Main Menu

اودھ کے چند ممتاز امام باڑےشہر لکھنؤ کے خصوصی پس منظر میں

  مرزا محمد حیدر

     ریسرچ اسکالر شعبۂ فارسی

   لکھنؤ یونیورسٹی ، لکھنؤ

 لکھنؤ کو نہ صرف ریاست اودھ کا دارالسلطنت ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ اسےعلم و ادب کا گہوارہ ہونے کے ساتھ ہی مسجدوں، کربلاؤں اور خصوصاً امام باڑوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے،اس میںبرہان الملک نواب سعادت علی خاں کے عہد سے جان عالم واجد علی شاہ کے زمانے یعنی ۱۸۵۶ء؁ تک بے شمارمسجد یں، امام باڑے کربلائیں ، سبیلیں تعمیر کی گئیں ۔ بیشتر امام باڑے ہنگامۂ غدر کی نذر ہوگئے ایک بڑی تعداد امتداد زمانہ سے شکست وریخت کا لقمہ بن گئی تاہم اس دورِ انحطاط میں بھی یہاں مقامات مقدسہ کی اتنی تعداد ہے کہ ان پر ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے ۔ شاہی زمانے میں اس شہر لکھنؤ میں گھر گھر اور گلی گلی میں امام باڑے موجود تھے جہاں مشہور و معروف مرثیہ گو،وشعراء ایام عزا اور دوسرے مواقع پر شہدائے کربلا اور دیگر اماموں کو خراج عقیدت پیش کرتے تھے۔تفصیل سے قطع نظر شہر نگاراںکے چند امامباڑوں کا تعارف پیش خدمت ہے۔

امام باڑہ

اُس مقدس عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں محرم میں وا قعات کربلا کا ذکر ہوتا ہے شہادت امام حسین ؑپر گریہ وبکانیزمرثیہ خوانی وغیرہ ہوتی ہے ۔ ہر امام باڑے میںدری اور چاندنی کا فرش ہوتا ہے اور مجلس کے وقت سب لوگ آکر اسی پر بیٹھتے ہیں۔ رئیسوں کے امام باڑوں میں کارچوبی شامیانے کے نیچے تخت بچھا کر اس پر تعزیہ رکھ دیا جاتا ہے ۔ اور قریب ہی میز رکھی جاتی ہے جس پر زربفت یا سیاہ یا سبز مخمل کی پوشش ہوتی ہے۔ دیوار پر قدآدم آئینہ اور چھت پر جھاڑ کنول اور فانوس لٹکائے جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہلکی سی روشنی میں بھی امام باڑہ روشن اور منور ہوجاتا ہے۔ تعزیے کے دونوں جانب مختلف رنگ کے علم دیوار کے ساتھ ایستادہ کر دیئے جاتے ہیں۔ بیش بہا طلائی پنجے اور کارچوبی پٹکے آج بھی بہت سے امام باڑوں میں موجود ہیں ۔ علم کی چھڑوں پر چاندی چڑھی ہوتی ہےاور پنجے بیش قیمت جواہرات سےا ٓراستہ ہوتے ہیں۔ تعزیہ کےسامنے چوکی پر زرتار عمامہ ، جڑاؤ دستے کی تلوار ، تیر کمان اور ڈھال رکھی ہوتی ہےاور اس طرح امام حسینؑ کی شہنشاہیت جاہ وحشم نیز شوکت وعظمت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ چاندی یا شیشہ کے شمع دانوں میں سرخ و سبزشمعیں روشن کی جاتی ہیں۔عود وعنبرنیز لوبان واگر ہمیشہ سلگتا رہتا ہے بعض امام باڑوںمیں میوہ جات کی کِشتیاں اور پھولوں کے ہار بھی رکھےجاتےہیں۔ غرباء بھی اپنی حیثیت کے مطابق امام باڑوں کی آرائش و زیبائش میں جوشِ عقیدت اور خوش سلیقگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

اب چند ان اہم امام باڑوں کا تعارف پیش خدمت ہے جن میں فارسی قطعات تاریخ دستیاب ہیں۔

