Main Menu

اردو کے فروغ میں مدارس کا رول

ڈاکٹر صغیر احمد

ہندوستان میں مدرسہ کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ سندھ کے فاتح محمد بن قاسم نے وہاں مسلمانوں کو بسایا ایک جامع مسجد کی تعمیر کی۔ وہاں پر چار ہزار مسلمان وہاں آباد ہوئے۔ اس مسجد میں تعلیم بھی دی جاتی تھی۔

غوری خاندان، مملوک خاندان اور خلجی خاندان نے بھی مدارس کی تعمیر کی۔ محمد تغلق نے دہلی میں مساجد اور مدرسہ کی تعمیر کی جبکہ فیروز تغلق نے بر صغیر میں 30 مدارس کی تعمیر کرائی جن میں مدرسہ حوض خاص قابل ذکر ہے کیونکہ یہ ایک رہائشی مدرسہ تھا اور اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت مدرسہ ہی میں رہتی تھی۔ اقتصادی طور پر کمزور طلبہ کو وظیفہ دیا جاتا تھا اور ان کے رہنے اور کھانے کی ذمہ داری مدرسہ  پر تھی۔ غریبوں، محتاجوں اور کمزوروں کو بھی مالی امداد فراہم کی جاتی تھی۔

مغل دور حکومت میں بابر کوئی مدرسہ قائم نہ کرسکا مگر اس کے بعد ہمایوں نے کئی مدارس قائم کئے۔ مغل حکمرانوں میں اس ضمن قابل قدر کارنامہ انجام دیا۔ برطانوی عہد حکومت میں مدارس کو نشانہ بنایا گیا اور اوقاف کوضبط کرنے کی وجہ سے مدارس بند ہونے لگے ولیم ہنٹر لکھتا ہےکہ ’’ محکمہ تعلیم سالانہ 700 مدارس کے بند ہونے کی خبر سن کر خوشی کا اظہار کرتا تھا۔

30 مئی 1867 کو دار العلوم دیوبند ایک عربی مکتب کی شکل میں وجود میں آیا جبکہ 1898 میں دار العلوم ندوۃ العلماء کی بنیاد پڑی۔

عام طور پر مدرسہ کے لئے چار الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں؛

مکتب، معہد، جامعہ اور مدرسہ

مکتب سے مراد ایسے تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں درجہ پانچ تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ جبکہ معہد میں عموما درجہ آٹھ یا دس تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ جامعہ سے مراد ایسے تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں پر عالمیت یا فضیلت تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ مدرسہ ایک ایسا لفظ ہے جو مکتب معہد اور جامعہ تینوں الفاظ کے متبادل کے طور پر عموما استعمال کیا جاتا ہے۔

اس لئے ہم جب اردو زبان کی خدمت میں مدارس کے رول کی بات کرتے ہیں تو اس وقت ہمیں مکاتب کی اہمیت و افادیت کا بھی اعتراف کرنا چاہئے اور اس ضمن میں اگر ہم مجاہد آزادی اور مجاہد اردو قاضی عدیل عباسی اور ان کے رفقاء کی خدمات کا اعتراف نہ کریں تو بات نا مکمل رہ جائے گی۔ جب اتر پردیش میں منظم طورپر اردو کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اس وقت دینی تعلیمی کونسل نے پورے اترپردیش میں مکاتب کا جال پھیلا دیا اور اردو زبان کو اپنے ہی دیار میں اجنبی ہونے سے بچا لیا۔ مکاتب نے اردو کی ترویج اور فروغ میں نہایت اہم رول ادا کیا اور نئی نسل کو اردو سے روشناس کرانے کا فریضہ انجام دیا۔ آج بھی یہ مکاتب ملک کے دور دراز علاقوں میں اردو کی ترویج و اشاعت میں مصروف ومشغول ہیں۔

مدارس نے اردو کے فروغ میں جو کردار ادا کیا ہے اس کا مجموعی طور پر احاطہ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ میری کوشش ہے کہ چند اہم جوانب کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراؤں تاکہ ہم اور آپ اردو کے فروغ کے سلسلے میں مدارس کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے کسی قدر آگاہ ہو سکیں۔

