Main Menu

اسلام میں انسانیت کا مفہوم اورمقام و مرتبہ

ڈاکٹرمحمد مصعب انصاری
musabamu@gmail.com

انسانیت کے وجود کا اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو انسانیت کے مفہوم مقام و مرتبہ کے بارے میں قرآن کریم کے اندر واضح طور پر آیات موجود ہیں جس کا مقصد ہر دور میں انسانیت کے مفہوم کو عام کرنا اور معاشرہ میں انسانیت کے کردار کو سامنے لانا ہے ،عصر حاضر میںہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے،انسان انسان کا دشمن بنا ہواہے ،بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے، آج دنیا میں انسانیت کو بالا طاق رکھ کے جو ظلم اور فتنہ و فساد پھیل رہا ہے،انسانیت بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے، لہذا آج انسانیت کے مفہوم کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے جس معاشرہ میں ہم زندگی گزربسر کر رہے ہیں اس میں انسانیت کے مفہوم مقام و مرتبہ کو سامنے لانے کی انتہائی ضرورت ہے۔
لفظ انسانیت کے لغوی معنی و مفہوم۔لفظ انسانیت کئی معنوں میں مستعمل ہے:
انسانیت کا معنی فیروزاللغات میں ہے:
ـ ’’آدمیت،بشریت،تمیز،شعور ،عقل انسانیت سے پیش آنا ،مروت کا برتاؤکرنا ،اخلاق و تہذیب سے بات چیت کرنا ‘‘ ۱ ؎
انگریزی لغت میں انسانیت کے لئے Humanityکا لفظ استعمال ہوتا ہے:
’’جس کے معانی وہ خصوصیات یا شرائط ہیں جو ایک انسان میں ہو سکتے ہیں یعنی انسان کا مجموعی کردار یا انسانیت کا تصور مراد لیا گیا ہے‘‘ ۲؎
اسلام انسانیت کا علمبردار ہے،نفرت و عداوت، عدم تشدد کو ختم کرکے امن و سلامتی محبت و اخوت کا درس دیتا ہے انسان کا مقام و مرتبہ امتیازی حیثیت کا حامل ہے، اسکے مقام و مرتبہ کے مطابق نسل انسانی میں ایک فطری مساوات پائی جاتی ہے۔
مقام و مرتبہ۔
قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا فرمان ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۳ ؎
[ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میںپیدا کیا۔]
انسان سب آپس میں مساوی ہیں ان کے حقوق و فرائض برابر ہیں کسی کے رنگ و نسل کے فرق سے انسانی مرتبے میں کوئی فرق نہیں آتا ہے،رنگ ونسل اور قبیلہ وغیرہ فضیلت کا معیار نہیں ہے، اس بات کو سب سے زیادہ جامع انداز میں دین اسلام نے ہی پیش کیا ہے ۔
قرآن میں ارشاد ربانی ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَاء لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً ۴ ؎
[لوگوں!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیئے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ وقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے]
دین اسلام نے اپنے ماننے والوںکو جہالت کی گھٹا ٹوک تاریکی سے نکال کر وحدت انسانی کا راستہ دیکھایا ہے۔انسان کو شرف و تکریم سے نوازا ،اور اس کو انعامات و اکرام کے باعث اعلیٰ مقام مرتبہ پر فائز کیا ، اس کو وہ سب کچھ سکھایا جوکچھ وہ نہیں جانتا تھا،معاشرہ میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا، ا سلام نے انسانیت کو بے حد اہمیت دی ہے کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ،قرآن کریم نے انسان کی مساوات کی اساس بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
انسانیت کی مثال اس خطبہ میں موجود ہے،جورسول کریمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ میں فرمایا:
ایھا الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی اعجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقوی ۵؎
[اے لوگو! بیشک تمہارا رب ایک ہے، اور بیشک تمہارا باپ ایک ہے،کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے سبب سے]
تمام انسان برابر ہیں اور فضیلت کا معیارصرف تقوی ہی ہے کسی عجمی کو عربی ،عربی کو عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے،نہ کالے کو گورے پر ،اور نہ گورے کو کالے پر اگر افضلیت حاصل ہے تو صرف تقوی کی بنیاد پر۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
فَاسْتَفْتِہِمْ أَہُمْ أَشَدُّ خَلْقاً أَم مَّنْ خَلَقْنَا إِنَّا خَلَقْنَاہُم مِّن طِیْنٍ لَّازِب ۶؎
[پس ان سے پوچھیے کیا ان کا بنانا زیادہ مشکل ہے یا ان کا جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے،بیشک ہم نے انہیں لیس دار مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ]
ایک دوسری آیت میں ہے:
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُون ۷ ؎
[آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے،اور خلقت الہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے،یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے]
تمام انسا ن اس فطرت پر پیدا کئے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی رب اور کوئی معبود اور مطاع حقیقی ایک اللہ کے سو ا اور کوئی نہیں ہے،اسی فطرت پر قائم ہونا چاہئے ۔
