فخرالاسلام
الطاف احمد اعظمی کا تعلق اتر پر دیش کے معروف و مشہور ضلع اعظم گڈھ سے ہے۔ آپ کی ولادت بتا ریخ ۲ جولائی ۱۹۴۲ میں اعظم گڈھ کے ایک گا ؤں بھا ٹن پا را میں ہوئی۔ ابتدا ئی اور ثانوی تعلیم مشہور دینی درسگاہ مدرسۃالاصلاح سے ہو ئی ۔ اس کے بعد آپ نے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے بی یو ایم ایس کیا ،اور دہلی کی جا معہ ہمدرد یو نیور سٹی سے پی ایچ ڈی کی سند سے مستفیض ہو ئے ۔بطور یو نانی ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی نے یو نا نی طب میں اپنی بیش بہا خدمات انجام دیں ۔آپ نے اردو زبان میں ’’معا لجات امراض رأس ‘‘نامی اپنی پہلی کتاب لکھی جو ۱۹۸۶میں منصہ شہود پر آئی ۔یہ کتاب طبی حلقوں کو اپنی طرف زیادہ متوجہ نہ کر سکی۔اس کے بعد آپ نے یو نانی طب کے بنیا دی نظریات پر کام کر نا شروع کیا اور ’’مبا دیات طب پر ایک تحقیقی نظر‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔یہ کتاب اتنی مقبول ہو ئی کہ اب تک اس کی متعدد اشا عتیں آچکی ہیں ۔
یو نانی طب کے علا وہ مذہب اسلام کی تعلیمات بھی آپ کی توجہ کا مرکز رہی ہیں ۔الطاف احمد اعظمی نے اسلام میں مروجہ چار فقہی دبستا نوں کا بہت گہرا ئی سے مطالعہ کیا ہے اور مسلمانوں کے یہاں ایسی بہت سی مروجہ رسموں کا قرآن اور حدیث کی رو شنی میں رد کیا ہے جو کہ ان ائمہ کی اندھی تقلید کی وجہ سے شریعت کا حصہ بن گئی تھیں۔اس کے لئے آپ کو عصر ِ حاضر کے علما ء کی شدید تنقید کا سا منا بھی کر نا پڑا۔
اگر الطاف احمد اعظمی کی شاعری کے حوالے سے بات کی جا ئے تو اردو شا عری کے میدان میں آپ کی خدمات لا ئقِ پذیرائی ہیں ۔الطاف احمد اعظمی کے دو مجمو عہ ہاے کلام ’فغانِ نیم شب‘اور ’چراغِ شب گزیدہ‘اردو کی سنجیدہ شعری روایت کا اہم حصہ ہیں ۔غزل اور نظم کے علا وہ نثری شا عری بھی مجموعے کا حصہ ہیں جس میں ہر نظم اور ہر غزل کی اپنی اپنی انفرا دی حیثیت ہے ۔اگر ان مجموعوں کا بحیثیت مجمو عی جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں کو ئی تا ٔمل نہیں ہوگا کہ دو نوں شعری مجمو عے آپ کے گہرے فکر و غور کا نتیجہ ہیں جو انتہا ئی غرق ریزی سے لکھے گئے ہیں۔ڈاکٹر موصوف کے اشعار میں تشبیہ و استعارات اور قرآنی تلمیحات کے ساتھ ساتھ احادیث کو شعری قالب میں ڈھالنے یں مہارت حاصل ہے۔ان مجموعوں کے مطا لعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی زندگی کے تجربات اور احساسات کو اشعار کی شکل میں قلم بند کر نے کی کو شش کی ہے ،جیسا کہ سید غلام سمنانی صاحب ’فغانِ نیم شب‘پر تبصرہ کرتے ہو ہو ئے لکھتے ہیں:
’’یہ’ فغان نیم شب ‘وہ فغان ہے جو متاثر کر تی ہے ،شا عر نے اپنی شخصیت کو شاعری سے الگ نہیں رکھا ہے ،شخصیت و شا عری کے درمیان کو ئی ثنویت نہیں ہے، شاعر جو ہے وہی اس کی شا عری ہے ۔اس نے اپنے شعر میں اپنے کردار کو سمو نے کی کو شش کی ہے ۔‘‘۱؎
خودالطاف احمد اعظمی کا اپنی شا عری کے متعلق یہ خیال ہے کہ:
مجھے نہیں معلوم کہ میری شاعری کا شمار کس زمرے میں ہو گا اس کا فیصلہ تو اصحاب شعرو ادب ہی کر یں گے ۔لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ نہ تو اس میں خود ستا ئی ہے اور نہ ہی کو ئی مبا لغہ کہ میری شا عری میرے اپنے محسوسات اور تجربات کی صورت گری ہے۔اس میں کو ئی تصنع ہے نہ آورد ۔ توقع ہے قارئین بھی پڑھ کر ایسا ہی محسوس کر یں گے۔‘‘۲؎
