Main Menu

اردو کی عشقیہ شاعری کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹرعزیز احمد خان

فراق گورکھپوری کی ایک اہم تنقیدی کتاب ‘‘اردو کی عشقیہ شاعری’’ ہے۔ مدیر اخبار ‘‘مدینہ’’ نے مدینہ کے جو بلی نمبر کے لیے

 فراق سے ‘‘اردو کی عشقیہ شاعری’’ پر ایک پر مغز اور معرکہ آرا مضمون لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ فراق کا یہ مضمون جب مدینہ کے جوبلی نمبر بابت اپریل 1939ءمیں شائع ہوا تو ادبی حلقوں میں اس کی خوب دھوم مچی۔ بعد میں یہ مقالہ کئی اضافوں کے ساتھ سنگم پبلشنگ ہاﺅس الہ آباد سے 1945ءمیں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اس میں1939ءکے بعد سے1945ءتک کی عشقیہ شاعری کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور اس مدت میں آنے والے کئی ایک مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ مکتبہ عزم وعمل کراچی سے 1966ءمیں اس کتاب کاایک ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ سنگم پبلشنگ ہاﺅس الٰہ آباد سے شائع ہونے والی کتاب میں احمد سعید کا پیش لفظ شامل ہے۔جب کہ مکتبہ عزم وعمل کراچی سے شائع ہونے والی کتاب میں احمد سعید کا پیش لفظ شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب اردو تنقید میں ایک مستقل اور وقیع اضافہ ہے اور فراق کے فکری انہماک کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پیش لفظ میں احمد سعید،فراق گورکھپوری کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘پروفیسر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری ملک کے اعلیٰ ترین، مشہور ترین تعلیم یافتہ لوگوں میں ہیں۔ جن کے ہاتھوں ہمارا ادب اور کلچر نئی زندگی کا ثبوت دے رہا ہے۔ نئی قدریں اور نئی منزلیں دریافت کررہا ہے۔ فراق کے کارناموں، نثرو نظم میں ان کے شہ کاروں کی بدولت آج کل کے رنگارنگ اردو ادب میںعظمت اور آفاقیت کے عناصر جگمگانے لگے ہیں اردو کی عشقیہ شاعری دوسو برس کے عرصے میں پستیوں اور بلندیوں کی کئی وادیوں سے گزر چکی تھی۔ لیکن شاعری کی دنیا میں فراق کی آواز نے تاروں کو چھولیا، اور ان کی تہوں میں ڈوب گئی جو پاتال کا پتہ دیتی ہے۔ ملک کے ایسے محبوب و مقبول اہل قلم کا اردو کی عشقیہ شاعری پر یہ مقالہ غیر معمولی اہمیتوں کا حامل ہے۔ ہرجملہ دعوتِ فکر و نظر دیتا ہے فراق کی نثربجائے خود ایک درسگاہ ہے۔’’  احمد سعید، پیش لفظ، اردو کی عشقیہ شاعری،سنگم پبلشنگ ہاﺅس الٰہ آباد 1945 ، صفحہ 4

عشقیہ شاعری کے موضوع پر فراق گورکھپوری کے متعدد مضامین مختلف رسائل میں بھی شائع ہوئے۔ غزل جس کا بنیادی موضوع حسن وعشق ہے۔ اسی حسن و عشق کی داستان فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری میں چھیڑی ہے اور حسن وعشق کے مختلف پہلوﺅں کو فراق نے وسیع تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہو ں نے عشقیہ شاعری کی تعریف سے پیشتر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عشق کیاہے اور یہ آد می کے ساتھ کیا کرتا ہے اور اس کی ترقی و بربادی میں کہاں تک اس کی کار فرمائی ہوتی ہے ۔ عشق کی تعریف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

‘‘عشق ایک شدید ترین احسا س کا نام ہے بنیادی طور پر یا مرکزی طور پر تو اس کا مخزن یا تعلقات جنسیات یا شہوانیات میں ملے گا اور یہاں سے ابھر کر جذبات اور نفسیات کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا تمام قوائے انسانی اور تمام شخصیت میں یہ احساس یایہ غیبی تحریک بھر جاتی ہے۔’’  فراق گورکھپوری اردو کی عشقیہ شاعری، مکتبہ عزم عمل کراچی بار اول1966، صفحہ 11

فراق نے اپنے ایک دوسرے مضمون میں جنس اور عشق کافرق ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

‘‘جنسی کشش کا صرف جنسی لذت کشی کے وقفوں تک قائم رہنا ہوس کاری ہے اگر اس کشش میں استقلال پیدا ہوجائے تو جنسیت عشق کی منزلوں کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔’’ فراق گورکھپوری، باب المراسلة والمناظرہ، نگار، اکتوبر 1946، صفحہ45

عشق کی تعریف کے ساتھ ساتھ وہ یہ بتاتے ہیں کہ آغاز عشق میں عاشق کے لیے پھیلی ہوئی کائنات وحیات ایک بے معنی چیز نظر آتی ہے اور عشق میں سقیم حالت، غلط ماحول، غلط تربیت اور بچپن میں بچے کو گھروالوں کی محبت اور چمکارنہ ملنا،کھیل کود اور کئی دوسرے مشاغل کا نہ ہونا اس کے ذمہ دار ہیں لیکن اگر وقت کے سہارے آدمی سنبھل جائے تو پھر وہ بہت کچھ بن سکتا ہے۔ غرض کہ عشق کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد اور حیات و کائنات، حقائق و فرائض اور بھری دنیا سے کچھ عارضی ناطہ ٹوٹنے کے بعد جو ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے وہ زیادہ سچی اور با معنی ہوتی ہے۔

