Main Menu

مسزعبدالقادر

ڈاکٹر نورالصباح

یہ اس وقت کا ذکر ہے جب عورتیں ڈری سہمی گھروں کی چہاردیواری کے اندر قید تھیں ، زباں بندی ان کا مقدر تھی  اور غلامی ان کی زندگی کا حصہ۔ وہ اتنی دبی کچلی تھیں کہ انھیں اپنی قسمت پر رونے کا حق بھی نہیں تھا اور نہ کسی  محرومی کے شکوہ کی اجازت۔شادی بیاہ  کے معاملے میں بھیڑ بکریوں جیسا برتاؤ رکھا جاتا تھا تعلیم سے انھیں دور رکھا جاتا تھا ۔ رفتہ رفتہ زمانے نے کروٹ بدلی ۔ رائٹروں نے ان کے حق میں آواز اٹھائی۔  ان آوازوں کے ساتھ عورتوں کی آوازیں  بھی شامل ہونی شروع ہوگئیں۔ ان عورتوں میں ایک مضبوط آواز مسز عبدالقادر کی تھی۔

 سیاحت سے دلچسپی اور خوفناک واقعات سے وابستگی:

مسز عبدالقادر کوسیروتفریح  سے بہت دلچسپی تھی  ۔پرانی عمارتوں اور کھنڈرات  کی سیر میں وہ زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں۔ ایسے ہی خوفناک مقامات ان کی افسانہ نگاری کی شروعات کی وجہ بنے۔ جس میں خوفناک واقعات بیان کیے جاتے۔ دہشتناک حادثوں کے ذریعہ خوف طاری کیا جاتا۔ عورت تو عورت مرد بھی ان کی کہانیوں کے زیر اثر خوف میں مبتلا ہوجاتے۔ان کے افسانوں کے واقعات حقیقت سے دور  قتل کی واردات سے بھرے ہوئے ہیں، اس میں موت، قتل اور دل دہلا دینے والے واقعات موجود ہیں۔ اس بارے میں شوکت تھانوی لکھتے ہیں:

” پہلا افسانہ ہے “راکھشش”   میں نے غلطی کی اس کو رات کو نہ پڑھنا چاہیے۔ اچھی خاصی ہیبت ناک کہانی ہے۔ اس افسانے کے اثرات دور کرنے کے لیے دوسرا افسانہ ” معلم کا راز” پڑھا۔ جس سے میری روح فنا ہوگئی۔ اس کے بعد “لاشوں کا شہر”پڑھا۔ الامان والحفیظ جسم کے تمام رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک قبرستان کے تمام مردے چاروں طرف سے دانت نکال نکال کر کھڑے ہوئے ہیں”

پہلی دہشتناک افسانہ نگار:

اردو میں اس طرح کی خواتین میں مسز عبدالقادر کے علاوہ حجاب امتیاز علی تھیں جنھوں نے ان کے طرز پر افسانے لکھے لیکن مسز عبدالقادر پہلی  ایسی خاتون افسانہ نگار تھیں جن کے افسانوں میں ڈر اور خوف اس قدر تھا کہ کوئی مرد افسانہ نگار بھی اس سے جڑ نہیں سکا۔مسز عبدالقادر کے افسانوں میں کھنڈرات و قبرستان کے  ایسےبھیانک مناظر ہیں کہ مردوں کی ایسے افسانے لکھنے کی ہمت بھی نہ ہوسکی۔ حالانکہ وہ ایسے حالات میں پیدا ہوئی تھیں اور ایسے دقیانوسی ماحول میں اپنی افسانہ نگاری کی شروعات کی تھی جب عورتوں کے لیے اپنی آواز تو کیا اپنا نام بھی ظاہر کرنے کی اجازت نہ تھی۔ پھر بھی انھوں نے نام تو ظاہر نہ کیا مگر آج تک کوئی ادیب ایسا نہیں ہے جو ان کے طرز پر بھیانک کہانیاں لکھ سکے۔

کھنڈرات کی خوفناکی اور لڑکیوں کی تعلیمی فکر:

اگرچہ مسزعبدالقادر کی افسانہ نگاری 1916 میں یڈگر ایلن پو کے زیر اثر شروع ہوئی، لیکن ان کے اندر شروع سے ہی جادوئی اثرات پائے جاتے تھے۔ ان کا پہلا افسانہ”لاشوں کا شہر” 1920 میں منظر عام پر آیا۔ ان کے افسانوں میں تجسس اور حد سے بڑھی ہوئی پراسراریت ہے ،جو انسانوں کو دہلادیتی ہے۔ان کے افسانوں کے نسوانی کردار “چیل” بن کر اڑجاتے ہیں اور قاری کو خوف میں مبتلا کردیتے ہیں۔انھوں نے کبھی کسی کہانی کے لیے پلاٹ نہیں سوچا بلکہ کہانیوں کے لیے وہ اکثر کسی ویران اور سنسان کھنڈرات میں چلی جاتی تھیں جس کے ماحول سے کہانی کا پلاٹ خود بخود بن جاتا تھا جو قاری کو رومانیت کے ساتھ ساتھ دہشت میں بھی مبتلا کردیتا تھا۔ان کی کہانیوں میں دہشت کے آثار اس قدر ہیں کہ پڑھنے والا کچھ گھنٹوں تک خوف میں مبتلا ہونے کے بعد اس خوف کو مٹانے کے لیے دوسری کہانیاں پڑھنی شروع کردیتا ہے۔ان کی تخیلی پرواز بہت اعلی ہے۔ ان کے افسانوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تخیلی بنیاد ضعیف الاعتقادی، جن ،بھوت،،پریت، اعصابی امراض، عشق ومحبت، عورت کی مظلومیت مرد کی بربریت پر مبنی ہیں۔ حالانکہ مسز عبدالقادر نے عورتوں کی تعلیم وتربیت، ان کے اصلاحی پہلو کے لیےسماجی انجمنوں کی بنیاد بھی ڈالی ۔اس کے برعکس اپنی افسانوی دنیا میں ہیبت ناکی کو اس طرح پیش کرتی ہیں کہ رات کی تاریکی میں دیواروں پر عجیب عجیب ہیولے نظر آئیں اور عالم غنودگی میں ڈراؤنے خواب نظر آئیں۔

یہ سائیکلوجیکل کیفیات   اور ڈراؤنی قسم کی حادثاتی فطرت انھیں اوروں سے  الگ کرتی ہے، ایسی  جادوئی کیفیت شروع سے ہی ان کے اوپر چھائی ہوئی تھی ۔شادی کے بعد پندرہ سالوں تک وہ ایسی بھیانک کیفیت سے باہر رہیں ۔

شہرت کی بجائے کام سے دلچسپی:

       مسز عبدالقادر    جیسا جانباز اور دلیروجود 1898 میں جہلم میں آیا اور 1916 میں ایک ستون کی صورت میں نمودار ہوا۔ان کا اصل نام غلام زینب خاتون تھا، ان کے والد کا نام مولوی فقیر محمد تھااور شوہر کا نام عبدالقادر تھا ،جو ان کا قلمی نام بھی بنا۔حالانکہ انھوں نے کبھی کبھی والدہ سراج الدین ظفر کے نام سے بھی افسانہ نگاری کی، مگر ادبی دنیا انھیں مسز عبدالقادر کے نام سے ہی جانتی ہے ۔اپنے نام کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ اس وقت خواتین کی پردہ داری  بھی تھی ،مگرانھیں اپنا نام ظاہر کرنے کی خواہش بھی نہیں تھی۔انھیں شہرت سے نہیں بلکہ اپنی تخلیقات اور سماجی کاموں سے دلچپسی تھی۔

مسز عبدالقادر کی آزاد خیالی:

 مسز عبدالقادر ایک مذہبی ماحول میں پیدا ہوئی تھیں، لیکن آزادخیال اور کھلے ذہن کی مالک تھیں۔  انھوں نے لڑکیوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور ان کی تعلیم کے لیے راستے ہموار کیے۔وہ چاہتی تھیں کہ لڑکیاں  آزادی سے اپنا کام کریں۔ اپنے حق کو سمجھیں، اس کے لیے آواز اٹھائیں۔اپنے  لیے فیصلہ لینے کی ہمت رکھیں۔من پسند کی شادی کو اولیت دیں۔ ان کے اندر بیداری کی روح پھونکنے   کے لیے انھوں نے سماجی انجمنوں کی بنیاد رکھی۔

جب مسز عبدالقادر نے ہیبت ناک افسانوں کی بنا ڈالی اس وقت  وکٹورین عہد کے ہیجان انگیز ناول نگاروں کی تصانیف مسٹریز آف لندن اور”کورٹ آف لندن”جیسی تخلیقات ترجمہ ہوکراردو ادب میں شامل ہوئیں تواردو ادیبوں نے بھی اسی روش کو اپنایا اورطبع زاد کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں ۔اگتھا کرسٹی کی جادوئی کہانیاں مسز عبدالقادر کی کہانیوں کے بعد وجود میں آئیں۔مسز عبدالقادر کی کہانیاں  1930 میں شائع ہوکر زندہ جاوید بن گئیں تھیں۔

       مسز عبدالقادر نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری بھی کی جن میں ان کی ہیبت ناکی طرز ادا کے برعکس رومان پروری پائی جاتی ہے اورمذہبی روایات کو ذریعہ اظہار بنایاگیا ہے۔ان کے کردار ،ان کا اسلوب  سبھی جادوئی ہیں اور کسی دوسری دنیا کی مخلوق لگتے ہیں۔ ان پر مافوق الفطرت  عناصر چھائے ہوئے ہیں، اور داستانوی طرز ادا پایا جاتا ہے۔ان کے واقعات فطرت سے جدا  اور حقیقت سے دور ہیں۔ ان کے سبھی افسانوں میں قتل کی واردات ، موت  کے واقعات اور دل کو دہلا دینے والی باتیں ملتی ہیں۔

اسلامی عقیدے کے ساتھ دیگر مذاہب میں دلچسپی اور آواگون پر یقین:

انھوں نے اسلامی عقیدے اور مذہبی واقعات سے بھی اپنے افسانوں میں مدد لی ہے ۔انھوں نے اپنے  افسانہ “راہبہ”  میں دوبارہ جنم لینے اور ہندوانہ مذاہب میں جگہ پاگئی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کرنے کی کوشش کی ہے ،کیوں کہ توہمات کی بے شمار بدعات ان کے یہاں جڑ پکڑ کر بیٹھ چکی ہیں  اس ترقی یافتہ زمانے میں بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جو لوگ چیچک نکلنے کے بعد بہت سی رسمیں “ماتا” کے نام پر کرتے ہیں اسی کے ساتھ انھوں نے  آواگون کو بھی بیان کیا ہے۔ حالانکہ وہ مذہبی ماحول میں پیدا ہوئی تھیں لیکن ان کے سیاحتی شوق نے انھیں  قرآن،زبور، انجیل  اورتوریت جیسی آسمانی کتابوں کے مطالعہ کو فائدہ پہنچایا جس کی وجہ سےان کا کٹر ماحول بھی ان کی روشن خیالی پر پابندی نہیں لگا سکا اور آواگون پر ان کو یقین ہوگیا وہ خود بیان کرتیں:

“جب میرے شوہر کاا نتقال  ہوا تو مجھے پرانی سوچیں پھر آنے لگیں پھر میں نے سیاحت شروع کی۔تقریبا تمام دنیا دیکھی تمام یوروپی ممالک کی سیاحت کی اور تمام اسلامی ممالک بھی۔ہندوانی چیزیں بہت دیکھیں۔ان چیزوں کو دیکھ کر مجھے سکون ملتا۔سیاحت کے دوران میں نے انجیل، تورات، زبور اور قرآن مجید کا تفصیلا مطالعہ کیا۔اس تمام مطالعہ کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میرا فلسفہ آواگون پر یقین ہوگیا اور مجھے یہ خیال آنے لگے کہ ،میرا دوسرا جنم ہے”