(۱) امام باڑہ آغاباقرصاحب

اس وقت لکھنؤ میں سب سے قدیم امام باڑہ آغا باقر ہے ۔ اس امام باڑے کی تعمیر آغااسماعیل دلاور جنگ کی خواہش پر ان کے چچا محمد باقر نے ۱۷۷۰ء؁ عہد شجاع الدولہ میں کروایا تھا۔ آغا محمد باقر ۵۰۰۰ سواروں کے رسالہ دار تھے اس امام باڑے میں ایرانی طرز پر مجلسیں ہوتی تھیں جو ۱۸۵۶ء؁ تک ہوتی رہیں ۔ ۱۸۵۷ء؁ میں غدر کے بعد جب انگریزوں سے امام باڑہ آصفی کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کیا تو آس پاس کی تمام عمارتیں منہدم کروادیں جس میں یہ امام باڑہ بھی شہید ہوگیا۔ زمانۂ قدیم میں ہی میں اس امام باڑے کی جگہ ایک کمرہ جس کی چھت دھنیوں کی تھی تعمیر ہوا۔ اور اس کے آگے ٹین کا سائبان بھی بنایا گیا ۔ جس کو مرزا کام بخش ابن شہزادہ سلیمان شکوہ کے فرزند مرزا حیدر شکوہ نے انگریزی حکومت سے امام باڑہ کی آراضی وا گزار کرواکر بنوایا تھا۔ موصوف انتقال کے بعد اِسی میں دفن ہوئے۔ اس امام باڑے کے سلسلے میں شیخ تصدق حسین ۱نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سوداؔ نے بعمر ۷۰ سال ۱۱۹۵ھ؁ میں رحلت کی  اور امام باڑہ آغا باقر میں دفن ہوئے۔ سوداؔ کی قبر آج بھی موجود ہے۔ زمانۂ قدیم میں اس جگہ چوڑی والیوں کی بستی تھی جن کے مکان خرید کر آغا باقر نے امام باڑے کو تعمیر کروایا تھا۔ اُس وقت لکھنؤ میں امام باڑہ ابو طالب خاں کے علاوہ  کوئی اور امام باڑہ نہیں تھا ۔ قیصر التواریخ کے مطابق چھوٹا امام باڑہ امام باڑہ آغا باقر کی نقل ہے۔                          ۱ حوالہ: لکھنؤ کی کربلائیں

(۲) امام باڑہ الماس علی خاں

الماس علی خاں امۃ الزہرابہو بیگم کےساتھ جہیز میں آئے تھے اور تمام خواجہ سراؤں میں ممتاز تھے ۔ الماس علی خاں نے سرائے مالی خاں میں ایک شاندار امام باڑہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی کہاجاتا ہے کہ یہ امام باڑہ آصفی امام باڑہ سے پہلے تعمیر ہوا تھا ۔ اس امام باڑے کا نقشہ نویس کفایت اللہ تھا جس نے امام باڑہ آصفی کا نقشہ بنایا تھا۔ یہ امام باڑہ ۱۹۸۰ء؁ تک اچھی حالت میں تھا۔ اب اس میں کچھ لوگ گھر بنا کر رہ رہے ہیں ۔ الماس علی خاں نے امام باڑہ کے قریب ایک خوبصورت مسجد بھی ۱۲۰۷ھ؁ میں تعمیر کی تھی مسجد آج بھی بہت اچھی حالت میں موجود ہے۔

الماس علی خاں کا انتقال ۴؍ شعبان ۱۲۲۳ھ؁ میں ہوا اور اپنے امام باڑہ میں دفن ہوئے۔

انشاءاللہ خاں انشاء ؔ نے تاریخ وفات کہی :