 فراق نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ عشق کی اس دلفریب وادی میں دنیا کی مشہور ہستیاں صحرانوردی کرتی نظر آتی ہیں مثلاً رام، کرشن، ارجن ، پرتھی راج، نل اور دمن،سکندر اعظم، سیزر ،انیتنی، کلیو پترا، نپولین، پار نل اور پھر شیریں، فرہاد، لیلیٰ، مجنوں، غزنوی، ایازوغیرہ وغیرہ ان مشہور ہستیوں کے علاوہ ان عظیم ہستیوں کا بھی ذکر ہے جنہوں نے حسن و عشق کے مختلف جلوﺅں کو اپنی شاعری کاپیرہن عطا کیا۔ مثلاً میر، غالب ، فانی، اصغر، جگر، جوش، اقبال ، مجاز ، مخدوم وغیرہ ۔ ان شعراءکے تذکروں سے عشقیہ شاعری کے مختلف درواہوتے ہیں اور اردو کی عشقیہ شاعری میں جو نشیب و فراز آتے رہے ان کاذکر بھی سلسلے وار نظر آتا ہے۔ آگے چل کر فراق نے عشق کو عشقیہ شاعری کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ انہو ںنے اپنے کئی دوسرے مضامین میں بھی عشقیہ شاعری پر اظہار خیال کیا ہے۔ عشقیہ شاعری کو وہ کس انداز سے دیکھتے ہیں چند اقتباسات دیکھئے:

‘‘عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکل، قرب ودوری، جوروکرم، وصل وہجر ذکر غم یا ذکر محبوب تک محدود رہے،یہ ضروری نہیں بلکہ پر عظمت عشقیہ شاعری حسن و عشق کی واردات کو زندگی کے اور مسائل و مناظر کے(Perspection)یا نسبتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ داخلیت و خارجیت، نفسیت و اقفیت، ارتکاز و تنوع کالیداس، شیکسپیئر، گوئٹے، دانتے کی پر عظمت و مکمل عشقیہ شاعری میں یکساں موجود ہیں۔ جب قومی زندگی میں ترقی وتعمیر کے عناصر کار فرما ہوتے ہیں تو ان کی جگمگاہٹ عشقیہ شاعری میں مرکزو محدود سوزو گداز سے گزر کر بزم کائنات میں چراغاں کردیتی ہے اس وقت عشقیہ شاعری کے ہاتھوں میں گریبان ہستی آجاتاہے۔

 بلندشاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہوتی۔’’ فراق گورکھپوری، اردو کی عشقیہ شاعری، صفحہ14

‘‘عشقیہ شاعری کی کے لیے محض عاشق ہونا اور شاعر ہونا کافی نہیں، نہ محض نیک یا رقیق القلب ہونا کافی ہے محض جذباتی آدمی اور محض معقول آدمی بھی کافی نہیں۔ ان صفات کے علاوہ پر عظمت عشقیہ شاعری کے لیے یہ ضروری ہے کہ شاعر کی درکی جمالیاتی وجدانی اور اخلاقی دلچسپیاں وسیع ہوں۔ اس کی شخصیت ایک وسیع زندگی اور وسیع کلچر کی حامل ہو اس کا دل و دماغ بڑا ہو، اس کے شعور کی تھر تھراہٹوں میں آفاقیت ہو…. جنسیت محض جنسیت سے مکمل نہیں ہوتی آفاق اپنی خارجیت اور داخلیت کے ساتھ جب جنسیت میں سمو اٹھتی ہے جب کہیں پُر عظمت عشقیہ شاعری کے لے جنم لیتی ہے۔’’  فراق گورکھپوری، حاشیہ، مکتبہ نژاد لکھنو، 1946،صفحہ الف

 فراق گورکھپوری نے عشق کی بہت اہمیت بیان کی ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ محبت آدمی کو نکما بنادیتی ہے اور اسے کہیں کانہیں چھوڑتی۔ لیکن فراق اس سوچ کو جنسیات و محبت کے بارے میں گمراہ کن اور ناقص خیال تصور کرتے ہیں۔ وہ عشق و محبت کو علوم و فنون کے معاون اور تہذیب و تمدن کی خلاَّق گردانتے ہیں اور ایک متمدن اور بلند تہذیب قوم کی خوبی کے لیے اس قوم کی عشقیہ زندگی اور عشقیہ شاعری کی بلندی کو معاون قرار دیتے ہیں ۔ عشقیہ شاعری کی افادیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسی شاعری ہمارے ادراک وجذبات میں بڑی قوتیں اور لطافتیں پیدا کردیتی ہے۔ فراق نے محبت کو بغاوت کی اس آندھی سے تعبیر کیا ہے جو رواج توڑ کر ایک بہتر آئین زندگی ایک زندہ ترین سکون کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

 فراق جنس، عشق اور عشقیہ شاعری کے متعلق مخصوص خیالات رکھتے ہیں۔ انھوں نے جنس،جنسیت اورامرد پرستی پر بھی ‘‘اردو کی عشقیہ شاعری’’اور‘‘من آنم’’ کے علاوہ اپنے دوسرے کئی مضامین میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ وہ ہم جنس کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘میں نے امرد پرستی یا اپنے ہم جنسوں سے جنسی محبت کے معمے پر بھی ایک عمر تک غور کیا ہے اور میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں جس پر اڈورڈ کارپنٹربھی اپنی کتاب محبت کابلوغ(Loves Coming of Age)میں پہنچا ہے ۔ یعنی بہت بڑی حدتک امر دپرستی یا ہم جنسوں سے جنسی محبت ایک بغاوت ہے اس ماحول کے خلاف جس کے اثر سے عورت میں مردانہ صفات کی نشو ونما نہیں ہونے پاتی جس کے کارن وہ مردوں کی ہم نفس و ہم خیال اور جیون ساتھی صحیح معنوں میں نہیں بن سکتی۔ اس طرح ایک عورت کادوسری عورت پر جنسی جذبات کے ساتھ عاشق ہونا اس معیار کی تلاش ہے جو مردوں میں صحیح اور مناسب نسائیت پیدا کرے گا۔’’ فراق گورکھپوری ، اردو کی عشقیہ شاعری، صفحہ24