الطاف احمد اعظمی کی شاعری میں انسان کی زندگی میں پیش آنے وا لے مسائل ،زندگی کے اتارچڑھا ؤ،دوستی دشمنی،انسانی جذبات اور انسانوں کے گر تے ہو ئے اخلاق غرض کہ انسانی فطرت کے ہر اچھے اور برے پہلو پر روشنی ڈالنے کی کو شش کی گئی ہے ۔ بظاہر آپ کی شا عری آپ بیتی معلوم ہو تی ہے لیکن قاری کو مطا لعہ سے اندازہ ہو جا ئے گا کہ یہ شا عری شا عر کی آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی ہے اور جب قاری ان اشعار میں غو طہ زن ہو تا ہے تو اسے یوں محسوس ہو تا ہے کہ گو یا شاعر اس کے دل کی بات کر رہا ہے ۔الطاف احمد اعظمی کی شا عری میں روز مرہ بولے جانے وا لے الفاظ کا ستعمال بہت کم ملتا ہے اردو میں مروجہ فارسی زبان کے الفاظ کا استعمال ان کی شا عری میں کثرت سے ملتا ہے۔مثال کے طورپر ان کے مجموعوں کے نام ’چراغ ِ شب گزیدہ‘اور’ فغانِ نیم شب‘جس طرح اردو اور فا رسی زبان کے الفاظ سے مر کب ہیں اسی طرح پو رے مجمو عۂ کلام میں اردو اور فا رسی زبان کا التزام پا یا جا تا ہے مثلاَ:
مزاج لا لہ و گل کا سمجھ لیں ہم پہلے
نگا ہ بر ق ستم گر سے بھی ملا ئیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شب ِ تا ریک ،یہ بر قِ تپاں،یہ مو جِ تند
ہا ئے وہ کشتی جس کا نا خدا کو ئی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگ و آہن کا زما نہ ہے ،مگر دل تو بھی
گو ہر ِ ا فشا نی دامانِ صبا ما نگے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے با دِ صبا دیکھ کے آہستہ ذرا چل
میں بر گِ خزاں دیدہ ہوں،مفلس کا دیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دور جس میں الطاف احمد اعظمی پیدا ہو ئے بے راہ روی کا دور ہے ۔لو گوں کی آپس میں ایک دو سرے سے دوری ،سیاسی اور مذہبی روایات کی وجہ سے آپس میں متنفر ہونا ،مغربی تعلیم کی حصول کی سعی او ذاتی ترقی کی تگ و دو میں انسان کا انہماک او گھر کے تمام رشتے جوکچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئے جو ہزا ر ہا برس سے قا ئم چلے آ رہے تھے ۔ یہ سب کچھ انسان کی ذہنی دنیا میں تلاطم پیدا کر نے کے لئے کا فی ہے ۔آپ دیکھیں اگر انسان اپنے ما ضی کے تمام رشتوں سے بے رغبت ہو جا تا ہے اور حال سے بھی کو ئی پا ئیدار رشتہ استوار نہیں رکھتا تو ایک عجیب سے خلفشار میں مبتلا ہو کر لڑکھڑا تا پھر تا ہے ۔عصر حاضر کے انہی مسائل اور مشکلات کو شا عری کے تنا ظر سے دیکھتے ہو ئے ہم الطاف احمد اعظمی کی نظم ’عہد نو ‘کا مختصرجا ئزہ لینے کی کو شش کریں گے:
یہ عہد ِ نو ہے انو کھا ہے اس کا طرزِ نوا
خیا ل و فکر نئے ، دل کا مدعا بھی نیا
بڑا عجیب ہے یہ علم و آگہی کا خروش
چراغِ عقل فروزاں ہے،دل کی شمع خموش
کسی کے د ل میں غم ِ دیگراں نہیں ملتا
کہیں خلوص کا نام و نشاں نہیں ملتا
حسد کی آگ میں جلتے ہیں سب کے قلب و جاں
مفا دِ ذات کا قیدی ہے ، پیر ہو کہ جواں
کسی کے حالِ زبوں کا اسے پتہ ہی نہیں
حصارِ ذات سے با ہر وہ دیکھتا ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ با لا نظم میں الطاف احمد اعظمی نے اس دور کی ایک مجمو عی فضا محض چند سطور میں عیاں کر دی ہے۔اس نظم کے ہر شعر کی اپنی الگ ہی نو عیت ہے اور ہر شعر اپنے آپ میں ایک دا ستان ہے ۔ان اشعار کو اپنی با معنی تشہیر کے لئے با ہر سے کسی نئے زا ویے کی ضرو رت ہی نہیں ۔الطاف احمد اعظمی کی شا عری بڑی پر لطف ہے اور ان کے یہاں حسن ِ اظہا ر کا ایک الگ ہی معجزا تی کر شمہ دکھا ئی دیتا ہے۔ان کی شا عری الفاظ پر صنا عا نہ قدرت کا ایک حسین نمونہ ہے ،وہ حسن بیان ، سلاست اور روانی سے اشعار کے معنی میں قوت ووضاحت پیدا کر دیتے ہیں ۔ بقول (پرو فیسر) قاضی عبدالرحمن ہا شمی:
