہتی ہے) سبحان اللہ جس قدر وہ اپنی زبان میں مضبوط ہیں اسی قدر ان کا دل کمزور ہے، اللہ کی تخلیق کی عجیب وغریب شان ہے۔ ]
52– سیمح الزین کی خاتم النبیین (2/411):
قصہ میں تبدیلی کے ساتھ غزوہ خندق کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔
انہوں نے صفیہ کے بارے میں کہا : [ وہ قلعہ میں حسان بن ثابت کے ساتھ ٹھہری تھیں عورتوں، بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور بزرگوں و معذوروں کی خدمت کرتی تھیں اور بنو قریظہ کی نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتی تھیں چنانچہ ایک مرتبہ وہ کھڑکی کے پیچھے سے بنو قریظہ پر نظر رکھی ہوئی تھیں کہ اچانک انھوں نے ایک آدمی دیکھا جو قلعہ کے ارد گرد گھوم رہاتھا وہ اس کوشش میں تھا کہ کسی طرح عورتوں پر زیادتی کرنے کا موقع حاصل کرسکے چنانچہ انہوں نے حسان بن ثابت کوآواز لگائی کہ وہ اس کے پاس جائیں اور اس کو قتل کردیں تا کہ اس کے شر سے سب محفوظ ہو جائیں۔
وہ ان سے کہتی ہیں: حسان جلدی کیجئیے اس کی طرف جائیے کیونکہ ہمارے درمیان آپ کے علاوہ کوئی طاقتور آدمی نہیں ہے [3]کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مؤمنین اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہیں اور اگر ہمارے ساتھ کوئی دھوکہ کرتا ہے تو وہ اسے ہم سے ٹال نہیں سکتے ہیں۔
اللہ کی قسم مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ ہمارے راز (مردوں کی عدم موجودگی) کے بارے میں اپنی قوم کو نہ بتادے۔

اس لئے آپ اس کے پاس جائیے اور  جلدی سے اس کو ایسی مار لگائیے کہ وہ جہنم رسید ہو جائے۔
حسان بن ثابت، جنگ جو نہیں تھے بلکہ وہ شاعر تھے، وہ قتل وقتال اور جنگ کو ناپسند کرتے تھے، ان کی طبیعت میں ہتھیار اٹھانا یا خون بہانا شامل نہیں تھا چنانچہ اسی سبب سے انہوں نے قلعہ میں رہنے کو ترجیح دی اور معرکوں میں شرکت کے لئے نہیں نکلے۔
حسان رضی اللہ عنہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ حضرت صفیہ کی اس بات سے قوت حاصل کریں جو انہیں اس آدمی کی طرف قدم بڑھانے اور اس کے قتل کرنے میں مددگار ہو مگر وہ اس میں ناکام ہو جاتے ہیں اور حضرت صفیہ سے معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں : اللہ آپ کی مغفرت کرے اے عبدالمطلب کی بیٹی! اللہ کی قسم لوگ جانتے ہیں کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے۔
اس کے بعد بنت عبد المطلب کھڑکی کے پیچھے سے کمربستہ ہوکر چپکے سے نکلتی ہیں اور اپنے ہاتھ میں ایک بھاری بھرکم لکڑی لے کر قلعہ سے جلدی نیچے اترتی ہیں اور یہودی کے چکر لگانے پر نظر رکھتی ہیں یہاں تک کہ جب اس کے قریب پہنچ جاتی ہیں تو اپنی لکڑی سے اس کے سر پر زور سے مارتی ہیں اوراس کے سر کے دو ٹکڑے کر دیتی ہیں اور وہ خون میں لت پت ہوکر مرجاتا ہے۔
پھر جلدی سےحضرت صفیہ قلعہ کی طرف لوٹتی ہیں اور حسان بن ثابت کے پاس جاکرکہتی ہیں حسان! اس کے پاس جائیے اور اس کے ہتھیار اتار لیجیے اللہ کی قسم میں آپ سے ایسا کرنے کو صرف اس لئے کہہ رہی ہوں کیونکہ وہ آدمی ہے۔
تو حسان پرسکون لہجے میں کہتے ہیں: مجھے اس کے ہتھیار کی کو‌‌‌ئى حاجت نہیں ہے اےعبد المطلب کی بیٹی!