فراق گورکھپوری فحاشی اور عریانی کے بارے میں بھی منفرد اور

 جرأت مندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی ادبیوں سے ان کا مناظرہ بھی ہوچکاہے اور اس قسم کے مضامین ادبی رسالوں کے صفحات میں بکھرے پڑے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘میں جنسیت، شہوانیت، مباشرت اور ان کے متعلقات کو فی نفسہہ ذلیل اورکمینہ نہیں مان سکتا…. البتہ یہ جانتا ہوں کہ کسی شخص کی جنسی زندگی بھی اتنی ہی ذلیل یا شریف ہوتی ہے جتنا ذلیل یا شریف وہ آدمی خود ہے…. شدید ترین جنسی نفسیات بڑے شاعر کے ہاتھوں شریف ترین شاعری کاباعث بن گئی ہے ۔کمزور یا چلتی پھرتی جنسیت یا محض بقائے نسل والی جنسیت…. زبردست عشقیہ شاعری نہیں کراسکتی۔’’ فراق گورکھپوری، عشقیہ شاعری اور اخلاق مطبوعہ ، چمنستان، دہلی فروری 1947صفحہ6-7

فراق نے مستقبل کی عشقیہ شاعری کو صرف ایک لغوی چیز نہیں بلکہ ایک اثباتی قوت ہونے کی پیشن گوئی کی تھی وہ جدید دور میں نئے سماج اور نئی تہذیب میں عشق کی بہت اہمیت سمجھتے ہیں۔ عشق کو سماج میں بغاوت وغدّاری کے بدلے دو افراد میں زندہ تعلقات کو استوار کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ فراق نے مسئلہ عشق پر دس سوال قائم کیے ہیں اور انہو ںنے اس کے ذریعہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امردپرستی یا ہم جنسی کوئی ذلیل یا غلط فعل نہیں ہے بلکہ کئی مشاہیرکا نام گنا کر یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ یہ شریفوں کا فعل ہے۔وہ لکھتے ہیں:

 ‘‘امرد پرستی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کیونکہ خواہ آپ اسے غیر فطری کہیں خواہ مکروہ اور ذلیل خواہ آپ تعزیرات ہند کا سہارا لیں یہ یاد رہے کہ جو لوگ امرد پرستی کے مرتکب ہیں وہ نہ جرائم پیشہ ہوتے ہیں نہ ذلیل نہ کمینے نہ عام طور سے خراب آدمی ہوتے ہیں بلکہ کئی امردپرست تو اخلاق اور تمدن اور روحانیت کی تاریخ کے مشاہیر رہے ہیں جیسے سقراط، سیزر، مائکل انجلو، سرمد، شیکسپیئر، اور دنیا بھر میں لکھو کھا آدمی جو امرد پرست رہے ہیں وہ نہایت شریف انسان رہے ہیں۔’’ فراق گورکھپوری ، اردو کی عشقیہ شاعری ،صفحہ36-37

فراق اردو شاعری کو اس اعتبار سے داد کا مستحق سمجھتے ہیںکہ اردو کی عشقیہ شاعری نے انسان کے جنسی جذبات کو وسعتوں سے ہمکنار کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے:

‘‘جہاں تک اردو کی کل عشقیہ شاعری نہیں بلکہ بہترین عشقیہ شاعری کا تعلق ہے…. شہوانی اور جنسی جذبات کو جووسعت اور جامعیت اور دوررسی بخشی گئی ہے وہ ہماری بہترین عشقیہ شاعری کو تخصیص اور تنگی سے نکال کر اصولوں کامرتبہ دے رہی ہے ۔ اردو کی بہترین عشقیہ شاعری محض افراد کی تاک جھانک او رکھلم کھلا یا چوری چھپے عیاشیوں سے بہت بلند ہے…. غزل کی بہترین عشقیہ اشعار کی کلیّت ، جامعیت، ہمہ گیری اور آفاقیت ہماری عشقیہ شاعری کو تخصیص و تفصیل کی حدود سے نکال کر تنقید حیات کی وسیع حدود میں لے آتی ہے۔’’ فراق گورکھپوری۔ ”باتیں“ مطبوعہ ساقی جنوری 1949، صفحہ 5

فراق کے ہاں آکر جنس محض جنس نہیں رہ جاتی بلکہ یہ زندگی کی تعمیر اور شاعری کی وسعتوں کی امین بن جاتی ہے ویسے بھی فراق صرف جنس کی بات نہیں کرتے بلکہ عشق کو موضوع سخن بناتے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عشق کی تہہ میں جنسی جذبہ ہی کار فرما ہوتا ہے اس اعتبار سے وہ جنس کو ایک اعلیٰ تر سطح پر دیکھتے ہیں جہاں پہنچ کر جنس زندگی کے دوسرے عوامل یاشعور سے ہم آہنگ ہو کر محض جنس نہیں رہ جاتی۔ زندگی کے دوسرے تجربات کے میل جول سے عشقیہ شاعری ایک للکار بن جاتی ہے اور ایسی عشقیہ شاعری دعوت عمل دیتی ہے کیونکہ عشقیہ شاعری محض عشقیہ نہیں ہوتی۔ شاید ایسی بحثوں ہی کی وجہ سے محمد حسن عسکری نے فراق گورکھپوری کی کتاب ”ارو کی عشقیہ شاعری“ کے متعلق لکھا ہے:

‘‘ایک ساتھ دہشت ناک، الم ناک، عبرت ناک اور سکوں آمیز سب کچھ ہے۔ جو غرّاتی ہے، ڈراتی ہے ، لیکن نرمی سے تھپکتی بھی ہے، جو زہر میں بجھا ہوا تیر بھی ہے اور امرت بھی۔ اس کتاب میں ہر بیان ایک ذاتی اور حسیاتی تجربہ ہے ،ایک شخص کا اظہار ہے ۔ اور وہ تجربہ ،وہ شخصیت ہی کیا جو ان سب چیزوں کا امتزاج نہ ہو۔’’ محمد حسن عسکری ”جھلکیاں “ جلد اول مرتبہ سہیل عمر ،مکتبہ الروایت لاہو، س ن، صفحہ 198