’’الطاف احمد اعظمی جو بیشک زندگی کی کلفتوں اور ہزیمتوں سے یکثر نڈھا ل ہیں ،بر ملا اظہا ر کی رغبتوں کے سبب فنی آداب اور رسوم کی ضا بطہ شکنی کے مر تکب ہو نے کے بجائے اپنی حسرتوں ،خوابوں اور تمنا ؤں کوغزل کی مخصوص نفسیات میں ہی پیش کر تے ہیں ۔ وہ اسا لیب ِغزل کے رمز شنا س ہو نے کے سبب اس روا یت سے حسب ِ ضرورت کسبِ فیض بھی کر تے ہیں ،تا ہم اپنی منزل اور سمت ِ سفر کا تعین خود کر نا پسندکرتے ہیں۔‘‘۳؎
الطاف احمد اعظمی کی غزلوں کے بیشترحصے میں انسان کے رنج و الم کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔غمِ زندگی انسان کے ساتھ لگارہتا ہے ،جب تک اس انسان کی سانس چل رہی ہے اس کا کسی نہ کسی شکل میں دردو غم سے واسطہ پڑنا ایک فطری بات ہے شاز ہی کو ئی انسان ہو جس کی جھولی میں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔دولتِ درد یہاں انسان کا سب سے بڑا سر ما یہ ہے اور اسی سر ما ئے کے ذریعے کا ئنات کی قدروں کا احترام اور جذبات کی تہذیب و تسکین ممکن ہے، اسی کے زریعے شخصیت نکھر تی ہے ۔آ ج کے صارفیت زدہ ماحول عالم کا ری نے اخلاقی قدروں اور اجتما عی تصورات کو سب سے زیا دہ متا ثر کیا ہے۔ با طل اور ظلمت پسندطاقتیں انسانیت کو قسطوں میں ایذا پہنچا رہی ہیں ۔چونکہ شاعر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہو تاہے اس لئے اس کا بھی اس معا شرے سے متا ثر ہو نا ایک لا زمی جزہے ۔ الطاف احمد اعظمی کی شاعری میں ایک درد تو ضرور ہے لیکن وہ اورشا عروں کی طرح اپنی آواز بلند نہیں کر تے اور چیخ و پکار سے بھی گریز کر تے ہیں ۔وہ اپنی درد بھری داستان کو نرم، دھیمی اور شیریں آواز میں بیان کر تے ہیں۔درد کی شدت میں بھی وہ اپنی آواز پر قا بو رکھتے ہیں اور اسے بلند آہنگ نہیں ہو نے دیتے ۔یہی خصوصیت ان کی غزلوں کو ایک امتیا زی حیثیت عطا کر تی ہے ،وہ اپنے جذبات و خیالات کی مصوری بڑی چابک دستی سے کرتے ہیں۔شا عر جب حالات کے جبر سے دل بر داشتہ ہو جا تا ہے تو اس کے بیان میں ایک عجیب سی کڑواہٹ اور تلخی پیدا ہو جا تی ہے خواہ ہو وہ سماج کا ناسور ہو یا اپنوں کی بے اعتنا ئی کا زہر،زمانے کی کج روی ہو یا اقدار کی شکست و ریخت کا معاملہ ،دل کا اضطراب ہو یا ذہنی کشمکش ہر حال میں شاعر کڑھتا نظر آتا ہے اور پھر اپنے احساسات کو اشعار کے قالب میں یوں ڈھا لتا نظر آتا ہے:
طو فا نِ درد دل میں چھپا ئے ہو ئے ہیں ہم
مت چھیڑ اے صبا کی ستا ئے ہو ئے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کو ئی درد کا مارا جواب د ے گا کبھی
صدا بصحرا ابھی ہے صدا لگا ئیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غم گسا رانِ وفا کی بے وفا ئی دیکھ کر
ہم اٹھے اور پتھروں سے سر کو ٹکرا نے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھبرا گئے ہیں وحشتِ دورِ خزاں سے ہم
فصلِ بہار ڈھونڈ کے لا ئیں کہاں سے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان بستیوں کو پاس سے دیکھا تو رو دئے