خطابت: مدارس میں خطابت پر کافی توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ کو اردو زبان میں نہ صرف اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے بلکہ ان کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ سامعین کو کس طرح مسحور کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں تذکیر وتانیث، الفاظ کی ادائیگی اور تقریر کے دوران لہجے میں اتار چڑھاؤ کے بارے میں تربیت دی جاتی ہے۔ خطابت کے میدان میں مہارت پیدا کرنے کی خاطر ہفتہ واری یا پندرہ روزہ پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور سالانہ پروگرام کافی بڑے پیمانے پر منعقد کیا جاتا ہے اور اس میں طلبہ نہایت ہی جوش وخروش سے شریک ہوتے ہیں۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے انعامات بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ جمعہ کا خطبہ، عیدین کا خطبہ یا اسی طرح سے دیگر دینی پروگراموں میں خطبہ عموما انہی مدارس سے فیض یافتہ حضرات ہی دیتے ہیں اور عموما یہ خطبات اردو میں ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں بطور مثال مولانا عبید اللہ اعظمی کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔

صحافت

صحافت کے میدان میں بھی مدارس اور ان کے مستفیدین کی اہم خدمات ہیں۔ قلم کی اہمیت کو روز اول سے ہی سمجھتے ہوئے تقریبا تمام مدارس نے اپنے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے متعدد انتظامات کئے ہیں۔ مثال کے طور پر دیواری میگزین، سالانہ میگزین، اور مدارس سے جاری ہونے والے ماہانہ یا دو ماہی رسائل کا تذکرہ میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ کرنا چاہوں گا:

دیواری میگزین یا وال میگزین کی اہمیت سے ہم سبھی واقف ہیں۔ مدارس میں عموما ہر مہینے ایک دیواری میگزین کی اشاعت ہوتی ہے۔ اس میگزین کا مدیر ایک طالب علم ہوتا ہے اور تمام مضمون نگار طلبہ ہی ہوتے ہیں۔ طلبہ کی غلطیوں کی اصلاح کی خاطر اساتذہ بطور نگراں کام کرتے ہیں اور طلبہ کی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔

سالانہ میگزین بھی طلبہ ہی شائع کرتے ہیں اور اس میں دینی اور دنیاوی تمام قسم کے مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ میگزین نہ صرف طلبہ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ مدارس کی تعلیمی پیش رفت کی بھی عکاسی کرتی ہے اس لئے اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور طلبہ کو صحافت کی باریکیوں سے روشناس کرایا جاتا ہے۔

ماہانہ یا دو ماہی رسائل مدارس کی ایک بڑی تعداد ہے جو ماہانہ رسالہ یا دو ماہی رسالہ شائع کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ عام طور پر ان رسائل میں مذہبی امور پر مضامین شامل ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے قارئین مذہب سے لگاؤ رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ ان رسائل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مضامین کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کے سلسلے میں بھی کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ ایک دو ماہی رسالہ استدراک کے نام سے دریا آباد بستی سے شائع ہوتا ہے جس میں ایک باضابطہ کالم مدارس سے شائع ہونے والے مضامین کے نقد پر مشتمل ہوتا ہے۔

ابھی تک ہم اردو کے فروغ میں مدارس کی براہ راست خدمات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اب ہم مدرسہ سے فیض یاب ہونے افراد کی کاوشوں اور اردو کے فروغ میں ان کی خدمات کا تذکرہ انتہائی اختصار کے ساتھ کر رہے ہیں۔

قرآن پاک کا اردو میں ترجمہ اور تفسیر

مدرسہ کے فارغین اور اس کے مستفدین نے قرآن پاک کے متعدد تراجم اردو زبان میں کئے ہیں اسی طرح سے قرآن پاک کی تفسیر بھی اردو زبان میں کی ہے چونکہ مسلمانوں کا قرآن سے روحانی رشتہ ہے اسی لئے قرآن پاک کو سمجھنے اور اس کے معانی ومطالب سے آگاہ ہونے کے لئے مسلمان قرآن کا اردو ترجمہ اپنے گھروں میں رکھتے ہیں اور اس طرح اردو کو گھر گھر تک پہنچانے میں مدارس کا اہم رول ہے۔

کتب احادیث کا اردو میں ترجمہ

مدارس کے فضلاء نے کتب احادیث کا اردو میں ترجمہ کرنے کا کام کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حدیث کی ایک ہی کتاب کے متعدد تراجم آپ کو اردو زبان میں دستیاب ہو جائیں گے اسی طرح سے احادیث کے مجموعے بھی اردو زبان میں تیار کئے گئے ہیں تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات لوگوں تک براہ راست پہنچ جائے۔