‘‘اردو کی عشقیہ شاعری’’ کی تعریف کرتے ہوئے محمد حسن عسکری نے مزید لکھا ہے کہ اب اردو پڑھنے والوں کو اس شکایت کاکوئی موقع نہیں رہا کہ ہمیں عشق کرنا سکھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ذہنی اور جذباتی بحران کے دوران اس کتاب کو اکسیر سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس آصف فرخی نے ”اردو کی عشقیہ شاعری پرسوال قائم کرتے ہوئے اس کی افادیت پر بحث کرتے ہیں۔ ان کے بقول بے شک کتاب کے نام کی مناسبت اور موضوع کی حلاوت کے زیر اثر اکثر لوگ اسے شروع سے آخر تک پڑھ جاتے ہیں اور وہی حالت میرے ساتھ ہوئی لیکن کتاب پڑھنے کے بعد سے اس سوال سے نبرد آزما ہوں کہ خواہش کے باوجود اس کتاب کو پڑھنے سے کیا حاصل۔ اس کے بعد وہ اس کتاب کے ساتھ ساتھ فراق کی تنقید پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘فراق کی تنقید کے مطالعے اور تعین قدر میں بنیادی مشکل خود فراق کی پیدا کردہ ہے ۔ اس کتاب میں بھی تمام معاملات کی پیش بندی ایک طویل انتساب کرتا ہے، جس کا مخاطب نہ جانے کون ہے مگر اسے پڑھنا ادب کے قاری کو پڑتا ہے۔’’

‘‘اے جانِ فراق، دہلی کی ایک رات یاد کرو محبوب کارو بار دل داری میں ہے اور فراق وہ اشعار دہرارہے ہیں جوان معاملات کے نتیجے میں ان پر نازل ہوئے۔ اس طرح کتاب کے آغاز ہی میں عشق کے اظہار بلکہ سار تر کے الفاظ میں Intimacyکا ایک اشارہ ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ فراق اپنے تنقیدی عمل کو اپنی واردات سے متعارف اور متعین کرتے ہیں۔ تنقید کی یہ اساس، عشق اور نفسیات کے لیے تو مفید ہوسکتی ہے، ادبی طور پر اس کی اہمیت محدود ہوجاتی ہے۔“ آصف فرخی ”اردو کی عشقیہ شاعری پرایک غیر عشقیہ نظر، ارتقا، فراق نمبر جنوری2004، صفحہ209

فراق گورکھپوری نے ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا ہے کہ پائے ہوئے محبوب کو نہ پاسکنا، یا ہر طرح سے پائے ہوئے محبوب کو باوجود لذت وصل کے پوری طرح نہ پانا محبت کاوہ المیہ ہے جو خراب کرکے رکھ دیتا ہے۔ اب اگر ہم اس کی مثال پیش کرنا چاہیںکہ جمالیاتی احساس اور عشق کاجذبہ، خرابی کی صورت کس طرح بنتا ہے تو اس کے مطالعے کے لیے ہمیں فراق کی شاعری نہیں بلکہ ان کی سوانح کو ہی پڑھ لینا کافی ہے ۔فراق نے دعوی کیا ہے کہ معشوق کی سپردگی اور بیگانگی، تغافل اور توجہ، ہجرو وصل اور جوروکرم ، کسی بھی حالت میںکوئی عاشق خوش ہوسکا ہے۔ عشق کی حالتوں کے لیے کوئی تھرماس زمان و مکاں میں نہیں۔ اس حوالے سے شعر پیش کرتے ہیں۔

 ایک وصل و ہجر کیا کسی حالت میںکل نہیں

ہیں تیر ولولے دل ناداں عجیب سے

(نیرنگ)

پھر اپنا شعر پیش کرتے ہیں

نگاہ ناز تیرے چھیڑنے کی اور بات ہے

ملول بھی کہاں ہوں میں اگرچہ شادماں نہیں

اس کے بعد لکھتے ہیں کہ کیا عشقیہ شاعری عشق کے کامیاب لمحوں کی ترجمانی تک محدود رہے یا یہ بھی بتائے کہ ”آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔’’

فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری میں جنس کے مسئلہ پر ضمنی طور پربحث کی ہے۔ ان کا اصلی موضوع عشقیہ شاعری ہے ، انہوں نے زیادہ تر بحث غزل کے حوالے سے کی ہے اور قلی قطب شاہ سے لے کر دور جدید تک کی شاعری کا اجمالی جائزہ بھی لیا ہے۔ غزل میں مذکرافعال لانے کی وجوہات پر بحث کرنے کے بعد فعل مذکر لانے ہی کو غزل کے حق میں نیک فال بتایا ہے کیونکہ ان کے خیال میں غزل کہتے وقت شاعر عاشق محض ہوتا ہے کسی مخصوص محبوب کا عاشق نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ غزل کہتے وقت شاعر تفصیلات کا رپورٹر نہیں ہوتا بلکہ حسن و عشق کی داخلی قدروں کاپارکھی ہوتا ہے۔ اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں:

‘‘اردو دیسی زبان ہے اور پچھمی ہندی بولی کے مطابق اردو میں مذکر اور مونث کے لیے الگ الگ فعل آتے ہیں ۔ لیکن یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ مذکر فعل صرف اس لیے نہیں لائے جاتے کہ ان کی مدد سے معشوقوں کی ڈاکٹری کی جائے اور اس کے عورت یا مرد ہونے کی تشخیص کی جائے بلکہ بلا لحاظ جنسیت پیکر انسانی کے حسن و جمال کا ذکر مقصود ہوگا تو بھی کوئی حسین ہو یا حسینہ فعل مذکر ہی لایا جائے گا۔’’ فراق گورکھپوری، اردو کی عشقیہ شاعری، صفحہ 47-48