جن بستیوں کو آگ لگانے چلے تھے ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ْ۔
مندرجہ بالاچند اشعارالطاف احمد اعظمی کی غزلوں سے بطو رِ نمونہ لیے گئے ہیں تا کہ شاعر کے تخیلات کی ترجمانی ہو سکے۔ان اشعار اور ان کے مفہوم سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ شا عر کی ز ندگی میں کچھ ایسے وا قعات گزرے ہیں ،جنہیں وہ اپنے دل ودماغ پر تا زہ رکھنا چا ہتے ہیں۔اس کے لئے انہوں نے جواسلوب اختیار کیا ہے وہ بہت سحر انگیز اور پر اثرہے۔الطاف احمد کی غزل گو ئی کے تعلق سے پرو فیسر قاضی عبیدالرحمن کہتے ہیں:
’’غزل کی حد تک کسی جذبہ ،خیال ،نقطۂ نظر یا فلسفیا نہ مو شگا فی کی تسلسل کے ساتھ ترسیل خارج از امکان ہے ،اس لئے یہاں شاعر نے فلسفیا نہ خیال آرا ئی کر نے کے بجا ئے معا صر زندگی کی بے ربطیوں، گو نا گوں الجھنوں اور ذہنی اذیتوں کو اپنے آئینۂ ادراک کی وساطت سے جستہ جستہ اپنے اشعار میں منعکس کر نے کی کو شش کی ہے تاہم ایک مجسس قا ری ان بظاہر بے ربط اور ریزہ ریزہ منتشر حقا ئق میں اپنی عبقریت کے ذریعے ایک داخلی وحدت کا جستجو کر سکتا ہے ،‘‘۴؎
الطاف احمد اعظمی جہاں دیدہ انسان ہیں انہوں نے اسلام کا مطالعہ کافی گہرا ئی سے کیا ہے اس لئے ان کی شاعری میں بعض جگہ احا دیث کے مفہوم کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کی بھی عمدہ کو شش کی گئی ہے۔چونکہ الطاف احمد اعظمی بنیا دی طور پر ایک اسلامی اسکالر ہیں اس لئے ان کی شاعری پر کم و بیش اسلام ، اسلامی طرزِ زندگی اور اسلامی معاشرت اثر انداز ہے :۔
رہروانِ بے خبر سے یوں دعا لیتے ہیں ہم
خارو خس ہر راہ سے چن کر اٹھا لیتے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نہیں ہے تو ایک میٹھا بول
یہ بھی کارِ ثواب ہے یا رو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد تم اپنے دامن ِ ا رماں سمیٹ لو
دست طلب کو حد سے بڑھا ئے ہو ئے ہیں لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقد ر ِ ظرف ہیں الام ِ زندگی احمد
خدا کا شکر ہے ، صبر و قرار رکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی کی شا عری کا تجزیہ چند اوراق کے مضمون میں نہیں ہو سکتا۔ یہ کام وقت طلب اور ایک ضخیم کتاب کامتقاضی ہے ۔ جہاں تک میں نے الطاف احمد اعظمی کی شا عری کو سمجھا ہے ،یہ بات وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ الطاف احمد اعظمی پرانی قدروں کی پاسداری کے ساتھ نئی شعری روایت کے امین بھی ہیں۔’فغان نیم شب‘ اور ’چراغ ِشب گزیدہ‘ کے ترانوں میں نسل نو کے لیے امنگوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں کے لیے تدبر کے زمزمے بھی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سید غلام سمنانی،بحوالہ (ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی،فغانِ نیم شب،صفحہ ۱۱،بھا رت آفسیٹ پریس نئی دہلی،۲۰۰۰)۔
۲۔ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی،چراغِ شب گزیدہ،صفحہ۱۴،مرکز تحقیق اشا عتِ علوم قرآن، تغلق آبادایکسٹنشن،نئی دہلی،۲۰۱۶۔
۳۔ (پرو فیسر )قاضی عبید الرحمن ہا شمی،بحوالہ(ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی،چراغِ شب گزیدہ،صفحہ۲۶،مرکز تحقیق اشاعت ِ علوم قرآن،تغلق آباد ،ایکسٹنشن،نئی دہلی،۲۰۱۶۔
۴۔ ایضاَ ،صفحہ۱۸