رفت الماس علی خاں طرفِ مُلکِ بہشت

وائے ویلا ز چنیں حاتم دوراں افسوس

قائم اللیل و سحر خیر و انیس الفقراء

کس نبود ست چنیں قاری قرآں افسوس

شصت سال است کہ اوقاتِ شریفش آں بود

آدخ آدخ ز چنیں مردسلیماں افسوس

صبح در ماتم او چاک گریباں کردہ

گشت مکرد تراز شام غریباں افسوس

سالِ تاریخِ وفاتش زخرد جُستم گفت

حیف اے آہ ز الماس علی خاں افسوس

                                                                                                                                 ۱۲۲۳؁ھ

(۳) امام باڑہ زین العابدین خاں

میر زین العابدین خاں میاں الماس علی خاں کے ہم عصر اور رفیق خاص تھے۔ عہد آصفی میں سرمایہ دار تھے ۔ میر زین العابدین نے ۱۲۰۳ھ؁مطابق ۱۷۸۸ء؁ میں ایک عالیشان امام باڑہ تعمیر کروایا تھا۔ یہ امام باڑہ ٹھاکر گنج کے راستے پر بائیں طرف سرائے مالی خاں سے پہلے کالی چرن اسکول سے متصل ہے۔ یہ امام باڑہ ایک عرصۂ دراز تک کھنڈر کی شکل میں رہا مگر اب اس پر چھت تعمیر ہوگئی ہے اور مجلسیں بھی ہونے لگی ہیں۔

امام باڑے کی تاریخ بِنا یہ ہے :

 ’’ آستان شہید ابن شہید ‘‘                        ۱۲۰۳؁ھ

(۴) امام باڑہ میر باقر (سوداگر)

میر محمد باقر نواب محمد علی شاہ کے زمانے میں لکھنؤ کے مشہور و معروف تاجر تھے عزداری دل وجان سے کرتے تھے۔ محرم میں ہزاروں روپئے مجلس و ماتم میں صرف کرتے تھے۔ انہوں نے ۱۲۵۳؁ھ مطابق ۱۸۳۳ء؁ میں ایک عالیشان امام باڑہ محلہ چوک میں تعمیر کروایا تھا اس امام باڑہ کو جھاڑ فانوس اور قد آدم شیشوں سےا ٓراستہ کیا تھا۔ امام باڑہ میں سونے چاندی کے نایاب نقشی علم بھی نصب کئے گئے تھے ۔ امام باڑے کا بہت سا سامان تلف ہوچکا ہے آج صرف چند جھاڑ فانوس باقی ہیں یہ امام باڑہ اچھی حالت میں موجود ہے جو کہ امام باڑہ سوداگر کے نام سے مشہور ہے۔ میر ضمیرؔ اور مرزا دبیرؔ یہاں مرثیہ پڑھا کرتے تھے ۔

اس امام باڑے کی تاریخ برقؔ نے کہی

میر باقر در دریائے سخا بحر عطا

سید و باقر و عالی نسب و ذی جاہی

تعزیہ خانہ بنا کرد چو برج خورشید

روشن از روزن پر نور بہ گردو ماہی

از چہ تشبیہ دہم عقل و خرد حیرانست

دیدۂ مہر فلک مثل ندیدہ گاہی

بسکہ از برہ زیارت ز فلک می آیند

می شود بندزارواح و ملائک راہی

ہر کہ بیند بہ جہاں جن و بشر می گویند

نیست بالائے زمیںمثل چناں در گاہی

گفت تاریخ بنا روح امیں فکرم

قبلۂ اہل جہاں مسند شاہنشاہی

                                ۱۲۵۳؁ھ

(۵) امام باڑہ قصر العزا

اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ سب سے زیادہ پر وقار اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ عزاداریٔ امام حسینؑ ان کی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین تھا۔ اور وہ ہمیشہ عزاداری کے مقدس فرض کو اپنے لئے ہمیشہ وسیلۂ نجات سمجھتے تھے۔ ان کے عہد میں لکھنؤ ہندوستان میں عزاداری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ بادشاہ محرم میں لاکھوں روپئے خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے ۱۲۷۰؁ھ میں ’قصر العزا ‘ کے نام سے قیصر باغ میں ایک عظیم الشان امام باڑہ تعمیر کروایا۔ یہ امام باڑہ دیگر امام باڑوں سے فنِ تعمیر میں مختلف تھا۔ اس امام باڑے کی عمارت آج بھی لکھنؤ کے قیصر باغ میں بارہ دری قیصر باغ کے نام سے مشہور ہے۔ اب اس میں مجلس نہ ہوکر شادی کی تقاریب ہوتی ہیں۔