ایک جگہ وہ اپنا ایک ڈراؤنا مگر دلچسپ خواب بیان کرتی ہیں جو پاکستانی رائٹر مرزا حامد بیگ کی کتاب اردو افسانے کی روایت میں ملتا ہے:

” مجھے ایک خواب آیا کہ میں ایک سونے کے بنے ہوئے شہر میں پہنچ گئی ہوں۔ جہاں کی ہر چیز سونے کی بنی ہوئی ہے۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے تو کسی نے مجھ سے کہا کہ یہ اگلا جہان ہے تو میں نے کہا کہ یہ کون سا اگلا جہان ہے جو اتنا سنسان ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں ایک مکان میں داخل ہوتی ہوں۔ یہ مکان بھی سونے کا بنا ہوا ہے اور اندر صوفے سجے ہوئے ہیں۔ کمرے کے ایک طرف رجسٹر لگے ہوئے ہیں۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہ نوشتے ( دستاویز) ہیں جو دنیا میں کوئی شخص کام کرتا ہے  اس کے اعمال ان میں لکھے جاتے ہیں  اور مجھے کہنے لگے کہ پڑھ لو  لیکن میں نے ان نوشتوں کو پڑھنے سے انکار کردیا اور کمرے سے باہر آگئی تو میں نے دیکھا کہ صحن میں دو چوکیاں بچھی ہوئی ہیں۔ میں اس پر بیٹھ گئی۔ ایک عورت جس کی چاند سی پیشانی تھی سفید لباس میں جس پر چاند ستارے بنے ہوئے تھے، میں نے آتے ہوئے دیکھی۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو میں نے دیکھا کہ وہ میری سہیلی کی بیٹی تھی  جو مرگئی ہوئی تھی تو وہ لڑکی کہنے لگی  میں یہاں اکیلی رہتی ہوں لیکن چند دنوں تک میرا ایک ساتھی آجائے گا۔ پھر وہ مجھے کہنے لگی کہ میرے گھر آئیے۔ اس کے کمرے میں خنکی ایسی تھی جو بدن کو چبھتی تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں تو بہت سردی ہے تو وہ سونے کی قندیلیں لے آئی جس میں ایک ایک کوئلہ دہک رہا تھا لیکن مجھے سردی محسوس ہونے لگی تو  میں نے اس سے کہا کہ میں تو واپس جارہی ہوں۔ جب میری نیند کھلی تو میں اپنےبستر پر تھی۔ مین نے فورا اپنے بیٹے سراج الدین ظفر کو اپنی سہیلی کے گھر بھیجا  تو پتا چلا کہ اس کی فوت ہوگئی ہے۔”

       ایسی ہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان کے افسانوں اور ناولوں کے پلاٹ ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ان کے ناول “تخت باغ ” ” راہبہ ہیں اور افسانے “لاشوں کا شہر” اور” صدائے جرس اور دیگر افسانے” ہیں۔ان کے نمائندہ افسانوں میں پاداش عمل۔ بلائے ناگہانی ، کاسہ سر، ناگ دیوتا اور وادی قاف ہیں۔ ان کے افسانے نہ صرف موضوعاتی سطح پر انفرادیت کے حامل ہیں بلکہ اسلوب کے اعتبار سے بھی الگ مقام رکھتے ہیں۔ان کی ہیبت ناکی اور دہشت پسندی انھیں دوسرے افسانہ نگاروں میں امتیاز عطا کرتی ہے۔آج تک مرد اور عورت کہانی کاروں میں کوئی ایسا نہیں ہوا جو ایسی بھیانک کہانیاں لکھ سکے اور اس کے علاوہ اپنی کہانیوں سے ہٹ کر لڑکیوں کے سلسلے میں positive سوچ رکھ سکے، کیوں کہ جو انسان جس میدان کا مرد مجاہد ہوتا ہے اسی طرح کی سوچ بھی رکھتا ہے۔