چنانچہ حضرت صفیہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں اور بالکل ملامت نہیں کرتی ہیں کیونکہ وہ ان کی کی عادت و خصلت کو جانتی ہیں]۔
ذرا ان کے قول:[کیونکہ وہ ان کی عادت و خصلت کو جانتی ہیں] پر غور کیجیے۔۔۔!
53۔ محمد زیتون کی جہادالنبی (2/158):
غزوہ خندق کے ضمن میں اس کا ذکر ایسے مکالمہ کی صورت میں کیا ہے جو مذاق اور استہزاء سے پر ہے۔ [ابن زبیر – دور سے آنے والے ایک آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں-
یہ بلا شبہ ایک یہودی ہے جو خندق کا چکر لگارہا ہے۔
صفیہ: حسا ن! مجھے اس یہودی سے ڈر ہے کہ کہیں یہ قلعہ کا راز اپنی قوم کو نہ بتلادے اور وہ ہمارے پاس آجائیں اس لئے آپ جائیے اور اسے قتل کر دیجیے۔
حسان: عبد المطلب کی بیٹی! آپ کو معلوم ہے کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے۔
صفیہ : اللہ کی قسم میں خود جاؤں گی ( ہاتھ میں ایک لکڑی لے کر نیچے اترتی ہیں اور یہودی کو قتل کرتی ہیں پھر اوپرجاتی ہیں۔)
اے حسان : جائیے اور اس کے ہتھیار اتار لیجیے میں صرف اس لئے نہیں جا رہی ہوں کیونکہ وہ مرد ہے۔
حسان:عبد المطلب کی بیٹی! مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
صفیہ : آپ کتنے بزدل ہیں !]۔
54– نجیب کیلانی کا نوراللہ ( ناول ):
غزوہ خندق کے واقعات (1۔315) کے ضمن میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کہانی کے پیرائے میں بیان کیا ہے جس کو قلعہ میں موجود  ایک  خاتون کی زبان میں ہم یہاں نقل کرتے ہیں :[ارے۔۔۔یقینا حسان تو جنگ جو اور نیزہ باز ہیں۔ وہ شعر کی نوک و پلک سے تو بخوبی واقف ہیں لیکن اگر اس قسم کا کو ئی سنگین معاملہ آپڑے تو ان کے بس کی بات نہیں۔]
55- ابن قیم کی زاد المعاد:

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے صفیہ کے بارے میں کہا ہے:[خندق میں حاضرہوئیں اور یہود کے ایک آدمی کو قتل کیا جو اس قلعہ کے ارد گرد گھوم رہا تھا جس میں وہ تھیں (5/441)۔
56– معری کی لزوم ما لا یلزم :
انہوں نے کہا (2/903)
وما نفس حسان الذی شاع جبنہ
بأسلم من نفس الکمی المخالس
(حسان کی جان جن کی بزدلی مشہور ہےہتھیار بند اوردشمن سے جنگ کرنے والے کی جان سے زیادہ محفوظ نہیں ہے )
میرا ماننا ہے کہ گویا کہ انہوں (یعنی معری) نے اس قصہ سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے اور اپنی کتاب (رسالۃ الغفران) میں حسان رضی اللہ عنہ کو اس صفت سے متصف کرنے سے رجوع کرلیا ہے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے (132) : [اور قوم میں سے ایک کہنے والا کہتا ہے کیسی تمہاری بزدلی ہے اے ابو عبد الرحمن؟ تووہ جواب دیتے ہیں کیا مجھ کو ایسا کہا جا ئے گا حالانکہ میری قوم عرب میں سب سے زیادہ بہادرہے؟۔۔۔

اور اگر بعض جگہوں پرمیں پیچھے ہٹا تو وہ بطور احتیاط تھا جیسا کہ کتاب کریم میں آیا ہے (وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ ۔۔۔) [الانفال 16]

ترجمہ:اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا (مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے۔) [الانفال 16] )ترجمہ محمد جوناگڑھی)

حواشی

[1] سیرۃ بن ہشام(1/4)

[2] قصہ سے متعلق امام ‍‍ ذہبی کی رائے عنقریپ آئے گی جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو اس قصہ کی صحت سے متعلق شک ہے، اگرچہ میرا مانناہے کہ ان کا رجحان اس قصہ کی طرف زیادہ ہے۔

ا [3] صفیہ ان کو طاقتور کیسے کہہ سکتی ہیں حالانکہ وہ ان کو بزدل جانتی تھیں ؟ اگر کہا جائے: ان کو اس وقت تک اس کا علم نہ تھا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کو وہاں عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیوں رکھا گيا تھا؟