یہ امام باڑہ غدر کے بعد انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا ایک عرصے تک یہ امام باڑہ ’برٹش انڈیا ایسوسی ایشن ‘ کے قبضے میں رہا مگر اب یہ امام باڑہ ’ انجمن تعلقداران اودھ ‘ کے قبضہ میں ہے جو اسے مختلف پروگراموں میں کرائے پر دیتی ہے۔ نواب واجد علی شاہ کے عہد میں یہ امام باڑہ سونے چاندی کے علموں کے علاوہ بیش قیمتی جھاڑ فانوس سے خوب آراستہ تھا۔ ۱۸۵۷؁ء دوران غدر میں سب کچھ لٹ گیا۔ افسوس کی جا ہے کہ لکھنؤ کے بہت سے لوگ اس شاہی امام باڑے سے آج تک بے خبر ہیں۔

                                                مہدی علی خاں قبولؔ نے اس مقدس امام باڑے کی تاریخ بنا کہی   ؎

بہ قیصر باغ در قصر العزا از نیت خالص

شروع امسال کردہ شاہ ہندوستاں عزاداری

بسر در چیدن اسباب ماتم کردہ روز و شب

بہ بین انیست اے دل با جاں عزاداری

نیامد در نظر مانند ایں سنگین عزا خانہ

ندیدہ ہیچ کس با چشم خود ز ینساں عزداری

چو رونق داد از دلِ شاہ بہر ایں عزا خانہ

شدہ مقبول شاہنشاہ مظلومان عزاداری

 دعائیہ قبولؔ ایں مصرع تاریخ ہاتف گفت

کند تایک صد وسی سال ایں سلطاں عزاداری

                                                                                                                                                ۱۲۷۰؁ھ مطابق ۱۸۵۳ء؁

(۸) امام باڑہ محمدعلی شاہ (چھوٹا امام باڑہ)

محمد علی شاہ بہت ہی نیک دل اور پابند شریعت نواب تھے۔ انہوں نے تخت نشین ہوتے ہی لکھنؤ میں ایک یادگار زمانہ امام باڑہ ۱۲۵۳؁ھ مطابق ۱۸۳۷ء؁ میں تعمیر کروایا۔ یہ امام باڑہ حسین آباد کے علاقے میںواقع ہے اس امام باڑہ کو چھوٹا امام باڑہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس امام باڑے کی تعمیر میں اس وقت بیس لاکھ روپئے صرف ہوئے بادشاہ نے اسے جھاڑ فانوس اور سونے چاندی کے ساز و سامان سے خوب آراستہ کیا۔

دورِ حاضر میں امام باڑہ شاہ نجف کے علاوہ یہی امام باڑہ ایسا بچا ہے جس کی شان و شوکت اور آرائش دورِ شاہی کی یاد تازہ کرتی ہے۔

اور آج بھی محرم میں یہاں پوری شان و شوکت سے مجلسیں برپا ہوتی ہیں حصہ تقسیم کیا جاتا ہے اور اعلیٰ پیمانے پر خراغاں بھی ہوتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو بر س سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی یہ امام باڑہ لکھنؤ کی بہترین فنِ تعمیر کا مظاہرہ کررہا ہے۔

اس امام باڑے کی پیشانی پر یہ تاریخ کندہ ہے :

 شہ زمانہ محمد علی بنا فرمود

امام باڑہ پئی ذکر و مجلس حسنینؑ

زروی آہ دلم خواند نوحۂ تاریخ

بنای تعزیۂ و ماتم امام حسینؑ

                                                                                                                                                ۱۲۵۳؁ھ

حواشی:

۱۔تواریخ نادر العصر،مولفہ منشی نول کشور،ناشر خدابخش لائبریری

۲۔وزیر نامہ،امیر علی خان مطبع نظامی کانپور ،۱۸۷۶

۳۔قیصر التواریخ، سید کمال الدین اکبر ،مطبع منشی نول کشور،لکھنؤ

۴۔تاریخ اودھ،نجم الغنی،مطبع منشی نول کشور،لکھنؤ

۵۔ اودھ میں اردو مرثیہ کاارتقاء،ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری

۶۔لکھنؤ کی کربلائیں،شیخ تصدق حسین

۷۔تاریخ لکھنؤ،آغامہدی،ناشر جمعۃ خدام عزا ،کراچی

MIRZA MOHAMMAD HAIDER

RESEARCH SCHOLAR

DEPARTMENT OF PERSIAN

UNIVERSITY OF LUCKNOW

MOBILE – 8887526021

E-MAIL: 786MOHDHAIDER@GMAIL.COM