حدیث میں ہے:
ما من مولو د الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او دنصرانہ او یمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء، ھل تحسون فیھا من جدعاء۸؎
[جتنے بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب اپنی فطرت یعنی اسلام پر بھی ان کے ماں باپ ان کو یہودی نصرانی پارسی بنا دیتے ہیں جیسے چوپایہ جانور پورے بدن کا ہوتا ہے کہیں تم نے کن کٹا بھی پیدا ہوتے دیکھا ہے]
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون ۹ ؎
[میں نے جن اور انس کو پیدا نہیں کیا مگر عبادت کے لئے]
قرآن کریم ارشادمیں ہے:
ٍ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر ۱۰ ؎
[لوگوں! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے،یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے]
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العالمین نے انسانوں کو مخاطب کرکے تین نکات بتائے ہیں
۱۔تم سب انسانوں کی اصل ایک ہے،لہذا ایک ہی مرد وعورت سے پوری نوع انسانی وجود میں آئی ہے،دنیا میں جتنی بھی نسلیں وجود میں آئی ہیں در حقیت وہ ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں۔
۲۔اس سر زمین پر تمام انسانوں کا ایک خاندان تو نہیں ہوسکتا تھا ، لہذا نسل بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ ناگزیر تھا کہ بے شمار خاندان بنیں پھر خاندانوں سے قبائل اور قومیں وجود میں آئے۔
۳۔انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی چیز ہو سکتی ہے تو وہ تقوی ہے ،تمام انسان یکساں ہیں ان سب کو پید کرنے والا ایک ہی مالک حقیقی ہے ۔
اس آیت میں پوری انسانیت کو مخاطب کرکے اس عظیم گمراہی کی اصلاح پیش کی گئی ہے ،جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد وبگاڑ کی موجب بنی رہی ہے،یعنی ،رنگ ونسل، زبان ، وطن اور قومیت کا تعصب ،قدیم زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے مفاد پرستی کے دائرہ میں گھرا ہوا ہے،اور ان دائروں سے نکلنا عصر حاضر میں ناگزیںہوتا جا رہا ہے،لیکن ہمیں ان دائروں سے نکل کر ہی انسانیت کو اپنانا ہوگا یہی ہماری اصل کامیابی کی ضمانت ہے۔
زندگی کی اس گہما گہمی اور نشیب و فراز میں ہمیشہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے مددگار اور معاون رہے ہیں مرد وعورت دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ مصروف عمل نظر آئے ہیں زندگی مرد اور عورت دونوں کی محتاج رہی ہے ۔خدا نے عورت کو اس لئے پیدا نہیں کیا کہ اسے دھتکارا جائے،بری نگاہ سے دیکھا جائے اور شاہراہ حیات سے اسے کانٹے کی طرح ہٹا دیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی بقا نشوونما اور ارتقاء کے لئے اس کے اندرمختلف احساسات اور جذبات رکھے ہیں ۔
حقوق انسانی کے ادا کرنے کی تعلیم دی ہے پیغمبر اسلام کے عمل اور اسلامی تعلیمات کے جو واقعات ہمارے سامنے ہیں وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ حقوق انسانی کیا ہیںجب کسی انسان پر مصیبت پڑے تو اس کے ساتھ ہمدردی کرے ۔انسان کو کوئی ضرورت پیش آئے تو اسکی ضرورت کو پورا کریں، اسلام انسانیت کی بقاء، ارتقاء منزلت فلاح و بہبودکے تمام زرین اصولوں کا امین ہے،اسلام میں حقوق انسانی کا ایسا جامع تصور پیش کیا گیا ہے جس میں حقوق و فرائض میں باہمی توازن پایا جاتا ہے ۔
خلاصہ۔ لیکن افسوس سد افسوس انسانیت کا مفہوم بے معنی ہو کر رہ گیا ہے،جو لوگ اپنے آپ کو انسانیت کا مسیحا تسلیم کرتے ہیں وہی انسانیت کے قاتل بن بیٹھے ہیں، آج پوری انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے آ ج ہماری زندگی میںجو افراتفری پھیلی ہوئی ہے معاشرہ جن مشکلات اور مصائب و آلام کے دور سے گزر رہا ہے اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے انسان خودغرض ہوگیا ہے ،انسانیت کا یہ عمل معاشرہ کو انحطاط اور پستی کی دلدل میں کھینچ رہا ہے معاشرہ کا امن و سکون مفقود ہو چکا ہے، لہذا انسانیت حل قرآن و سنت میں ہی موجود ہیں جو انسانیت کو اس د لدل سے نکال سکتا ہے ۔

حوالہ جات و حواشی

۱؎ فیروز الدین،فیروز اللغات اردو ،ص۱۳۳،کراچی لاہور
۲؎The Oxford English Dictionary,prepared by J.A Simpson and E.S.C Weiner,Clarendon press Oxford,1989,second Edition,vol vii,Hat intervacuum,page476
۳ ؎ سورۃ التین :۴
۴ ؎ سورۃ النساء :۱
۵؎ لابی نعیم ،حلیۃ الاولیاء،۳/۱۰۰
۶؎ سورۃ الصافات :۱۱
۷ ؎ سورۃ روم :۳۰
۸؎ بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب:اذا سلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ وھل یعرض علی الصبی الاسلام،جلد اول،ص۱۸۱،مکتبہ اشرفیہ دیوبند
۹؎ سورۃ الذریات:۵۶
۱۰ ؎ سورۃ الحجرات :۱۳