سیرت سرور پاک

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر متعدد کتابیں لکھی گئیں مثلا سیرۃ النبی، رحمۃ للعالمین اور اسی طرح سے سیرت کی کتابوں کا عربی سے ترجمہ بھی کیا گیا، مثلا الرحیق المختوم۔

درسی کتابوں کا اردو میں ترجمہ:

 مدارس نے درس میں شامل عربی اور فارسی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے تاکہ طلبہ کو اپنی مادری زبان میں کتابوں کو پڑھنے کا موقع دستیاب ہو اور ان کتابوں کے تعاون سے وہ اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار سکیں۔

نصاب میں شامل کرنے کے لئے اردو میں کتابوں کی تصنیف ۔

 مدارس نے ضرورت کے پیش نظر اردو میں درسی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں مثال کے طور پر میں امین النحو، امین الصرف اور امین الصیغہ کا ذکر کر رہا ہوں یہ کتابیں علم نحو اور صرف کی ہیں اور بعض مدارس میں داخل نصاب ہیں۔

مدارس کا ذریعہ تعلیم اور اردو کا فروغ:

 تقریبا تمام مدارس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے اس طرح سے مدارس اردو کی ترویج واشاعت میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔

مدارس کے ذریعہ کتابوں کی اشاعت

اگر یہ بات کہی جائے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی ضروریات کی تکمیل میں اردو زبان نہایت اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس اور ارباب مدارس نے اردو کتابوں کی تصنیف وتالیف میں اہم رول ادا کیا ہے۔ میں صرف ایک عالم دین کی تصنیفات کا مختصر ذکر کر رہا ہوں تاکہ اس بات کو آپ بخوبی سمجھ سکیں۔

مولانا عبدالسلا م رحمۃ اللہ علیہ درس و تدریس سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی مشغول رہے۔

چنانچہ آپ کے کتب خانہ مسعودیہ کو جب 1947 کے فسادات میں آگ لگائی گئی تو اس میںمطبوعہ کتب کے علاوہ غیر مطبوعہ کتب کے مسودات (1) ابن ماجہ کی مطول شر ح عربی میں (الصمصام الباری علی عنق جارح البخاری (3) خیر المتاعہ فی مسائل الرضاعہ (4) اللعب بالشطرنج (5) حقوق الزوجین (6) اسلامی فتاوی کی دوسری جلدیں وغیرہ رکھی ہوئی تھیں جو ضائع ہو گئیں۔

اس کے علاوہ آپ کی تصانیف کی فہرست حسب ذیل ہے؛

ا) انوار المصابیح ترجمہ مشکوۃ المصابیح (تیرہ جلدیں، مجموعی صفحات 3933

2) کشف الملہم عما فی مقدمۃ مسلم (صفحات 54)

(3)اسلامی عقائد صفحات 120

(4)ارشاد خیر الوری فی اقامۃ الجمعۃ فی القری صفحات 52

(5) عید قرباں صفحات 26

(6) اخلاص نامہ صفحات 32

(7)  اسلامی تعلیم (قاعدہ ) صفحات 48

(8) حلال کمائی صفحات 64

(9) اسلامی وصیت

(10) اسلامی تعلیم (11 حصے مجموعی صفحات 2928

(11)اسلامی فتاوی صفحات 276

(12) اسلامی وظائف صفحات 304

(13) مصباح المبین ترجمہ بلاغ المبین صفحات 240

(14) اسلامی توحید صفحات 62

(15) اسلامی خطبات 3 جلدیں

(16)خواتین جنت

(17) خطبات التوحید

(18) اسلامی پر دہ

(19) فضائل قرآن

(20) کتاب الجمعہ

(21) ایمان مفصل

(22) کلمہ طیبہ کی فضیلت

(23) چہل حدیث

(24) مذمت حسد

(25)اسلامی اوراد

(26) رسالہ اصول حدیث

(27) زبان کی حفاظت

(28) ماہنامہ الاسلام

آپ کا اسلوب نہایت ہی سادہ اور سلیس ہوتا ہے ۔ ترجمہ نگاری میں بھی آپ نے سادہ اور سلیس اسلوب کو برقرار رکھا۔ بطور مثال انوار المصابیح ترجمہ مشکوۃ المصابیح سے ایک حدیث کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