فراق نے غزل کے علاوہ اردو نظم میں بھی عشقیہ شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ دکن کے شعر ا کی منظوم عشقیہ داستان، میر کی متعد د مثنویاں اور خواجہ میر اثر کی مثنوی ”خواب و خیال“ کو قیامت کی عشقیہ مثنوی قرار دیا ہے۔ سودا اور نظیر اکبرآبادی کا ذکر کرتے ہوئے نظیراکبرآبادی کی متعدد رنگین اور بھر پور عشقیہ نظموں کے متعلق لکھتے ہیں کہ حو اس خمسہ کے احساسات خصوصاً لمسیاتی احساسات کی جیتی جاگتی ایسی تصویریں ان نظموں میں ہمیں ملتی ہیں جو نظیر سے پہلے تک کی اردو شاعر میں نایاب ہیں۔ اس طرح مومن نے معشوق کاجومرثیہ کہا ہے اسے عشقیہ نظم گوئی کی تاریخ میں ایک اضافہ قرار دیا ہے۔ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان اور نسیم کی مثنوی گلزارنسیم کو بھی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ میر حسن کے انداز بیان، انتخاب الفاظ اور فقروں کی ساخت سے متعلق واقفیت اور براہ راستگی کی بنا پر دیگر مثنوی نگاروں سے ممتاز اور بر تر مانتے ہیں۔ واقعات، مناظر، وقت ، سما ںاور افراد کے خد و خال کی مصوری، بیان کو حواسِ خمسہ تک پہنچادینے کی نازک صلاحیت کو ان کی مثنوی کا امتیاز مانتے ہیں۔

دیا شنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم میں تصنّع و تکلف اور صنائع و بدائع کو عدیم المثال معجزہ قرار دیتے ہیں۔ اس کے بیان میں سبک روی اور تکلف کے پردوں میںاصلیت کی چاشنی، افسانویت کا لطیف عنصر وغیرہ تمام مثنویوں سے امتزاج پیدا کرتی ہے ۔ نسیم اپنے فن کاہی نہیں بلکہ اپنے افسانے اور اپنے کرداروں کے جذبات کا بھی نقش ہمارے دلوں پر چھوڑ جاتے ہیں۔ مرزا شوق کی مثنوی زہر عشق کو دنیا کی مشہور عشقیہ نظموں میں شامل ہونے کے قابل مانتے ہیں۔

فراق انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کو حالی اور آزاد کی نظموں کے ساتھ جدید اردو شاعری کا جنم دن مانتے ہیں۔ عہد جدید کے دوسرے دور میں اکبرالہ آبادی، اقبال، شوق قدوائی،چکبست، سرور جہان آبادی، نادر کاکوروی، عظمت اللہ خان،مرحوم میرٹھی او راپنے والد عبرت گورکھپوری کو شمار کرتے ہیں اور ان تمام شعرا کے کلام کے محاسن بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد نوجوان شعرا مثلاً احسان دانش، مجاز وغیرہ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہیں۔ فیض احمد فیض کی نظم ”رقیب سے’’ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘اردو کی عشقیہ شاعری میں اب تک اتنی پاکیزہ اتنی چٹیلی اور اتنی دور رس او رمفکرانہ نظم وجود میں نہیںآئی۔ نظم نہیں ہے بلکہ جنت اور دوزخ کی وحدت کا راگ ہے ۔ شیکسپیئر ، گوئٹے کالی داس اور سعدی بھی اس سے زیادہ رقیب سے کیا کہتے؟ رقیب کا موضوع اردو شاعری میں بہت بد نام موضوع ہے لیکن فیض نے اسے بے پناہ طور پر موثر اور چٹیلا اور پاکیزہ بنادیا۔ عشق اور انسانیت کے لطیف ور اہم ربط کو سمجھنا ہو تو یہ نظم دیکھئے ۔ یہ ملکی مذاق کی بد نصیبی ہے کہ اس نظم کی غالباً وہ قدر شناسی نہ ہوئی جس کی وہ مستحق ہے ۔ عشقیہ نظموں کا کوئی بھی گلدستہ اس نظم کے بغیر بے جان و بے رنگ وبو رہے گا۔’’ فراق گورکھپوری، اردو کی عشقیہ شاعری، صفحہ64

عشقیہ نظموں پر بحث کرنے کے بعد فراق نے غزل کے اختصار میں جو جامعیت ہے اس میں زندگی اور کائنات اور اخلاق و نفسیات کے جو داخلی اور خارجی رموز و حقائق ہیں، انہیں اجاگر کیا ہے ۔ غزل پر بحث کرتے ہوئے وہ اردو کی عشقیہ شاعری کو ایک وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔

فراق نے روایتی طور پر غزل کے موضوع کوتین حصوں میں منقسم کیا ہے۔

(۱)معرفت و تصوف (۲) حیات و کائنات اور اخلاقیات پر انفعالی یا فلسفیانہ طور پر حکم لگانا (۳)عشق مجازی اور ان تمام اقسام میں عشقیہ لب و لہجہ کی چاشنی کو ضر وری قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد مختلف شاعروں کے اشعار پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘غزل کی عشقیہ شاعری کی غرض و غایت ایک توکھلی کھلی عشقیہ شاعری کرنا ہے دوسرے عارفانہ یا فلسفیانہ یا محض انسانی یا انفرادی حسیات اور تاثرات کو حسن اور عشق کا آئینہ مہیا کرنا ہے تاکہ اس آئینہ میںوجود اپنا نکھار دیکھ سکے۔“فراق گورکھپوری، اردو کی عشقیہ شاعری ،صفحہ77

اس کے متعلق مزید لکھتے ہیں:

‘‘زندگی اور کائنات، معرفت اور تصوف یا روحانیت او ر جنسی یا مجازی عشق غزل کے موضوع ہےں۔ان میں سے تیسرا موضوع یعنی عشق مجازی اردو غزل میں بسا اوقات یوں ادا کیا گیا ہے کہ ایک طرف اس پر معرفت اور رومانیت کی چوٹ پڑتی ہے اور دوسری طرف فلسفہ حیات و کائنات کی سنجیدگی اور گہرائی یعنی مفکرانہ اور حکیمانہ انداز بھی اس میں آگیا ہے ۔’’  فراق گورکھپوری، اردو کی عشقیہ شاعری ،صفحہ80

فراق نے متذکرہ بالا باتوں کو ثابت کرنے کے لیے بہت سارے اشعار درج کئے ہیں جن میں یہ تینوں موضوعات مل کر ایک وحدت کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

وہیں سے عشق نے بھی شورشیں اڑائی ہیں

جہاں سے تونے لیے خندہ ہائے زیرلبی؟

اصغر

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں

ہم بھی دیکھیں کہ تجھے دیکھ کر کیا کہتے ہیں

                                                            داغ

تمہیں سچ سچ بتاﺅ کون تھا شیریں کے پیکر میں

کہ مشتِ خاک کی حسرت میں کوئی کوہ کن کیوں ہو

                        آسی غازی پوری

سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے فسانہءدرد

سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنانہ گیا

یگانہ

 فریب نفس کا جب احتمال ہوتا ہے

تو فرق عشق وہوس بھی محال ہوتا ہے

یگانہ

بقدر حوصلہ ملتی ہے دادِ عشق وہوس

مزاج حسن میں کیا اعتدال ہوتا ہے

یگانہ

وہ آئیں گے مرے گھر وعدہ کیسا دیکھنا غالب

نئے فتنوں میںاب چرخ کہن کی آزمائش ہے

غالب

کہاں ہرایک سے بارِ نشاط اٹھتا ہے

بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوںگی

فراق

فراق اردوغزل میں اس لطیف عشقیہ شاعری کا بھی ذکر کرتے ہیں جو حسن و عشق کی مابعد الطبیعات کے بجائے حسن و عشق کی نفسیات سے متعلق ہے اور اس شاعری کو مومن اور مومن اسکول کے شعرا میں پاتے ہیں۔ دونوں شاعری حسن وعشق کی فلسفیانہ شاعری ہے لیکن اول الذکر میں نتائج اورتمام خوبیاں خلاقانہ طور پر بیان ہوتے ہیں اور آخرالذکر میں عمومًا صرف لطیف اور نازک مشاہدات اور داخلی قسم کی معاملہ بندی ہوتی ہے ۔ پہلی قسم کی شاعری ماورائی ہوتی ہے دوسری داخلی یانفسیاتی معنوں میں واقعاتی۔ اس کے بعد فراق چند اشعار پیش کرتے ہیں:

جب یہ سنتے ہیں وہ ہمسایہ میں ہیں آئے ہوئے

 کیا درو بام پہ ہم پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

جرأت

پاس سے اس کے جو ہم ہوکے بتنگ آتے ہیں

اپنی ہی آپ سے کرتے ہوئے جنگ آتے ہیں

میر حسن

لیتے ہی نام آس کا سوتے سے چونک اٹھے ہو

ہے خیر میر صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

میر

نیا ہے لیجئے جب نام اس کا

بڑی وسعت ہے میری داستاں میں

حالی

 جب سے چھوڑی ہے محبت نظر آتے ہیں یہ خواب

کھینچتا ہے کوئی دامن تو گریباں کوئی

داغ

ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کرکے

تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

مومن

دل ان کے نہ آنے تک لبریز شکایت تھا

وہ آئے تو اپنی ہی تقصیر نظر آئی

فانی

فراق اس طرح کے بہت سارے اشعار پیش کرنے کے بعد حسن وعشق کے نفسیاتی مشاہدہ کو دو طرح کابتاتے ہیں ایک داخلی محاکات اور دوسرا خارجی محاکات۔ پھر اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘یہ دونوں قسم کی نفسیاتی عشقیہ شاعری یعنی داخلی اور خارجی، غزل میں کردار نگاری کی داغ بیل ڈالتی ہیں اور غزل کی شاعری کو ڈرامائی بنادیتی ہیں۔ خاص کر شوخ اور چنچل مزاج کے شعرا مثلاً انشا اور جرأت اس میدان میں بہت کھیل کھیلے۔’’ فراق گورکھپوری،اردو کی عشقیہ شاعری، صفحہ 93

فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری میں نشاط اور غم، قنوطیت اور رجائیت پر بھی بحث کی ہے ۔ وہ غم اور قنوطیت کو الگ الگ چیز بتاتے ہیں۔ میر کی آواز کو وہ تمام شعرا سے منفرد قرار دیتے ہیں۔ اردوو غزل کی عشقیہ شاعری پر فحاشی اور ہوس پرستی کے الزام لگتے رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اردو میں فحش یا ہوس پر ستانہ عشقیہ اشعار کہے جانے کے سوال کو ہی غلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سوال یہ ہونا چاہیے کہ پاکیزہ، بلندی اور شرافت سے لبریز اشعار اور غزلوں کی کافی تعداد اردو میں ہے یا نہیں۔ اردو شاعری پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتاہے کہ یہ تمام تر فارسی شاعری کی نقالی یا بگڑی ہوئی تصویر ہے ۔ اس حوالے سے بحث کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اردو کی نظموں میں مثنوی، رباعی، قصائداور کچھ اصناف کو چھوڑ کر جہاں تک مرثیہ ، مسدس اور حال کی نظموں کاتعلق ہے ان کاتو پتہ بھی فارسی شاعری میں نہیں ہے۔ غزل نے فارسی شاعری سے بہت کچھ حاصل کیا ہے پھر بھی اردو غزل کی عشقیہ شاعری میں ہزارہا اشعار فارسی غزل کی تمام خوبیوں کے حامل ہوتے ہوئے بھی نئے احساسات کے حامل اور انفرادی خصوصیات رکھتے ہیں۔ اردو شعراکی تعریف کرتے ہوئے فراق لکھتے ہیں:

‘‘میر، غالب، مومن ،آتش، جرأت ،داغ، امیر کے بہترین اشعار محض فارسی شاعری کے بگڑے ہوئے نقش کہہ کر نہیں ٹالے جاسکتے۔ میر کے دل و دماغ کاآدمی اور شاعر تو عرب یا ایران نے پیدا ہی نہیں کیا۔ اورنہ آتش کی اکڑ اور بانکپن فقر اور مستی کسی ایران کے شاعر میں ملتی ہے نہ جرأت کی بات کہیں ہے اور نہ داغ کی۔’’ فراق گورکھپوری، اردو کی عشقیہ شاعری، صفحہ 107

اردوکی عشقیہ شاعری پر فرسودگی کابھی اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔ اس اعتراض پر بھی فراق نے مدلل بحث کی ہے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر:

ہزار وں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

 بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

پیش کرنے کے بعد سوال کرتے ہیں کہ اسے آپ محض نرگس، بے نوری اور چمن کے الفاظ آجانے سے فرسودہ بتائیں گے ۔ معنی اور طرز بیان کی ہزاروں مثالیں اردو کی عشقیہ شاعری پیش کرتی ہے۔ لہٰذا فرسودگی کااعتراض بے معنی ہے ۔ اس طرح وہ اس سوال کو ایک سرے سے خارج کردیتے ہیں۔

فراق اردو زبان کو ہندو اور مسلمان کی مشترکہ زبان مانتے ہیں۔ انہو ں نے اس کتاب میں اردو زبان کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ان کے عہد میں اردو ہندی جھگڑا اپنے عروج پر تھا۔ فراق اردو زبان کی حمایت میں مسلسل لکھتے رہے ہیں۔البتہ وہ ہندی اور اردو کوقریب لانے کے سلسلے میں ہندی اور سنکسرت الفاظ کو بھی اردومیں استعمال کرنے کے حامی رہے ہیں۔ان کے مطابق سنسکرت الفاظ میں ایک مخصوص زندگی ہے اور ہندوستانی روح ان الفاظ میں جاری و ساری ہے۔ انہو ں نے اسی نقطۂ نظر کی وجہ سے خود اپنی شاعری میں ان دونوں زبانوں کے ارتباط کی شعوری کو ششیں کی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اردو ہندو مسلمان کی مشترکہ زبان ہی نہ رہے گی بلکہ ہندو کلچر اور مسلم کلچر کا ایک سنگم بن جائے گی۔

فراق نے اردو کی عشقیہ شاعری کے متعلق ایک سوال یہ بھی قائم کیا ہے کہ اس میں عوام کی زندگی، عوام کے دلوں کی دھڑکن اور عوام کی آواز یا ان کالب ولہجہ کہاں تک ہے؟ ان کاالزام ہے کہ اردو زبان محض ایک طبقہ کی چیز ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ جانے ان جانے میں اردو رسم الخط جو ابھی کہیں کہیں نظر بھی آجاتا ہے اسے ختم کرنے کی سعی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اردو کی نشرو اشاعت کے لیے ایک نایاب طریقہ بتاتے ہیں کہ اردونثرو نظم کو دیو ناگری حروف میں بھی چھاپ دیا جائے اورکچھ مشکل ٹکڑوں کی شرح دے دی جائے تو گاﺅں گاﺅں اور گھر گھر میں اردو پھیل جائے گی اور اردو ادب سے لطف اور فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔ اردو کو ہندوﺅں تک پہنچانے کا اسے واحد ذریعہ بتاتے ہیں۔ اس طریقہ کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ بتاتے جس سے بلا تفریق مذہب تمام لوگ اردو کو اس کے رسم الخط میں پڑھنے کی طرف راغب ہوتے تو یہ اردو کی ترقی کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوتا۔

اردو کی عشقیہ شاعری، اردو غزل، اردو نظم، اردو زبان اور عشقیہ تفہیم کے لیے نئے گوشے سامنے لاتی ہے۔ اس میں تاثراتی اظہار بھی ہے اور مدلل طریقہ سے اعتراضات کو ردکرنے کا رویہ بھی موجود ہے۔ اس کتاب کے موضوعات اور خیالات کو مختلف لوگوں نے بحث کا موضوع بنایا ۔ محمد حسن عسکری نے تو اس کتاب کے پڑھنے کو ”ایک امتحان“ کہا ہے اور مزید لکھا ہے:

‘‘صرف سخن فہمی کاہی نہیں بلکہ آدمیت کا بھی اور آدمی کے ذہنی کلچر کابھی۔ یہ کتاب….صرف شعر سمجھنا اور شاعری کو شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بنانا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر عشق کرنا، جینا سکھاتی ہے اپنے عشق اور اپنے جینے کو بامعنی اور اہم بنانا،بڑا بناناسکھاتی ہے۔“محمد حسن عسکری، ”جھلکیاں“ حصہ اول، مکتبہ الروایت لاہور س ن، صفحہ199

اس کے برعکس کلیم الدین احمد ” اردو کی عشقیہ شاعری“ کی زبان کے متعلق ناپسندیدگی کااظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تنقید کی زبان سیدھی، صاف متعین اور سائنٹفک ہونی چاہیے۔ او پردیے گئے حسن عسکری کے اقتباسات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہ خود اس قسم کی ”تنقید“ اور سائنٹفک زبان لکھتے ہیں:

‘‘فراق شاعر تھے، نقاد تھے اب وہ ایک نئے روپ میں نظر آتے ہیں۔ عشق کرنا سکھاتے ہیں شاید وہ دلال ہیں اگر آپ کو عشق کرنا نہیں آتا تو آپ ”اردو کی عشقیہ شاعری“ سے عشق کرنا نہیں سیکھ سکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد حسن عسکری اس کتاب کو کوک شاسترقسم کی چیز سمجھتے ہیں شاید فراق کو خیال بھی نہ ہوگا کہ ان کے شاگرد ان کی تنقید کو کوک شاستر سمجھیں گے۔’’ کلیم الدین احمد، اردو تنقید پر ایک نظر، ادارہ فروغ اردو لکھنو1957، صفحہ 365-366

کلیم الدین احمد کی مغرب زدگی انھیں مشرقی علوم کی تفہیم سے دور ہی رکھتی ہے وہ اعتراض کرنے کے جوش میں سطحیت پر آجاتے ہیں وہ محمد حسن عسکری کے اس جملے کی تہہ تک نہیں پہونچ سکے کہ یہ کتاب ’عشق کرنا ‘ جینا سکھاتی ہے، اپنے عشق اور جینے کو بامعنی اور اہم بنانا ، بڑا بنانا سکھاتی ہے۔

آصف فرخی نے اپنے ایک مضمون ‘‘اردو کی عشقیہ شاعری پر ایک غیر عشقیہ نظر’’ میں فراق کی اس کتاب پر بہت سے اعتراضات کیے ہیں۔ سب سے پہلے محمد حسن عسکری کے ذریعے اس کتاب پر کی گئی تنقید کو نشانہ بنایا ہے، اس کے بعد وہ عشق کے مختلف مراحل کی وضاحت اور عشق کی منزلوں کی تعریف میں بار بار فراق کے ذریعے اپنے ہی اشعار پیش کیے جانے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس کتاب کا خمیر ان کے شعری فکروفن سے اٹھا ہے اور اسی پر مرتکز بھی رہتا ہے۔ اس کتاب کے اسلوب اور انداز بیان کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘اس کتاب کا انداز بیان جہاں اس کی بڑی کامیابی ہے (غالباً سب سے بڑی کامیابی) وہیں وہ اس کی شکست کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ کوئی نکتہ سامنے آتا ہے او رخیال ہوتا ہے کہ اب اس کا پھیلاﺅ یا ارتقا(Development)ہوگا اور بات کسی نئے امکان کی طرف جائے گی مگر وہ نکتہ نموپانے کے بجائے دائیںبائیں ہوجاتا ہے اورتان مصنف کے اشعار کی گرد ان پر آکر ٹوٹتی ہے۔“ آصف فرخی، اردوکی عشقیہ شاعری پرایک غیر عشقیہ نظر، ارتقا ،فراق نمبر جنوری 2004،صفحہ221

‘‘ارو کی عشقیہ شاعری“ پر مختلف اعتراض کرنے کے باوجود بھی آصف فرخی اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے جیسا کہ شروع میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ یہ کتاب پہلے ایک مقالے کی شکل میں تحریر کی گئی تھی جو ”مدینہ“ اخبار کے جوبلی نمبر میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد کچھ اضافوں کے ساتھ کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ اس وجہ سے اس کتاب میں کئی مقامات پر فراق اپنی بات مربوط طریقے سے کہنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ وہ ایک موضوع پر بحث کرتے کرتے اسے ادھورا چھوڑکر دوسرے موضوع کو چھیڑ دیتے ہیں۔ جس سے بعض موضوعات بالکل ہی تشنہ رہ جاتے ہیں۔ اس کے متعلق محمد عظیم لکھتے ہیں:

‘‘ایک بات کہتے ہوئے جب انہیں دوسری بات سو جھ جاتی ہے تو وہ پچھلی بات کو ادھورا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح خیالات کی رو میں بہتے بہتے جب پہلی بات ےادآجاتی ہے تو پھر وہی تذکرہ چھیڑ دیتے ہیں۔ ان کے اس طرح بہکنے میں اشعار کو خاص دخل ہوتا ہے۔‘‘  محمدعظیم ،اردو کی عشقیہ شاعری پر ایک نظر ”مطبوعہ نگار“ اکتوبر 1946، صفحہ41

اس کتاب کی ایک کمی یہ ہے کہ فراق کسی بھی موضوع پر بحث کرتے ہوئے ایک دلیل کی تکمیل اور اس کے پھیلاﺅ یا وضاحت کی سیدھی لکیر پر کار بند نہیں رہتے۔ ان کابیان مکمل نہیں ہوتا ہے اور وہ کسی اور طرف نکل جاتے ہیں ۔ دوسری کمی موضوع کی تکرار ہے۔ چند موضوع ایسے ہیں جو بار بار سامنے آتے ہیں پھر بھی تشنہ رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان موضوعات پر ایک ہی مقام پر مکمل اور جامع بحث نہیں کی گئی ہے۔ ان سب کے باوجود اس کتاب کی افادیت و اہمیت مسلم ہے۔ فراق گورکھپوری کا خوبصورت اسلوب نگارش ان تمام عیوب کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک تخلیقی نوعیت کی کتاب ہے۔ اردوکی عشقیہ شاعری ادبی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

مراجع ومصادر

افغان اللہ، فراق کی شاعری، نصرت پبلیکیشنز، لکھنؤ1988

فراق گورکھپوری۔ اندازے ، ادارہ انیس اردو ،الہ آباد 1959

فراق گورکھپوری، اردو غزل گوئی، ادارہ فروغ اردو لاہور1955

فراق گورکھپوری اردو کی عشقیہ شاعری، مکتبہ عزم عمل کراچی بار اول1966

فراق گورکھپوری ،حاشیے، سنگم پبلشنگ ہاوس الہ آباد۔ س ن

فراق گورکھپوری ، من آنم ،طابع ،شیروانی آرٹ پر نٹرز ،دہلی، سن اشاعت1997