(5237) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے گھرانے والے جو کی روٹی سے دو دن بھی لگاتار آسودہ نہیں ہوئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیائے فانی سے رخصت فرما گئے۔(بخاری مسلم) انوار المصابیح جلد چہارم ص73، اسلامی اکیڈمی 4085 اردوبازار جامع مسجد دہلی، سن اشاعت دسمبر 2008

مدارس کے سرچشمہ سے فیض یاب ہونے والی اردو کی چند اہم شخصیات

عبد الحلیم شرر ناول نگاری میں اہم نام خصوصا تاریخی ناول نگاری میں۔ اردو میں تنقید نگاری کی بنیاد رکھنے والے حالی مدرسہ حسین بخش جامع مسجد دہلی کے تعلیم یافتہ تھے۔

شبلی، مجروح سلطانپوری، کیفی اعظمی    فیض احمد فیض رشید حسن خاں، فضا ابن فیضی اور نیاز فتح پوری نے مدارس سے فیض حاصل کیا تھا۔ جبکہ  قومی آواز کے بانی مدیر حیات اللہ انصاری نے فرنگی محل سے علوم شرقیہ کی سند حاصل کی تھی۔

عالمی پیمانے پر اردو کی نشر و اشاعت میں مدارس اور ان کے فارغین کا کردار

مولانا عبید اللہ سندھی نے کابل میں پہلی اردو یونیورسٹی کے قیام میں اہم رول ادا کیا جبکہ ’’ پاکستان کے ممتاز انگریزی صحافی نے لکھا ہے کہ ’’ مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا کی ہدایت پر ان کے دو شاگرد مولانا مقبول الرحمن سرحدی اور شوکت علی بنگالی ہجرت کر کے چین چلے گئے تھے وہاں سے انہوں نے اردو اور چینی زبان میں ماہنامہ العین جاری کیا جو 1909 تک پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ (صحافت پابند سلاسل ص 338)

مدارس نے اردو کو عالمی زبان بنانے میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے اس ضمن میں ہم ساؤتھ افریقہ اور برطانیہ کے ان جامعات کا نام لے سکتے ہیں جہاں پر اردو میں تعلیم دی جاتی ہے اور اسی طرح سے مدارس کے فارغین کے ذریعہ امریکہ کے اسلامک سینٹر میں انگلش کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تعلیم دی جاتی ہے اور دین کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش، نیپال، ایران، یمن اور افغانستان سمیت دیگر ممالک ہیں جہاں پر مدارس سے فیض یافتہ حضرات اردو کے فروغ میں اپنا اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ سعودی عربیہ میں بھی اردو کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس میں مدارس کے فضلاء کا اہم رول ہے اس ضمن میں پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی کے مضمون ’’دینی مدارس اور بیرونی ملکوں میں اردو زبان کی اشاعت‘‘ سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں

’’ سعودی عرف میں دینی تعلیم اور عصری تعلیم کا اپنا نظام رائج ہے مگر آزادی ہند سے پہلے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں متعدد ایسے مدارس تھے جن کے منتظمین اور معلمین ہندوستانی مدارس کے فضلا تھے، ان مدارس کی باقیات صالحات میں مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ ہے، یہاں کے معلمین کی اکثریت ہندوستانی مدارس کے فضلاء کی ہے، خاص بات یہ ہے کہ عربی کے علاوہ اردو زبان کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ مدرسہ حج وعمرہ کے لیے جانے والے ہند وپاک و بنگلہ دیش کے زائرین کی فقہی رہنمائی بھی کرتا ہےـ‘‘

فیجی میں بھی اردو کی ترویج واشاعت میں مدارس کے فارغین کا اہم رول ہے اس ضمن میں مولانا عبد السلام رحمانی رحمہ اللہ کا نام قابل ذکر ہے۔

اخیر میں میں مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی کا ایک قول نقل کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں

’’ ادب ادب ہے خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو۔ اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو۔ کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہ دی۔ سننے والا اس سے لطف اٹھائے اور اس کو قبول کرے۔ یہ کہاں کہ حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی میخانہ کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو گلاب ہے اور اس سے لطف اٹھایا جائے اور اگر کسی مسجد کے صحن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں۔‘‘